شام کی الم ناک صور حال اور خاموش تماشائی مسلمان

سرزمینِ انبیاء ،قبلہ اول ،ملک شام 1946ء میں آزاد ہو کر بھی آج تک آزاد نہ ہو سکا۔ مسلسل انقلابات کی زد میں رہنے کے بعد 1970ء میں ایک آدم خوردرندہ صفت شخص نے عنان حکومت سنبھالی اور عوام کی زندگی اجیرن بنا دی۔

2011ء میں اس بڑے ظالم کے بعد اس کا جانشین بر سراقتدار آیا اور قتل و غارت گری کا بازار گرما دیا،یوں گزشتہ 45سال سے باپ بیٹا ملک شام کے سیاہ و سفید کے مالک چلے آرہے ہیں۔ بشارالاسد کو آج چھ سال ہونے کو آئے ہیں، ایک تسلسل کے ساتھ عوام کو ذبح کیا جا رہا ہے۔ عالمی پابندیوں اور تنبیہات کے باوجود کیمیائی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال جاری ہے۔ایک عرب دانشور کے بقول: بشارالاسد جس تسلسل کے ساتھ عوامِ شام کو تہ تیغ کر رہا ہے، شاید سینما کی فلم میں اتنی کثرت سے قتل ہوتے نہ دیکھے گئے ہوں۔
شام کی عوام ایک ڈکٹیٹر شپ کی قہرمانیوں کی زد میں ہے، ان کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے، شیطنت کا علمبردار ایک سرکش حاکم ان کے لیے عذاب بن کر مسلط ہے۔ اب تک لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے اور اس قتل عام سے کسی بھی طور پر متاثرہ خاندانوں اور افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، سیکڑوں افراد ملک اور بیرون ملک ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، بے شمار گھروں کومنہدم کر کے اور اجاڑ کر ویرانیوں کو بسا دیا گیا، ایسے افراد تو بے شمار ہیں جو بشار کی انا کا شکار ہو کر زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
شام کا خوبصورت ترین شہر حلب روشنیوں سے جگمگا رہا تھا، وہاں کی عوام اس طرح خوشحالی کی زندگی گزار رہی تھی، گویا حلب ہی ان کی جنت ہے، ان کے چہرے ہمہ وقت فرحت ومسرت سے لبریز تھے؛مگریہ کیا کہ اچانک
بُوئے گُل لے گئی بیرُونِ چمن رازِ چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پُھول ہیں غمازِ چمن
عہدِ گُل ختم ہُوا ، ٹوٹ گیا سازِ چمن
اُڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پروازِ چمن
’’حلب ‘‘شام کا سب سے بڑا شہر ہے،یہ شہر عالمِ اسلام کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے،کئی مسلم سلاطین جیسا کہ سلطان عمادالدین زنگی اور ان کے فرزند سلطان نورالدین زنگی کے عہدحکومت میں دارالخلافہ بھی رہااور آج تک عالمِ اسلام کیلئے یہ شہر اہم ترین مرکزی شہروں میں سے ایک ہے،یہ شہر علوم و فنون، تجارت و سیاست کی اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے،مشرق وسطیٰ کا قدیم ترین بازارمدینہ السوق بھی اسی شہر میں ہے،جہاں پتھر سے بنی گلیاںمسلمانوںکی عظمتِ رفتہ اور شوکت گذشتہ کی یاددلاتی ہیں،سلطان صلاح الدین ایوبی کامسکن اورصلیبی جنگوں میں مسلمانوں کا ہیڈکوارٹر یہی حلب تھا،95ھجری میں بنیادرکھی جانے والی مسجد’’جامع اُموی‘‘ کبھی حلب کی دل کشی اور خوبصورتی کی علامت سمجھی جاتی تھی؛لیکن اب یہی حلب بربادیوں کا نشان اورویرانیوں کا مرکز ہے۔بی بی سی عربی کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2011 سے نومبر 2015 کے درمیان 240 اسپتالوں پر 336 حملے ہوئے، جس کے نتیجے میں طبی عملے کے 697 ارکان مارے گئے اور تعلیمی ادارے بھی اسی زد میں ہونے کی وجہ سے نئی نسل تعلیم سے محروم ہورہی ہے، غرض کہ شام بشارالاسد کی دھشت گردی سے زبرست عدم استحکام کا شکار ہے، لیکن عالمی برادری اس کھلی دھشت گردی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، زمینی جنگ میں پسپائی کے بعد شامی حکومت نے اپنے دھشت گرد دوست روس کے ساتھ مل کر ستمبر 2015 سے فضائی حملے شروع کردیئے ہیں، جن میں مبینہ طور پر گزشتہ سال سے رواں سال تک بچوں، عورتوں اور بوڑھوں سمیت ہزاروں شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ظالم بشار الاسد اور اسکی حلیف طاقتوں نے حلب پر جو انسانیت سوز بمباری کی ہے وہ تاریخ میں سفاکیت و درندگی کی بے نظیر مثال ہے۔
مظلوم بیٹی کی فریاد:
بمباری کے باعث عمارت کے ملبے سے زندہ بچنے والی اسلام کی باحجاب بیٹی جب باہر آئی تو جو الفاظ اس نے کہے، وہ اسلام کی ساری بیٹیوں کے لیے ایک پیغام ہیں”مجھے ہاتھ مت لگانا میں بالکل ٹھیک ہوں“……
اسلام کی بیٹیو!تم شاید غلط دور میں غلط لوگوں کے ہاں پیدا ہو گئی ہو! تمہیں کسی محمد بن قاسم کے زمانے میں ہونا چاہیے تھا۔کاش تمہیں کوئی حجاج جیسا با حمیت ظالم ہی ملا ہوتا، تم نے کن حیا و شرم و غیرت سے محروم حکمرانوں کےدور میں جنم لیا ہے، جن کے غیرت کے پیمانے سنگ دلی سے بنے ہیں، جو ڈالروں کے عوض عزتیں بیچ دیتے ہیں،حمیت نام تھا جس کاگئی تیمور کے گھر سےتم میرے نبی کے دور میں ہوتیں تو نازک آبگینوں کی مانند رکھی جاتیں، تم عمر فاروق کا دور پاتیں تو خلیفہ وقت تمہاری ضرورت کا سامان اپنی پیٹھ پر لاد کر خود پہنچتا،مگر ہاں!اللہ نے تمہیں اس آزمائش کے دور میں پیدا کیا ہے توتمہیں یہ حوصلہ بھی عطا کیا ہے،تم پر بم برسے!طوفانوں سے بچانے والی چھتیں تم ہی پر الٹا دی گئیں،تمہارے بچے تم سے چھین لیے گئے،تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہارے شوہروں کو کچلا اور باپوں کو مسلا گیا مگر تم حیا و حجاب کا پیکر بنی رہیں، تمہارا گرد آلود عبایا بتا رہی ہے کہ چوٹ تمہیں بھی آئی ہے؛ مگر حیا ،تمہاری شناخت ہے،میری عزیز بہنو!غم نہ کرنا مگر دھوکا بھی نہ کھانا، یہاں تمہارے اردگرد کوئی تمہارا محافظ نہیں!وہ تو نہیں جو بمباری کر رہے ہیں اور وہ بھی نہیں جن کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اور نہ ہی وہ جنہوں نے امت کو تر نوالہ بنانے کے لیے اسے مختلف گروہوں میں بانٹ دیا ہے۔
کلیجہ تھام لو !روداد غم ہم کو سنانے دو
تمہیں دکھا ہوا دل ،ہم دِکھاتے ہیں دِکھانے دو

الغرض :یہ ہیں وہ الم ناک حالات؛جن سےآج شامی مسلمان دوچار ہیں:سڑکوں پر بے دریغ قتل عام ،گلی کوچوں میں بہتا ہوا لہو،مظلوموں کی دل دوز آہیں، یتیموں اور بیواؤوں کی چیخ وپکار،ملبوںمیں دبےنہتے مسلمانوں کی ہچکیاںاور سسکیاں،اپنی آبرو بچانے کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والی بےکس وبےبس مجبور دوشیزاؤوں کی خود کشی۔۔۔۔۔
کیایہ دل خرش مناظر ہماری آنکھوں کو اشکبارنہیں کرتے؟ہمارے مردہ ضمیر کو کچوکےنہیں لگاتے ؟ انہیںدیکھ کر دل خون کے آنسوں نہیں روتا؟ ۔
کہاں ہے اقوام متحدہ ؟کہاں ہے ،مسلم ممالک پرمشتمل فلاحی ادارے ؟اورکہاں ہے امت مسلمہ کی ضخیم تعداد ؟؟؟؟
جہاں فریاد بھی گوش نزاکت پر گراں گزرے
ہم ایسی بےکسی کی زندگی سے مہرباں گزرے
وطن سے بےکسی یوں لےکے نکلی ہےغریبوں کو
کہ جیسے کارواں کے بعد گرد کارواں گزرے
ذمہ دار کون ؟
عالم اسلام کے ممالک کی تعداد پانچ درجن کے قریب ہے؛جن میں سعودی عرب ،قطر، عمان،کویت جیسے قدرتی اور مادی وسائل سے مالا مال ممالک شامل ہیں ،خود عالم اسلام کی نمائندہ تنظیم ’’او آئی سی‘‘ اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم شمار کی جاتی ہے ؛مگر حیف صد حیف کہ تمام تر فوجی طاقت اور داخلی قوت کے باوجود اپنے شامی بھائی بہنوں کو چھٹکارا نہیں دلا سکے۔اس طرح عرب لیگ سمیت علاقائی و عالمی سطح پر تمام مسلم ممالک بشارالاسدکے اس انسانیت کش جرم میں شریک ہیں جنھوں نے شام میں ہونے والے مظالم کی روک تھام کے لیے کوئی اقدام نہیں کیااور خاموش تماشائی بنے رہے۔
حال ہی میں عالم عرب کی ایک معروف اور محبوب شخصیت علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اپنے ایک فتوے کے ذریعے عالم اسلام کو متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس فتوے میں دنیا بھر کے معززین اور اہل اسلام سے شامی عوام کوظلم سے نجات دلانے کی درخواست کی ہے ۔ ڈاکٹر موصوف نے اس اندھی جارحیت، لٹتی عصمتوں، تباہ ہوتے مکانات اور اسلحے کے ناروا استعمال کے تناظر میں حق سچ کی آواز بلند کرنے کی تلقین کی ہے۔
بحیثیت مسلم برادری ،شامی بھائیوں کا درد ہمارے دل میں جاگزیں ہونا چاہیے۔ آپ یہ حدیث پاک ملاحظہ کیجیے اور اپنے احوال پر ایک نظر ڈالیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ جو شخص بھی اپنے اس مسلمان بھائی کی مدد کرے جو ایسے ملک میں رہتا ہے جہاں اس کی آبرو محفوظ نہیں اور جہاں اس کی جان کو خطرہ لاحق ہے تو اللہ تعالی اس مدد کرنے والے کی ایسے ملک میں مدد کرے گا جہاں وہ چاہے گاکہ اس کی نصرت کی جائے۔ جس آدمی نے کسی مسلمان کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا ایسے ملک میں جہاں اس کی جان محفوظ نہیں تو اللہ بھی اسے اس ملک میں تنہا چھوڑ دے گا جہاں وہ چاہے گا کہ اس کی مدد کی جائے۔‘‘سو، آج اگر ہم قدرے بہتر حالت میں ہیں تو اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے تمام برادران اسلام اسلامی ممالک کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھیں اور اخلاقی فرائض سے غافل نہ رہیں۔
اس بات سے تو کوئی مسلمان بھی خالی نہ رہے کہ اپنے تمام مظلوم مسلمان بھائیوں، بالخصوص شامیوں کی اس شام غم سے نجات کے لیے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا کر مسلسل دعا کرتا رہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔