کچی محبتیں پروان کیوں چڑھ رہی ہیں؟

صادق رضامصباحی

جولوگ کولکاتا، دہلی، مدراس، بنگلور، گڑگائوں، ممبئی، جے پور، حیدرآباد، کوچی اورلکھنو(انڈیامیں اس وقت انہی دس بڑے شہروں میں میٹروٹرینیں چلتی ہیں) کی میٹروٹرینوں میں سفرکرتے ہیں انہیں بخوبی ا ندازہ ہے کہ ان ٹرینوں میں بھیڑبھاڑکے اوقات ایک دوسرے کی محبت میں گرفتارلڑکےاورلڑکیوں کے لیےکس قدر فرحت بخش اورمسرت انگیز ’مواقع‘ ساتھ لاتے ہیں۔

 ٹرینوں کے کونے کھدرے میں کھڑے ہو کرایک دوسرے سے بغل گیرہونےاورمس کرنے میں جو حظ وہ اٹھاتے ہیں، اس کی تعبیرتووہی کرسکتے ہیں۔ اسی طرح کی حظ اندوزی کاواقعہ ۳۰؍اپریل کو کولکاتامیٹروٹرین کے ہم دم ریلوے اسٹیشن پر پیش آیا جوبعدمیں لڑکے اورلڑکی دونوں کے لیے زحمت بلکہ ہزیمت اورذلت کاسبب بن گیا۔ یہ دونوں ٹرین کے ایک کونے میں ایک دوسرے سے بغل گیرہوکرکھڑےتھے، ایک بزرگ اس پر معترض ہوئے اورپھرمسافروں نے دونوں کی جم کرپٹائی کردی۔ آپ کسی بھی صاحبِ اخلاق اورمعلمِ اخلاق سے دریافت کریں وہ میٹرو ٹرینوں میں ہونے والی ان حرکات کوہرگزصحیح نہیں ٹھہرائے گا۔

ظاہرہے جو حرکت غلط ہے اسے جوازکیسے فراہم کیاجاسکتاہے مگرسوال یہ ہے کہ کیاصرف معترض ہونے سے کام چل جائے گا؟سوچنے کی بات یہ ہے کہ وعظ ونصیحت کی ہزاروں ہزار تقریروں اور کتابوں کے انبار کے باوجود یہ جنسی بے راہ روی کا طوفان تھمنے کانام کیوں نہیں لے رہا ہے، بلکہ مشاہدہ تویہ ہےکہ اس میں آئے دن اضافہ ہی ہوتاجارہاہے، توآخراس کاعلاج کیاہے اوراس پربندھ کیسے باندھاجاسکتاہے ؟

واقعہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے ایک نہیں درجنوں پہلوایسے ہیں جن پرہمارے بڑوں نے ابھی تک کسی بھی سنجیدہ گفتگوکورواج نہیں دیابلکہ وہ شایداسے تضیع اوقات کے خانے میں ڈال کر’احساس ذمے داری‘میں سرشارہوجاتے ہیں اوران موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے کتراتے ہیں حالاں کہ یہ بہت حساس موضوعات ہیں، انہی میں سے ایک لڑکے اور لڑکی کی کچی پکی محبت اوران کے جسمانی رشتے کا معاملہ ہے۔ اس محبت کوپروان چڑھانے میں بالی ووڈکی فلموں نے کلیدی کرداراداکیاہے۔

 ہمارے برصغیرمیں جس طرح سے محبتیں پروان چڑھتی رہی ہیں اورچڑھتی ہیں اوراندازہ ہے کہ چڑھتی رہیں گی ان میں ہمارے اردوکے شعرا، دانشوروں اورفلم کے مکالمات لکھنے والوں کا ’کارنامہ‘ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ اس طرح کی محبتیں برصغیر کے علاوہ اورکہیں نہیں پائی جاتیں، اس کی وجہ دانشوروں اورشاعروں اورفلم رائٹروں کی نفسیات ہے۔ آپ یہ کہہ کرخودکوتسلی دے سکتے ہیں کہ بر صغیرکی مٹی میں ہی محبت رچی بسی ہے اس لیے اگرمحبتیں پروان چڑھتی ہے توحرج کیاہے؟جواب بالکل درست ہے کہ مگران محبتوں کی وجہ سے جو معاشرہ پروان چڑھ رہاہے اس نے سماج کے تانے بانے بکھیرکررکھ دیے ہیں۔ یہ بھی یادرکھیے کہ یہ محبتیں صرف بڑے شہروں میں نہیں پلتیں بڑھتیں، چھوٹے شہربھی ان سے کسی بھی طورپرپیچھے نہیں ہیں بس فرق یہ ہے کہ بڑے شہرمیں ذراکھل کرہوتاہے اورچھوٹاشہروں میں ذرادب کر۔

ہم نے اپنے بچوں، ماتحتوں اورشاگردوں کی کبھی بھی اس نہج پرتربیت نہیں کی بلکہ اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کچی محبتوں کوفروغ حاصل ہورہاہے اورسوشل میڈیانے اسے جم کربڑھاوادیاہے۔ بلاشبہہ جنسی عمل اوراس کے دواعی پرکھل کرگفتگوکرناکسی بھی شریف اور اچھے انسان کے لیے آسان کام نہیں مگرہوشیارمائیں اپنی بچیوں کی اس معاملے میں ذہنی تربیت ضرور کرسکتی ہیں اوربخوبی کرسکتی ہیں۔ ان کچی محبتوں کی وجہ سے جوبوجھ ہمارے معاشرے پر ہے اس نے پورے معاشرے کی کمردوہری کردی ہے۔

 اس میں کس کوشبہہ ہوسکتاہے کہ محبت بڑی پاکیزہ اورمقدس احساس کانام ہے مگریہ محبت، محبت بھی توہو، یہا ں توہوس کومحبت کا نام دے دیاگیاہے اورلفظ محبت کاجنازہ نکال دیاگیاہے۔ اس طرح کے موضوعات پرورک شاپ اورمذاکرات ہوں اورکالج کی لڑکیوں اورلڑکوں کوبطورخاص مدعوکرکے ان کی ذہنی تربیت کی جائے تواس کے بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں مگریہ کام حساس افرادہی کرسکتے ہیں۔

صرف حرام، حرام، حرام کی رٹ لگانے سے آج تک نہ کچھ ہواہے اورنہ ہوسکتاہے، اس کے لیے عملی تدابیربھی اختیارکرنی ہوں گی۔ جن لوگوں کےپاس بولنے کافن ہے وہ بس بولے ہی جارہے ہیں اورجن کے پاس لکھنے کاہنرہے وہ اپنے ہنرکامظاہرہ کرنے کوہی اپنی سب سے بڑی ذمے داری سمجھتے ہیں، عملی کام کرنے والے بہت کم ہیں، ہمیں بولنے اور لکھنے سے زیادہ زمین پراترنے اورعملی کام کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگربرائیوں کاگراف کم ہونے کی بجائے بڑھتاہی جائے گا۔ کم ازکم میں اپنے حق میں خداسےیہی بھیک مانگتا ہوں کہ خدائے پاک اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے مجھے بولنے اور لکھنے سے زیادہ عملی کام کرنے، پردے کے پار جھانکنے، حقائق تک پہنچنےاوراپنے معاشرے کے حقیقی مسائل کاتصفیہ کرنے کی توفیق ارزاں فرمائے۔ آپ بس آمین کہہ دیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    لاحاصل محبت اوردیوانگی دونوں ہی جنوں کی حدوں تک لے جاتے ہیں دونوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔
    محبت قبضہ نہیں کرتی نہ اس پر قبضہ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ محبت کے لئے محبت ہی کافی ہوتی ہے۔
    محبت تو پتوں کی سائیں سائیں کی طرح ہوتی ہے۔ نہ دکھائی دیتی ہے نہ پکڑ میں آتی ہے، بس حصار میں لےلیتی ہے۔
    محبت کے آگے ساری منطقیں، سارے جواز بے کار ہوجاتے ہیں۔ یہ بڑا انوکھا جذبہ ہے جو آپ سے اپنا آپ بھی چھین لیتا ہے۔
    محبت کیا ہے صرف چار حرفوں کا مجموعہ لیکن سمندر کی گہرائی سے بھی گہری ہے۔
    محبت اظہار نہیں مانگتی مگر کبھی کبھی اظہار کر دیناچاہیئے دوسرے کو مطمئن کرنے کے لئے۔
    محبت کسی کوپانے کا نام نہیں بلکہ سکون حاصل کرنے کا نام ہے۔ اگر آپ کسی کو چاہتے ہیں تو ضروری تو نہیں کہ وہ آپ کو مل جائے۔ وہ آپ کوملے نہ ملے اس کی محبت آپ کے دل میں پہلے کی طرح موجود و تروتازہ رہتی ہے۔
    یہ محبت ہی تو ہے جو اگر روٹھ جائےتو انسان کے چہرے سے تمام رنگ چھین لیتی ہے اور اگر مل جائے تو قوس قزح کے تمام رنگ چہرے پر بکھیر کر اسے اتنا خوبصورت کر دیتی ہے کہ وہ خود حیران رہ جاتا ہے۔
    محبتوں میں بدگمانی نہیں ہونی چاہیئے۔ محبت کی ہے تو اعتبار کرنا سیکھو اگر وہ خفاہے تو اسے منا لو کہ محبت ہمیشہ اس مان سے روٹھتی ہے کہ اسے منا لیا جائے…

تبصرے بند ہیں۔