یوں ہی کہا تھا اُس نے مجھے تم پاگل ہو

افتخار راغبؔ

یوں ہی کہا تھا اُس نے مجھے تم پاگل ہو

اے میرے دل کیوں ہو گم صم پاگل ہو

۔

بزمِ عشق میں پاسِ سماعت لازم ہے

اُن کے حضور بھی تلخ تکلّم پاگل ہو

۔

 اتنا بھی بے قابو رہنا ٹھیک نہیں

پل میں آنسو پل میں تبسّم پاگل ہو

۔

 یاد کرو کب یاد نہیں کرتے مجھ کو

ہو گئے کیوں مرہونِ توہّم پاگل ہو

۔

 اتنا سارا درد چھپا ہے سینے میں

ہونٹوں پر صد رشک تبسم پاگل ہو

۔

 بحرِ شوق میں یوں ہی اُچھال کے دید کے پھول

برپا کر دیتے ہو تلاطم پاگل ہو

۔

 راغبؔ اور بھی کتنے کام ضروری ہیں

ہر دم اُن کی یادوں میں گم پاگل ہو

تبصرے بند ہیں۔