سکوں کی سانس لینے کی میں خواہش بھی نہیں کرتا

افتخار راغبؔ

سکوں کی سانس لینے کی میں خواہش بھی نہیں کرتا

سکوں کی آس کیا جب تک تجھے راضی نہیں کرتا

نہیں شکوہ کوئی اس سے فقط اک بات کہنی ہے

وہ ہے غم خوار گرچہ میری غم خواری نہیں کرتا

کسی کے ساتھ مل کر رچ رہی ہے زندگی سازش

وگرنہ میں کبھی یوں فکرِ پسپائی نہیں کرتا

کرم بخشو! نوازو مجھ کو تم جس طرح جی چاہے

تماشائے کرم کی میں کبھی گنتی نہیں کرتا

تجھے دیکھا ہے اچھی طرح سے اے عکسِ مستقبل

تری ہیبت اگرچہ خود پہ میں طاری نہیں کرتا

وہ رہ کر گلشنِ دل میں اگر رکھتا ہمارا دل

یقیناً طائرِ امّید کو زخمی نہیں کرتا

نہ ہوتا اس قدر خوش فہم جو تیرے تعلق سے

کبھی بھولے سے بھی اظہارِ خوش فہمی نہیں کرتا

حلاوت گھولنا جاری رہے گا میری جانب سے

میں جب تک دور اس کی فکر کی تلخی نہیں کرتا

نگہ میں بس گئی اک فاختہ جس روز سے راغبؔ

کسی چڑیا کی جانب دیکھنے کو جی نہیں کرتا

تبصرے بند ہیں۔