گجرات فائلس: حق گوئی و بے باکی کی ایک شاندار مثال

گذشتہ چند دنوں قبل مال ٹیکڑی روڑ پر واقع مکتبہ اسلامی جانا ہوا، جہاں سے میں نے سیرۃ النبی اور دیگر موضوعات سے متعلق کچھ کتابیں اپنی ذاتی لائبریری کے لئے خریدی، لیکن سب سے زیادہ مسرت انگیز بات یہ رہی کہ صاحب مکتبہ جناب عبدالمعیز صاحب نے مجھے مشہور خاتون صحافی محترمہ رعنا ایوب صاحبہ کی کتاب (Gujrat Files: Anatomy of a cover) کا اردو ایڈیشن (گجرات فائلس: پس پردہ حقائق کا انکشاف) از راہ عنایت بطور ہدیہ پیش کی، جزاہ اللہ خیر الجزاء.

مکمل کتاب ابھی میں نے پڑھی نہیں ہے ، لیکن جیسے جیسے مطالعہ کی رفتار آگے بڑھتی جارہی ہے ویسے ویسے یہ احساس مزید سے مزید تر ہوتا جارہا ہے کہ واقعتاً اس دارفانی میں کوئی بھی مسئلہ نا ممکن نہیں ہوسکتا، مرد تو مرد صنف نازک بھی اگر چاہے تو بسا اوقات اپنی تمام تر دلفریبی و رعنائی کے باوصف اگر کسی بات کا عزم کرلے تو وہ برملا یہ کہ سکتی ہے کہ ۔

مصائب میں الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے مجھے ناکامیابیوں پر اشک بہانا نہیں آتا

یہ وہ کتاب ہے جس نے اپنی طباعت کے ساتھ ہی صحافت ومیڈیا کے افق پر اور سیاسی گلیاریوں میں بھی زبردست ہلچل اور بے چینی پیدا کردی ہے ۔ اس کتاب کو تہلکہ تو مچانا ہی تھا ،کیونکہ جن حقائق کا اس میں انکشاف کیا گیا ہے وہ کوئی عام حقائق نہیں ہیں ، نازک اندام شیردل مصنفہ نے اس میں گجرات فسادات کے پس پشت کارفرما انسان نما درندوں کے مکروہ چہروں سے خوشنما مکھوٹوں کو کھرچ کھرچ کر نکال کران ظالموں کو انسانیت کی عدالت میں برہنہ کرکے پیش کرنے کی انتہائی کامیاب کوشش کی ہے. اور وہ اپنی کوشش میں بے حد کامیاب بھی ہوئی ہے ۔

2010 میں یہ مسلم خاتون صحافی محترمہ ’’رعنا ایوب‘‘ امریکن فلم انسٹی ٹیوٹ کنزرویٹری کی فلمساز ’’متھالی تیاگی‘‘ کے فرضی نام سے صوبۂ گجرات پہنچی، جہاں وہ ریاست گجرات کی تاریخ و جغرافیہ پر ایک دستاویزی فلم بناناچاہتی تھی، لیکن محترمہ رعنا ایوب کا اصل منصوبہ خفیہ تھا، وہ ’’ تہلکہ‘‘ کی رپورٹر تھی اور گجرات آنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ ملازمین شاہی اور ہندوقوم پرست سیاسی لیڈروں سے مل کر باتوں ہی باتوں میں انسانیت کو شرمسار کرنے والے ان وحشیانہ مظالم کی تہہ تک پہنچ سکے جو2002 میں مسلمانوں پر توڑے جارہے تھے اور ان خونخوار درندوں کو بے نقاب کرسکے جو یہ مظالم ڈھارہے تھے ، اور ان فرضی انکاؤنٹروں کی حقیقت کو عیاں کرسکے جو اس وقت انجام دئے گئے ۔

بہرحال محترمہ رعنا ایوب صاحبہ نے اپنی تمام تر رعنائی کے باوصف جس جواں مردی اور بے باکی کا جرأت مندانہ مظاہرہ کیا ہے وہ میدان کارزار میں سرگرم کسی مجاہد کے کارنامے سے کچھ کم نہیں ہے ، کیونکہ میری نظر میں اصل طاقت اور بہادری ، شجاعت اور جواں مردی صرف بدن کا مضبوط و توانا ہونا نہیں ہے بلکہ اصل طاقت اور اصل شجاعت و بہادری دل کی طاقت ہے۔

مجھے ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے

ایک سچے مسلمان کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ ایسے حالات میں بھی جہاں دستور زباں بندی ہو، جہاں سر اٹھا کر چلنا جرم ہو، جہاں مادیت اور حیوانیت اسقدر غالب آچکی ہو کہ چند ٹکوں کے عوض انسان اپنی ماؤں اور بیٹیوں کو چکلوں کی زینت بنانے میں بھی عار محسوس نہ کرتے ہو ، جہاں قلم فروشی کو صحافت کا کمال سمجھا جاتا ہو، جہاں ضمیر فروشی اور ابن الوقتی کو ہوشیاری اور فہم و فراست کا معیار سمجھا جاتا ہو، وہ حق گوئی اور بے باکی کا مظاہرہ کرتا ہے ، کیونکہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ظالم و جابر حکمران کی موجودگی میں حق گوئی کی جرأت کو سب سے افضل ترین جہاد قرار دیا ہے ۔ اس وقت ہمارے وطن عزیز بھارت کی صورت حال بھی کچھ اسی طرح ہوگئی ہے کہ یہاں حق گوئی ناقابل معافی جرم ہے ، سر اٹھا کر چلنا بغاوت شمار کیا جاتا ہے
اور بقول فیض احمد فیض:

نثار میں تیری گلیوں کے ائے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے نظر چراکے چلے جسم وجاں بچاکے چلے
ہے اہل دل کے لئے یہ نظمِ بست و کشاد کہ سنگ وخشت مقیدہیں اور سگ آزاد

اس پس منظر میں محترمہ رعنا ایوب صاحبہ کی یہ گرانقدر کاوش ایک مجاہدانہ عمل ہے اور اس قابل ہے کہ ہر دردمند اور حساس دل رکھنے والے نہ صرف مسلمان بلکہ ہر ہندوستانی کو پڑھنی چاہئے ۔ دست بدعا ہوں کہ اللہ موصوفہ کو سلامت رکھے .

تبصرے بند ہیں۔