سچ تو یہ ہے شوق میرا کار فرما ہو گیا

عبدالکریم شاد

سچ تو یہ ہے شوق میرا کارفرما ہو گیا
کل جو میرا حال تھا وہ آج ان کا ہو گیا

جب سے میں نے گفتگو میں حق کیا اپنا شعار
محفل یاراں میں بھی ہر کان بہرا ہو گیا

گردش ایام نے ایسا سکھایا ہے سبق
"سوچتا ہوں مجھ کو کیا ہونا تھا میں کیا ہو گیا”

بزم میں جب حال دل کہنے کی خاطر میں اٹھا
ان کی جانب سے خموشی کا اشارہ ہو گیا

تنگ دامن تھا بہت یہ سوزِ دنیا کے لیے
اک ترے جانے سے میرا دل کشادہ ہو گیا

ہائے رے حاکم کا ظلم و جور پر رد عمل
جیسے کھانے میں نمک تھوڑا زیادہ ہو گیا

خواب کی آغوش میں اس طرح گم رہتا ہوں میں
کہتی ہیں سورج کی کرنیں اٹھ سویرا ہو گیا

زیست کے ہر موڑ پر ہیں آئینے رکھے ہوئے
دیکھ لے ہر آدمی کیسا تھا کیسا ہو گیا

نیم عریاں جسم پر جب پڑ گئی پہلی نظر
ہو گئیں آنکھیں بری اور دل بھی میلا ہو گیا

وہ مسیحا تھا تو پھر اے شاد! کیوں خاموش تھا؟
اس نے میرا حال پوچھا حال اچھا ہو گیا

تبصرے بند ہیں۔