یاجوج اور ماجوج کی حقیقت

ریاض فردوسی

اللہ کی راہ میں جہاد کروجیسا کہ جہاد کرنے کاحق ہے اس نے تمہیں اپنے کام کے لئے چن لیاہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم علیہ السلا م کی ملت پر، اللہ نے تمہارانام مسلمان رکھا ہے۔(اس کتاب میں بھی اور پہلے کی کتابوں میں بھی) تا کہ رسول ﷺ تم پرگواہ ہو جائیں اور تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ۔(سورہ الحج، آیت۔ 78 پارہ۔17)

’’ جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا تھا ان پر ہم نے ( لوگوں پر) حرام کردیا کہ وہ وہاں جاسکیں ۔ حتی کہ یاجوج اور ماجوج کھل جائیں اور وہ تمام بلندیوں سے اترتے نظر آئیں گئے۔ (سورہ الانبیاء پارہ 17۔آیت 96-95)

حضرت زینب بنت حجشؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم ﷺ ان کے یہاں ایسی حالت میں تشریف لائے کہ جیسے بہت گھبرائے ہوئے ہیں ، (ایسی مثال صرف سمجھانے کے لئے ہیں ، معاذاللہ رسول اکرم ﷺ اور گھبڑاہٹ عقل سے ماورا بات ہے)پھرآپ ﷺ فرمانے لگے کہ اللہ کے سواکوئی معبود عبادت کے لائق نہیں ۔ افسوس صد افسوس عرب کے اس شروفتنہ پر جو اپنی ہلاکت آفرینی کے ساتھ قریب آپہنچاہے۔ آج یا جوج اور ماجوج کی دیوار(جس کی تعمیر اللہ کے حکم سے سیدنا ذوالقرنین علیہ السلام نے مکمل کی تھی) میں اس قدر سراخ ہوگیا ہے۔ ’’یہ کہ آپﷺ نے انگوٹھے اور برابر والی انگلی کے ذریعہ حلقہ بنایا حضرت زینبؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ !کیا ہم اس صورت میں بھی ہلاک کردیئے جائیں گے جب ہمارے درمیان صالح وپاکباز لوگ موجود ہوں گے ؟کیا ہمارے درمیان اللہ کے نیک بندوں کے وجود کی برکت ان فتنوں کے پھیلنے اور آفات وبلاؤں کے نازل ہونے میں رکاوٹ نہیں بنے گی؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں ( تمہارے درمیاں علماء اور بزرگان دین کی موجودگی کے باوجود تمہیں ہلاکت اور تباہی میں مبتلا کیا جائے گا)۔ جب کہ فسق و فجور کی کثرت ہوگی۔ (اوکما قالﷺ)(صحیح بخاری۔ 138/4، رقم۔ 3346، صحیح مسلم2207/4، رقم۔2880، ۱، سنن الترمذی:50/4 رقم، 2187، سنن ابن ماجۃ:/2 1305، رقم، 3953، مسند احمدابن حنبل:403/45، رقم، 27413، مشکوٰۃالمصابیح؛158/3، صحیح ابن حبان:34/2، مسند اسحاق ابن راھویۃ: 256/4، رقم:2081، مسندالحمیدی:315/1، رقم، 310، المصنف ابن ابی شیبۃ:459/7، رقم:37214، السنن الکبریٰ للبیھقی:93/10، رقم:19984، السنن الکبریٰ للنسائی:166/10، رقم:11249، المصنف عبد الرزاق :363/11، رقم، 20749، المعجم الاوسط للطبرانی:218/7، العجم الکبیر للطبرانی:51/24، رقم:136، جامع معمر بن راشد :363/11، الآحاد والمثانی لا بن ابی عاصم :/5 429، رقم:2092، الاعتقاد للبیھقی :215/1، الترغیب والترھیب للمنذری :159/3، رقم:3486، الفتن نعیم ابن حماد :591/2، رقم :1644، جامع الاصول فی احادیث الرسول لابن الاثیر :230/2، حلیۃالاولیاء و طبقوات الاصفیاء لا بن نعیم الصبھانی:218/13، شرح السنۃ للبغوی :397/14، رقم:4201، شعب الایمان للبیھقی:97/6، رقم:7598، مسند ابی یعلی :82/13، رقم:7155، مسند الشامین للطبرانی :208/4، رقم:3115، معجم لابن الاعرابی :50/1، رقم:54، معجم ابن عساکر :388/1، رقم: 469۔فتاویٰ موقع الاسلام سوال وجواب للشیخ المنجد :432/1، فتویٰ نمبر:3437) یعنی جب معاشرہ میں برائیاں بہت پھیل جائیں گی اور ہر طرف فسق و فجور کا دور دورہ ہوگا تو ان برائیوں اور فسق وفجور کے سبب نازل ہونے والے فتنہ و آلام اور آفات کو صلحاء اور بزرگوں کی موجودگی اور ان کی برکت بھی نہیں روک سکے گی۔

ذوالقرنین کون تھے ؟ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ذوالقرنین نیک اور صالح بادشاہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کو پسند فرمایا اور اپنی کتاب میں ان کی تعریف فرمائی اور وہ فاتح و کامیاب بادشاہ تھے۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ بھی ذوالقرنین کو صالحین میں سے مانتے تھے۔(تاریخ ابن کثیر103/2) ’’لم یکن نبیا ولا ملکاکان رجلااحب اللہ فا حبہ ‘‘ (فتح الباری شرح صحیح البخاری لابن حجر۔ ۔۲، ، ۲۹۵)۔’’ذوالقرنین نہ نبی تھے اور نہ فرشتہ وہ ایک انسان تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو محبوب رکھا پس اللہ نے بھی ان کو محبوب رکھا۔ ‘‘ حا فظ ابن حجر نے اس روایت کو نقل کرکے اس کی توثیق کی ہے اور فرمایا کہ میں نے اس روایت کو حافظ ضیا ء الدین مقدسی کی کتاب ’’مختارہ ‘‘کی احادیث سے سند صحیح سنا ہے اور پھر فرماتے ہیں کہ اس روایت میں حضرت ذوالقرنین کے متعلق یہ روایت بھی مذکور ہیں ۔’’بعثہ اللہ الیٰ قومہ ‘‘ (فتح الباری شرح صحیح البخاری لابن حجر عسکلانی، ، جلد۔۸۔۴۲۹) امام بن الجوزی فرماتے ہیں ، ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔’’’ قلنا یٰذ القرنین‘‘‘ (الکہف۔ 18آیت۔86) ’’ہم نے کہا یا ذوالقرنین۔‘‘جو حضرات حضرت ذوالقرنین کی نبوتکے قائل ہیں ان کے نزدیک یہ وحی ہے اور جن لوگوں کا خیال ہے کہ وہ نبی نہیں ہیں ان کے نزدیک یہ الہام ہے۔(زاد المسیر فی علم التفسیر لا بن الجوزی جلد۔ ۳۔۱۰۶) علامہ طنطاوی فرماتے ہیں ، ’’والرای الراجع انہ کان عبد اصالحا، و لم یکن نبیا ‘‘(التفسیر الوسیط لطنطاوی۔ جلد، ۸، ، ۵۷۰) ’’(حضرت ذوالقرنین کے متعلق )راجح رائے یہ ہے کہ وہ نیک آدمی تھے اور نبی نہیں تھے۔‘‘ ’’جمہور علماء کاخیال ہے کہ وہ نبی نہیں ہیں اور بعض حضرات نے توقف (خاموشی )اختیار کی ہے‘‘(روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم لآلوسی بغدادی، جلد۔ ۸۔۳۵۲)

حافظ ابن کثیر ؒ اپنی کتاب ’’البداےۃ والنہایۃ‘‘ میں حضرت ذوالقرنین ؑ کے متعلق تمام اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں ، (و الصحیح انہ کان ملکا من ملوک العادلین)۔ ’’اور صحیح یہ ہے کہ حضرت ذوالقرنین ؑ عادل بادشاہوں میں سے تھے۔‘‘ (البداےۃوالنھاےۃلابن کثیر۔ جلد۔۲۔۔۱۰۳) حافظ ابن حجر عسکلانی ؒ فرماتے ہیں : کان من الملوک و علیہ الائکثر، ، (وہ باشاہوں میں تھے اور یہی اکثر لوگوں کاخیال ہے) (فتح الباری شرح البخاری لابن حجر جلد۔۶، ، ۳۸۲) امام بغوی ؒ فرماتے ہیں : ’’حضرت ذواقرنین ؑ کی نبوت کے بارے میں اختلاف ہے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ وہ نبی ہیں ۔ ابوالطفیل فرماتے ہیں کہ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ سے حضرت ذوالقرنین ؑ کے متعلق دریافت کیا گیا کہ وہ نبی تھے یا بادشاہ۔ تب آپؓ نے ارشاد نہ وہ نبی تھے نہ بادشاہ لیکن وہ ایسے صالح آدمی تھے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا تھا اور وہ اللہ سے محبت کرتے تھے وہ اللہ کے لیے پر خلوص تھے اور اللہ تعالیٰ ان کی قدر دانی کرتا تھا۔ سیدنا فاروق اعظمؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو ’’یا ذوالقرنین ‘‘کہتے ہوئے سنا تو فرمایا : پہلے تم نے انبیاء علیہ السلام کے ناموں پر نام رکھے پھر اس پر اکتفا نہ کیا حتیٰ کہ تم نے فرشتوں کے نام رکھنے شروع کر دئے۔(معالم التنزیل فی التفسیر القرآن للبغوی۔جلد ۳۔۔۲۱۲)

علامہ محمد اقبال ؒ کو اللہ نے جو بصیرت عطافرمائی تھی اس کا ماخذ صرف اور صرف قرآن حکیم تھا جس کا تذکرہ انہوں نے اپنے اس فارسی شعر میں کیا ہے

گردکم آئینہ بے جو ہر است
گر بحر ضم غیر قرآں مضمراست

اگر میرے دل کے آئینے میں کوئی خول نہیں ہے۔ اگر اس میں قرآن کریم کے سوا کوئی حرف بھی چھپا ہو ا ہے۔ اس دعوے کے بعد وہ اللہ سے دعا (اگر میں قرآن کے علاوہ کچھ اور پڑھو)کرتے ہیں کہ میری عزت کا پردہ چاک کر دے اور مجھے روز محشر رسوا کر دے۔ یہ دعویٰ اقبالؒ کے کلام میں غوطہ زن ہونے کے بعد ہی سچا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اقبال نے مغربی تہذیب اور موجودہ دور کے سیاسی معاشرتی اور اخلاقی نظام کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھا اور پھر اسے کھوٹا، جعلی اور انسانیت کے لئے زہر قاتل قرار دیا۔ اقبالؒ جس زمانے میں امت مسلمہ کو بیدا رکررہے تھیں ۔ اس دور میں یہ نظام اپنی جڑیں پکڑ رہا تھا۔ مسلمانوں کی مرکزیت کی علامت ’’خلافت ‘‘ منہدم کی جاچکی تھی اور اس کی جگہ پوری دنیا کو سیکولر قومی ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔ ’’سود‘‘ جو کبھی ایک انفرادی معاملہ ہوتا تھا۔ اس کو بینکوں کے ایک وسیع تر نظام، جعلی کاغذ کے نوٹ اور حکومتی قرضوں کے ذریعہ مستحکم کردیا گیا تھا۔ پوری دنیا میں خواتین کے حقوق کے نام پر عورتوں کی ایک عالمگیر تحریک نے جنم لیا تھا۔ اللہ کی حاکمیت کی جگہ عوام اور پارلیمنٹ کی حاکمیت پر مبنی جمہوری نظام ایک میٹھے زہر کی طرح پھیل چکا تھا۔ اقبالؒ کی نگاہ تیز سمجھتی تھی کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہو رہا ہے بلکہ یہ ایک مکمل نظام کے نفاذ کی مربوط شکلیں ہیں ۔ یہ پورانظام جوسود کی لعنت اور مصنوعی کرنسی سے حاصل کی گئی دولت کے گرد گھومتا ہے۔ اسے اقبالؒ نے جب قرآن کی کسوٹی پر پرکھا تو انہوں نے اس نظام کے ہر تصور یعنی جمہوریت، بیکاری، قومی ریاستیں اور نسوانی نمائش کے مکروجال کو رد کرنے کی کوشش کی، اور بارہا امت مسلمہ کو آگاہ کیا۔ یہ نظام کس کا ہے؟ اقبالؒ جب قرآن کی سورۃالانبیاء کی آیت 95,96میں بیان کردہ حقیقت کو دیکھتے ہیں تو یہ شعر تخلیق کرتے ہیں:

کھل گئے یا جوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرف ’’ینسلون‘‘

نبی پاک ﷺ نے فرمایا’’قیامت قائم نہ ہوگی جب تک دس نشانیاں ظاہر نہ ہوں ۔ طلوع الشّمس از مغرب۔ الدخان (دھواں )۔ وابتہ الارض۔ خروج یاجوج و ماجوج۔ عیسیٰ بن مریم ؑ۔ تین خسوف۔ نار (آگ جو قصر عدن سے نکلے گی)۔ خروج دجال
تین خسوف سے مراد خسف بامشرق۔ مشرق میں زمین کا دھنسنا

خسف با مغرب۔ مغرب میں زمین کا دھنسنا

خسف فی جزیرۃ العرب (العرب)۔ جزیرہ عرب میں زمین کا دھنسنا (الحدیث رواہ بن صاحہ )۔نزول عیسی بن مریم۔ دوسری روایت میں ہے۔ (عن حذیفتہ امیہؓ)

تاریخ انسانیت ’’ابوابشر‘‘ کالقب صرف دو ہستیوں کو مل سکا اور ان میں بھی بہر حال اول وثانی کی تفریق بر قرار رکھی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت آدمؑ کو ’’ابو بشراول‘‘ اور حضرت نوح ؑ کی ’’ابوالبشرثانی‘‘ کہا جاتا ہے۔ طوفان نوح کی ہمہ گیر کے بعد سفینۂ نجات پر سوار وہو کر حفاظت خداوندی میں آنے کا سب سے بڑا ذریعہ حضرت نوح ؑ ہی تھے۔ حضرت نوحؑ کے چار بیٹوں میں ’’کنعان‘‘ تو اسی طوفان کا شکار ہو کے غضب خداوندی سے ہلاک ہوا اور ثابت کر گیا کہ نجات کا دارو مدار حسب نسب پر نہیں ایمان و اعمال صالحہ پر ہے۔ جب کہ تین بیٹے نجات یافتہ ہو کرتین مختلف نسلوں کے وجود میں آنے کا ذریعہ بنے

(1)سام کو ’’ابوالعرب ‘‘کا خطاب ملا

(2) حام’’ ابوالسودان ‘‘ افریقہ کے نام سے متعارف ہوئے

(3) یافث’’ابوالترک‘‘ کے خطاب سے مشہور ہوئے۔ موأخرالذکر’’یافث‘‘ ہی کی اولاد میں سے ’’یاجوج ماجوج ‘‘ کا ہونا بھی بعض علماء کا موقف ہے جیسا کہ تفسیرابن کثیر کی تفسیر سورۃکہف میں مذکورہے۔ اور اتنی بات تو بہر حال طے ہے کہ ’’یاجوج ماجوج‘‘ کسی طاقت یا ماورا، عقل و طبعیات ہستی کا نام نہیں بلکہ یہ بھی انسانوں کے دو گروہ ہیں جن کا نسبی تعلق حضرت نوحؑ کے صاحبزادے ’’یافت‘‘ سے جڑتا ہے۔ ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ ہم یاجوج ماجوج کے دجالی نظام میں اپنی عافیت تصور کرتے ہیں ۔ امت کو اکٹھا کرکے خلافت قائم کرنے کی آواز بلند کرنے والے کو غدار کہا جاتا ہے۔ اور قومی ریاست وملکی تحفظ کی قسم اٹھاتے ہیں ۔ ہمارے علماء اکرام سودکے عالمی بینکاری نظام میں اپنا مصلیٰ بچھا کہ اسے حلال قرار دیتے ہیں ۔ کلچر، تقافت، حقوق نسواں ، سیاست کی ترقی اور آزادئی اظہار کے نام پر فحاشی کو عام کرتے ہیں ۔ ہمیں خبرتک نہیں کہ وہ وقت کتنا قریب آن پہنچا ہے۔ ہم قرآن کو اس کے عالمی اور ابدی تناظر کے بجائے عرب کے مخصوص حالات اور علامتوں سے سمجھتے رہے ہیں ۔ خطرہ ہمارے سروں پر منڈلانے لگا ہے اور یہی اللہ تعالی سبحانہ کی منشا بھی ہے، لیکن افسوس ہم خواب غفلت میں ہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ دجال کا خروج اس وقت ہوگا جب مساجد میں اس کا ذکر ختم ہو جائے گا (رواہ عبداللہ بن الا مام احمد۔ اوکماقالﷺ )

وہ گھڑی جس سے رسول اللہ ﷺ پوری امت کو ڈراتے رہے، جس سے پناہ کی دعا اکثر تہجد اور دیگر عبادات میں کرتے رہے ہیں ، ہم اس سے کس قدر غافل اور بے پرواہ ہیں ۔ اس طرح ہمیں یاجوج وماجوج کے متعلق تحقیق کرنے کی فرصت ہی نہیں ۔ ہمارے دور حاضر کے علماء ا کرام اور خانقاہ کے گدی نشیں لوگ ان باتوں پر کوئی توجہ دلاتے ہی نہیں ہیں ۔ در اصل مسلکی اختلاف سے ان کو فرصت ہی نہیں ملتی ہے؟ قرآن کریم میں واضح طور پر اس بات کا ذکر ہے کہ ’’ جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا ہو پھر وہاں (کے لوگ) محال ہے کہ وہ پلٹ آئیں ( وہ رجوع کریں گے)، یہاں تک کہ جب یاجو ج اور ماجوج کھولے جائیں گے اور ہر بلندی سے وہ دوڑتے ہوں گے (سورۃ انبیاء پارہ۔17آیت ۹۵، ۹۶)

ان کی نشانی بتاتے ہوئے اللہ تعالیٰ سورۃ کہف میں ارشاد فرماتا ہے’’اے ذوالقرنین‘‘ یاجوج ماجوج اس زمین میں فساد پھیلانے والے لوگ ہیں ۔ (کہف پارہ۔ 16آیت 94) چونکہ یاجوج اور ماجوج نے زمانہ آخر میں فساد پھیلانا تھا اس لئے ذوالقرنین نے ان پر ’’ آرمی ایکشن ‘‘ نہیں کیا بلکہ دو پہاڑوں کے درمیان میں تانبے اور لوہے کی ایک دیوار بنادی اور فرمایا (کہ یہ اسے اس وقت تک عبور نہیں کر سکتے جب تک اللہ اس کا اذن نہ دے )۔ اب قرآن پاک کی سورۃ الانبیاء کی آیت میں دی گئی قوم کو تاریخ کے حوالوں سے دیکھیں کہ یہ کون سی قوم ہے جو اپنے علاقے میں واپس آچکی ہے۔ بنی اسرائیل پر اللہ اپنے عذاب کا ذکر بہت تفصیل سے فرماتا ہے اور واضح کرتا ہے۔ اور ہم نے دنیا میں ان کو مختلف جماعتوں میں بانٹ دیا۔ یہ وہ واحدقدم ہے جن کی بستی ایسے تباہ نہیں کی گئی کہ کوئی بھی زندہ نہ بچے۔ جیسے عادو ثمود۔ بلکہ ان کو بخت نصر نے حملہ کر کے تباہ و برباد کر دیا اور یہ پوری دنیا میں پھیل گئے۔ اور دو ہزار سال تک مختلف ملکوں کی خاک چھانتے رہے۔ یہ بستی مقدس یروشلم ہے۔ جس کے اردگرد یہودی پہلی جنگ عظیم کے بعد 1920کے آس پاس واپس آکر آباد ہونا شروع ہوئے۔ اس آبادکاری میں ان کے ساتھ عالمی طاقتوں نے فی الفور معاہدہ کیا۔ یہ قرآن کی بتائی گئی بستی میں واپس آگئے ہیں تو پھر یاجو ج اور ماجوج کو تو پوری دنیا پر چھاجانا چاہئیے تھا۔ بلندیوں سے انہیں دنیا میں گھس آنا چاہئے تھا۔ یہ یاجوج اور ماجوج کون ہیں ؟ یہ ہے وہ سوال جسے اقبال ؒ نے اپنے شعر میں ، قرآن کے لفظ ’ینسلون ‘کی تفسیر دیکھ لیں ۔ یہ کون ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’اللہ نے بنی آدم کو دس حصوں میں تقسیم کیا۔ ان میں نو حصے یاجوج اور ماجوج بنائے اور ایک حصہ باقی سارے لوگ (مستدرک حاکم) یعنی یہ بنی آدم میں سے ہیں ۔ پھر ارشاد فرمایا ’’اگر انہیں کھلا چھو ڑ دیا جائے تو وہ لوگوں پر ان کے معاشرے میں فساد پھیلائیں ۔ (طبرانی)یعنی اس دنیا کا سودی نظام، کا رپوریٹ کلچر اور کمیونسٹ معیشت سب ان کے فسادکی علامتیں ہیں ۔ سیدہ زینب بنت حجشؓ کی روایت سے جو حدیث پیش کی گئی اس میں اس کے خروج کا ذکر ہے۔ تاریخ یہاں ایک واقعہ کا ذکر کرتی ہے کہ کو ہ قاف کے دامن جہاں ذوالقرنین نے دیوار بنائی تھی میں ایک آباد قبیلے نے انہی دنوں یہودیت کو مذہب کے طور پر اختیار کر لیا تھا۔ آج ان پوری یہودیوں کی نسل اس قدر بڑھ چکی ہے کہ تمام دنیا کے یہودیوی ہیں جنہوں نے 1896میں صہونیت کی بنیاد رکھی اور مشہور عالم پروٹوکل (Protocols) تحریر کئے۔ جس کے بعد انہوں نے تین معاملات میں ترقی کرنے اور ان پر قبضہ کرنے کا عزم کیا۔

(1) معاشی ادارے (2) سائنس اور ٹکنالوجی (3) میڈیا۔ اس کے بعد دنیا بھر کے مفکرین، سائنسدانوں ، میڈیا کے ملکان، بینکوں کے ماہرین، اور کارپرویٹ کلچر کے کرتا دھرتا سب کے سب انہیں میں سے آئے۔ صرف نوبل انعامات کی فہرست، میڈیا مالکان کے نام بینکوں کے کرتا دھرتااور کارپورویٹ کمپنیوں کے مالکان کی فہرستیں اٹھائیں ثبوت مل جائے گا۔ اس کے بعد انہوں نے صرف اور صرف فساد پھیلایا ہے۔ ماضی کی خونریزی داستاں سے لے کر حال کی غم واندوہ کار گزاری تک۔ غرض انہوں نے پوری انسانیت کوہی تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ کیونکہ عالم اسلام اور مسلمان جو’’مردان حر‘‘ہیں وہ ان کی ناپاک منصوبہ بندی کی راہ میں سب سے بڑے بندش ہیں اس لئے یہ ہمارے وجود کو ہی ختم کرنے پہ تل گئے ہیں لیکنْ

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن 
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے

’’ اے ایمان والو یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔

یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا۔ بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔(پارہ۔ 6سورۃ المائد۔ آیت۔ 51)

’’حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالی حضرت آدم ؑ سے مخاطب ہوکر فرمائیں گے۔ اے آدم! حضرت آدم ؑ عرض کریں گے ’’لبیک وسعد یک والخیرٍفی یدیک‘‘ اللہ تعالی ارشاد فرمائے گے ’’بعثت النار‘‘ کو نکال لو، آدم ؑ عرض کریں گے کہ باریٰ تعالی’’بعث الناز‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہر ہزار میں سے نوسوننانوے جہنم سے نکال لو۔ یہ سنتے ہی بچے بوڑھے ہو جائیں گے حاملہ عوتوں کا وضع حمل ہو جائے گا اور لوگ مدہوش دکھائی دیں گے حالانکہ وہ مدہوشی نہ ہو ں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمیعن نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! وہ ایک نجات پانے والا ہم میں سے کون ہوگا ؟ فرمایا خوش ہوجاؤ کہ وہ ایک تم ہی میں سے ہوگا باقی ہزار یا جوج اور ماجوج میں سے ہوں گے۔ پھر فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے مجھے امید ہے کہ تم لوگ تعداد میں اہل جنت کا چوتھا حصہ ہوگے یہ سن کر ہم نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے تم اہل جنت کا ایک تہائی حصہ ہوگے۔ ہم نے پھر نعرہ تکبیر بلندکیا، حضورﷺ نے پھرفرمایا کہ مجھے امید ہے تم آدھے اہل جنت ہوگے ہم نعرہ تکبیر پھر بلند کیا اس کے بعد ارشاد ہوا کہ تم لوگوں میں ایسے پہچانے جاؤں گے جیسے سفید بیل کے جسم ایک پر ایک سیاہ بال یاسیاہ بیل کی کھال پر سفید بال پہنچانے جاتے ہیں ۔ (او کما قال ﷺ۔ صحیح بخاری :۴۔۱۳۸۔رقم:۳۳۴۸۔صحیح مسلم:۱۔۲۰۱، رقم:۲۲۲، ۳۷۹۔سنن الترمذی:۵۔۱۷۵، رقم :۳۱۶۹، مسند احمد ابن حنبل:۱۷۔۳۸۵، ۳۸۴، رقم ۱۱۲۸۴، مشکوٰۃ المصابیح :۳۔۲۰۵، رقم :۵۵۴۱، صحیح ابن حبان :۱۶۔۳۵۲، رقم :۷۳۵۴، مسند الحمیدی :۲۔۸۰، رقم :۸۵۳، السنن الکبریٰ للسنائی :۱۰۔۱۸۸، رقم :۱۱۲۷۶، المستدرک علی الصحیحین للحاکم :۱۔۸۱، رقم :۷۸، المعجم الکبیر للطبرانی :۱۸۔۱۴۴، رقم :۳۰۶، الائسماء والصفات للبھیقی :۱۔۵۴۴، رقم ۴۷۱، الایمان لا بن مندۃ :۲۔۹۰۳، ۹۰۲، رقم:۹۸۸، الشریعۃ للآجری:۳۔۱۲۳۹، رقم :۸۰۹، تھذیب الآثار للطبری:۶۔۲۵۱، رقم :۲۷۵۴، جامع الاصول فی احادیث الرسول لابن الاثیر :۹۔۱۸۴، رقم:۶۷۴۸، حدیث السراج:۳۔۲۴۵، رقم :۲۶۶۸، شرح اصول اعتقاد اھل السنتہ لآلکائی :۶۔۱۲۵۲، رقم :۲۲۲۴، شرح السنۃ للبغوی :۱۵۔۱۳۹، رقم :۴۳۲۵، شعب الایمان للبیھقی:۱۔۳۲۲، رقم :۳۶۱، مسند ابی عوانۃ :۱۔۸۵، رقم :۲۵۳، مسند ابی یعلی:۵۔۴۳۰، رقم :۳۱۲۲، مسند الشامین للطبرانی :۳۔۳۲۵، رقم:۲۴۰۹، مسند عبد بن حمید :۱۔۲۸۷، رقم :۹۱۷)

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ جہنم میں زیادہ تعداد یاجوج ماجوج کی ہوگی اور ان ہی کے وجودسے جہنم کو بھرا جائے گا نیز یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ یاجوج ماجوج کا انجام سوائے جہنم کے اور کچھ نہیں ، اس طرح اس حدیث پاکﷺ سے یاجوج ماجوج کی کثرت تعداد بھی معلوم ہوتی ہے۔

’’حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ نبی دو عالم ﷺنے ارشادفرمایا خروج یاجوج ماجوج کے بعد بھی بیت اللہ کا حج و عمرہ کیا جاتا رہے گا۔ (بخاری۔1593۔منداحمد، 11235)

اس حدیث شریف سے یہ بات واضح ہو گئی کہ خروج دجال کے وقت حج اور عمرہ حسب سابق جاری رہے گا۔ اس لئے دجال کی ذریت کا بھی وہاں داخلہ بند اور ممنوع ہے۔ عین ممکن ہے کہ یاجوج ماجوج کے فتنے سے حرمین شریفین کو محفوظ رکھا جائے۔ یایوں کہ اس کا خروج ہو چکا ہو، اور لوگ آج کے ہی طرح اس وقت خواب غفلت سے بیدارہی نہ ہو، لیکن یاد رہے کہ فتنہ جسے قتل کرنے کیلئے خصوصی طور پر حضرت عیسیٰؑ کو آسمان سے زمین پر بھیجا جائے گا۔ دجال ہے۔ جوچالیس دن کے مختصر سے عرصے میں پوری دنیا میں فساد برپا کر رکے رکھ دے گا۔ انسانیت اپنی بے بسی کا تماشہ کھلے آنکھوں سے دیکھے گی۔ اہل ایمان بے بسی، بے کسی کا شکار ہوں گے۔ ایمان فروشوں سے دنیا بھر جائے گی۔ (اللہ خیر )

اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مسیح دجال کو حضرت عیسیٰؑ کیفر کر دار تک نہ پہنچادیں گے۔ ایک ہمہ گیر فتنہ جس سے مقابلہ کرنا انسانی طاقت سے باہر اور امکان سے خارج ہے۔ ’’یاجوج ماجوج کی صورت میں قیامت کے قریب رونماہوگا، پوری کائنات پر سراسیمگی طاری ہو جائے گی، اللہ کی زمین پر اللہ کا نام لینا جرم ہوگا۔ ’’خاکم بدہن‘‘ خداکو صفحہ ہستی سے مٹانے کا ناپاک خیال ان ظالموں کے دل میں ابھر ے گا آسمان پر تیر و تفنگ کی بارش برسائی جائے گی۔ دریاؤں کا پانی پی کرختم کردیا جائے گا۔ (یا د رہے کہ آج کا دور تیر و کمان کا نہیں ہے۔میزائیل اور دیگر ٹیکنا لوجی کا ہے)

زمین کی ہر وہ چیزکو پاؤں تلے روند ڈالا جائے گا۔(جس سے اللہ کی کبرائی جھلکتی ہو)یوں سمجھے کہ ایک حشر کا عالم برپا ہوگا۔ اللہ کی قدرت ان ظالموں سے زمین کو پاک صاف کردے گا اور ان کے ناپاک وجود سے زمین صاف کردی جائے گی۔ حضرت نو اس بن سمعانؓ سے روایت ہے کہ نبی مکرم سرور دوعالم ﷺ نے ارشادفرمایا عنقریب مسلمان یاجوج ماجوج کے تیر کمان اور ڈھال سات سال تک جلائیں گے۔ (ابن ماجہ۔4084)

یاجوج ماجوج دو قبیلوں کے نام ہے جو اپنے بانی کی طرف منسوب ہیں اب اس بات پر غور کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں لفظوں کی حقیقت کیا ہے؟کیونکہ ظاہر ہے کہ اتنے قدیم نام اپنی اصل سے بگڑتے ہی اس حال پر پہنچنے ہوں گے جیسا کہ ہم دوسرے بہت سے الفاظ دیکھتے ہیں جو ابتدا میں ان حروف سے مرکب تھے جنہیں زمانہ کی تبدیلی سے برقرار نہ رکھا جا سکا۔ چنانچہ اس سلسلے میں ہمارے سامنے مختلف الفاظ آتے ہیں جن کی بگڑی ہوئی صورت یاجوج ماجوج ہے۔

(1) موگ اور یوچی

(2) گاگ اور میگاگ

(3) منگولیا اور منجوریا

(4) کاس اور میکاس

(5) جین اور ماجین

(6)آقوق اور ماقوق

(7) گوگ اور ماگوگ

(8) غوغ اور ماغوغ

(9) کوک اور وکوک

یاد رہنا چاہئے کہ ان میں سے اول الذکر ’’چینی زبان‘‘ میں استعمال ہونے کا نتیجہ ہے ثانی الذکر ’’یورپی زبانوں ‘‘کی تعبیر ہے۔ اور موخر الذکر ’’ہند ی زبان کی تعبیر ہے۔ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ یاجوج ماجوج کا تذکرہ ہندی کتابوں میں بھی پایا جاتاہے جیسا کہ یہاں ذکر آتا ہے۔ دنیا میں اس وقت جتنی بھی متمدن اقوام ہیں وہ شروع سے متمدن اور مہذب نہیں ہیں ۔ بلکہ ان پر ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جس میں کوئی ان کے نام سے بھی آشانہ تھا۔ مثلا، موجودہ یوروپ اور امریکہ موجودہ تہذیب وتمدن سے پہلے ان اقوام کو جن ناموں سے پکارا جاتا تھا عین ممکن ہے کہ وہ اس زمانے کی انتہائی بگڑی ہوئی سرکش اور فسادی قوم کا نام رہا ہو۔ لیکن تہذیب وتمدن کے اس جدید دورسے بہرہ مند ہونے کے بعد ان اقوام نے اپنے پیدائشی علاقے سے ترک وطن کر کے اس نسبت سے اپنا پیچھا چھڑا لیا ہو اور اپنا کوئی دوسرا نام تجویز کر لیا ہو۔ اور اپنی پرانی عادات و خصائل کو یک لخت ترک اور تبدیل کردیا ہو۔ (وقتی مصلحت کے ساتھ) ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ یاجوج ماجوج ایک سر پھر ی لیکن مسلح اور طاقتور قوم ہے۔ یاجوج اور ماجوج کی مردم شماری نہیں کی جاسکتی ہے۔ یاجوج ماجوج کا خروج قیامت کے قریب ہوگا۔ (دنیا کے منظر پر )

’’(ذوالقرنین ) کہنے لگا کہ یہ تو میرے پروردگار مہربانی ہے۔ (کہ اس نے تکمیل و تعمیر سد کی توفیق عطا فرمائی )جب میرے رب کا وعدہ آ پہنچے گا تو وہ اسے ریزہ ریزہ کر دے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ بر حق ہے۔
(سورۃ الکہف پارہ۔16 آیت۔ 98)

ذوالقرنین کا تیسرا سفر ایک ایسی جگہ جا کر ختم ہوا جہاں دو پہاڑی درے موجود تھے۔ ان دراڑوں کی دونوں جانب مختلف اقوام آباد تھی اور پچھلی جانب کی وحشی اقوام اگلی جانب آکر فساد برپا کیا کرتی تھی۔ دونوں پہاری دروں کو بند کرنے سے پچھلی جانب آبادوحشی اقوام کے حملوں سے حفاظت ہونے کا یقینی غالب تھا۔

ذوالقرنین کے متعلق قرآن کریم نے دو باتیں صاف صاف بیان کی ہے۔ ایک یہ کہ وہ ’’سد‘‘ دو پہاڑیوں کے درمیان تعمیر کی گئی ہے اور انہوں نے پہاڑوں کے درمیان اس’’ درہ ‘‘کو بند کردیا، جہاں سے ہوکر یاجوج ماجوج اس جانب کے بسنے والوں کو تنگ کرتے تھے۔ ذوالقرنین کا یہ جملہ ’’جو اللہ کے شکر سے بھر پور اور اپنی عاجزی کا مکمل اعتراف ہے۔ اس وقت کا ہے جب کہ ذوالقرنین ’’سد‘‘ کی تعمیر سے فارغ ہوگئے اور گوکہ وہ ایک ایسی مضبوط دیوار تھی جس پر بھروسہ کر کے کہا جا سکتا تھا کہ اب تم لوگ بے فکر اور مطمئن ہو کر زندگی گزار و، اب یاجوج ماجوج سے تمہیں کوئی خطرہ نہیں رہا لیکن ذوالقرنین نے اپنے اور پر فخر اور دیوار کی مضبوطی پر اعتماد کرنے کے بجائے، ان کے سامنے اس حقیقت کا اظہار کیا کہ جب تک اللہ کو منظور ہے اس دیوار کی مضبوطی بر قرار رہے گی۔ اور یہ دیوار تمہارے لئے ایک رکاوٹ کا کام دیتی رہے گی، لیکن جب اللہ کو منظور ہوگا، وہ دیوار کو باقی نہیں رکھے گا، اس کی صلاحیت اور مضبوطی، مرضئی ربی کے سامنے کچھ کام نہ آئے گی اور یہ مضبوط ترین دیوار بھی پاش پاش ہو کررہ جائے گی۔ نیز یہ بھی یاد رکھو کہ میں نے اللہ کی توفیق سے یہ دیوار تمہارے اور یاجوج ماجوج کے درمیان قائم کردی ہے۔ ہمیشہ نہیں رہے گی۔ ایک دن ضرور فنا ہوجائے گی اس پر مکمل انحصار کرکے ’’یا د خدا‘‘سے غافل نہ ہونا AURTHUR KOESTLER ایک مشہور بنی اسرائیلی مصنف تھا، اس نے 1976میں اپنی کتاب ’’ ’THE THIRTEEN TRIBE‘‘ میں اس بات کو پیش کیا ہے کہ بارہ(۱۲) قبیلے بنی اسرائیل کے تھیں ، لیکن جو یہودی اور عیسائی (ان کی خصلت کے اعتبار سے )آج عوام عالم کے سامنے پیش ہیں وہ در اصل تیر ہویں (۱۳) قبیلے کے لوگ ہیں جن کو KHARZARS اور مشہور ASHKENAZIJEWS کہا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا روایتوں اور قرآن کریم احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یاجوج اور ماجوج کوئی عجیب و غریب قسم کے لوگ نہیں ہے۔ جن کومافوق الفطرت سمجھا جائے۔ یاجوج ماجوج اولاد آدمؑ میں سے ہیں ۔ ’’دورفتن‘‘ جس کی سچی خبر ہم سب کے آقاو مولیٰ رسول کریم ﷺ بہت پہلے دے چکے ہیں ۔ہمیں آپ ﷺ کی باتوں پر غورو فکر کرنا ہے۔ بعض احادیث میں اشاریہ جملے میں ہے۔ جن کو ہمیں قرآن کریم، آنحضور ﷺ کی اتباع ومحبت، تورایخ کے واقعات کی خانہ تلاشی کے ساتھ ہم اس کو حل کر سکتے ہیں ۔ اہم بات یہ کہ انہوں نے سب سے برتانیہ حکومت سے اپنے مقصد کی تکمیل کی، پھر امریکہ کے ذریعے سے اپنے شیطانی چالوں کو کامیاب کیا، اب ہو سکتا ہے کہ یہ چئیناکے ذریعے اپنا مقصد پورا کریں ۔(واللہ اعلم) اگر اب بھی ہم خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئے تو اللہ جا نے ہمارا کیا حال ہوگا؟۔

نہ تخت و تاج نہ لشکر و سپاہ میں ہے

جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے

صنم کدہ ہے جہاں اور مرد حق ہے خلیل

یہ نقطہ وہ ہے جو پوشیدہ لا الہ میں ہے

غافل نہ خودی سے کر اپنی پاسبانی

شائد کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ

یہ بندگی گدائی، وہ بندگی خدائی

یا بندئے خدا بن، یا بندئے زمانہ

تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے

کھویاگیا ہے تیرا جذبے قلندرانہ 

حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے۔ اے ابن آدمؑ !یقیناًجب تک تو مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور مجھ سے بہتری کی امید رکھے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا۔ خواہ تونے کیسے ہی عمل کئے ہوں ۔ اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ اے ابن آدمؑ ! اگر تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو تو میں تیرے پاس زمین بھر مغفرت لے کر آؤں گا۔(ترمذی، حدیث حسن)

کیا ہے تونے متاع غرور کا سودا

فریب سودوزیاں لاالہ الا اللہ

تبصرے بند ہیں۔