شام کے درپردہ شازش

رضی الہندی

شام میں دنیا کی حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام جاری ہے، جہاں ظلم کا سلسلہ بوسنیا، فلسطین، عراق، افغانستان، میانمار،تونس اور لیبیاسے کہیں آگے نکل گیا ہے، مگر ایک دو ممالک کو چھوڑ کر عالم اسلام خاموش ہے۔ شام میں قیامت بپا ہے، ایسی  کہ جس پر امت کے ہر فرد کو کم از کم احتجاج کرنا چاہیے، مگر سب لب بستہ وگنگ ہیں۔

 چشم تاریخ نے ایسی لڑائی وجنگ کم ہی دیکھی ہے، جس میں عام معاہد لوگوں کو پکڑا جاتا ہے اور ایک جگہ جمع کرکے ان پر قتل وغارت گری کا کھیل کھیلا اور معصوم لوگوں پر فائرکھول دیا جاتا ہے۔ لوگوں پر بھیانک تشدد کرتے ہوئے ان کے اعضا الگ کردیے جاتے ہیں۔ آنکھیں نکال دی جاتی ہیں۔ جانوروں کی طرح ذبح کردیا جاتا ہے۔ زندہ جلادیا جاتا ہے۔ ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچوں کو سر میں گولی مار کر ہلاک کردیا جاتا ہے۔ آبرو ریزی اور نسل کشی صرف اس وجہ سے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا ایمان ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کرنے میں جبرئیل امین نے غلطی نہیں کی، بعد از رسول صلی اللہ علیہ وسلم بالترتیب حضرت ابوبکر صدیق وعمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بلند مرتبت ہیں، اور شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی قانون نافذ ہو سکتا ہے لیکن اس سے بہتر نہیں ہو سکتا ہے۔

بشارالاسد کے سرپرست ملک کی طرف سے اسلحے کی کھیپ کی کھیپ اور ’’نصیری و علمانی اور رافضی شیعہ رضاکاروں‘‘ کی بڑی تعداد میں شام آمد نے خوں ریزی کے عمل کے حجم اور شدت میں اضافہ کردیا ہے۔ اسلحے کی کھیپ عراق و ایران اور ترکی کی فضا سے ہوتی ہوئی اس کے ہمسائے شام پہنچتی ہے۔ دوسری طرف اسد حکومت سے برسرپیکار گروہوں کے پاس شامی فوج سے لوٹا ہوا اسلحہ ہے۔ قتل عام کے وہ واقعات جوشام کے ساحلی قصبوں ’’بائیدہ‘‘ اور ’’راس البنیہہ‘‘ میں ہوئے تھے، جہاں 322 لاشیں ملی تھیں۔ اسی کو پھر حلب و غوطہ میں دہرایا گیا ہے اس قتل عام پر عرب دنیا کے معروف دانشوروں اور مفکرین اور ہم جیسے متعلم قلمکار بھی چیخ اٹھے۔ ہانتھوں میں لرز، دورانِ خون میں تیزی اور روح کے کرب و تڑپ تڑپ میں بلااختیار اضافہ ہوجاتا ہے تو ذرا سوچیں جن کو روزانہ اس تلاطم وتصادم، جورو ظلم کا سامنا ان کا کیا حال ہوگا بلاشبہ یہ لکھا جاسکتا ہے دعاء مسنونہ

 بسم اللہ توکلت علی اللہ لاحول ولاقوة الا باللہ

کے بعد انا للہ وانا الیہ راجعون کا ورد بھی ہوجاتا ہوگا۔

صرف لکھا جا رہا ہے کہ شام میں بے گناہ افراد کا قتل عام جاری ہے۔ اس صورت حال پر دنیا کے انسانیت پسند  بھی سکتے میں ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ان شامی مہاجرین کی مدد کر رہے ہیں جنھیں حکومت کے مظالم نے ترک وطن پر مجبور کردیا ہے۔گاہے گاہے، صحراء وجنگلات میں بھٹکنے کو مجبور کر دیا ہے۔

کچھ لوگ لکھتے ہیں کہ یہ فرقہ کی جنگ نہیں، یہ ظالم اور مظلوم، انسانیت و شیطانی کارندوں کے درمیان معرکہ ہے، غاصب و جابر حکمراں اور عوام کے درمیان لڑائی ہے، جس میں نہتے شہریوں کو بے دردی سے قتل کیا اور چنگیزیت کی نئی تاریخ لکھی  جارہی ہے۔ بشارالاسد کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم میں کوئی اس کا ساتھ دے رہا ہے، کوئی صرف مذمت کی رسم ادا کررہا ہے اور کوئی چپ چاپ خون بہتے اور جسم جلتے دیکھ رہا ہےاور خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ یوں اس ظلم میں سب شریک ہیں۔

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے دور میں جب علمانیوں نے درندگی شروع کی تھی تو اس وقت اس جری نفس قدس نے انکے خلاف کارروائی کی تھی اور انکے خلاف جہاد کا اعلان کیا تھا آج کوئی لعل نہیں ویسا کیونکہ سب  اختلاف رائے اور علم کی ابتریت و برتری کی آپسی لڑائی لڑنے کے ماہر ہیں۔

جبکہ ہمارا دشمن ہر نئے و جدید آلات ِ حرب وضرب سے لیس ہوکر ہمارے خلاف صف بستہ ہے، ابھی شام میں جس زہریلی گیس کا استعمال کیا گیا اسکی رپورٹ کھل کر سامنے آرہی ہے اور اس میں ہر مدعی امن عالم کا رول کھل کر سامنے آیا ہے، روس، امریکہ، یورپ، ترکی، شام اورایران اور انکے سپورٹر پردہ بے پردہ ایک ہی تھالی کے چمچ ہیں اور سب کا ہدف ایک ہیں اسلام کے اولین نفوس قدسیہ کی زندگیوں کو راہنما بنانے والوں کوختم کیا جائے۔

جگہ جگہ بڑے پیمانے پر ایسے پروگرام کئے جائیں جس سے یہ خلف اپنے سلف کو بھول جائیں اور صوفی ازم کے طرز پر نئی نئی تنظیم کا قیام کیا جائے اور جگ ظاہر ہے یہ بہت تیزی سے فروغ پایا اور عالم اسلام میں آج تنظیم ہی تنظیم ہے اور سوائے ایک کے سب کا نصب العین اسلامی تعلیمات کو اپنے خیالات ونظریات کے ماتحت پیش کرنا ہے اور اب تو اسمیں مسابقانہ ماحول پیدا ہوچکا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں باطل سے دور حق کا پاسبان بنائے رکھے اور گفتار کی جگہ کردار کا غازی بنا ئے۔۔۔آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔