شبلی ؔکی فارسی غزل

شمس الرحمن فاروقی، الٰہ آباد

        شبلی کئی معنی میں غیر معمولی شخص تھے۔ مثلاً پہلی بات تویہ کہ سرسید کے حلقے سے اٹھنے والے بڑے لوگوں میں شبلی سب سے کم عمر تھے۔ یہی نہیں انہوں نے سب سے کم عمر بھی پائی۔ اور پھر یہ بھی کہ انہوں نے صحیح معنی میں اپنے علمی کارناموں کا آغاز فروری 1883ء؁ میں علی گڑھ پہنچ کر کیا۔ جب ان کی عمر چھبیس برس کی ہوچکی تھی۔ چونکہ وہ ستاون برس کی عمر میں اللہ کو پیارے ہوئے ( پیدائش جون 1857، وفات نومبر 1914ء) اس لئے ان کی حقیقی تصنیفی اور عملی زندگی کی مدت صرف تیس یا اکتیس برس ہے۔ نہ صرف اردو یا دنیائے اسلام بلکہ تمام دنیا میں ایسی مثالیں بہت شاذ ہیں کہ اس قدر کم مدت میں کسی شخص نے اتنے وقیع علمی کام کئے ہوں اور سیاسی، سماجی اور تعلیمی زندگی میں بھی اتنی متعدد اور اتنی متنوع یادگاریں چھوڑ گیا ہو۔

        شبلی کے ساتھ ناانصافیاں بھی بہت ہوئیں۔ مولانا اسلم جیراج پوری نے ’’شعرالعجم‘‘ میں غلطیاں نکالیں سو نکالیں، انھیں یہ بات بھی پسند نہ تھی کہ شبلی کو تصوف سے ذوق نہیں ( جیسا کہ مولانا اسلم صاحب کا خیال تھا )اور ان کا ذہن کلامیوں کی طرف زیادہ مائل تھا۔ ( یہ خیال بھی مولانا اسلم صاحب کا تھا )۔ یہ اعتراف نہ کیا گیا کہ مولانا روم پر تمام دنیا میں پہلی کتاب شبلی نے لکھی، یہ ضرور کہہ دیاگیا کہ رومی کے یہاں بھی شبلی کی دلچسپیاں کلامی مسائل کی طرف زیادہ تھیں۔ مولانا جیراج پوری نے یہ بھی کہا کہ تصوف کے ذوق کے بغیر فارسی شاعری پر کچھ لکھنا غیر ممکن ہے۔

        ’’موازنہ ٔ انیس ؔو دبیرؔ‘‘ لکھ کر شبلی نے مرثیے اور میر انیسؔ کی ادبی حیثیت کو قائم کیا۔ انھوں نے یہاں تک لکھ دیا کہ شعر میں جتنی خوبیاں ممکن ہیں، سب میر انیس کے کلام میں موجود ہیں۔ لیکن مرثیے کو مذہبی وظیفہ سمجھنے والے ہی اس کتاب سے، اور شبلی سے خفا ہوگئے اور دیر تک خفا رہے۔ سرسید سے شبلی کے اختلافات کا ذکر بہت ہوتا ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ سرسید کی رائے ’’الفاروق‘‘ لکھنے کی نہ تھی، بلکہ انہوں نے اس معاملے پر ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں شبلی کی بے حد تعریف کرتے ہوئے پھر بھی یہی لکھا کہ میری دعا ہے کہ مولو ی شبلی ’’الفاروق‘‘ نہ لکھیں۔ لیکن شبلی نے کبھی اس بات کی شکایت نہ کی۔ درست کہ سرسید کے پیش نظر ان کے خیال میں یہ مصلحت تھی کہ ’’الفاروق‘‘ کی تصنیف سے مسلمانوں کے ایک طبقے کو ذہنی آزار پہنچنے کا امکان تھا، لیکن یہ بات بہر حال خیال میں رکھنے کی ہے کہ اس معاملے میں سرسید کی رائے کوئی علمی رائے نہ تھی بلکہ مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی زندگی میں ’’الفاروق‘‘ کی وجہ سے اختلال کے خوف سے تھی۔

        خیر، علمی باتوں میں اختلاف، بلکہ مناقشے ہوتے ہی رہتے ہیں، خواہ وہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوجائیں لیکن شبلی کے ساتھ ایک بڑی زیادتی یہ بھی ہوئی کہ ان کی شاعری، خاص کر فارسی شاعری کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ خود  دار المصنفین نے ایک مدت تک شبلی کے کلیات کلام فارسی کو بازار میں آنے سے روکے رکھا، اور جب اسے شائع بھی کیا تو تدوین، تصحیح اور ترتیب کے نہایت ابتدائی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر شائع کیا۔ شبلی کے زمانے میں ان کے فارسی کلام کی بہت قدرتھی۔ حالی ؔ نے لکھا کہ ’’دستۂ گل‘کو پڑھ کر مجھے اپنا فارسی کلام ہیچ معلوم ہونے لگا۔ ‘‘ بہت سے اہل ایران کے محاورے، مذاق سخن کی پابندی اور ایرانی طرز کی غزل گوئی پر قدرت کے اعتبار سے اہل ایران برابر ان کے زمانے میں کوئی بھی نہ تھا۔ اور شبلی کے فارسی کلام میں روانی تو ایسی ہے کہ قد م قدم پر حافظ کی یاددلاتی ہے۔ لیکن بعد کے زمانوں میں شبلی کا فارسی کلام کمیاب کا کمیاب ہی رہا۔ اور ہماری یونیورسٹیوں میں شاید ہی کوئی شعبۂ فارسی ایسا ہو جہاں شبلی کا کلام پڑھا یا جاتا ہویا ان پر کوئی تحقیقی مقالہ لکھا گیا ہو۔

        شبلی کے فارسی کلام کو نظر انداز کئے جانے کی کئی وجہیں ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو شبلی کے فارسی کلام پر شیخ اکرام اور ان کی طرح کے بعض صاحبان کی خیال آرائیاں ہیں۔ ان خیال آرائیوں کا ماحصل یہ ہے کہ شبلی کی غزل ( جوان کی فارسی شاعری کا بہترین سرمایہ ہے) صرف ’’عطیہ فیضی‘‘ کی صحبتوں اور ممبئی کی رنگین فضاؤں کی مرہونِ منت ہے اور شبلی کے ان جذبات کا رندانہ اور سرشار انہ اظہار ہے جو عطیہ فیضی کے لئے شبلی  کے دل میں تھے۔ ان باتوں میں مبالغہ کیا گیا کہ پڑھنے والے خواہ مخواہ اس گمان میں گرفتا ر ہوگئے کہ شبلی کی غزلوں میں عطیہ فیضی کو محور بناکر رندی اور عشق بازی کا کارخانہ کھولا گیا ہے۔ مثلاً شیخ صاحب نے لکھا کہ جب عطیہ یورپ سے واپس آئیں تو شبلی نے ’’ایساخیر مقدم لکھا جو بادشاہوں کو بھی نصیب نہ ہوا ہوگا۔ ‘‘ اس ’’خیر مقدمی غزل‘‘ کا مطلع تھا   ؎

                پیک فرخندہ قدم مژدہ سرا می آید   کز سفر یار سفرکردۂ مامی آید

        یہ غزل کم و بیش مسلسل ہے ( کم و بیش مسلسل میں نے اس لئے کہا کہ اس کے کم سے کم دو شعروں کا مضمون واجبی عاشقانہ  ہے۔ کسی کے خیر مقدم کی بات نہیں ہے ) اوراس میں ایک ولولہ اور روانی اور جوش ضرور ہے جو شبلی کی غزل گوئی کا خاصہ ہے۔ لیکن اگر ایسا خیر مقدم بادشاہوں کو بھی نہ میسر آسکا ہے تو شیخ اکرام صاحب جن بادشاہوں کی بات کر رہے ہیں وہ ان کے قصبے کے زمینداروں سے زیادہ اوقات نہ رکھتے ہوگے۔

        بہر حال، اس بات کا کوئی ثبوت نہ ملا (اور تھا نہیں تو کہاں سے ملتا)کہ یہ غزل عطیہ کو پیش کی گئی تھی، تو اکرام صاحب نے ایک اور قیاس اس طرح پیش کیا گو یا وہ بالکل حقیقت ہو۔ انھوں نے لکھا کہ ’’شاید یہ خیر مقدم ضرورت سے زیادہ شوخ سمجھا گیا اور مولاناکی مصلحت پسند طبیعت نے گوارا نہ کیا کہ اسے عطیہ تک پہنچائیں۔ اس لئے خیر مقدم کا ایک اور قطعہ لکھا گیا۔ ‘‘اب ذرا لطف دیکھئے۔ اس غزل کو اکرام صاحب نے’’ضرورت سے زیادہ سوخ قرار دیا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سارے اشعار بہت سنبھلے ہوئے اور وضاحت سے قطعاََ عاری ہیں۔ ان میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے یہ گمان بھی گذر سکے کہ یہ عطیہ فیضی، یا کسی اور کے کہیں سے آنے کی خوشی میں لکھے گئے ہیں۔ شبلی کے چھوٹے سے دیوان فارسی میں ایسے ایسے شوخ شعر موجود ہیں کہ ان کے سامنے یہ غزل آمد نامہ کی طرح بے ضر ر معلوم ہوتی ہے۔

        ’’مصلحت پسند طبیعت ‘‘ کافقرہ شیخ صاحب نے صرف اسلئے لکھ دیا ہے کہ انھیں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا کہ یہ اشعار محترمہ فیضی کو پیش کر نے کے ارادے سے لکھے گئے تھے، لہٰذاانھوں نے شبلی کی ’’مصلحت پسندی‘‘کا بہانہ تراش لیا اور یہ بھول گئے کہ خود انھیں کے بیان کے مطابق شبلی کو عطیہ فیضی کے بارے میں اپنے والہانہ تصورات کو بر ملا کر نے میں کوئی باک نہ تھا۔ بقو ل شیخ اکرام، ’’شبلی نے اپنا مفہوم واضح کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ ‘‘ آخری بات یہ کہ اس ’’خیر مقدمی ‘‘ قطعے کا کلیات شبلی میں کوئی وجود نہیں جو بقول شیخ اکرام، اس ’’ضرورت سے زیادہ شوخ ‘‘ غزل کی جگہ شبلی نے لکھا تھا۔ قطعے کا پہلا شعر انھوں نے یوں درج کیا ہے   ؎

                نسیم صبح بیا وبہ مردی پیش آ      پیام بندہ بہ آں خاک آستاں برساں

’’بوئے گل ‘‘ میں یہ شعر درحقیقت ایک غزل کا مطلع ہے اور حسب ذیل ہے   ؎

                نسیم صبح بیا راحتے بجاں برساں پیام بندہ بہ آں خاک آستاں برساں

        شیخ اکرام صاحب کے نقل کردہ شعر کے پہلے مصرعے کے بارے میں مجھے کچھ شک ہے کہ شبلی نے ایسا سست مصرعہ کہا ہو۔ بہر حال جب یہ تحریرقطعہ ہے ہی نہیں، اور نہ اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ شبلی نے ان اشعار کو تہنیت نامے کے طور پر محترمہ عطیہ کو بھیجا تھا، تو اس باب میں مزید گفتگو فضول ہے۔ صرف اتنا کہہ دینا ضروری ہے کہ محمد ریاض کے مرتب کردہ فارسی کلیات شبلی میں کوئی قطعہ کیا، کوئی شعر بھی محترمہ عطیہ فیضی کی مراجعت از یورپ کے موقعے پر خیر مقدم کے طور پر مذکور نہیں ہے۔ عطیہ فیضی کے سفر پر جاتے وقت جو تودیعی قطعہ شبلی نے لکھا تھا اس میں اظہار عشق تو دور رہا، دعا اور پند کے سوا کچھ نہیں اس کے دو شعر ہیں ؎

                می روی سوے پیرس و لندن        وزرہ کعبہ و حجاز آئی

   نکتہ پیراے علم و فن باشی  تابہر پایہ سرفراز آئی

        شیخ محمد اکرام صاحب اپنے موقف کی وکالت کے جوش میں یہ بھی بھول گئے کہ قوت شعر گوئی اور زور کلام بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور اس کے لئے کسی حقیقی یا فرضی معشوق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ورنہ وہ یہ ضرور دیکھ لیتے کہ سفر بیرو نجات سے علی گڑھ واپسی پر شبلی نے جوترکیب بند لکھا تھا اس میں اپنے ہی خیر مقدم میں انھوں نے مدرسۂ علی گڑھ کی زبانی کہلایا تھا   ؎

                قاصدخوش خبر امر وز نو اساز آمد        کز سفر یار سفر کردۂ مابازآمد

        شیخ صاحب یہ تو دیکھ لیتے کہ اس شعر کا دوسرا مصرع کم و بیش بالکل وہی ہے جو بقول ان کے شبلی نے محترمہ عطیہ فیضی کے ’’برتراز شاہابہ‘‘ خیر مقدم میں لکھا تھا۔

                کز سفر یارسفر کردۂ ما می آید

        اپنے مزعومات اور پہلے سے طے کردہ نتائج کی روشنی میں شعر کا مطالعہ کرنے کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ مزید دیکھنا ہوتو شبلی کے ناتمام قصیدۂ بہار یہ کے چند شعر دیکھیں۔ یہ وہی قصیدہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نووارد  ایرانی شاعر تقی الدین سنجر طہرانی نے اس کے چند شعر سن کر چپ چاپ علی گڑھ چھوڑدیا تھا    ؎

        دوش ایں مژدہ بگوش گل و ریحاں آمد             کہ بہارآمدو بسیاربہ ساماں آمد

        ابر گوہر ہمہ افشاند چو گریاں بگذشت      گل ہمہ زر بہ پراگندہ چو خنداں آمد

        لالہ چوں مغ بچگاں چہرہ بر افروخت بہ باغ      سنبل آشقہ تراز طرۂ خوباں آمد

        یہ دونوں کلام اس زمانے کے ہیں جب شبلی کو عطیہ فیضی، یا ان جیسی کسی لائق، فائق، مگر عشوہ طراز، صاحب غنج ِودلال خاتون یا لیڈی کے وجود کی خبر بھی نہ تھی۔ انگریزی پڑھے ہوئے اصحاب بھول جاتے ہیں کہ شعر گوئی کے کچھ اصول، کچھ رسومیات ہوتے ہیں۔ اور وہ شعر کے موضوع پر (اگر کوئی واضح موضوع ہو بھی ) ہمیشہ حاوی ہوتے ہیں۔ مغربی شاعری بھی مدتوں اسی اصول پر کاربند رہی۔ شیخ صاحب کے زمانے میں مغربی اصول شعر بدل گئے تھے۔ مگر شیخ صاحب کو لازم تھا کہ فارسی شاعری پر وہی اصول نافذ کر تے جو فارسی میں رائج تھے۔ انھوں نے مغربی اصولِ تحقیق کا بھی احترام نہ کیا۔ شبلی کے کچھ عشقیہ شعرعطیہ فیضی سے ملاقات کے پہلے ہیں اور انھوں نے ان اشعار کو بھی عطئیہ قرار دے ڈالا۔

        مختصر یہ کہ شیخ محمد اکرام، محمد امین زبیری، وغیرہ کے پر جوش بیانات کا نتیجہ یہ ہوا کہ عام پڑھنے والوں نے سمجھ لیا کہ شبلی کی فارسی غزلوں میں رندانہ جوش و سر مستی اور رنگینی اور بقول شیخ صاحب شبلی کے ’’خواب ہائے رنگین ‘‘کے بیان اور ’’ ماہ تمام کی مد ح سرائی کے گیت ‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری بات یہ کہ خود شبلی بھی بڑی حد تک اس تعصب کا شکار ہوئے بغیر نہ رہ سکے جو انھیں ہندوستانی فارسی گویوں اور اس طرز کے فارسی گویوں سے تھا۔ جسے بعد میں ’’سبک ہندی ‘‘سے تعبیر کیا گیا۔ خود شبلی زمانے میں لوگوں نے شکایت کی کہ’’ شعرا لعجم‘‘میں غالبؔاور بیدلؔاور غنی ؔکاشمیری ناصر علی سر ہندی وغیرہ کاذکر تک نہیں۔ غالب کی فارسی کو وہ مستند نہ سمجھتے تھے۔

امیر خسرو کے بے حد معتقد ہونیکے با وجود انھوں نے اشارۃًیہ کہہ دینے سے گریز نہ کیا کہ امیر موصوف نے کئی ایسے محاورات باندھے ہیں جن کی صحت میں اہل ایران کو شک ہے۔

        ملحوظ رہے کہ ہندوستانی فارسی گویوں کے خلاف تعصب اور منفی تاثر کو رائج کر نے میں غالب کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ شبلی نے شعوری یا غیر شعوری طور پر اسی تعصب کو اختیار کیا۔ اس کانتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ غالب صدی جشن کی ہماہمی کے پہلے غالب کے فارسی کلام کی کچھ خاص قدر نہ تھی اور اہل مکتب  اور اہل ایران اب بھی غالب کی فارسی اور ان کے طرز شعر گوئی سے مطمئن نہیں ہیں۔ پھر شبلی کے بارے میں یہ خیال رائج ہونا کچھ غلط نہ تھا کہ جب غالب جیسے شاعر کی اوقات فارسی میں بہت نہیں تو شبلی کیا ان سے بہتر ہوں گے؟ لوگوں نے خیال کیا کہ شبلی کی نثری تصنیفات تو بہر حال ادبیات، اسلامیات، تاریخ، کلام تعلیم، اور سیاسیات کے ایوانوں کی لعل و گہر تھیں، ان کی شاعری بلند رتبہ نہ ہوئی تو کیا ہوا؟

        ہم دیکھ چکے ہیں کہ بطور شاعر، شبلی کو نقصان اس وجہ سے بھی پہنچا کہ ان کی شاعری کو ان کے سوانح حیات کا ایک حصہ قرار دے لیا گیا اور ایک مفروضہ قائم کیا گیا کہ شبلی کو عطیہ فیضی سے کوئی عشقیہ قسم کا لگاؤ تھا اور ان کی فارسی غزلیں اسی لگاؤ کے اظہار میں لکھی گئی ہیں۔ سوانح کو شاعری سے مربوط کرنے کی بدعت انگریزی تعلیم کی بدولت ہمارے یہاں عام ہوئی اور شبلی خود بھی ایک حد تک اس کے مرتکب ہوئے تھے۔ اب ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا۔ پھر شبلی نے ان غزلوں میں جگہ جگہ ممبئی کا ذکر کرے ’’ سوانحی تنقید نگاری‘‘ کے مردان میدان کو اور بھی کھیل کھیلنے کا موقع فراہم کردیا۔ پوچھنے کی بات یہ تھی کہ اگر ہمیں شبلی اور عطیہ فیضی کے بارے میں کچھ نہ معلوم ہوتا تو ہم ان کی فارسی غزلوں کو شاعری کی حیثیت سے کس رتبے کا حامل سمجھتے ؟ اگر عطیہ فیضی کی جھالر اور گوٹے کے بغیر یہ کلام اعلیٰ درجے کی شاعری سمجھے جانے کے قابل ہے تو بے وجہ ایک غیر ضروری بات کو بحث میں داخل کرکے ادب اور نقد ادب دونوں کا کیوں خون کیا جائے ؟

        شبلی کی فارسی غزلوں کو داخلی کیفیات اور عشقیہ جذبات کا غیر معمولی جشن اور اپنے پیش روؤں کی شاعری پر جگہ جگہ تخلیقی حاشیہ آرائی کہنا چاہیئے۔ زبان کی شگفتگی اور روانی کے لحاظ سے اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر یہ غزلیں اہل ایران تک پہنچی ہوتیں تو انھیں تسلیم کرنا پڑتا کہ غالب اور انیسوی صدی کے دیگر فارسی شعرا ء کے برخلاف اس شاعر کی زبان پر کہیں بھی حرف نہیں رکھا جاسکتا کہ یہ خلاف محاورہ ہے، یا طرز ایرانیاں سے مختلف ہے، یادرجہ ٔ  فصاحت سے گری ہوئی ہے۔ لوگ شیخ علی حزیں کا نام لیتے ہیں لیکن اصلیت یہ ہے کہ ان غزلوں کے ہم نوابابافغانی اورغزالی مشہدی ہیں اور ان کے فیضان کا سرچشمہ حافظ ہیں۔ یہ بات شیخ اکرام وغیرہ سے قصداً یا اتفاقاً نظر انداز ہوگئی کہ یہ غزلیں تھوڑی سی ہیں لیکن اس خرمن قلیل میں بھی کم سے کم بارہ غزلیں حافظ کی زمینوں میں ہیں اور دوسرے شعراء کی زمینوں میں غزلوں سے یہ تعدد بہت زیادہ ہے۔

        یہ غزلیں اکثر مسلسل ہیں، یا ہر غزل کے تمام شعروں میں ایک ہی طرح کے مضامین بیان کئے گئے ہیں، اس لئے تسلسل کا احساس ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے پورے کلیات غزل میں بھی تسلسل، بلکہ تکرار نمایاں ہے۔ اس بنا پر بھی سرسری پڑھنے والے کو گمان گذر تا ہے کہ ان غزلوں میں کچھ حقیقی معاملات عشق کی لائی ہوئی سر مستی کا نفوذ بیشک ہونا چاہیئے۔ لیکن اگر ایسا ہے بھی، تو یہ نفوذ و وفور کہیں بھی گراں نہیں گذرتا۔ مضامین کی تنگی کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ صنف غزل کی مسلسل قبولیت اس کی قوت کے باعث ہے اور غزل کی قوت اس بات میں ہے کہ اس میں مضامین عشقیہ کے علاوہ اور کبھی کبھی ان کے ساتھ ساتھ، فکر اور احساس خیال آرائی، اور سیاست سے لیکر تصوف، سب کا گذر ہے۔ اور اس وسعت کا نہ ہونا شبلی کی غزلوں کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ مگر ہمیں ملحوظ رکھنا چاہیئے کہ خود شبلی کی نظر میں غزل کی شاعری میں پیچیدگیء خیال اور تجریدی تصورات کی کوئی جگہ نہیں جن سے سبک ہندی کی شاعری عبارت ہے اور جن کے باعث فارسی غزل میں تنوع اور وسعت پیدا ہوئی۔ لہٰذا شبلی نے اگر اپنی غزل کو مسائل عشق تک محدود رکھا تو اپنے اصول کی پابندی میں ایسا کیا۔ اور جیسا کہ ہم دیکھیں گے، شبلی کو پیچیدہ اور تجرباتی مضامین نظم کرنے پر بھی قدرت تھی۔

        فنی اعتبار سے ان غزلوں میں اکثر وہ صفت نظر آتی ہے شبلی جس کے بہت مداح ہیں، یعنی چند لفظوں میں لمبا افسانہ بیان کر دینا، یعنی بہت کم الفاظ میں ایک پورا واقعہ نظم کر دینا۔ مثال کے طور پر شبلی کا شعر۔

         ؎گوئیادشمن ہم از ذوقش نصیبے بردہ است      بادئہ وصلش چشیدم از مذاق افتادہ بود

        اب اس کی تفصیل ملا حظہ ہو:غیر اس کا اہل نہیں کہ اسے معشوق کے وصل کا حقدار سمجھا جائے اور ہماری تو یہ تقدیر ہی نہیں کہ معشوق کے وصل سے بہرہ ور ہو سکیں۔ لیکن کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ مجھے اس کے وصل کی شراب ذرا سی چکھنے کا موقع مل گیا۔ غیروں نے میرے معشوق کی کم آمیز ی اور ہما شا کی ہمت افزائی نہ کرنے سے تنگ آکر، یا اکتا کر، معشوق کے چاروں طرف چکر لگانا چھوڑ دیا۔ پھر ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اغیارے نے اپنے اپنے (پست )ذوق کے مطابق کہیں اور سے، کسی اور کی شراب وصل حاصل کر لی۔ اس طرح معشوق کی شراب وصل اس شراب جیسی ہو گئی جس کا مذاق لوگوں کو نہ رہ گیا ہو۔ اب اور چونکہ سچا عاشق میرے سوا کوئی نہ تھا، اس لئے مجھے معشوق کے وصل کا کچھ مزہ چکھنے کی کامیابی حاصل ہو گئی۔

        یہ شعر ایک طرح سے شبلی کے عام طرز کے خلاف بھی جاتا ہے، کیونکہ اس میں مضمون آفرینی کا رنگ ہے۔ صرف کیفیت آفرینی یا معاملہ گوئی کا انداز نہیں۔ لیکن شبلی جیسے بڑے شاعر کے لئے یہ خیال کر نا کہ وہ تجریدی مضامین یا دور کے مضامین نکالنے میں بند تھے، بڑی زیادتی ہوگی۔ ان کا مذاق بے شک معاملہ بندی اور عاشقانہ اور شوخ مضامین کے بے حدموافق تھا، لیکن حسب ذیل چند شعر دیکھئے  ؎

                بہ مسیحانفسے آں لب اعجاز نماے مردہ رازندہ ہمی کر دو بد عویٰ می کرد

        مسیحا نفسی حضرت عیسیٰ کا معجزہ تھا، لیکن معشوق کے ہونٹوں میں یہ اعجاز ہے کہ وہ بے کچھ کہے مردہ کو زندہ کر تے ہیں اور کھلے بندوں، اس دعوے کے ساتھ، کہ ہم اسے زندہ کر دیں گے۔ ’’نفس ‘‘ کے ساتھ ’’دعویٰ ‘‘ کس قدر مناسب ہے کہ ’’نفس‘‘کے ایک معنی ’’کلام‘‘ کے بھی ہیں اور کچھ بولنے کے لئے سانس بھی لینی پڑتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ معشوق کے ہونٹوں کی صفات ’’جاں بخش ‘‘ اور ’’جاں پر ور ‘‘ بھی ہیں۔ لہٰذا وہاں تو مسیحا نفسی، یعنی کچھ بولنے کی ضرورت تھی، یہاں صرف معشوق کا ایک بوسہ ہی، بلکہ اس کاوجود ہی کافی ہے۔ بالکل نیا مضمون ہے، اگر چہ عام خیال بندوں کی طرح تجریدی نہیں ہے۔ تجریدی مضمون پر مبنی شعر دیکھئے  ؎

        پدید نیست میا نش مگر کہ شاعرضع               زمصر ع قد اوحرف از میاں انداخت

        معشوق کی کمر کو بال کہتے ہیں اور اسی حساب سے یہ بھی فرض کرتے ہیں کہ معشوق کی کمر میں ایک بال ہے۔ معشوق کے قد کو موزوں کہتے ہیں اور اسی اعتبار سے اسے ’’ مصرع‘‘ بھی کہتے ہیں کہ مصرعے کی صفت موزونی ہے۔ اب اگر قدمعشوق ایک مصرع ہے تو مصرعے سے کوئی حرف گرایا بھی جا سکتا ہے۔ چنانچہ یہ ہوا کہ شاعر صنع یعنی خداے صناع (خدا کو شاعر صناع کہنا کس قدر بر جستہ ہے) نے قد کے مصرع موزوں سے ایک حرف گرا دیا تو وہاں ایک جگہ سی پیدا ہوگئی، کھانچا سا پڑ گیا۔ بس وہی معشوق کی کمر  ہے اسی با عث کمر کا وجود ظاہر بھی ہے کہ مصرع قد یا ر میں سکتہ پڑ گیا ہے۔ مصرعے میں سکتہ ہو تو وہ فوراََ ظاہر ہو جا تا ہے۔ دوسرا لطف یہ کہ ’’ میاں ‘‘ کے معنی ’’درمیان ‘‘  بھی ہیں اور ’’کمر ‘‘ بھی ہیں۔ ’’میاں ‘‘ سے ایک حرف گرا دیا، یعنی مصرعے سے ایک حرف گرا دیا۔ اگر ’’میان ؍میاں ‘‘ سے میم گرادیں تو لفظ ’’ یان ‘‘ بچتا ہے، جس کے ایک معنی ہیں وہ کچھ جو صوفیہ عالم غیب میں مشاہدہ کر تے ہیں۔ اس طرح ’’میان معشوق ‘‘ کا دکھائی دینا ایک اور طرح سے ثابت ہو گیا۔

        ایک اور پہلو سے دیکھئے تو یہ معنی ہیں کہ معشوق کی کمر دکھائی نہیں دیتی، ایسا لگتا ہے جیسے شاعر صنع نے قد کے مصرع موزوں میں سے ایک گرا دیا ہے۔ کنا یہ یہ ہے کہ ایک حرف گرا دینے کے با وجود مصرع قد یا ر موزوں رہا۔

        موے کمر کے مضمون پر لفظ ’’ صنع ‘‘ کے ساتھ ولی نے بھی بہت عمدہ شعر کہا ہے۔ یہ شعر کچھ تو لطف کی خاطر نقل کر تاہوں، کچھ اس خاطر کہ آپ کو تقابل کا لطف حاصل ہو، اور کچھ اس خاطر بھی کہ لفظ کو مضمون بھی کہتے ہیں ؎

        لکھا ہے صفحۂ ایجاد پر مصور صنع      قلم سوں موے کمر کے نگار نا زوا دا

موے کمر کے مضمون پر ایک اور شعر میں شبلی کہتے ہیں ؎

        نیست فرقے زمیان تو تن زار مرا وربود نیز ہمیں یک سر موخوہد بود

        اگر دو چیزوں میں فرق بالکل نہ ہوتو کہتے ہیں کہ ان میں سر مو فرق نہیں ہے۔ معشوق کی کمر کو بال کی طرح باریک کہتے ہیں۔ متکلم اس قدر لا غر ہو گیا ہے کہ معشوق کی کمر اور متکلم میں فرق اگر ہوگا تو بال کی نوک کے برا بر ہو گا۔ چونکہ معشوق کی کمر خود معد وم ہے، لہٰذا متکلم کا بھی کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ ’’فرق ‘‘کے ایک معنی ’’سر ‘‘ بھی ہیں، اور یہاں ’’سر‘‘ بمعنی ’’نوک ‘‘ ہے، لیکن ’’سر‘‘ کے معنی فرق یعنی Head بھی ہیں۔ ’’مو‘‘ یعنی’’بال‘‘ کے ساتھ یہ سب مناسبتیں بے حد دلکش ہیں۔ عشق کے درد وکر ب کی کیفیت پر ایک اردو شعر میر کا سنئے اور عشق کی لذت کی کیفیت پر شبلی کا فارسی شعر سنئے۔ معشوق کی طفولیت کا مضمون دونوں میں مشترک ہے    ؎

        لڑکا ہی تھا نہ قاتل ناکردہ خوں ہنوز               کپڑے گلے کے سارے مرے خوں میں بھر چلا

شبلی کا شعر ہے    ؎

        غلط ساز د شمار بوسہ و آں گہ زسر گیرد         نگہ دارد خداراچشم بد آں طفل ناداں را

        گلے کے کپڑوں کا خون میں بھر جانا محاکاتی کیفیت اور درد کی کیفیت بھی رکھتا ہے اور معشوق کے ناتجربہ کار ہونے کا مکمل ثبوت بھی ہے۔ یہ باتیں مقدر چھوڑدی ہیں کہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے ہاتھ کانپ گیا، یا ہاتھ سیدھا ہوا نہ تھا، یا خون دیکھا تو گھبرا کر جلدی سے ہاتھ کھینچ لیا، وغیرہ۔ یہ میر کا خاص انداز ہے کہ بظاہر ذرا سی بات کہتے ہیں لیکن دراصل اس میں معنی کی کثرت ہوتی ہے۔ شبلی کے شعر میں لذت اور ہوس کا غلبہ اس قدر ہے کہ میر کو بھی نہ حاصل ہوا ہوگا۔ دونوں شعر اپنی اپنی کیفیت میں لاجواب ہیں۔ یہ بھی خیال میں رکھئے کہ میر کے یہاں عاشق کاگریبان خون سے تر ہوجاتا ہے اور اگر چہ وہ بھی ایک طرح کی کامیابی ہے لیکن شبلی کے یہاں عاشق کے مزے ہی مزے ہیں۔

شبلی کے بعض شوخ شعر بہت مشہور ہیں اور بجا طور پر مشہور ہیں۔ مثلاً   ؎

        عاشق آں نیست کہ ہنگام تقاضائے وصال  مہرش از بوسہ زنی برلب و خاموش آید

ایسے موقعے پر عاشق کی خاموشی پر میر زاولی کا یہ لاجواب شعر سنئے تو دونوں شاعروں کے مزاج کا فرق معلوم ہوجائے گا میرزا ولی   ؎

                لب برلب من نہادہ می گفت          جان تو بہ لب رسیدہ خاموش

معشوق دونوں جگہ شوخ ہیں، لیکن شبلی کا عاشق ضدی اور’’ دامن صبر از دست دادہ‘‘ اور کچھ کر گذرنے پر آمادہ ہے۔ میر زاولی کا عاشق صابر اور غیر مبرم ہے۔ میرزاولی کے یہاں کسی داخلی بادۂ سرجوش کی بے قراری۔ وقوعہ گوئی، یعنی معاملہ بندی میں شبلی کو خاص کمال حاصل ہے۔ اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شبلی کے یہاں عاشق بیحد تجربہ کار ہے اور رندی کے تمام منازل کو خوب چھان چکا ہے۔ شبلی اس میدان کے نئے نئے مضمون پیدا کرنے میں اسلئے بھی ماہر ہیں کہ ان کے یہاں حزن و یاس کی گنجائش نہیں۔ ان کے عاشق کا تخیل اس قدر منھ ور ہے کہ اسے کسی چیز کی کمی نہیں۔ زمانۂ ہجر میں وہ بے حاصل درد سہتا بھی ہے تو ایسے کہ اس میں بھی لذت کا پہلو نکل آتا ہے۔ اس مضمون پر شبلی کا لاجواب شعر سنئے    ؎

        بے حاصلی نگر کہ بہ ایں دوری رخش            صد جائے بہربوسہ نشاں کردہ ایم ما

        لیکن اس وقت میں کسی اور مضمون پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں یعنی شب وصل کے معاملات کا لذت افروز بیان جس میں شبلی کے عاشق کو اکثر وں پرفوقیت حاصل ہے   ؎

        ہیچ نقشے بمراد دل عاشق نہ نشست                مگر آں نقش کہ از بوسہ بہ لب برزدہ ای

        بہ بوسہ دل نوازی کرداما            ازیں خوب ترکارے تواں کرد

        بوسہ ہا برلب نوشیں زدہ ام ازپئے ہم               طوطی گرسنہ ام برشکرستاں زدہ ام

        از تو ناید گرہ بند قباواکردن         اگر ایں عقدہ بمن بازسپاری چہ شود

        رسم وآئین ہم آغوشی نمی دانم کہ چیست           دس گستاخ انچہ فرموداست من آں کردہ ام

        من فداے بت شوخے کہ بہ ہنگام وصال           بمن آموخت خود آئین ہم آغوشی را

اس آخری شعر کے سامنے طالب آملی کا ایک شعر اور خسرو کی ایک رباعی رکھ کر دیکھئے، طالب کا شعر ہے  ؎

        بہ سوئے خویشتن از لطف گستاخانہ کش وستم            کہ من بسیار محجوبم ہم آغوشی نمی دانم

        ظاہر ہے کہ یہ دو شاعروں کے مزاجوں کا فرق ہے۔ شبلی کے یہاں معشوق کی تصویر عموماً عاشق جیسی ہے۔ دونوں میں ایک ہم آہنگی ہے اور بے تکلفی سی ہے۔ صدمۂ ہجر اں بھی جسے زائل نہیں کرتا۔ اب خسروکی رباعی ملاحظہ ہو   ؎

        ہرروز بہ غمزہ قصدجانم چہ کنی   سرگشتہ ورسوائے جہانم چہ کنی

        یک شب اگرت مست بیانم تنہا       دانم چہ کنم اگر نہ دانم چہ کنی

        خسرو کے یہاں شوخی شبلی سے بھی زیادہ ہے۔ رباعی کے اول دو مصرعے تو محض بہانہ ہیں۔ معشوق کو بھی خوب معلوم ہے کہ میں عاشق کی جان کے درپے ہوں تو اپنے حسن کے باعث ہوں۔ اگر عاشق سر گشتہ ورسوا ہے تو اپنی حرکتوں کی وجہ سے۔ معشوق الہڑ اور نا آزمودہ کار ہے ورنہ اس کے بھی دل میں عاشق کے لئے لگن ہے۔ اصل معاملہ تو رباعی کے اگلے دو مصرعوں میں ہے۔ اس کے آگے تفصیل کی ضرورت نہیں۔ یہ کہنا کافی ہے کہ خسرو کے عاشق کی بے حجابانہ دعوت کے آگے طالب آملی اور خود شبلی واقعی محجوب معلوم ہوتے ہیں۔ ممکن ہے شبلی نے حسب ذیل شعر کے لئے فیضان خسرو کی رباعی سے پایا ہو   ؎

        کام دل خواہی ازاں نو بر خود کردہ بہ شرم        باش تا یک دوسہ ساغر زدہ مد ہوش آید

        لیکن شبلی کے شعرمیں صرف ہو سنا کی ہے، معاملات عشق کی پیچید گیاں نہیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان غزلوں میں شبلی نے اپنی شخصیت کے جس پہلو کا اظہار کیا ہے اس میں شوخی اور معاملہ بندی تو ہے لیکن محزونی اور گمبھیرتا نہیں ہے۔ اس نکتے پر چند باتیں بعد میں عرض کروں گا۔ امیر خسرو اور طالب آملی اور شبلی کے شعروں کا ذکر مجھے اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ تمامشّاق شعرا کی طرح شبلی نے بھی سخنو ران پیشیں کے مضامین کا جواب جگہ جگہ لکھا ہے، یا ان کے شعروں پر شعر کہے ہیں۔ آ ج کل ہمارا معیار و مذاق بہت کچھ بدل گیا ہے، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ شاعری کی نکتہ آفرینی اور اس کے تخیل کی بلندی یا وسعت اس وقت پوری طرح کھلتی ہے جب وہ گذشتگا ں کے سراغ میں نکلتا ہے۔ شبلی نے حافظ سعدی، خسرو وغیرہ، یہاں تک کہ غالب اور میر کے شعروں پر کہے ہیں۔ چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔ شبلی   ؎

        شب ہاے ہجر دیدہ ام وبا ز زندہ ام گو یا کہ کار مرگ و قضار نظام نیست

اب شکیبی صفا ہانی کو سنئے   ؎

        ایام ہجر را گذرا اندیم و زندہ ایم     مارا زسخت جانی خود ایں گماں نہ بود

        اس انتہائی درون بیں، طباعی سے بھر پور اور ایک حد تک عاشق کی خوش دلی کے آئینہ دار شعر کے بعد آنند رام مخلص کو سنئے کہ ان کے شعر میں کس قدر رنج اور خود سے نفرت اور انسان اور انسانی عشق کی کم و قعتی احساس بھرا ہوا ہے  ؎

        گذشتی ار نظر و بے تو زندہ ایم            زشرم آب نہ گشیتیم خاک بر سرما

        غالب کے حسب ذیل شعر میں اخلاص کی کچھ کمی سی لگتی ہے، کچھ بناوٹ سی معلوم ہوتی ہے، لیکن شعر کی بر جستگی میں کلام نہیں۔ غالب کا شعر ملا حظہ ہو    ؎

        زیستم بے تووزیں ننگ نہ کشتم خودرا     جاں فدا ے تو میا از تو حیا می آید

غالب کا شعر بالکل مکمل ہے اور حسب معمول انھوں نے چند لفظوں میں ایک لمبا افسانہ کہہ دیا ہے۔ شکیبی صفا ہانی نے خود پر ہنس کر ایک نئی اور پر لطف بات پیدا کی ہے۔ لیکن شبلی کے بظاہرے سادہ سے شعر میں کئی نکات ہیں۔ اول تو یہ کہ انھوں کائنات کے نظم و نسق کو معرض بحث میں لے کر شعر کو تمام انسانی صورت حال سے منسلک کر دیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ شبلی نے عاشق کی تقدیر اور عاشق کی بپتا کو موت اور حیات کے منا ظر میں سے ایک منظر قرار دیا ہے۔ یعنی عاشق پر جو کچھ گذر تی ہے اسے صر ف عاشق کی ذاتی واردات نہیں، بلکہ حیات انسانی کے مظاہر میں شمار کر نا چاہئیے۔ تیسری بات یہ کہ شبلی کے شعر میں تشکیک ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے یہاں تلخی بھی ہے جس نے شعر کو نئی شان بخش دی ہے۔

        میں نے اوپر کہا ہے کہ شبلی کے یہاں مضامین کی وسعت نہیں ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ یہ دانستہ ہے، اور اس لئے کہ وہ زندگی میں ایک بار حافظ کی زبان سے کہنا چاہتے تھے کہ  ؎

        ساغر مے بر کفم نہ تا زسر         بر کشم ایں دلق ارزق فام را

        داخلی زندگی میں اس وقتی تبدیلی کی وجہ تھی، مجھے اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اور جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا ہوں، شاعر کے کلام کو اس کی سوانح عمری سے منسلک کرنا، یا س کے کلام کو اس کی زندگی کے جھوٹے سچے واقعات سے جوڑنا فعل عبث ہے کیونکہ اس طریق کار سے ہماری شعر فہمی کی قوت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور شاعر کے کلام کی تعبیر و تحسین کے عمل میں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، الا ماشاء اللہ شبلی نے اپنے مضامین میں وسعت اختیار کی ہوتی تو وہ اور بھی بڑے شاعر ہوتے۔ انھوں نے ایسا کیوں نہ کیا، یہ سوال پوچھنے کا ہمیں حق بھی نہیں ہے۔ زہدو تقویٰ اور تمکین اور جبہ ودستار کی زندگی سے وہ اپنی واقعی زندگی میں تنگ نہ آئے، لیکن بظاہر کہیں اپنے وجود کی گہرائی میں انھیں کچھ اور کہنے کی تمنا تھی۔ میرا خیال ہے یہی وجہ ہے کہ زہد اور ظاہر پرستی پر ان کے مختصر کلام میں جتنے طنز ہیں اور جتنے شوخ طنز ہیں اتنے حافظ کے کلام  میں بہ تناسب نہیں نظر آتے۔ شبلی کے یہ چند شعر ادھر ادھر سے نقل کرتا ہوں ؎

        از ما بگیر درس فنون ریا کہ ما            عمر ے دراز زاہد و مستور بودہ ایم

        رہ وآئین تقویٰ نیزبدنیست            اگر کارے نہ باشدمی تواں کرد

        می خواہد ایں کہ دررہ رند ی نہد قدم               زاہد کہ ہم بہ شیوۂ تقویٰ تمام نیست

میں سمجھتاہوں ان شعروں کی طنازی کے برابر رکھنے کے لئے شبلی ہی کے یہ چند شعر پڑھ لئے جائیں تو بہت مناسب ہوگا   ؎

        دل دراداے طاعت حق حیلہ جو نہ بود     عذرم بنہ کہ بادہ بقدر وضونہ ماند

ذرا غالب کو بھی دیکھ لیں۔ کچھ عجب نہیں کہ غالب کا یہ شعرشبلی کی نظر سے گذرا ہو   ؎

        خجلت نگر کہ در حسناتم نہ یافتند جزروزۂ درست بہ صہبا کشودۂ

مجھے تو شبلی کا شعر غالب سے بوجوہ بڑھتا ہوا معلوم ہوتا ہے، مگر اس وقت مزید تفصیل کا موقع نہیں۔ شبلی کے تین شعر اور سن لیں ؎

        دودل بودن دریں رہ سخت تر عیبے ست سالک را        خجل ہستم زکفر خودکہ دارد بوے ایماں ہم

        دردورہ چشم بادہ گسارتو مے فروش       خوں می خورد کہ مے کدہ را آبرو نہ ماند

        خلیل آہنگ طرح کعبۂ اسلامیاں دارد        بدست آوردہ ام من نیز خاک آستانے را

رندی اور بیباکی اور سرشاری  اور اپنی لذت عشق کی دنیا میں گم شاعر کو پھربھی زیاں اور رائیگانی کا احساس ہوتا تھا۔ سعدی کا مطلع ہے   ؎

        افسوس برآں دیدہ کہ روے تو نہ دیداست   یا دیدہ و بعد از توبہ روے نگر ید است

زندگی ہمیں کس کس طرح ضائع کرتی ہے۔ اس المیے کا احساس اگر سعدی کو تھا تو شبلی کو بھی تھا۔ شبلی کہتے ہیں ؎

        ہر کہ یک بار نظر بررخ خوب تو کشاد           بایدش دیدہ زدیدار جہاں باز گرفت

        ’’بایدش‘‘ میں محزونی اور خودسے ناراضگی کے جو اشارے ہیں وہ ہم سب پرظاہر ہیں۔ ایسا کرنا چاہئے تھا مگر کرنہ سکے، خواہ وہ علائق و مکروہات دنیا کا دباؤ تھا یا ہمارے عشق میں کوئی خامی تھی لیکن ہم سے وہ نہ ہوا جو ہمیں سے ہوسکتا تھا۔ محزونی کی یہ پرچھائیاں شبلی کے کلام پر گذر نہیں جاتیں، ٹہر جاتی ہیں، کچھ ہی دیر کے لئے سہی   ؎   ساغر زند گیم حیف کہ جزدرد نہ داشت    جز ہمیں جرعۂ آخر کہ بہ پایاں زدہ ام

        آں شوخ رابہ من سرآں پرس وجونہ ماند   یعنی گل مراد مرارنگ و بونہ ماند

        اے معتکف کعبہ ایں جلوہ فروزی چیست  من ہم بہ سرکوئے گہ گاہ گذردارم

اور یہ شعر تو ساری زندگی ساتھ رہنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ایسا شعر تو کلیم ہمدانی کے بھی دیوان میں سنگ و رنگ میں شاہوار ہوتا   ؎        یا جگر کاوی آں نشر مژگاں کم شد         یاکہ خودزخم مرالذت آزارنہ ماند

        معشوق کے جسم کو جان کہنے کا مضمون فردوسی سے لے کر غالب تک بہت سے بڑے شعراء نے باندھا ہے۔ ہمیں حیرت ہو سکتی تھی کہ شبلی نے اسے کیوں نہ باندھا، یہ تو خاص ان کے مذاق کی بات تھی۔ لیکن شبلی نے اسے اپنے حق میں حرف آخر کہنے کے لئے چھوڑ رکھا تھا۔ اور یہ گفتگو اسی شعر پر ختم ہوتو مناسب ہوگا   ؎

        شبلی ایں فن نہ بہ ایں شیوہ و آئیں بوداست پیش ازیں کا لبدے بود کہ من جاں کردم

(اس مضمون کو رقم کرنے میں شبلی کے فارسی کلام پر متعدد کتب ہائے مفید سے استفادہ حاصل کیا گیا ہے۔ )

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔