علی گڑھ ہی نہیں پورے ملک کو ’شاہد اعظمیوں‘ کی ضرورت ہے

عالم نقوی

چند سال قبل ہرش مندر کی ایک کتاب آئی تھی ’لوکنگ اَوے‘۔ اس کا ایک باب شاہد اعظمی کے نام ہے جس کا عنوان ہے ’’ہم شاہد سے کیا سیکھ سکتے ہیں ‘‘!

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ میوزیالوجی کے سبکدوش ڈائرکٹر پروفیسر افتخار عالم خان نے اس کتاب کے متعدد ابواب اردو میں ترجمہ کر کے ماہنامہ کانفرنس گزٹ علی گڑھ میں شایع کروا دیے ہیں۔ ہم ذیل میں  کانفرنس گزٹ کے شمارےستمبر ۲۰۱۶ میں شایع شاہد اعظمی سے منسوب’ لوکنگ اَوِے‘ کے صفحات ۳۵۸ تا ۳۶۲کا ترجمہ، قدرے اختصار کے ساتھ افتخار عالم خان، ہرش مندر اور کانفرنس گزٹ  تینوں کے شکریے کے ساتھ  اپنے قارئین کے لیے پیش کر رہے ہیں۔

’’۱۱ فروری ۲۰۱۲ کو چار نامعلوم افراد نے انسانی حقوق کے وکیل شاہد اعظمی کو اُن کے دفتر میں گھس کر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اُس وقت وہ صرف ۳۲ سال کے تھے۔ شاہد جب سات سال کے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ آئندہ ان کا خاندان بمبئی کی ایک کچی بستی(جھوپڑ پٹی ) میں ایک بیکری کے اوپر واقع ایک کمرے کے مکان میں اپنے نسبتاً خوشحال عزیز و اقارب کی ہمدردانہ سخاوت پر کسی نہ کسی طرح گزر بسر کرتا رہا تھا۔ شاہد کی والدہ نے اپنے پانچوں بیٹوں کو اپنی سخت نگہداشت میں پالا پوسا۔ شاہد کے بڑے بھائی نے اپنے سارے ارمان اور خواب قربان کر کے اپنے بھائیوں کی پرورش میں اپنی ماں کا ہاتھ بٹایا۔

شاہد اُس وقت صرف پندرہ برس کے تھے جب ۱۹۹۲۔ ۹۳ میں بابری مسجد کی (شہادت ) کے بعد بمبئی شہر قریب ایک ہفتے تک فساد کی آگ میں جلتا رہا تھا۔ بمبئی کی جھونپڑ پٹی میں واقع ان کے گھر کے سامنے پولیس والے جمع تھے (اور فسادیوں کے ساتھ لوٹ مار میں شریک تھے۔ علیگڑھ میں ۲ مئی کو جو کچھ ہوا وہ کوئی نئی بات نہیں۔ پولیس اس طرح کے مواقع پر کم و بیش ہر جگہ  بے خوف ہو کر اِسی طرح کا گھناؤ نا رول ادا کرتی آئی ہے کیونکہ اس کے خلاف تادیبی کارروائی کا کوئی ریکارڈ وطن عزیز میں نہیں پایا جاتا )۔ شاہد کے بھائی عارف نے ہفنگٹن پوسٹ کی  نامہ نگار  مس حنا آئنگر کوشاہد کے بہیمانہ قتل کے بعد بتایا تھا کہ وہ اور اس کے سبھی بھائی اپنی والدہ کے ساتھ پلنگ اور الماری کے درمیان واقع چھوٹی سی  جگہ میں چُھپ کر  بیٹھ گئے تھے کیونکہ پولیس والے مکان پر پتھراؤ  اور فائرنگ کر رہے تھے، گولیاں کھڑکی پر آآ کر لگ رہی تھیں۔ کم عمر شاہد کو پولیس کی اس کھلے عام نا انصافی (اور فی الواقع دہشت گردی ) نے بہت بے چین کر دیا تھا۔ اس نے  فسادیوں کو  مسلمانوں کے گھروں اور دوکانوں کو جلاتے، لوٹتے اور پڑوسی مسلمانوں کو قتل کرتے دیکھا تھا۔ اس وقت پولیس یا تو منھ پھیرے کھڑی رہی تھی یا پھر فسادیوں  کی ہمت افزائی (اور عملی  مدد ) کر رہی تھی۔ عارف نے حنا آئنگر کو بتا یا کہ شیوا نگر میں شاہد (اور ان لوگوں) کے سامنے پولیس کے باوردی سپاہی اُس کے ایک پڑوسی مسلمان کے گھر میں گھس کر عورتوں کو کھینچ کر باہر سڑک پر لاکر اُن کے ساتھ  علانیہ اپنی ہوس پوری کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ شاہد اور اس کے بھائیوں نے یہ بھی  دیکھا تھا کہ اس کے ایک پڑوسی مسلمان کو ایک پولیس افسر نے بھاگ جانے کے لیے کہا اور جب وہ بھاگنے لگا تو دوسرے پولیس والے نے اسے  پیچھے سے گولی مار دی۔

برسوں پہلے ٹائمس آف انڈیا کو دیے گئے ایک انٹر ویو میں شاہد اعظمی نے بتایا تھا کہ ’’میں نے خود اپنی آنکھوں سے پولیس والوں کو مسلمانوں کو قتل کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ میں قتل و غارت کی ان سفاکانہ وارداتوں کا عینی شاہد تھا۔ اِن خونی مناظر نے مجھے پاگل کر دیا تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ میں مدافعت کرنے والوں کی صفوں میں جا کھڑا ہوا تھا۔ شاہد نے بمبئی کے ان فسادات میں جو کچھ دیکھا تھا اس نے اس نو عمر بچے کو کچھ عرصے کے لیےت ایک شدت پسند بنا دیا تھا۔ ۔ لیکن جلد ہی اس کا یہ طلسم ٹوٹ گیا۔ ۔ مگر پولیس نے اس کو گرفتار کر کے طرح طرح کی اذیتیں دیں اور دہشت گردی کے الزام میں جیل میں ڈال دیا۔ شاہد کی اذیتیں اور مصیبتیں اس وقت ختم ہوئیں جب سات طویل برسوں کی قید و بند کے بعد سپریم کورٹ نے اسکو تمام الزامات سے بری کر تے ہوئے رہا کردیا۔

شاہد نے کسی بھی تلخی یا نا امیدی کے بغیر جیل اپنی پڑھائی جاری رکھی اور  ایم اے کرنے کے بعد ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرلی اور ایک مشہور وکیل کے ساتھ کام کا عملی تجربہ حاصل کیا۔ لیکن وہ انصاف اور سچائی کے ساتھ کسی بھی طرح کا کھلواڑ برداشت نہیں کر سکتا تھا جو عموماً بڑی قانونی فرمیں کرتی رہتی تھیں۔ اس لیے اس نے جلد ہی لا فرم سے الگ ہوکر  خود اپنی علٰحدہ پریکٹس شروع کردی۔

شاہد اعظمی نے اپنی تمام تر قانونی صلاحیتوں کا پورا استعمال ان بے گناہ مسلم نوجوانوں کے دفاع تک محدود رکھا جو خود اسی کی طرح بے یارومددگار جیلوں میں اذیتیں جھیل رہے تھے۔ نہایت قلیل محنتانہ  اور اکثر بغیر کوئی معاوضہ لیے ہوئے شاہد نے حیرت انگیز طور پر کئی ایسے لوگوں کو رہا کروالیا جن پر دہشت گردی کا جھوٹا الزام تھا حالانکہ حکومت نے اُن بے گناہوں کے خلاف  پولیس کے دائر کردہ  فرضی اور جھوٹے مقدموں کی پیروی میں اپنی پوری طاقت صرف کر دی تھی !

جان سے مار ڈالنے کی دھمکیوں کے باوجود وہ نہایت مستقل مزاجی اور تواتر سے انصاف کی راہ میں کھڑی کی گئی دیواروں کو اپنی استطاعت بھر منہدم کرتا رہا ۔ اذیتیں دے کر لیے گئے اقبالیہ بیانات، گھڑے ہوئے جعلی ثبوت، فرضی گواہیاں، ساتھ ہی عوام میں موجود جارحانہ نفرت، جس کا مظاہرہ نہایت بے شرمی کے ساتھ  اُن وکیلوں کے خلاف بھی  ہوتاجو اُن بے گناہوں کا مقدمہ لڑ رہے ہوتے تھے۔ لیکن شاہد کا سابقہ ایسے ایماندار ججوں سے بھی پڑا تھا جو عدلیہ کی بڑی مشین کا گمنام پرزہ تھے لیکن جو ہمہ دم اُس کی شعوری کوشش کرتے رہتے تھے  کہ  انصاف اور انسانیت کا دامن کسی بھی قیمت پر ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔

 کچھ عرصے بعد ہی اُسے ’’ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز ‘‘میں لکچر دینے کے لیے بلایا جانے لگا۔ اُس کی دوست اور ساتھی مونیکا سکھرانی نے بتایا کہ اکثر وہ اپنے لکچروں میں لال قلعے کے نیچے واقع کال کوٹھری میں حراست کے دوران گزارے ہوئے اُن دو سیاہ مہینوں  کا حال بھی سناتا تھا جس کے دوران اسے شرمناک اور انسانیت سوز اذیتیں دی گئی تھیں۔ ساتھ ہی تہاڑ جیل کی کال کوٹھری میں گزارے ہوئے قید تنہائی کےایک سال کا بھی ذکر کرتا تھا جس سے کرن بیدی کی مداخلت کے بعد اُسے نجات ملی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا  جب اس نے پاگل ہوجانے کا ناٹک کیا تھا اور اسے ایک سال کے لیے پاگل خانے ڈال دیا گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ رمضان کے مہینے میں اسے سحر ی تک سے محروم رکھا جاتا تھا۔

شاہد اعظمی امریکہ کے اس نیگرو وکیل کے اس قول پر پوری طرح کار بند رہا کہ:

 ’’انہوں نے میرے ساتھ نا انصافی کر کے مجھے انصاف سے محبت کرنا سکھا دیا اور انہوں نے مجھے بے عزتی اور اذیت رسانی کے معنی سمجھا کر میرے دل میں تمام مظلوموں کے لیے رحم کے جذبات موجزن کر دیے۔ ان مشکل دنوں سے میں نے جو سبق سیکھے وہ ہیں تعصب سے نفرت، مظلوم کی حمایت اور ظلم کے خلاف مزاحمت ‘‘

مونیکا نے  بتایا کہ اسے ’’دہشت گرد وکیل ‘‘ کہا جاتا تھا لیکن وہ کسی اشتعال کے بغیر لوگوں کو اپنے لکچر میں ثبوت کے ساتھ بتاتا رہتا  تھا کہ وہ دہشت گرد نہیں تھا۔ وہ صرف اُن بے گناہوں کا دفاع کرتا تھا جن کو دہشت گردی کے جھوٹے الزام  میں پولیس  نے قیدو بند کی ابتلا میں ڈال رکھا تھا۔ جب ۳۲ سال کی عمر میں  دہشت گردوں نے گولی مار کر اُس کا چراغ زندگی گُل کیا تو  اپنی وکالت کے نہایت درخشاں سات برسوں  میں اس نے پچاس بے گناہوں کی پیروی کی تھی اور چودہ بے قصور افراد کو عدالت سے باعزت بری کروانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔

شاہد اعظمی  کی شہادت کے بعد اُس کے مخلص ساتھیوں نے کسی بھی طرح کے ڈر اور خوف کے بغیر  اس کے آخری کیس کی پیروی جاری رکھی جس میں فہیم انصاری کو چھبیس گیارہ کے ممبئی دہشت گردانہ حملہ کیس میں پولیس کے ذریعے غلط طریقے سےپھنسا رکھا تھا۔ نتیجہ وہی ہوا جس کا سب کو یقین تھا۔ خصوصی عدالت نے فہیم انصاری کو بری کردیا۔ اگرچہ بے شرموں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی لیکن وہاں بھی اُنہیں  منہ کی کھانی پڑی اور عدالت عظمیٰ نے بھی فہیم کو بری کیے جانے کے فیصلے کو بحال رکھا۔ اور یہ اسی لیے ممکن ہو سکا کہ  خصوصی عدالت کے سامنےابتدائی جرح میں شاہد نے پولیس کے وکیلوں کے لگائے ہوئے الزامات کو مکمل طور پر مسمار کرتے ہوئے بے گناہ فہیم انصاری کے دفاع کی ایک نہایت مستحکم بنیاد فراہم کر دی تھی۔

آج ایسے سیکڑوں نوجوان ہیں جنہوں نے شاہد اعظمی سے متاثر ہو کر محض مظلوموں کی پیروی کی غرض سے  قانون کی پڑھائی شروع کی ہے اور وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے ان میں نصف درجن نوجوان تو  اُسی جھوپڑ پٹی  کے باسی  ہیں جہاں شاہد کی ابتدائی زندگی گزری تھی۔

شاہد اعظمی کی کہانی ہمیں  کسی بھی طرح کی مایوسی کے بغیر نا انصافی کے خلاف  بے خوف ہوکر لڑنا سکھاتی ہے  چاہے اس راہ میں ہمیں اپنی جان ہی کیوں نہ گنوانی پڑے۔ وہ  ایک شاہد اعظمی کوتو مار سکتے ہیں لیکن دس بیس سو اور ہزار شاہد اعظمیوں کو ہر گز  نہیں مار سکتے۔

جب ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ کے طلاب اُس سے سوال کرتے تھے آخر ظلم پر مبنی ان مسائل کا حل کیا ہے تو اس کا واحد جواب ہوتا تھا۔۔ ’’انصاف اور صرف انصاف۔ انصاف پر مبنی نظام کا قیام اور بس۔ ۔ !‘‘

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔