شور ہے اوج فلک پر آمدِ رمضان کا

عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی

رمضان المبارک کا مقدس اور پاکیزہ مہینہ آنے والا ہے۔ اب چند دن رہ گئے ہیں اس کے استقبال کے لئے ہر طرف مجلسیں منعقد ہو رہی ہیں، ہر طرف اس کی اہمیت کی چہل پہل نظر آرہی ہے۔ ہر کوئی اپنی دوکان و مکان سجانے میں لگا ہوا ہے، ہر طرف کاروباری لوگ بزنس پلان کر رہے ہیں، کپڑے والے نئے نئے کپڑے تیار کرانے میں لگے ہیں، ہوٹل والے نئی ڈشیں بنانے کے لئے باورچیوں کی تلاش میں سرگرداں نظر آ رہے ہیں۔ ہر کوئی اس پلان میں لگا ہو اہے کہ وہ کس طرح رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں زیادہ سے زیادہ منافع بخش تجارت کر کے خوب خوب پیسے کمالیں۔ آج ہماری پوری کوشش اسی میں صرف ہو رہی ہے کہ آنے والے رمضان میں ہم کس طرح اپنی پلاننگ کریں جس سے کہ ہمارے پورے سال کے اخراجات اس ایک مہینہ میں جمع ہوجائیں۔ اس چکر میں پڑ کر ہم نیکیاں کمانے کے بجائے پیسے کمانے کی تیاری میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں افسوس صد افسوس !

رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی رحمتیں برسنا شروع ہو جاتی ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: رمضان المبارک کے لیے جنت سال بھر سنواری جاتی ہے اور رمضان المبارک کی پہلی شب کو عرش کے نیچے سے مشیرہ نامی پاکیزہ ہوا چلتی ہے، جو جنت کے درختوں کے پتوں اور دروازوں کے حلقوں کو لگتی ہوئی گزرتی ہے، جس سے ایک دل کش آواز پیدا ہوتی ہے کہ سننے والوں نے ایسی شیریں آواز کبھی نہیں سنی ہے۔یہ آواز سن کر جنت کی حوریں جنتی بالا خانوں میں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ اس وقت یہ حوریں آواز دیتی ہیں کہ کون ہے، جو اللہ سے ہماری درخواست کرے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا نکاح اسی سے کرادے۔ پھر وہ رضوان الجنۃ سے دریافت کرتی ہیں کہ یہ کون سی رات ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ یہ رمضان المبارک کی پہلی رات ہے کہ اس مہینے میں امت محمدیہ کے روزہ داروں کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔

حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخری دن خطبہ دیا،آپؐ نے ارشاد فرمایا: لوگو! تم پر بڑی عظمتوں اور برکتوں والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، اس مہینے کے روزے اللہ نے فرض کیے ہیں۔ خطبہ کے آخرمیں آپؐ نے فرمایا: اس مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت،دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی ہے۔

امام ترمذیؒ سے روایتہے کہ: جب رمضان کا مہینہ سایہ فگن ہوتا ہے، توجنت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے اعلان ہوتا ہے اے خیر اور نیکی کے طالب!آگے بڑھ اور اے بدی اور بد کرداری کے شائق رک،آگے نہ آ!

کتنی عمدہ بشارت اور بہترین جزا ہے روزہ داروں کے لیے۔حقیقی روزہ کا ثمرہ تقویٰ قراردیا گیا ہے اور تقویٰ کا نتیجہ رحمت، مغفرت اور جہنم سے رہائی ہے۔ روزہ داروں کے دل میں رحمت کا چشمہ پھوٹتا ہے۔ روزہ دار کو دوسرے فاقہ کشوں کا احساس ہوتا ہے، وہ ان کی بھوک پیاس مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی رحمت اللہ تعالیٰ کو محبوب و مقصودہے۔

رمضان المبارک کے آتے ہی عبادت کا جشن عام شروع ہو جاتا ہے۔ہر طرف قرآن کریم کی تلاوت، صدقات و خیرات کا عام ماحول، ہر کوئی مسجد کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔ بازاروں میں ایک جشن جیسا ماحول رہتا ہے۔ یہ سب رمضان المبارک کی برکت کا ایک ادنی ٰ ظہور ہے۔

رمضان المبارک کی قدرہم کس طرح کریں ؟ ہمارا شیڈول اور نظام الاوقات کیا ہو؟ ہم کس طرح رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کے مہینہ میں نیکیاں ڈبل کمائیں۔ اس کے لئے ہم نے کیا تیاری کی ہے اور کس طرح اس کی تیاری کرناچاہئے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ کام کرنا ہے کہ ہم سچے دل سے پکی توبہ کریں کہ اس سے پہلے جو بھی کوتاہیاں سرزدہوئی ہوں ان سے اپنے پروردگار کے حضور توبہ واستغفار کریں اور آئندہ اس سے بچنے کا عہد کریں۔

توبہ کرنا:

ایک مسلمان کے لیے زیادہ لائق ہے کہ وہ اپنے ان گناہوں سے جلد از جلد توبہ کر لے جو صرف اس کے اور اس کے رب کے مابین ہیں، اور ان گناہوں سے بھی جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے، تاکہ جب یہ ماہ مبارک شروع ہو تو وہ صحیح اور شرح صدر کے ساتھ اطاعت وفرمانبرداری کے اعمال میں مشغول ہو جائے، اور اس کا دل مطمئن ہو۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور اے مومنوں تم سب کے سب اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کرو تاکہ کامیابی حاصل کر سکو‘‘ (النور۔۳۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے لوگو اللہ کی طرف توبہ کرو، میں تو دن میں سو بار تو بہ کرتا ہوں ‘‘(صحیح مسلم۔۴۷۰۴)

دعاکرنا:

بعض روایات میں ہے کہ صحابہ کرامؓ دو مہینے پہلے جب رجب کا چاند دیکھتے تو دعا فرماتے ’’اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبِ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَارَمَضَانَ ‘‘ یعنی ’اے اللہ رجب اور شعبان دونوں مہینوں کی برکات ہم کو نصیب فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا دینا!‘

بعض سلف کے متعلق آتا ہے کہ وہ چھ ماہ تک یہ دعا کرتے اے اللہ! ہمیں رمضان تک پہنچا دے،اور پھر وہ رمضان کے بعد پانچ ماہ تک یہ دعا کرتے رہتے اے اللہ! ہمارے رمضان کے روزے قبول و منظور فرما۔چناں چہ مسلمان شخص کو چاہئے کہ وہ اپنے پروردگار سے دعا کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اسے رمضان آئے تک جسمانی اور دینی طور پر صحیح رکھے، اور یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اطاعت کے کاموں میں اس کی معاونت فرمائے اور اس کے عمل قبول ومنظور فرمالے۔

اس عظیم ماہ مبارک کے قریب آنے کی خوشی وفرحت ہو،کیوں کہ رمضان المبارک کے مہینہ تک صحیح سلامت پہنچ جانا اللہ تعالیٰ کی جانب سے مسلمان بندے پر بہت عظیم نعمت ہے،اس لیے کہ رمضان المبارک خیروبرکت کا موسم ہے جس میں جنتوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور یہ قرآن و غزوات ومعرکوں کا مہینہ ہے جس نے ہمارے اور کفر کے درمیان فرق کیا۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:’’کہہ دیجئے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے خوش ہونا چاہئے وہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جس کو وہ جمع کر رہے ہیں ‘‘ یونس (۵۷)

فرض کردہ روزوں سے بری الذمہ ہونا:

ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سنا وہ بیان کر رہی تھیں : ’’میرے ذمہ رمضان المبارک کے روزوں کی قضاء ہوتی تھی اورمیں شعبان کے علاوہ قضاء نہیں کر سکتی تھی‘‘(صحیح بخاری ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رمضان میں روزے رکھنے کی حرص سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ رمضان کی قضاء کے روزوں میں دوسرا رمضان شروع ہونے تک تاخیر کرنا جائز نہیں ‘‘(فتح الباری)

رمضان کے احکام و مسائل کا علم حاصل کرنا :

تاکہ روزوں کے احکام کا علم ہو سکے، اور رمضان المبارک کی فضیلت کا پتہ چل سکے۔ایسے اعمال جو رمضان المبارک میں مسلمان شخص کو عبادت کرنے میں رکاوٹ یا مشغول ہونے کا باعث بننے والے ہوں انھیں رمضان سے قبل نپٹانے میں جلدی کرنی چاہئے۔گھر میں اہل وعیال اور بچوں کے ساتھ بیٹھ کر انہیں روزوں کی حکمت اور اس کے احکام بتائے جائیں اور چھوٹے بچوں کو روزے رکھنے کی ترغیب دلائی جائے۔کچھ ایسی کتابیں تیار کی جائیں جو گھر میں پڑھی جائیں یا پھر مسجد کے امام کو ہدیہ کی جائیں تاکہ وہ رمضان المبارک میں نماز کے بعد لوگوں کو پڑھ کر سنائے۔

ماہ شعبان میں روزے رکھنا:

رمضان المبارک کے روزوں کی تیاری کے لیے ماہ شعبان میں روزے رکھے جائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھنے لگتے حتی کہ ہم کہتے آپ روزے نہیں چھوڑیں گے اور روزے نہ رکھتے حتی کہ ہم کہنے لگتے اب روزے نہیں رکھیں گے، میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماہ رمضان کے علاوہ کسی اور ماہ کے مکمل روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں نے انہیں شعبان کے علاوہ کسی اور ماہ میں زیادہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘( بخاری )

اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دیکھتا ہوں کہ آپ جتنے روزے شعبان میں رکھتے اتنے کسی اور ماہ میں نہیں رکھتے؟ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رجب اور رمضان کے درمیان یہ وہ ماہ ہے جس سے لوگ غافل رہتے ہیں، یہ وہ ماہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، اس لیے میں پسند کرتا ہوں کہ میرے عمل اٹھائیں جائیں تو میں روزہ کی حالت میں رہوں ‘‘( سنن نسائی)

اس حدیث میں ماہ شعبان میں روزے رکھنے کی حکمت بیان ہوئی ہے کہ یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال اوپر اٹھائے جاتے ہیں اور بعض علماء نے ایک دوسری حکمت بھی بیان کیا ہے کہ ان روزوں کا مقام فرض نماز سے پہلی سنتوں والا ہے، کہ وہ نفس کو فرض کی ادائیگی کے لیے تیار کرتی ہیں اور اسی طرح رمضان سے قبل شعبان کے روزے بھی۔

قرآن مجید کی تلاوت کرنا:

حضرت سلمہ کہتے ہیں : شعبان کو قرأت کے مہینہ کا نام دیا جاتاتھااور جب شعبان کا مہینہ شروع ہوتا تو عمروبن قیس اپنی دوکان بند کر دیتے اور قرآن مجید کی تلاوت کے لیے فارغ ہو جاتے۔ ابو بکر بلخی رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں : ’’ماہ رجب کھیتی لگانے کا مہینہ ہے اور ماہ شعبان کھیتی کو پانی لگانے کا اور ماہ رمضان کھیتی کاٹنے کا مہینہ ہے اور ان کا یہ بھی کہنا ہے: ماہ رجب کی مثال ہوااور ماہ شعبان کی بادلوں اور ماہ رمضان کی مثال بارش جیسی ہے اور جس نے ماہ رجب میں نہ تو کھیتی بوئی ہو اور نہ ہی شعبان میں کھیتی کو پانی لگایا تو وہ رمضان میں کیسے کھیتی کاٹنا چاہتا ہے۔

بیہقی کی روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آیا ہے، جو کہ برکت والا ہے، اس مہینے میں اللہ کی رحمت تمہیں ڈھانب لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہاری خطائیں معاف کرتا ہے اور دعائیں قبول کرتا ہے۔ رمضان المبارک کی پہلی ہی رات سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دن رات بندوں کے لیے دعائے مغفرت مانگنے پر بندوں کو مامور کردیتا ہے اور روزہ داروں کے لیے جنت کی آرائش وزیبائش کا فرمان جاری کردیتا ہے۔ اللہ رب العزت کی جانب سے رمضان المبارک کی ہر رات بہت سے لوگوں کے لیے جہنم کی آگ سے نجات کا پروانہ جاری ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ دار کے لیے بے حدوحساب اجروثواب مقرر کیا ہے اور یہ اجروثواب اللہ تعالیٰ خود عنایت فرمائیں گے۔

اس لئے ہم سب کو چاہئے کہ آنے والے رمضان المبارک میں ہم اپنے اوقات کو صحیح اور منظم کرکے استعمال میں لائیں، اور اس مبارک مہینہ کی قدر کرکے اپنے نامہ ء اعمال میں نیکیوں کا اضافہ کریں۔

قدسیوں میں ہے مسرت کی لہر دوڑی ہوئی 
شور ہے اوج فلک پر آمدِ رمضان کا 
قید ہوتے ہیں شیاطین اس مبارک ماہ میں
گیت گاتے ہیں فرشتے عظمتِ سبحان کا

تبصرے بند ہیں۔