شام میں کثیر رخی جنگ کا اصل ماجرا

ندیم عبدالقدیر

یہ ۱۴؍سال کا ایک نو عمر لڑکا تھا جس  کی  دیوار پر لکھی تحریر نے شام میں سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔شام کے درعا شہر میں ’ نئیف ابازید ‘ نامی اس طالب علم نے عرب خطہ میں ارتعاش برپا کردینے والی ’بہارِ عرب‘ کے عروج کے زمانے میں اپنی اسکول کی دیوار پر لکھا دیا تھا ’اب تمہاری باری ہے ڈاکٹر ‘ (یہاں ڈاکٹر کا مطلب بشار الاسد)جس وقت یہ نوجوان یہ تحریر لکھ رہا تھا تب شاید اسے گمان بھی نہیں تھا کہ عربی زبان کی چار حرفوں پر مشتمل یہ ایک سطر اپنے اندر کیا کچھ سموئے ہوئے ہے۔

 تیونس کے گلشن سے اٹھنے والی عرب بہار کی بادِ صبا نےجہاں عرب خطہ میں مختلف ممالک کی وادیوں پر اپنی دستک دی وہیں شام بھی اس سے اچھوتا نہ رہ سکا۔ شام میں عرب بہار کی ہواؤں کا گزر ہوا اوردیگر عرب ممالک کی طرح شام میں بھی حکومت مخالف تحریکیں زور پکڑنے لگیں ۔ یہ اسی وقت کی بات ہے جب ’نئیف‘ نے دیوار پر حکومت مخالف سطر تحریر کی۔

  بشار الاسد کی سیکوریٹی فوج کو ’نئیف‘  کی اس ایک سطرمیں بغاوت نظر آئی اور انہوں نے اس کی پاداش میں ۱۵؍طلبہ کو گرفتار کرکے زد و کوب کیا۔اس گرفتاری کے خلاف عوام سڑکوں پر اتر آئے۔ گرفتار طلبہ کو جسمانی طور پر اذیت دی گئی جس میں ایک نوجوان ’حمزہ ال خطیب ‘ نے داعی اجل کی پکار پر لبیک کہہ دیا۔یہ مارچ ۲۰۱۱ء کی بات ہے۔ اس موت نے سارے منظر نامے کو بدل ڈالا حکومت مخالف مظاہرے اور احتجاج ’درعا‘ کی سرحدوں سے نکل کر پورے شام میں پھیل گئے۔

 یہ سب اسی وقت ہورہا تھا جب عرب بہار سے متاثر ہوکر شام میں جمہوری اصلاحات اور قیدیوں کی رہائی کی مانگ کی جارہی تھی۔ بشار الاسد نے یہاں بھی سمجھداری سے کام لینے کی بجائے طاقت پر زیادہ بھروسہ کیا ِ۔ دمشق میں ایک بہت بڑا مظاہرہ ہوا، جسے کنٹرول کرنے کےلئے پولس نے فائرنگ کردی۔ اور اس غلطی نے چنگاری کو ایک بھیانک آگ میں تبدیل کردیا۔

بشار الاسد کو ادراک ہوگیا کہ ملک میں بغاوت کے قوی امکان ہیں اسی کے پیش نظر اس نے عوام کو خوش کرنے کےلئے چند اقدامات بھی کئے لیکن ساتھ ہی اس نے مظاہرین کے ساتھ کسی بھی قسم کی رعایت نہیں کی۔ مارچ ۲۰۱۱ء سے اپریل ۲۰۱۱ ءتک احتجاج اور مظاہروں میں عدم تشدد کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا، لیکن بشار الاسد حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ ان مظاہروں میں شدت آتی چلی گئی اور بالآخر جون میں یہ مسلح بغاوت میں بدل گئی۔ شام کی فوج بھی مظاہرین میں شامل ہوگئی۔ اس میں شام کی فوج کے کرنل ’ریاض الاسعد‘ کا نام لیا جاتا ہے، جنہوں نے ’آزاد شام فوج‘ کی بنیاد رکھی۔ لوگ یکے بعد دیگر اس فوج میں شامل ہونے لگے ان میں شامی فوج کے افسران اور جوان بھی تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک طاقتور مسلح گروہ بن گیااور شام میں خانہ جنگی کی شروعات ہوگئی۔ اب تک اس میں مسلکی تفرقہ کا نام و نشان بھی نہیں تھا، لیکن بشا ر الاسد نے انتہائی چابکدستی سے اسے مسلکی رنگ دے دیا۔ خطرہ کو بھانپتے ہوئے  اسد نے سب سے پہلے لبنان کی حزب اللہ کو باور کرایا  اور اسے  اپنی حمایت کیلئے قائل کرلیا۔ حزب اللہ، باغیوں کے خلاف بشار الاسد کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوگئی۔ حالات تب بھی مسلکی تفرقہ بازی تک نہیں پہنچے تھے۔ باغی گروہ شام کے کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ یہاں تیونس اور مصر میں عرب بہار کے تحت پہلے ہی فرمانرواؤں کے تخت پلٹ گئے تھے۔ بشارالاسد کو اب بھی خطرہ محسوس ہورہا تھا کہ دمشق میں بھی یہی نہ ہو، اس لئے اسد نے ایران کو بھی اپنی طرف کھینچنے کی بھرپور کوشش کی اور اس میں کامیاب رہا۔ اس طرح اسد نے صرف اپنی حکومت بچانے کےلئے ایک جمہوری اصلاحات کی مانگ کرنے والی تحریک کو مسلکی رنگ دے دیا۔ ایران، شام اور حزب اللہ کو ایک ساتھ کھڑے ہوتا دیکھ دیگر عرب ممالک کے کان کھڑے ہوگئے۔ انہیں محسوس ہوا کہ ایران خطہ میں اپنا اثر بڑھانے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔ ادھر شام کی ترکی سے ملنے والی سرحدوں پر کردوں نے بھی موقع کو غنیمت جانا اورامریکہ اور مغربی ممالک کی مدد سے ترکی کے خلاف مسلح جدوجہد تیز کردی۔ وہاں ترکی بھی خائف ہوگیا اسے بھی خطرہ محسوس ہونے لگا۔ اس لئے وہ بھی شام کی خانہ جنگی سے محفوظ نہیں رہ پایا۔ جب یہ سب ہورہا تھا تب شام کے پڑوسی ملک عراق میں داعش کافی مضبوط ہوچکے تھے۔ شام کے وہ علاقے جو عراق سے متصل تھے وہاں داعش سرگرم ہوگیا۔

 آزاد شام فوج‘ کو امریکہ اور مغربی ممالک نے بھی مدد دینی شروع کردی، جس سے اس کی جنگی طاقت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا اور وہ شام کی فوج کے دانت کھٹے کرنے لگے۔ ایران کی چونکہ سرحد شام سے نہیں ملتی ہے اسلئے وہ زیادہ مدد نہیں کرپایا۔ بشار الاسد چاروں طرف سے گھِر گیا۔ ایک طرف داعش، ایک طرف باغی( جنہیں امریکہ کی حمایت حاصل ہے)، ایک طرف کردش، غرض کئی طاقتیں  اس کے خلافبرسرِ پیکار ہوگئیں اور ہر محاذ پر لڑنا اس کے بس کی بات نہیں رہی۔

بشار الاسد کے خلاف سرگرم  طاقتوں کا بھی المیہ عجیب تھا۔ اس میں تین فریق ہیں ۔  ۲۰۱۵ء تک شام کی حکومت سمٹ رہی تھی لیکن آخر کاراسد نے روس کو اس میں شامل ہونے کےلئے قائل کرلیا۔ روس کے کودتے ہیں حالات بدلنے لگے۔ باغیوں کا زور ٹوٹنے لگا۔ روس کے بمبار طیاروں اور ہتھیاروں کی فراوانی نے اسد حکومت کو نئی زندگی دے دی۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب ’حلب‘ شہر سمیت جنوبی شام کے کئی شہر باغیوں کے قبضے میں تھے۔ روس کے بمبار طیاروں نے یہاں بے دریغ بمباری کی۔ اس میں فوج اور شہریوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا گیا۔ اسپتال اور اسکولوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ یہ خونریزی اس قدر غیر انسانی تھی کہ باغیوں نے خود ہی شہر چھوڑ دیا۔دسمبر ۲۰۱۶ء میں  شام کی حکومت نے دوبارہ ’حلب‘ پر قبضہ کرلیا۔ پچھلے چھ مہینوں سے شام کی فوج نے مشرقی ’غوطہ‘ کا محاصرہ کررکھا تھا اور اچانک ہی اس نے شہر پر حملہ کردیا۔ اس میں بھی شہریوں اور فوجیوں کے درمیان کو تفریق نہیں کی گئی۔

 شام کا میدانِ کارزار

شام کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ خانہ جنگی دو فریقین کے درمیان نہیں ہے بلکہ  چار گروہ ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں ۔ (۱) شام کی بشار الاسد حکومت (اسے حزب اللہ اور ایران کی حمایت حاصل ہے )، (۲)آزاد شام فوج (اسے امریکہ اور عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے)۔ (۳) داعش  (۴)کردش باغی(انہیں مغربی ممالک کی سرپرستی ہے )۔

 امریکہ چاہتا  ہے  کہ باغی قابض ہوں ، لیکن داعش نہ آئے۔ داعش چاہتا  ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کا تختہ ضرور پلٹے لیکن امریکی کٹھ پتلی حکومت اس پر قبضہ نہ کرسکے۔ ترکی کو اپنی سرحدوں کی سلامتی زیادہ عزیز ہے، اسے نہ داعش سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ امریکہ سے۔ اس کیلئے کردش باغی دردِ سر ہیں ۔کرد باغی شمالی شام پر قبضہ جمائے رکھنے کے خواہاں ہیں ۔

بشار الاسد چاہتا  ہے کہ داعش اور باغی دونوں سے چھٹکارا مل جائے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ  داعش شام میں بشار الاسد کی حکومت کو چوٹ پہنچائے وہیں وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ عراق سے داعش کا بوریا بستر لپٹ جائے۔ اسلئے اس نے عراق میں داعش کے خلاف بڑی کارروائی بھی کی جس کا بالواسطہ طور پر فائدہ بہر حال بشار الاسد کو ہوا۔ شام کے شمالی علاقوں پر قبضہ جمائے کردش باغیوں کے خلاف ترکی نے ’شاخِ زیتون‘ آپریشن شروع کردیا۔ اس کا بھی فائدہ بشار الاسد کو ہے، کیونکہ یہ کردش باغیوں کے ختم ہونے سے شام کے حصہ ہی آزاد ہونگے۔

دم توڑتی  انسانیت

شام کے میدان میں جاری اس جنگ میں اگر کسی کی ہار ہے تو وہ صرف اور صرف انسانیت ہے۔ عام شہری کی بےبسی ناقابل بیان ہے۔ بچے، بوڑھے، خواتین کی لاشیں ڈھوتے لوگ،  ملبوں میں اپنے مکان کو تلاش کرتے مکین، دھوئیں میں اپنے ہی لوگوں کو ڈھونڈتے رشتہ دار، اسپتال میں لاشوں کو پہچاننے کی کوشش کرتے والدین اور اپنے ماں باپ کی لاشوں کےپاس بیٹھ کر ہچکیاں لیتے ہوئے روتے بچے۔ ایسے سب مناظر ہیں جنہیں دیکھ کر کلیجہ پھٹ جائے۔ نہ جانے یہ خونی شام کب ڈھلے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔