سکونِ دل ملا ہے عاشقی سے

مجاہد ہادؔی ایلولوی

سکونِ دل ملا ہے عاشقی سے
اسے مت چھین لینا بے رخی سے

ہے سب کو پیار اپنی زندگی سے
بھلا اب کون مرتا ہے خوشی سے

چلی جائے وہ اب تو میرے در سے
ذرا کہدو یہ جاکر مفلسی سے

زمانے نے مجھے ٹھوکر لگا دی
میں جب بھی پیش آیا عاجزی سے

ہے ایسی زندگی سے موت بہتر
گزارا جائے جس کو بزدلی سے

مرے اپنوں نے ہی کی سنگ باری
میں جب بھی گزرا ہوں اس گلی سے

ہے جن کو ناز اپنی رہبری پر
انہیں کیسے بچائیں گم رہی سے

وہ کیسے ریگزاروں میں چلیں گے
کبھی اترے نہیں جو پالکی سے

یہاں حق کے لئے لڑنا پڑے گا
نہیں پائے گا کچھ بھی بزدلی سے

یوں اپنی زندگی بیکار مت کر
ذرا باہر نکل آشفتگی سے

کہاں گزری ہے ہادؔی عمر تیری
کبھی تو پوچھ اپنی زندگی سے

تبصرے بند ہیں۔