شجرکاری اور اسلامی تعلیمات

مولاناسید احمد ومیض ندوی

روئے زمین پر تمام جانداروں اور بالخصوص انسانی زندگی کا انحصار جن باتوں پر ہے ان میں ایک آلودگی سے پاک ماحول ہے ویسے آب وہوا اور ماحول کو آلودہ کرنے والی چیزیں ہر زمانہ میں رہی ہیں، خود حضرت انسان سے نکلنے والا فضلہ گھریلو کوڑا کرکٹ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتا ہے، لیکن جدید صنعتی انقلاب نے جہاں مختلف شعبہ ہائے حیات میں انسان کو بام عروج پر پہونچا دیا وہیں آب وہوا اور ماحول کو آلودہ کرنے والی نت نئی شکلیں پیدا کردیں، فیکٹریوں اور مختلف کارخانوں سے خارج ہونے والے فضلات اور موٹر گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں نے ماحولیاتی آلودگی میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے، بڑے شہروں میں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات کے سبب فضاہمیشہ گرد آلود رہتی ہے، یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے کہ ہندوستان اور تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں لوگ کھانا کم اور غبار زیادہ کھاتے ہیں، موجودہ دور میں کثرتِ امراض کا ایک اہم سبب ماحولیاتی آلودگی ہے، آلودہ ماحول پراگندہ آب وہوا اور بڑھتی ہوئی کثافت عصر حاضر کا ایک گم بھیر مسئلہ بنتی جارہی ہے، چنانچہ اس مسئلے کے حل کے لئے دنیا کے بڑے ممالک عالمی سیمنار منعقد کرتے ہیں، نیز عمومی بیدار شعوری کے لئے دنیا بھر میں عالمی یوم تحفظ ماحولیات منایا جاتا ہے۔

یہ قدرت کا عجیب نظام ہے کہ اس کائنات میں جہاں ماحول کوآلودہ کرنے والے قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں وہیں رب کائنات نے ماحولیاتی کثافت کو جذب کرنے والے ذرائع بھی پیدا کئے، زمین میں اللہ نے ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ساری غلاظتوں کو اپنے سینہ میں دفن کرلیتی ہے، مرنے والے انسان اور دیگر جانور اگر زمین میں دفن نہ کئے جائیں تو سارا ماحول متعفن ہوکر رہا جائے گا، شہروں میں کوڑا کرکٹ کی شکل میں ٹنوں منوں غلاظت زمین اپنے سینہ میں تحلیل کرلیتی ہے، سمندر کا حیرت انگیزنظام ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے، ہر دن سمندر میں بے شمار حیوانات مرتے ہیں اور ہزاروں جانور غلاظت کرتے ہیں پھر کارخانوں کے آلودہ پانی کا رخ بھی سمندروں کی طرف کیا جاتا ہے، سمندر کا کھارا پانی ان ساری چیزوں کو تحلیل کرکے ماحولیاتی تحفظ کا سبب بنتا ہے جو اللہ ایک بہت بڑی نعمت ہے، ان سارے قدرتی ذرائع کے باوجود اس وقت ماحولیاتی کثافت پوری دنیا کے لئے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے، جدید طرز زندگی کے سبب ہر گزرتے دن کے ساتھ آلودگی میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، ماحولیاتی آلودکی اس وقت ایک عالمگیر مسئلہ بن چکی ہے، قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرنے والے دین اسلام نے جہاں موجودہ دور کے دیگر مسائل کا حل پیش کیا ہے وہیں اس کی تعلیمات میں ماحولیاتی آلودگی کا بھی حل ہے۔

ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ اور انسان کو صاف وشفاف ہوا فراہم کرنے والے منجملہ ذرائع میں ایک اہم ذریعہ درخت اور درختوں سے بھرے گھنے جنگلات ہیں، قرآن مجید میں درختوں اور نباتات کے نظام کو اللہ نے اپنی رحمت قرار دیا ہے، چنانچہ ایک جگہ آسمان سے برسائے جانے والا پانی اور اس کے فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: ہُوَ الَّذِیْ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لَّکُم مِّنْہُ شَرَابٌ وَمِنْہُ شَجَرٌ فِیْہِ تُسِیْمُونَ. یُنبِتُ لَکُم بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّیْْتُونَ وَالنَّخِیْلَ وَالأَعْنَابَ وَمِن کُلِّ الثَّمَرَاتِ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لآیَۃً لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ.(النحل:۱۰۔ ۱۱)وہی(خدا) ہے جو تمہارے فائدہ کے لئے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اس سے اگے ہوئے درختوں کو تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو، اس سے وہ تمہارے لئے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے، بیشک ان لوگوں کیلئے تو اس میں نشانی ہے جو غوروفکر کرتے ہیں۔

آیاتِ بالا میں درختوں کے فوائد ذکر کئے گئے کہ ان سے جانوروں کو غذا حاصل ہوتی ہے اور ان کے پھلوں اور غلہ سے انسان بھی اپنی غذائی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں، ایک جگہ شہد کی مکھیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ مختلف درختوں اور پودوں سے رس چوس کر شہد جیسی نعمت کے وجود میں آنے کا ذریعہ بنتی ہیں، ارشاد ربانی ہے: وَأَوْحٰی رَبُّکَ إِلَی النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوْن.(النحل: 69) آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں درختوں اور لوگوں کی بنائی ہوئی اونچی اونچی ٹہنیوں میں اپنے چھتے بنا اور ہر طرح کے میوے کھا۔ نیز اللہ تعالیٰ درختوں اور دیگر اشیاء کے سایہ کا تذکرہ بطور احسان کے کررہا ہے۔ ارشاد ہے: وَاللّہُ جَعَلَ لَکُم مِّمَّا خَلَقَ ظِلاَلا. (النحل: ۸۱) اور اللہ ہی نے تمہارے لئے اپنی پیداکردہ چیزوں میں سے سایے بنائے ہیں، ایک مقام پر زیتون کے درخت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: وَشَجَرَۃً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَیْْنَاء تَنبُتُ بِالدُّہْنِ وَصِبْغٍ لِّلْآکِلِیْنَ. (المؤمنون:۲۰) اور (پیداکیا) وہ درخت جو طور سینا پہاڑ سے نکلتا ہے جو تیل نکالتا ہے اور کھانے والوں کے لئے سالن ہے، زیتون کے درخت کو مبارک درخت قرار دیا گیا، ارشاد ہے: یُوقَدُ مِن شَجَرَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ زَیْْتُونِۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَلَا غَرْبِیَّۃٍ .(النور:۳۵)

درختوں اور پودوں سے جہاں پھل فراہم ہوتے ہیں غلہ اور اناج حاصل ہوتا ہے، شدید دھوپ میں راہ گیروں کے لئے سایہ کا انتظام ہوتا ہے، پکوان کے لئے ایندھن اور فرنیچر کے لئے لکڑی فراہم ہوتی ہے وہیں درخت بھرے جنگلات اور آبادیوں میں موجود سرسبزوشاداب درخت ماحولیاتی کثافت کو اپنے اندر جذب کرتے ہیں اور صاف وشفاف ہوا فراہم کرتے ہیں، اسی لئے اسلام میں ایک طرف درختوں کی کٹائی سے منع کیا گیا اور دوسری جانب شجر کاری کی ترغیب دی گئی، چنانچہ ایسے منافق جو دنیا میں فساد مچاتے ہیں اور کھیتی اور نسل انسانی کو تباہ کرتے ہیں ان کی مذمت کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا : وَإِذَا تَوَلَّی سَعَی فِیْ الأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیِہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّہُ لاَ یُحِبُّ الفَسَاد.(البقرۃ:205) جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اور نسل اور کھیتی کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے، اور اللہ تعالیٰ فساد کو ناپسند کرتا ہے، گویا کھیتی اور پودوں کو برباد کرنا منافقوں کا شیوہ ہے، مومن اس کا ارتکاب نہیں کرسکتا، اللہ تعالیٰ نے درختوں کو زمین کی زینت قرار دیا ہے، پھر کیوں کر ان کے ناحق کاٹنے کی اجازت ہوسکتی ہے، ارشاد ربانی ہے: إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْأَرْضِ زِیْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ أَیُّہُمْ أَحْسَنُ عَمَلا.(الکہف:8) روئے ز مین پر جو کچھ ہے (حیوانات، نباتات، جمادات وغیرہ) اسے ہم نے زمین کے لئے رونق بنادیاہے، درختوں کی کٹائی کی ممانعت کیوں نہ ہو، جب کہ درختوں اور پودوں کا نظام آسمان سے پانی برسنے کا سبب بنتا ہے، درختوں سے کائنات کا قدرتی حسن دوبالا ہوتا ہے، درخت جانداروں کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں، درختوں سے ہواؤں کی رفتار میں اعتدال پیدا ہوتا ہے، نیز ان سے درجۂ حرارت میں تخفیف ہوتی ہے، وہ فضائی آلودگی کا سبب بننے والے ہر طرح کے جراثیم کو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں، عرب میں بالعموم ببول یا بیری کے درخت ہوا کرتے تھے، نبی کریمﷺ نے بیری کے درخت کے بارے میں فرمایا: من قطع سدرۃ صوب اللہ رأسہ في النار.(مجمع الزوائد:۸؍۱۱۵) جو بیری کا درخت کاٹے گا اسے اللہ تعالیٰ اوندھے منھ جہنم میں ڈالیں گے، علماء نے حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جنگل کے ایسے درخت جن سے لوگوں کو سایہ حاصل ہوتا ہے یا جن سے چوپائے غذا حاصل کرتے ہیں انہیں جو کوئی ناحق کاٹے گا وہ جہنم رسید ہوگا(تفسیر القرطبی:7؍87) ایک ضعیف حدیث میں ایسے شخص پر لعنت بھیجی گئی ہے، درختوں کی حفاظت پر اس قدر زور دیا گیا کہ جنگوں میں تک کھیتیوں اور درختوں کے جلانے کو ممنوع قرار دیا گیا، چنانچہ ترمذی کی ا یک روایت میں جسے حضرت صدیق اکبرؓ نے روایت کیا ہے: آپﷺ نے مجاہدین کو خاص طور پر درختوں اور کھیتوں کے برباد کرنے سے منع فرمایا، سلف صالحین کے وصایا میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے تھے لا تقطعوا شجرا کسی درخت کو مت کاٹو، موجودہ دور میں فضائی آلودگی میں اضافہ کی ایک اہم وجہ درختوں کی کٹائی اور جنگلات کا خاتمہ ہے، بڑھتی آبادی کے پیش نظر جنگلات کا صفایا ہوتا جارہا ہے، دیہی آبادی شہروں کا رخ کررہی ہے، اورجنگلی علاقے انسانی آبادی کے سبب ختم ہوتے جارہے ہیں۔

اسلام میں جہاں درختوں کی کٹائی سے منع کیا گیا و ہیں شجر کاری کی بھی تلقین کی گئی اور شجر کاری کرنے والوں سے جانور وغیرہ کھاجانے کی صورت میں اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا، چنانچہ ارشادنبوی ہے کہ مسلمان کوئی درخت یا کھیتی لگائے اور اس میں سے انسان درندہ، پرندہ یا چوپایا کھائے تو وہ اس کے لئے صدقہ ہوجاتا ہے۔ (مسلم شریف:۵؍۲۸) اس حدیث سے شجر کاری کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، نیز یہ پتہ چلتا ہے کہ شجر کاری میں کافی خیر ہے، اور دین ودنیا کے لئے بے شمار فوائد ہیں، ایک موقع پر آپ نے شجرکاری کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: من نصب شجرۃ فصبر علی حفظہا والقیام علیہا حتی تثمر فإن لہ في کل شيء یصاب من ثمرہا صدقۃ عند اللہ.(مسند احمد:4؍61) جو کوئی درخت لگائے پھر اس کی حفاظت اور نگرانی کرتا رہے یہاں تک کہ و ہ درخت پھل دینے لگے اب اس درخت کا جو کچھ نقصان ہوگا وہ اس کے لئے اللہ کے یہاں صدقہ کا سبب ہوگا، ایک اور موقع پر آپ نے کاشتکاری اوربنجر وبے استعمال زمین کو کاشت کے لئے استعمال کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: جس کے پاس زمین ہو اسے اس زمین میں کاشتکاری کرنی چاہیے، اگر وہ خود کاشت نہ کرسکتا ہو تو اپنے کسی مسلمان بھائی کو دے، تاکہ وہ کاشت کرے۔ (مسلم شریف، حدیث نمبر: 1536) رسول اللہﷺ کی انہی ترغیبات کا نتیجہ تھا کہ حضرات صحابہ شجرکاری کا خاص اہتمام فرماتے تھے، حضرت امام احمد ابن حنبلؒ نے حضرت ابودرداء سے نقل کیا ہے کہ حضرات صحابہ کرام صدقہ کی نیت سے درخت لگانے کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ (مجمع الزوائد:4؍68) شجرکاری اور کاشت کے انہی فوائد کے پیش نظر اسلام نے افتادہ سرکاری زمین کے بارے میں یہ اصول مقرر کیا ہے کہ جو شخص بھی اس میں کاشت کرنا چاہے حکومت کی اجازت سے کرسکتا ہے، اگر کوئی شخص ایسی اراضی قبضہ میں لے کر پھر اسے آباد کرنا چھوڑ دے تو زمین اس سے لے کر دوسرے کے حوالے کردی جائے گی، تاکہ وہ اس میں کھیتی کرے۔ (خلاصۃ الفتاویٰ : 4؍3)

اسلام اور اس کی پاکیزہ تعلیمات دین ودنیا کی کامیابی کی ضامن ہیں، اسلامی تعلیمات پر عمل انسان کو دونوں جہانوں کا سکون عطا کرتا ہے، اسلام صفائی ستھرائی اور نظافت پر زور دیتا ہے، تاکہ نجاست اور گندگی کے سبب ماحول آلودہ ہونے سے محفوظ رہے، اور آب وہوا متأثر نہ ہو، آلودگی چاہے فضائی ہو یا صوتی، صحت انسانی کے لئے انتہائی مضر ہے، ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ کا ایک ذریعہ شجر کاری ہے، نبی کریمﷺ کا ایک ارشاد کس قدر چونکا دینے والا ہے جس میں آپؐ نے فرمایا کہ اگر قیامت بر پا ہورہی ہو اور تمہیں پودا لگانے کی نیکی کا موقع مل جائے تو فوری اس نیکی میں شامل ہوجاؤ، اس ارشاد کا مقصود اگر چہ نیکی کے مواقع کو غنیمت جاننے کی تاکید ہے لیکن بے شمار نیکیوں میں سے آپ نے پودا لگانے کا انتخاب کرکے شجرکاری کی افادیت کو اجاگر فرمایا، مقام مسرت ہے کہ ریاستی حکومت نے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے پودوں اور درختوں کی افادیت کا ادراک کرلیا ہے، گذشتہ دنوں ریاست بھر میں ھر یتا ھرم کے نام سے شجرکاری کی مہم چلائی گئی، اور مہم کے دوسرے مرحلے کے لئے جس کا آغاز ۸؍جولائی سے ہوا، 46 کروڑ پودوں کی شجر کاری کا نشانہ مقرر کیا گیا، چنانچہ شہر اور اضلاع میں پورے جوش وخروش کے ساتھ اسکولی بچوں سے لے کر عہدے داروں کے بشمول تمام افراد نے اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، عوامی نمائندوں کو ضلعی سطح پر دستیاب فنڈ خرچ کرنے کی اجازت دی گئی، سرکاری دفاتر، محکمۂ جات، تمام مدارس اور تعلیمی ادارہ جات کے انتظامیہ اور میڈیا نے اس مہم کی تشہیر میں خوب حصہ لیا، صرف شہر حیدرآباد میں 25 لاکھ پودوں کی شجرکاری کا نشانہ پورا کیا گیا، سبز حیدرآباد کے نام سے شروع کی گئی اس مہم میں تقریبا 65 آئی ٹی کمپنیوں نے حصہ لیا، حیدرآباد کے تقریبا 4 ہزار مقامات کی پہلے سے نشاندہی کرلی جاچکی تھی، اس میگاشجرکاری پروگرام میں 105 سرکاری اور خانگی تنظیمیں شریک رہیں، شہر کے بہت سے دینی مدارس میں بھی یہ پروگرام منعقد ہوا اور مدارس کے ذمہ داروں نے عہد کیا کہ وہ مدارس کے احاطے میں اور قبرستانوں میں شجرکاری کا اہتمام کریں گے، یہ ایک خوش آئنداقدام ہے، لیکن صرف پودے لگانے سے ذمہ داری ختم نہیں ہوتی، اصل مسئلہ لگائے گئے پودوں کے تحفظ کا ہے، مؤثر نگہداشت کے بغیر پودوں کا تحفظ ممکن نہیں۔

تبصرے بند ہیں۔