شادی میں تاخیر، والدین کی ذمہ داری

سیدہ تبسم منظور

بچوں کی شادی میں تاخیرکرنا ہمارے معاشرے کا رواج بنتا جارہا ہے۔ شادی میں تاخیر کے اصل ذمے دار والدین ہوتے ہیں۔ جو اچھے سے اچھے کی تلاش میں اپنے بچوں کی عمر زیادہ ہونے تک بٹھائے رکھتے ہیں۔ اور کہیں کہیں پر تو خود بچے ذمے دار ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہماری نوجوان نسل آج سیٹل ہونے کے چکر میں اپنی جوانی کا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں آج کل شادی کیلئے کہا جاتا ہے کہ لڑکا کچھ کمائے، سیٹل ہو تو پھر شادی کر دیں گے۔ اگر ہماری نوجوان نسل مغرب کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے آپ کو قرآن و سنت کی روشنی سے بدل لیں اور وقت پر شادی کرلیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل اور اللہ کی عبادت بھی ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق انہیں جلد ہی سیٹل بھی کر دے گا۔

ایک مرتبہ ایک صحابی نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر جب تنگیِ رزق کی شکایت کی تو حضور نے انہیں نکاح کا مشورہ دیا۔ جیسا اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

’’تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔ ‘‘(سورۃ النور۔ 32)

اللہ تعالیٰ نے انکے آرام و سکون کے لئے ان کی بیویاں بنائیں ہیں ان کے پاس سکون محبّت اور رحمت رکھ دی ہے۔ جیسا کہ ارشادِ ہے:

’’ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبّت اور ہمدردی قائم کر دی, یقیناً غور وفکر کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ ‘‘(سورۃ الروم۔ 21)

آج نوجوانوں کے پاس اللہ کی نشانیاں دیکھنے اور غور و فکر کرنے کا وقت ہی کہاں ہے؟ بائیس پچیس سال تو تعلیم حاصل کرنے میں گزرجاتے ہیں پھراگلے دو چار سال ملازمت کی تلاش اور شادی کے لیے پیسہ جمع کرنے میں گزرجاتے ہیں۔ تب تک چہرے کی شوخی رونق کھو کر بڑھاپے کی لکیریں نمایاں ہونے لگتی ہے تب کہیں جاکر والدین اپنے لڑکے کے لیے خوبصورت دلہن کی تلاش شروع کرتے ہیں۔ ایسے ہی لڑکیوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ لڑکیاں بہت زیادہ پڑھی لکھی ہونے کی وجہ سے انہیں ویسے ہی لڑکے کی تلاش ہوتی ہے۔ اور اگر کوئی امیر زادی کم پڑھے لکھے میڈل کلاس لڑکے سے شادی کرنا چاہے تو یہاں والدین کی انا کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ کہیں پر خاندانوں کے مسئلے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کئی لڑکیاں تو جہیز کی لعنت کی وجہ سے ساجن کے سپنے سجائے بابل کے آنگن میں ہی بوڑھی ہو جاتی ہیں تو دوسری طرف اکثر والدین اپنی بیٹی کے لئے آسمان سے اترے گھوڑے پر سوار کسی شہزادے کی تلاش میں جان بوجھ کر بیٹی کو گھر میں بیٹھائے رکھتے ہیں۔ شادی انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہوتی ہے انسان کو مکمل ہونے کے لیے ایک شریک حیات کی ضرورت ہوتی ہے۔

معاشرے پر غور کرلیں تو پتہ چلے گا دنیا کے آدھے فسادات انسانی کی اسی نفسانی خواہش کے زیر ہوتے ہیں۔ ایسے ماحول میں اتنا عرصہ کنوارہ رہنے کے دوران معاشرے میں جس قدر بے راہ روی پروان چڑھ رہی ہے اسے کون نہیں جانتا۔ ناجائز تعلقات،افیئر اور غیر شرعی طریقوں سے نوجوان نسل اس ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ اوپر سے بچوں میں انٹرنیٹ اور موبائل کا بے جااستعمال۔ والدین اس بات سے آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں کہ انکے بچے بارہ پندرہ سال کی عمر سے ہی فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ بنالیتے ہیں لیکن بائیس پچیس سال کی عمر میں بچوں کا نکاح کرنے میں والدین کی جان جاتی ہے۔ ایسے حالات میں تو نکاح کو آسان کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ مجموعی طور پر معاشرہ مثبت سمت میں لے جایا جا سکے۔ خدا کے واسطے اسٹیٹس، خاندان، نوکری، جہیز وغیرہ کے چکر میں پھنس کر اپنے بچوں کی شادیوں میں دیر نہ کریں۔

آپ کے بچے شرم اور آپ کی عزت کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ پاتے لیکن آپ ان کی شادی میں دیر کرکے نہ صرف ان پر ظلم کرتے ہیں بلکہ ان کی حق تلفی کررہے ہیں۔ انہیں برائی کی طرف لے جانے کے ذمہ دار بھی بن رہے ہیں۔ اگر ہمارے معاشرے میں اس روایت کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ بیس پچیس سال عمر ہوتے ہی بچے یا بچی کا مناسب رشتہ دیکھ کر یا بچوں کی پسند سے ہی انکا نکاح کردیا جائے اس سے نہ صرف معاشرتی برائیاں کم ہوں گی بلکہ موبائیل فون اور انٹرنیٹ کی دوستیوں نے جو شریف گھرانوں کا سکون برباد کیا ہوا ہے اس کا بھی سدباب ہوسکے گا۔

تبصرے بند ہیں۔