سفر حادثات

اس وقت ہمارے ملک میں  آئے دن سفر حادثات پیش آرہے ہیں ، بلکہ آپ اگر پوری دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں  تو کہیں  نہ کہیں  فضائی سفرکے حادثات سننے کو ملیں  گے یا زمینی حادثات کا تذکرہ دکھائی دے گا۔ معیاری سواریوں  اور سہولت بخش انتظامات کے باوجود بھی حادثات کا واقعہ ہونا ہرانسان کو چونکا دینے والا مسئلہ ہے، بالخصوص ٹرین کے جو حادثات گزشتہ چند مہینوں  سے مسلسل واقع ہورہے ہیں ،اس کی وجہ سے ایک قسم کی دہشت اور خوف بڑھ رہا ہے، اور سفر جو پہلے سے ہی ایک پر مشقت عمل ہوتا ہے چاہے کتنی ہی آسانیاں  ہوں  لیکن اب وہی اور زیادہ خوف ناک بنتا جارہا ہے،اور انسان سفر کرتے ہوئے غیر محفوظ ہونے کے خدشے سے دوچار ہے۔

اس وقت تازہ ترین حادثہ آندھراپردیش کے ضلع وجیانگرم میں  کونیروکے قریب ’’جگدل پور- بھوبنیشورہیرا کھنڈاایکسپریس ‘‘کا روح فرسا حادثہ ہے۔ ہیرا کھنڈاایکسپریس کی نو بوگیاں  پٹری سے اتر گئیں، جس کی وجہ سے تقریبا 40 مسافرین ہلاک ہوئے اور 100مسافرین زخمی ہوئے۔19 جنوری کو اترپردیش کے ایٹہ میں  بھی بس کا نہایت دلخراش حادثہ پیش آیا، جس میں  25 ننھے بچے ہلاک ہوئے اور40 زخمی ہوئے۔دراصل یہ بچے اپنے اسکول کی بس میں  اسکول جانے کے لئے بڑی خوشی اور مسرت کے ساتھ روانہ ہوئے، اور والدین نے اپنے جگر کے ٹکڑوں  کو بڑے ارمانوں  کے ساتھ اسکول کے لئے وداع کیا، لیکن گہرے کہر کی وجہ سے بس حادثہ کا شکا ر ہوئی، اور یہ کلیاں  بن کھلے مرجاگئیں ، ماں  باپ کی تمنائیں  خون آلود ہوگئیں۔ اس بس میں  4 سال سے لے کر 15 سال تک کے بچے سوار تھے۔ جب ان کے والدین کو اس المناک اور قیامت خیز خبر کی اطلاع ملی ہوگی تو ان کے دلوں  پر کیا گزری ہوگی؟جن ارمانوں  کو سجا کر انہوں  نے اپنے لاڈلوں  کو روانہ کیا تھا اور کیاوحشت ناک خبر نے ان کی آرزوؤں  کو ریزہ ریزہ کردیا۔

سخت سردی اور کہرکی وجہ سے اتردیش حکومت کی جانب سے 20 جنوری تک اسکول بند رکھنے کی ہدایت تھی لیکن بعض نے اس پر عمل نہ کرتے ہوئے اسکول چلارہے تھے جس کی وجہ سے یہ ایک حادثہ بھی پیش آیا۔اس سے قبل کانپور میں  20 نومبر کو اندور-پٹنہ ایکسپریس کا ہولناک واقعہ پیش آیا تھا،جس کے 14 ڈبے پڑی سے اتر گئے،جس میں  زائد از150 لوگ ہلاک اور زائد از200 زخمی ہو ئے تھے۔اس المناک واقعہ نے پورے ملک میں  ایک قیامت برپا کردی تھی۔پھر چند دن بعد اسی راستہ پر اجمیر-سیالدہ ایکسریس پٹری سے اتر گئی جس کی وجہ سے 50 لوگ زخمی ہوئے۔غرض یہ ہے کہ ان تمام واقعات کا احاطہ کرنا مقصود نہیں  ہے جو پیش آرہے ہیں ، یہ تو وہ بڑے بڑے حادثات ہیں  جس کی خبریں  پورے ملک میں  گشت کرتی ہیں  اور ہر آنکھ کو نمناک کریتی ہیں، اس منظر کو دیکھ کر دل تڑپ جاتا ہے اور ہر کوئی اشک بار ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ کتنے روزانہ سڑک حادثے چھوٹے چھوٹے پیش آتے رہتے ہیں ، اور انسانی جسم کے پرخچے اڑجاتے ہیں، گاؤں  اور دیہات، شہر اور آبادیوں  کے بے شمار حادثات اخبار ات کی زینت بنتے بھی ہیں  اور بعض علاقوں  کے اندر ہی محدود رہ جاتے ہیں۔

یہ تمام واقعات ایک طرح سے بے سکونی اور عدم  تحفظ کے احساسات پیدا کرتے ہیں اور انسان جب اپنے گھر سے نکلتا ہے تو بسااوقات مضطرب رہتا ہے بالخصوص جب کسی لمبے سفر پریا دوردراز کے لئے روانہ ہوتا ہے تو جہاں  اور ساری فکریں  ہوتی ہیں  وہیں  سفر کی عافیت اور سہولت کے ساتھ واپسی کا خیال بھی دامن گیر رہتا ہے۔جو لوگ دنیامیں  زیادہ تر سفر کرتے ہیں  ان کے کیا احساسات ہوتے ہیں اور کیا چیز اطمینا ن اور تسلی کا باعث ہوتی ہیں  اس کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ایک عظیم مفکر اور جہاں  دیدہ عالم دین مفتی محمد تقی عثمانی نے بیان کیا ہے :”ایک مسافر جب کسی طویل سفر پر روانہ ہوتا ہے، خواہ سفر کتنے شوق اور کتنی امنگوں  کا کیوں  نہ ہو،تو اس کے دل میں  ملے جلے جذبات کا ایک عجیب عالم ہوتا ہے، وطن سے دور اور گھروالوں  کی جدائی، ان کی خیر وعافیت کی فکر،اپنے سفر کے مراحل کا خیال،منزل کی دوری،نئے ماحول اور نئے ملک کے بارے میں  تخمینے اور اندیشے، واپس خیر یت وسہولت کے ساتھ گھر پہنچنے اور گھروالوں  کو بعافیت پانے کی آرزو،غرض نہ جانے کتنے خیالات واحساسات ہوتے ہیں  جن کے تلاطم میں  انسان گھر سے روانہ ہوتا ہے۔ خیالات واحساسات کے اس ہجوم میں  مجھے ہمیشہ جس چیز نے بڑی تسکین بخشی، دل چاہتا ہے کہ اس کا تحفہ پیش کردیا جائے،اور وہ ہے سرور دعالم ﷺ کی وہ پاکیزہ اور پُر اثر دعائیں  جو آپﷺ سفر پر روانہ ہوتے وقت فرماتے تھے، اور واقعہ یہ ہے کہ ایک مسافر کی بشری نفسیات سے آپﷺ سے زیادہ کون واقف ہوسکتا تھا،چناں  چہ آپ ﷺنے ان کو کوئی پہلو نہیں  چھوڑا جس کا احاطہ دعاؤں  میں  نہ کرلیا ہو۔‘‘ اس کے بعد انہوں  نے دعائیں  پیش کیں  جو احادیث کی کتابوں  میں  موجود ہیں ، جن میں  ایک دو یہاں  نقل کی جارہی ہیں :بِسْمِ اللّہِ وَاعْتَصَمْتُ بِاللّہِ وَتَوَکَّلْتُ عَلَی اللّہِ وَلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ۔(اللہ کے نام سے، میں  اللہ کا سہارا لیتا ہوں ، میں  اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔)اَللّٰہُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ،وَالْخَلِیْفَۃُ فِی الْاَھْلِ وَالْمَالِ وَالْوَلَدِ،(اے اللہ !تو ہی میرے سفر کا ساتھی ہے، اور توہی میری غیر موجودگی میں  میرے گھر والوں ، میرے مال اور میری اولاد کا محافظ ہے۔ )اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ وَعْثَائِ السَّفَرِ،وَکَاْبَۃِ الْمَنْظَرِ،وَسُوْئِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْاَھْلِ وَالْمَالِ وَالْوَلَدِ،(اے اللہ ! میں  تیری پناہ مانگتا ہوں  سفر کی مشقت سے، ایسے منظر سے جو غم انگیز ہو،اور اس بات سے کہ جب میں  اپنے گھروالوں  اور مال و اولاد کے پاس واپس آوں  تو بری حالت میں  آوں ۔ )اَللّٰہُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا فِیْ ھٰذَا السَّفَر، وَاطْوِعَنَّا بُعْدَہٗ۔ (اے اللہ ! ہمارے لئے سفر کو آسان بنادیجیے، اوراس کی مسافت کو ہمارے لئے لپیٹ دیجیے۔

بہرحال واقعات تو رونماں  ہوتے رہتے  ہیں  اور حالات بھی پیش آتے رہتے ہیں  لیکن ان حالات میں  ایک بندہ کو جو چیز اطمینان دلاسکتی ہے وہ نبوی تعلیمات ہیں ، مومن کے لئے ہر چیز میں  اللہ تعالی نے اجر وثواب کا وعدہ کیا ہے، اگر خوشی نصیب ہوتو شکر پر ثواب اور مصیبت آئے تو صبر پر ثواب کا اعلان ہے۔ اس لئے ہر انسان جب بھی اپنے گھر سے نکلے تو دعاؤں  کا بالخصوص اہتمام کرنا چاہیے، باقی اللہ کی مرضی اور مشیت کے مطابق ہی دنیا میں  حالات وواقعا ت رونماں  ہوتے ہیں ، لیکن یہ دعائیں  حصار کام انجام دیتی ہیں ۔ اس کے بعد انسان کو اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہنا بھی آسان ہوتا ہے۔ الغرض اس وقت سفر حادثات ہر ایک کو متوجہ کئے ہوئے ہیں ، ایسے میں  صاحب ایمان بندہ کا طرز عمل وہ ہونا چاہیے جو ہمارے نبی نے ہم کو بتایا ہے، اس کے مطابق عمل پیرا ہونے میں  راحت اور عافیت ہے۔ اللہ تعالی حادثات اور آفات سے حفاظت فرمائے۔

گھر سے نکلو تو دعاء مانگ کے نکلو ورنہ

لوٹ آنے کا نہیں  اپنے بھروسہ کوئی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔