صحافت اور صحافی

مصنف: ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم

مبصر: ڈاکٹرعزیز سہیل

  حیدرآباد کی سرزمین سے جنہوں نے یکساں طورپر درس وتدریس ‘ ادب او ر صحافت کے میدان میں مقبولیت حاصل کی ہے۔ ایسی شخصیات میں ایک اہم نام ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم کا لیاجاتا ہے۔ ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم اردوادب کی ایک مخلص اور فعال شخصیت کا نام ہے۔ مسلسل جہد واستقامت کے ساتھ زندگی کی منزلوں پرکامیاب ہوتے نظرآتے ہیں۔ حالیہ دنوں ان کا تقرر اورینٹل اردو کالج جامعہ عثمانیہ حیدرآباد سے بحیثیت اردو پروفیسر کے سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد میں عمل میں آیا۔ ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم تلنگانہ کے اسکولس ‘جونیئرکالجس‘ڈگری کالجس کی نصابی کمیٹیوں میں بحیثیت مدیر، ماہرین مضمون شامل ہیں۔ ساتھ ہی ملک کی دیگرریاستوں کی یونیورسٹیوں میں نصابی کمیٹیوں میں بھی مضمون کے ماہر(اکسپرٹ)کی حیثیت سے ان کا نام شامل ہے۔ اہل اُردومیں ٹکنالوجی کا شعوار بیدار کرنے اور اردو ادب کوجدید ٹکنالوجی سے جوڑنے میں بھی ان کا نام اہمیت کا حامل رہا ہے۔ انہوں نے چند سال قبل ایک ویب سائیٹ جہان اردو شروع کی ہے۔ جس میں ادب سے متعلق مختلف موضوعات پرتخلیقات و مضامین شائع کیے جاتے ہیں۔ خصوصی طورپر جہان اردو میں اردو کی موجودہ نسل (نوجوانوں ) کوزیادہ مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم کا تعلق جہاں تک درس وتدریس سے رہا ہے وہیں ان کا مقبول مشغلہ صحافت رہا ہے۔ وہ بحیثیت پیشہ وارانہ صحافی تونہیں ہے لیکن انہوں نے کئی صحافی پیدا کیے ہیں۔ وہ اس طرح کے وہ مختلف جرنلزم(صحافت) کے کورسیس کی تیاری میں بحیثیت ماہرکے شامل رہے ہیں اور اس کی اشاعت میں ان کا اہم کردار رہا ہے، ساتھ ہی جرنلزم کے کورس میں کلاسیس لینا بھی ان کا مقبول مشغلہ ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ2004؁ء میں یونیورسٹی آف حیدرآباد کی جانب سے پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ان ماس کمیونکیشن اینڈ ٹرانسلیشن ٹکنیک اِن اردو کے کورس میں سیدفضل اللہ مکرم نے صحافت کے موضوع پر کلاسیس لیے تھے تب سے ہی وہ میرے شفیق استاد رہے ہیں۔ بحیثیت استاد انہوں نے ہرہرمنزل پر میری رہنمائی فرمائی ہیں۔ علاقہ تلنگانہ ومہاراشٹرا ‘آندھرا، ٹاملناڈو کے مختلف سمیناروں میں بحیثیت خطیب کلیدی خطبہ پیش کرنے کے لیے خصوصی طورپرمدعوکئے جاتے ہیں۔ ان کے یہ اردوخطبے آسان اورسلیس اور قاری کے دل پرراست اثرکرنے والے ہوتے ہیں۔

        صحافت اور صحافی کے عنوان سے حالیہ دنوں ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم کی تازہ تصنیف منظرعام پرآئی۔ اس سے قبل ان کی سات کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں قابل ذکر نظریات، جدید سخنور، جدید نظم، مضامین نظم ونثر، سنگ و ثمر، دکنی ادب کی تحقیق و محمد علی اثرشامل ہیں جوشائع ہوکراردو حلقوں میں مقبول عام ہوچکے ہیں، اس کتاب میں صحافت سے متعلق پندرہ تحقیقی مضامین کو شامل کیاگیاہے جو اس طرح سے ہیں۔ ذرائع ابلاغ ‘ماضی اور حال‘ صحافت کیاہے؟‘ اردو روزنامے‘ فن صحافت پرپہلی کتاب‘ اداریہ نگاری کا ارتقاء‘ کالم نگاری ‘  فیچر نگاری‘ تصویری صحافت‘ اخباری میک اپ‘ اردوصحافت کے نئے رحجانات ‘ سب ایڈیٹر ‘نامہ نگار‘ مولانامحمدعلی جوہر‘ مولانا ابوالکلام آزاد‘ ڈاکٹرمحی الدین قادری زور شامل ہیں۔

        ’’صحافت اور صحافی ‘‘کتاب کاانتساب ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم نے اپنی اہلیہ محترمہ کے نام معنون کیاہے۔ جو اس طرح ہے’’ اس بہترین دوست کے نام جو میری رفیق حیات ہے‘جوشریک رنج اور راحت ہے‘ جومیرے ادبی سفر کا جواز ہے‘خدا کرے ہمارا یہ سفر صدیوں صدیوں چلتا رہے۔ ‘‘

        کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم نے ہی خود لکھا ہے جس میں انہوں نے صحافت کی اہمیت ‘صحافت محبوب مشغلہ ‘صحافت کی تحقیق‘ صحافت کی کتابوں کامطالعہ‘ صحافت سے ان کی وابستگی اورآخر میں والدین کے لیئے دعائیں اور رفیق حیات و بچوں کے تعاون کا تذکرہ شامل ہیں۔

        وہ اپنے پیش لفظ میں صحافت اور صحافی‘‘میں شامل مضامین کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :’’اس کتاب میں شامل کچھ مضامین میرے ریسرچ کا حصہ ہیں۔ کچھ صحافت کے فاصلاتی کورس کے لیے لکھے گئے ہیں اورکچھ سمیناروں کے لیے تحریر کیے گئے ہیں۔ ابتداء میں اُردوصحافت کو نظرانداز کیاگیاہے لیکن شعبہ اردو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے صحافت کی اہمیت ‘افادیت کوپیش نظررکھتے ہوئے اس کے مختلف پہلوئوں کوریسرچ کا موضوع بنایاہے۔ اردوصحافت کی تاریخ پر بہت لکھاگیا لیکن صحافت کے فن پرکم ہی توجہ دی گئی۔ ‘‘

         اس کتاب کا پہلا مضمون’’ذرائع ابلاغ ماضی اورحال ‘‘کے عنوان سے کتاب میں شامل ہے۔ جس میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت ‘پرنٹ میڈیا‘الیکٹرانک میڈیا اور سوشیل میڈیا کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم کا تحریری انداز مشاہدہ فرمائیں :

        ’’ حضرت انسان کوجب بھی کوئی ٹھیس پہنچتی ہے یا کوئی تکلیف محسوس ہوتی ہے تواس کی زبان سے لفظ آہ یا آنکھ سے آنسو نکل پڑتے ہیں یا پھرکسی خوشی یا مسرت کے موقع پرلبوں پر مسکراہٹ رینگنے لگتی ہے۔ جذبات اوراحساسات اس کی فطرت میں شامل ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے وہ یہ کہ انسان اپنی تکلیف یا مسرت کودوسروں تک پہنچائیں یا پھر دوسروں کی تکلیف یا خوشیوں سے واقف ہو۔ یہی اظہار وذرائع ابلاغ یا ترسیل کی پہلی کڑی ہے جودنیا میں حضرت انسان کے ساتھ ہی وجود میں آئی ہے‘‘۔

         اس مضمون میں ڈاکٹر سیدفضل اللہ مکرم نے ابلاغ کی تعریف اوروسعت اوراس کی تاریخ کومفصل طور پربیان کیاہے اورمختلف مستند حوالوں سے ذرائع ابلاغ کی اہمیت کواجاگرکیاہے۔ اس کتاب میں شامل دوسرا موضوع’’صحافت کیاہے؟‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ جس میں صحافت کے معنی‘ صحافت کی تعریفات‘ ہندوستانی صحافت ‘صحافت کے مقاصد ‘صحافت کی اہمیت‘ صحافت کے اقسام‘ صحافت کے مختلف ذرائع اخبارات‘ رسائل‘برقیاتی صحافت‘ ٹیلی وی ژن‘ نیوزریل اور فلم ‘ای جرنلزم ‘صحافتی نظریات ‘سماجی ذمہ داریاں ‘ہندوستان میں صحافت کی ابتداء‘اردو کے نامورصحافی وغیرہ شامل ہیں۔ اس موضوع کو اس کتاب کا دل قراردیاجاسکتا ہے کیوں کہ کتاب کا جوعنوان ہے ’صحافت اور صحافی ہے‘ان تمام باتوں کا تذکرہ اس عنوان یعنی صحافت کیا ہے میں ملتا ہے۔ صحافت کی اہمیت کواجاگرکرتے ہوئے ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم رقمطراز ہیں :’’ صحافت کی قوت دراصل عوام کی قوت ہے۔ اس قوت کے پیچھے نہ حکومت کی مشنری ہے اور نہ قانون وعدالت کا ڈر۔ اس کے باوجود اقتدار صحافت کا یہ عالم ہے کہ حکومتیں اور عوامی ادارے اس کے احترام پرمجبورہیں۔ مغلوں کے عہد میں بھی اخبار نویسی ‘واقعہ نگار کی جان ومال اورعزت وآبرو کی حفاظت کا بادشاہ وقت کوہی خیال رہتاتھا۔ ‘‘

        اس کتاب کاتیسرا عنوان ’’اردو روزنامے‘آغاز وارتقاء ‘‘کے عنوان سے شامل ہے۔ جس میں ہندوستان کے پہلے اردواخبار کاذکرکیاگیاہے ساتھ ہی اردوادب میں اردوروزناموں کی ابتداء سے متعلق بحث کی گئی ہے۔ اور اردو روزناموں کی ابتداء‘اردوگائیڈ کو قراردیاگیا ہے۔ اس مضمون میں اردو کے ابتدائی اخبارات کا تذکرہ شامل ہے۔ ساتھ ہی علاقہ واری سطح پر شائع ہونے والے اخبارات کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ حیدرآباد میں اردوصحافت کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹرسیدفضل اللہ مکرم رقمطراز ہیں کہ’’جنوبی ہند میں حیدرآباد اورمدراس اردو کے بڑے مراکز تھے۔ خصوصاً حیدرآباد میں اردوشعر وادب کی سرپرستی کی جاتی رہی ہے۔ جنوبی ہندوستان میں بھی اردوصحافت ترقی پذیر رہی۔ مدراس کا پہلا روزنامہ اتحاد ہے جو 1884ء میں سہ روزہ کی حیثیت سے جاری ہوااور 1885؁ء میں روزنامہ ہوا۔ حیدرآباد دکن سے کئی اخبارات جاری ہوئے۔ پیک آصفی‘ حیدرآباد دکن کا پہلا روزنامہ ہے جو جنوری 1884؁ء میں جاری ہوا۔ اس اخبار کے مالک مولوی سعید احمدزید بلگرامی تھے۔ جبکہ سیدامجد علی اشہری کی ادارت میں 1888؁ء میں سفیر دکن روزنامہ جاری ہوا۔ لیکن 19ویں صدی کا اہم روزنامہ ’’مشیر دکن‘‘ ہے۔

        بہرحال ’’صحافت اور صحافی‘‘کتاب ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم کے تحقیقی کاوشوں کا نچوڑ ہے جس میں صحافت کے سلگتے مسائل پربحث کی گئی ہے اس کتاب کے مطالعہ سے ہمیں صحافت کے موضوع پر کافی اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ یہ کتاب صحافت سے وابستہ طالب علموں ‘اساتذہ اور صحافی حضرات کے لیے ایک انمول تحفہ ہے۔ جس کے مطالعہ سے صحافت کے موضوع پر تحقیق سے متعلق کافی گہری معلومات میسرآتی ہے۔ امید کہ اُردودنیا میں ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کی یہ تصنیف ’’ صحافت اور صحافی‘‘ کو قدر کی نگاہ سے دیکھاجائے گا اوراسے ہاتھوں ہاتھ لیاجائے گا۔ اس کتاب کی اشاعت پر ڈاکٹرسیدفضل اللہ مکرم کومبارک باد پیش کی جاتی ہے اوران سے یہ امید بھی ہے کہ مستقبل قریب میں اس موضوع پر اوربھی تحقیقی کام کوتخلیق کی شکل میں اردو قارئین کے لیے پیش کیاجائے گا۔ 246صفحات پرمشتمل اس کتاب کی قیمت 300روپئے رکھی گئی ہے جو اورینٹل پی جی کالج حمایت نگرحیدرآباد سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس کتاب کے ناشر تنویر پبلیشرس حیدرآبادہے۔ مزید تفصیلات کے لیے فون نمبر:9849377948پرربط پیدا کیاجاسکتا ہے۔

1 تبصرہ
  1. سلیم احمد خان کہتے ہیں

    تبصرہ مکمل نہیں لگتا مگر کتاب کا مختصر تعارف ضرور کرواتا ہے. غالباً یہ کتاب صرف پرنٹ میڈیا کا احاطہ کرتی ہے. مصنف و مبصر کو مبارکباد.
    سلیم احمد خان

تبصرے بند ہیں۔