انسان اور زمین کی حکومت (قسط 14)

رستم علی خان

جب اللہ تبارک وتعالی نے ان سب کی زبانیں بدلیں اور ایسی بدلیں کہ ایک دوسرے کی بات سمجھ میں نہ آتی تب وہ لوگ الگ ہوئے اور اپنی اپنی قوم و قبیلوں کو لے کر زمین پر پھیل گئے اور پوری زمین آباد ہو گئی- ان میں قوم عاد ایک ایسی قوم تھی جسے اللہ تعالی نے سب سے زیادہ طاقت و قوت عطا فرمائی تھی- اور سب جگہ ان کی حکومت تھی- عاد اصل میں ایک شخص کا نام ہے جو نوح علیہ السلام کی پانچویں نسل اور ان کے بیٹے سام کی اولاد میں ہے، پھر اس شخص کی اولاد اور پوری قوم عاد کے نام سے مشہور ہوگئی۔ قرآن کریم میں عاد کے ساتھ کہیں لفظ عاد اولی اور کہیں ارم ذات العماد بھی آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم عاد کو ارم بھی کہا جاتا ہے اور عاد اولی کے مقابلہ میں کوئی عادثانیہ بھی ہے، اس کی تحقیق میں مفسرین اور مورخین کے اقوال مختلف ہیں، زیادہ مشہور یہ ہے کہ عاد کے دادا کا نام ارم ہے اس کے ایک بیٹے یعنی عوص کی اولاد میں عاد ہے یہ عاد اولی کہلاتا ہے اور دوسرے بیٹے حبشو کا بیٹا ثمود ہے یہ عاد ثانی کہلاتا ہے اس تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ عاد اور ثمود دونوں ارم کی دو شاخیں ہیں۔ ایک شاخ کو عاد اولی اور دوسری کو ثمود یا عاد ثانیہ بھی کہا جاتا ہے اور لفظ ارم عاد و ثمود دونوں کے لئے مشترک ہے۔ اور بعض روایات میں انہیں سام کے بیٹے ارفحشند کی اولاد میں سے بتایا جاتا- چونکہ قرآن میں انہیں ارم سے منسوب کیا گیا ہے تو زیادہ صحیح روایت یہی ہے کہ یہ ارم کی نسل میں سے تھے-

اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ قوم عاد پر جس وقت عذاب آیا تو ان کا ایک وفد مکہ معظمہ گیا ہوا تھا وہ عذاب سے محفوظ رہا اس کو عاد اخری کہتے ہیں۔ (بیان القرآن)

یہ قوم جہاں آباد تھی اُس مقام کو قرآن مجید میں ’’ أحْقَافْ ‘‘کہا گیا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے-

اِذْأنْذَرَ قَوْمَہٗ بِالأحْقَافِ (أحقافْ:19)

أحقاف کا علا قہ جنوبی مشرقی عرب سواحلِ خلیجِ فارس سے حدود میں اور عراق اور جنوب و مغرب میں ’’حضر موت‘ ‘تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس قوم کے عروج کا زمانہ 1700 ؁ق م سے 2300 ؁ ق م تک ہے یہ قوم نہایت طاقت ورقوم تھی اور خوب تن ومند بھی اور بہت قوی اور اسقدر خوشحال کہ اس سے قبل دنیا میں ایسی قوم نہیں گزری- ایک روایت کے مطابق انہوں نے زمین کے ایک بڑے خطے پر 1500 سال حکومت کی-

روایات میں ان کے بارے مذکور ہے کہ یہ انتہائی طاقتور قوم تھی- قوی الجثہ اور تنومند تھے- ایک ہاتھ سے درخت کو جڑ سے نکال دیتے ان پر نہ بوڑھاپا آتا اور نہ ہی بیمار ہوتے ہمیشہ کی جوانی ان کا مقدر تھی- صحت مند اور جوان رہتے اور اسی جوانی میں موت انہیں آ دبوچتی- اور وہ لوگ بڑے بڑے ستونوں والے خیموں میں رہتے تھے-

روایات میں ان کے بارے مذکور ہے کہ انہوں نے سخت اور بلند پہاڑوں کو کاٹ کر عالیشان محل رہنے کو بنائے ہوئے تھے اور اس کام میں ان کا ثانی تاریخ میں نہیں ملتا- ان کی زمینیں سرسبز و شاداب تھیں – اور باغات سے بھری ہوئی تھیں – جسمانی قوت و طاقت میں ان کا ثانی کوئی نہیں تھا- الغرض اللہ تعالی نے انہیں ہر قسم کی نعمتوں سے مالا مال کیا ہوا تھا- اور رحمت خدا وندی ان پر اپنے دہانے کھولے برستی تھی

موجودہ تورات میں اس قوم کے بارے کوئی شواہد نہیں ملتے شائد اسی وجہ سے زیادہ تر عیسائی مورخین اس یا اس جیسی قوم کی زمین پر کبھی موجود ہونے کے سرے سے انکاری ہیں – لیکن قرآن میں نہ صرف ان کا تذکرہ ہے بلکہ باقاعدہ ایک سورت سورہ ھود موجود ہے-

اللہ تبارک وتعالی نے انہیں طاقت و قوت عطا فرمائی تو شیطان نے انہیں بہکایا اور انہیں ان کی طاقت کا گھمنڈ اور غرور دلایا کہ تم سے زیادہ طاقت و قوت میں کون ہو گا- نتیجتا انہوں نے زمین میں خرابی شروع کر دی اور اپنی طاقت کا بیجاہ استمعال کرنے لگے-
یوں تو بتُ پرستی کی ابتداء ’’قومِ نوح ‘‘ کے زمانے میں شروع ہو چکی تھی، جسکی پاداش میں اُنہیں طوفانِ نوح میں غرقاب کر دیا گیا تھا۔ دُنیا کا یہ عظیم ترین طوفان‘ آنے والی نسلوں کے لیئے سامانِ عبرت تھا۔ مگر بعد کو آنے والی قوم بجائے عبرت پکڑتی‘ مزید اضافے کے ساتھ گمراہیوں میں مبتلا ہو گئی تھی۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ جو قوم برُے کام کرے وہ ہلاک ہو جائے۔ لیکن اللہ تعالی کی صفت رحمت کا فیضان ہے کہ اُنہیں باربار موقع ملتاہے کہ وہ اپنے تئیں سُدھار پیدا کر لے- خدائی قانون ہے کہ کسی قوم کو اُنکے اندر ایک رسول، جو انکو خداکے عذاب سے ڈرائے، روانہ کیئے بغیر عذاب نازل نہیں فرماتا-

ان کے دل میں بھی یہ خیال باطل پیدا ہو گیا کہ اتنی بڑی کائنات کو کوئی ایک طاقت کیسے چلا سکتی ہے- لہذا انہوں نے ہر کام کے لئیے ایک الگ بت بنا لیا- کوئی بت اولاد کے حصول کے لئیے تھا تو کوئی کھیتوں، باغات، اور کاروبار میں نفع نقصان کے لئیے تھا- بارش کے لئیے الگ خدا تھا تو دشمنوں پر فتح کے لئیے الگ؛ صحت وتندرستی کسی سے عطا ہوتی تو دولت و امارت کسی سے- اسی طرح انہوں نے بیشمار خدا بنائے جن میں سے تین بڑے یہ تھے "صمد” "صمود” اور "ہر”- اور بعض روایات میں ہے کہ قوم نوح کے پانچ بتوں کی باقیات بھی ان میں موجود تھیں اور یہ تین ان کے علاوہ تھے۔

جیسا کہ اللہ تعالی کا قانون ہے کہ ہر سرکش قوم کو سزا سے پہلے انہیں سمجھانے اور ہدایت کا راستہ دکھانے ان تک اللہ کے پیغامات پنہچانے اس کے سخت عذاب سے ڈرانے والا کوئی نبی یا رسول ان میں بھیجا جاتا- پھر قاون الہی ہے کہ نبی یا رسول اسی قوم میں سے ہوتا-
چنانچہ اللہ تعالی نے قوم عاد کی رہبری و راہنمائی کے لئیے ان کی قوم میں سے حضرت ھود علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا- ارشاد باری ہے-

ترجمہ: اور قوم عاد کی طرف ان میں سے ھود کو بھیجا، انہوں کہا اے قوم اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کو معبود نہیں کیا تم ڈرتے نہیں – (الاعراف 7 : 65)

حضرت ھود علیہ السلام کا نسب نامہ یوں ہے؛ ھود بن شالح بن ارفحشند بن سام بن نوح علیہ السلام، ایک قول کے مطابق حضرت ھود کا نام "عابر” تھا جو شالح کے بیٹے تھے اور وہ ارفحشند کے بیٹے تھے جو سام بن نوح کے بیٹے تھے-

آپ کا نسب اس طرح بھی بیان کیا جاتا ہے؛ ھود بن عبداللہ بن رباح الجارود بن عاد بن عوص بن سام بن نوح-

کہتے ہیں سب سے پہلے عربی زبان میں کلام حضرت ھود علیہ السلام نے کیا- البتہ وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ ھود علیہ السلام کے والد سب سے پہلے عربی زبان بولنے والے تھے- بعض حضرات نے حضرت نوح اور حضرت آدم علیہم السلام کا نام لیا ہے- اور کچھ اور قول بھی ہیں – واللہ اعلم الصواب

حضرت اسماعیل علیہ السلام سے پہلے کے عرب کے باشندے "عرب عاربہ” خالص عرب کہلاتے ہیں – ان میں بہت سے قبائل شامل ہیں – مثلا: عاد، ثمود، جرھم، طسم، جدیس، امیم، مدہن، عملاق، جاسم، قحطان اور بنو یقطن وغیرہ-
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولا "عرب مستعربہ” کہلاتی ہے- فصیح و بلیغ عربی زبان میں سب سے پہلے حضرت اسماعیل نے کلام فرمایا-

الغرض اللہ تبارک وتعالی نے حضرت ھود علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا، انہوں نے قوم عاد کو اللہ کی طرف بلایا اور راہ حق کی دعوت دی- تو قوم عاد جو اپنی قوت و طاقت پر مغرور تھی نے کہا کہ تم ہمیں احمق معلوم ہوتے ہو- تم کہتے ہو کہ اتنی بڑی کائنات کو چلانے والا صرف ایک اللہ وحد ھو لاشریک ہے- ہمیں تمہاری باتیں جھوٹ لگتی ہیں –

حضرت ھود علیہ السلام نے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا کہ مجھ میں کوئی حماقت نہیں ہے بلکہ احمق تو تم ہو جو اس بات پر غور نہیں کرتے کہ جس اللہ نے تمہیں اس قدر قوت و طاقت عطا کی ہے وہ خود اپنی ذات میں کس قدر طاقتوں کا مالک ہو گا- میں تو اس کی طرف سے بھیجا گیا ایک پیغمبر ہوں اور میں خود اس کے آگے اختیار نہیں رکھتا میں تو تمہیں بس وہی بتاتا ہوں جو مجھے وحی کی جاتی ہے- میں تو بس اس کا پیغام پنہچانے آیا ہوں – یعنی میں خود سے کوئی من گھڑت قصہ تمہیں نہیں سنا رہا بلکہ وہی بتا رہا ہوں جو مجھے حکم ہوتا ہے-

انہوں نے کہا ھود ہم کیسے مان لیں کہ تم نبی ہو جبکہ تم بھی وہی کھاتے ہو جو ہم کھاتے ہیں اور وہی پانی پیتے ہو جو ہم پیتے ہیں جب ہمارے تمہارے بیچ کسی چیز کا فرق نہیں ہے تو پھر تم پیغمبر کیسے ہو گئے-

اور پھر تم یہ نہیں دیکھتے کہ ہم طاقت میں کس قدر ہیں کہ ہم میں سے ایک ایک آدمی ساٹھ ہاتھ ہے- ہمارے سامنے یہ درخت کچھ بھی نہیں ہیں کہ انہیں ایک ہاتھ سے اکھاڑ کر باہر پھینک دیں – اگر پتھر پر پاوں ماریں تو گھٹنوں تک اس کے اندر دھنس جائیں – پھر ہمارے مکانوں کو تو دیکھو کس قدر عالیشان اور مضبوط ہیں (کہ پہاڑوں کو کاٹ کر بنائے گئے ہیں ) اس پر ہمارے پاس مضبوط قسم کے ہتھیار ہیں – اور ہمارے خدا ہم پر مہربان ہیں کہ ہماری کھیتیاں خوشحال ہیں – ہمارے باغات سرسبز و شاداب ہیں – ہمارے پاس ہر چیز کی فراوانی ہے صحت و تندرستی ہمارے پاس ہے بیماری ہم سے دور ہے بڑھاپے کی تکلیف سے ہم پاک ہیں ہمیشہ کی جوانی اور تندرستی ہمارا مقدر ہے- ایسے میں کونسی طاقت ہے جو ہم سے ٹکر لے گی اور ہمیں زیر کرے گی- اے ھود تم احمق ہو جو ہمیں ڈراتے ہو جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مقابلے کی طاقت کسی میں نہیں ہے-

حضرت ھود علیہ السلام نے فرمایا اگر تم اللہ کی عبادت کرو کہ جس نے تمہیں یہ سب عطا کیا ہے تو وہ تم پر اور بھی احسان فرمائے گا اور تمہیں مزید کثرت سے نوازے گا- اور اگر تم نہ سمجھے تو تم پر اللہ کا عذاب نازل ہو گا اور بیشک وہ بہت برا ہو گا-
انہوں نے کہا اے ھود تو ہمیں کس سے ڈراتا ہے وہ جو نظر ہی نہیں آتا کہاں ہے تیرا خدا ہمیں بھی دکھاو تاکہ ہم بھی دیکھیں کہ وہ کس قدر طاقتور ہے اور کیسے ہمارا مقابلہ کر سکتا ہے- اور کہا کہ ہمیں تو لگتا ہے تمہارا دماغ ساتھ نہیں دے رہا تم پر ہمارے خداوں کا عتاب نازل ہو گا-

حضرت ھود علیہ السلام نے فرمایا میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور نہ مجھے تمہارے ان جھوٹے خداوں کا ڈر ہے اور میں بیزار ہوں ان سے جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو- میرے لئیے تو بس میرا اللہ ہی کافی ہے۔

چونکہ وہ قوم دنیاوی رنگینیوں میں اسقدر مگن ہو گئی تھی کہ وہ اپنے تئیں جو سوچ وفکر میں مبتلا ہو کر اسکو اسقدر اچھا محسوس کرتی تھی کہ گویا وہی حق ہے اسکے سوا سب کچھ بیکار ہے۔ کیونکہ شیطان نے ان کے ان کرتوتوں کو انکے سامنے آراستہ کر کے (خداکی ) راہ سے روک رکھا تھا اور وہ لوگ اسی کو بہتر سمجھا کر تے تھے-

لیکن قوم نے نہایت سرکشی پر اُترتے ہوئے اسقدر تلخ جواب دیا کہ زمین وآسمان دہل گئے اور قہر الہی کو دعوت دینے والا اُنکا جواب صاف ألفاظ میں یہ تھا کہ ’’تمہارا ہم کو نصیحت کرنا نہ کرنا دونوں برابر ہے (تمہاری یہ سب باتیں ) پہلے والوں کی گھڑی ہو ئی باتیں ہیں ہم کو کوئی عذاب نہیں دیا جائیگا- اور نہ ہی ہم تمہاری من گھڑت باتوں میں آ کر اپنے خداوں کو چھوڑبے والے ہی ہیں –
اس پر حضرت ھود علیہ السلام نے کہا کہ ٹھیک ہے میں اپنا سمجھانے والا فرض پورا کر چکا اور جس کا مجھے حکم تھا اب تمہارا معاملہ رب کے پاس ہے اور وہی جانے تمہارے ساتھ کیا ہو گا-

انہوں نے کہا اے ھود باتیں نہ بناو اور جس عذاب کے ہم سے وعدے کرتے رہے ہو سامنے لاو ہم بھی دیکھیں ہمیں کون اکھاڑ سکتا ہے-

تب حضرت ھود نے جواب دیا کہ اب طے ہو گیا کہ تم پر عذاب الہی نازل ہو- روایات میں بیان ہوا ہے کہ ہر قوم پر تب تک عذاب نازل نہیں ہوا جب تک ان میں بھیجے گئے پیغمبر نے ہاتھ نہیں اٹھا دئیے- تب اللہ تعالی نے قوم عاد پر بارش کو روک دیا اور قحط نازل فرمایا- ان کی زمینیں بنجر ہوئیں باغات اجڑ گئے املاک تباہ ہو گئیں – روایات میں تذکرہ ہے کہ قحط کی مدت جب سات سال ہوئی تو وہ لوگ حضرت ھود کے پاس آئے جو اس سارے وقت میں قوم کو سمجھانے کا فریضہ بااحسن سرانجام دیتے رہے- اور جب وہ اپنے خداوں سے مایوس ہو گئے تو حضرت ھود سے دعا کی اپیل کی-  نبی اللہ نے جوابا کہا کہ تم لوگ ابھی بھی اللہ سے ڈر جاو تو وہ تم پر اپنی رحمت (بارش) کے دہانے کھول دے گا-

قوم عاد نے کہا کہ پہلے بارش ہو تب ہم مانیں کہ تم اور تمہارا رب سچے ہو اور وہ ہر گز ماننے والے نہ تھے بس مکر کر رہے تھے اور اللہ ان کے مکر کو خوب جانتا تھا-

تب حضرت ھود نے فرمایا کہ یہ بستی گناہگاروں سے بھری ہے ہمیں کہیں اور جا کہ دعا کرنی ہو گی- اور کچھ لوگوں کا وفد لے کر بیت اللہ کے مقام پر جا کر دعا فرمائی-

اور بعض روایات میں مذکور ہے کہ حضرت ھود علیہ السلام ان سے مایوس ہو کر اپنے متبعین کے ساتھ مقام بیت اللہ کی طرف چلے گئے اور وہیں قیام کیا اور بعد میں وہیں ایک وفد دعا کروانے آیا تھا-

تب حضرت ھود نے اللہ سے دعا کی کے اے اللہ تو ان کے دلوں کے حال بہتر جانتا ہے ان کے لئیے وہی کر جو بہتر ہے- تب آسمان پر تین بادل نمودار ہوئے جن میں ایک سرخ ایک سفید اور ایک سیاہ تھا-انہوں نے کہا سرخ بادل میں آندھی ہوتی ہے سفید خالی ہوتا ہے اور سیاہ میں پانی ہوتا ہے- پس سیاہ منتخب کیا- حضرت ھود نے فرمایا افسوس تم نے اپنے لئیے بڑا دردناک عذاب چن لیا- اور کہا کہ جاو یہ تمہارے ساتھ جائے گا- وہ لوگ دوڑے دوڑے (خوشی سے) آئے اور کہا ہم مانگ لائے سب کے لئیے وہ جس کی ہمیں ضرورت تھی- اور دیکھتے اس بادل کا رنگ سیاہ ترین ہوا اور وہ پورے آسمان پر پھیل گیا کہ اندھیرا ہو گیا دن میں اور اس میں سے ہوا (صرصر) چلنے لگی- جب وہ ہوا تیز ہونے لگی تو تب وہ لوگ ڈرے اور انہوں نے بچاو کی تدبیر کی- مرد جتنے تھے انہوں نے اپنے پاوں گھٹنوں تک زمین میں دھنسا لئیے اور ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال مضبوطی سے بیٹھ رہے اور درمیان میں بچوں اور عورتوں کو رکھا- اور کہا کہ اب دیکھتے ہیں کون ہمیں ہٹاتا ہے کہ تین طرف تو پہاڑ ہیں اور ایک طرف ہم ان پہاڑوں جتنی بڑی طاقت- تب ایک کڑک آئی جسے "رعد” کا نام دیا جاتا ہے- اور ان کے پاوں اکھڑ گئے اور پہاڑ ٹوٹ کر بکھر گئے اور ہوا انہیں زمین سے اڑاتی اور ایک دوسرے سے یوں پٹختی کہ ان کے سر کچلے جاتے اور اس طرح قوم عاد ہلاک ہوئی اور وہ یوں زمین پر پڑے تھے جیسے کھجور کے مضبوط تنے کٹ کر گرے پڑے ہوں – اور ان کے محلات اور نشانیاں جو بھی تھیں سب ان کے ساتھ ختم ہوئیں –

صرصر : قوم عاد پر عذاب کی صورت نازل ہونے والا طوفان جس کی معیاد سات دن اور آٹھ راتیں بیان ہوا ہے- اور جس نے قوم عاد جیسے دیو قامت لوگوں کو اٹھا کے پٹخا- روایات میں مذکور ہے کہ جب قوم عاد کو عذاب دیا جانے لگا تو فرشتوں کو حکم دیا ان پر باد صرصر چھوڑو کیونکہ انہیں گمان تھا ان کو کوئی طاقت اکھاڑ نہیں سکتی- فرشتوں نے اس کی مقدار کی بابت پوچھا تو اللہ نے فرمایا گائے کے دو نتھنوں برابر چھوڑ دو- فرشتوں نے عرض کی یا اللہ اس سے سارا جہان تباہ ہو جائے گا- تب فرمایا ایک نتھنے برابر چھوڑ دو تب اتنی چھوڑی جس نے ہر چیز تباہ کر دی-

رعد: روایات میں ہے کہ یہ ایک اواز ہے جو کلیجے دہلا دیتی ہے- اور بعض روایات کے مطابق یہ ایک کڑک ہے ایک آسمانی بجلی کی جو دکھنے میں بلکل باریک ہوتی ہے پر کڑک بہت زیادہ- بعد اس کے حضرت ھود اور ان کے متبعین نے بیت اللہ میں ہی سکونت رکھی اور وہیں وفات پائی۔

تبصرے بند ہیں۔