صابۂ مندائیہ

مولانا انیس احمد مدنی

صابۂ ، مشرق کا ایک قدیم ترین سامی مذہب ہے۔ سامی، سام بن نوح علیہ السلام کی جانب نسبت ہے ، مشرق وسطیٰ میں آباد قومیں آپ ہی کی ذریت سے ہیں، لہٰذاوہ مذاہب جن کا مولدومسکن مشرق وسطیٰ ہے انھیں سامی مذاہب کہاجاتاہے، جیسے: اسلام، یہودیت، نصرانیت اور صابۂ۔ اس مذہب کے لوگ آج بھی عراق میں پائے جاتے ہیں اور چونکہ ان کے مذہبی نوشتے آرامی زبان میں ہیں لہٰذاان کے تعلق سے دنیا بہت کم جانتی ہے اور ان کی حقیقت کے تعلق سے متضاد آراء و افکار کتب تواریخ میں ملتے ہیں۔
صابۂ کی لغوی تعریف:
[1] زیادہ تر اہل تحقیق کے نزدیک’صابۂ‘ عربی لفظ ہے جس کے لغوی معنی ایک دین سے دوسرے دین کی جانب نکلنے کے آتے ہیں، ابواسحاق الزجاج کہتے ہیں:’’الصابؤن:الخارجون من دین الی دین‘‘(تاج اللغۃ)صابۂ ایک دین سے نکل کر دوسرے دین کو اختیار کرنے والوں کوکہتے ہیں۔
مفردات القرآن میں ہے:’’قیل لکل خارج من دین الی دین آخر‘‘ہروہ شخص جواپنا دین ومذہب چھوڑکر دوسرا دین اختیار کرلے اسے صابی کہتے ہیں، اسی معنی میں قریش نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کو صابی کہتے تھے۔
[2] بعض علماء کا خیال ہے کہ شاید یہ عبرانی لفظ ’ص ب ع‘ سے بحذف عین نکلا ہے جس کے لغوی معنی غوطہ دینا یا ڈبونا ہے، اس کے لحاظ سے صابی کے معنی اصطباغی کے ہوں گے یعنی وہ جو غوطہ دے کر اصطباغ کی رسم ادا کرتے ہیں(اردودائرہ معارف )اور ان کے یہاں اصطباغ سب سے اہم عبادت ہے۔
[3] صبأ کے معنی ستارہ کے طلوع ہونے کے آتے ہیں، شاید یہ لوگ اپنی ستارہ شناسی اور معرفت نجوم میں مہارت کے سبب سے اس نام سے موسوم ہوئے ہوں۔(تدبر قرآن ج1ص231)
صابۂ کی حقیقت
صابۂ کون تھے اس سلسلے میں علماء و مفسرین سے مختلف اقوال منقول ہیں، امام مجاہدؒ و حسن کے نزدیک یہ لوگ خاص دین کے پیرونہیں تھے بلکہ یہودیت اور مجوسیت کے بین بین تھے۔ عمرفاروقؓ ، ابن عباسؓ اور ابوالعالیہؒ وغیرہ کے نزدیک یہ اہل کتاب کا ایک فرقہ اور توحید کا علمبردار تھا۔
ابن زید کا قول ہے کہ یہ ایک مخصوص دین کے پیرو تھے اور جزیرہ موصل میں آباد تھے ، ان کا عقیدہ توحیدتھا لیکن نہ تو یہ کسی نبی اور نہ کسی کتاب کے پیرو تھے اور نہ ان کے یہاں شرعی اعمال کا کوئی مخصوص نظام تھا۔ قتادہؒ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ملائکہ کی پرستش کرتے ، قبلہ کی طرف نماز پڑھتے اور زبور کی تلاوت کرتے۔
یہ اقوال بظاہر متضاد نظرآتے ہیں لیکن حقیقتاً کوئی تضادنہیں ہے۔اس میں شبہ نہیں کہ اول اول یہ لوگ دین حق پر تھے لیکن بعد میں یہ لوگ دین حق سے منحرف ہوکر ملائکہ اور ستاروں کی پرستش میں مبتلا ہوگئے جیسے اولاد اسماعیل ، توحید کی علمبردار تھی اور پھر دھیرے دھیرے بت پرستی میں مبتلاہوگئی۔
مختصراًیہ کہ صابۂ مشرق کا وہ مذہبی فرقہ ہے جو یحییٰ علیہ السلام کو اپنا نبی مانتاہے، ستاروں کی پرستش و تعظیم کرتاہے اور قطب شمالی کے ستارہ کی جانب رخ کرنا اور پانی میں غوطہ لگانا ان کا اہم مذہبی فریضہ ہے۔
صابۂ کے دیگر القاب
[1] مندائیہ: مندائیہ عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں’مغتسلہ‘ انھیں مغتسلہ کا لقب اس لئے دیا گیا کیونکہ پانی میں غوطہ لگانا ان کے یہاں اہم ترین عبادت ہے۔
[2] مینڈین(Mandaen)آرامی لفظ ہے جس کے معنی علم والے کے آتے ہیں(ایران بعہد ساسانیاں) انھیں یہ لقب اس لئے دیا گیا کیونکہ اس مذہب کو جن لوگوں نے چارچاند لگایا وہ فن طب، علم کائنات جوی، ہیئت اور ریاضی کے ماہر اور امام تھے جیسے ثابت بن قرہ ایک ممتاز انجینئر، جدت پسند ہیئت داں تھا، سنان بن ثابت طبیب اور ماہر علم کائنات جوی، البتانی مشہورومعروف ہیئت داں ، ابوجعفرالخازن ریاضی داں، ابن الوحشیہ (الفلاحۃالنبطیہ کا مصنف) اس مذہب کی توسیع و اشاعت میں ان لوگوں کا رول کافی اہم ہے۔
[3] نصارائے یحییٰ علیہ السلام: عراق میں عوام الناس ان کو حضرت یحییٰ کی امت کہتے ہیں، لیکن جیوش انسائیکلوپیڈیا میں ان کے اس لقب کوغلط ٹھہرایاگیاہے۔(دیکھئے :ج8ص288)
امام الشہرستانی نے ان کا شمار ’الروحانیون‘ میں کیاہے یعنی وہ لوگ جو ملائکہ پرستی اور کواکب پرستی میں مبتلا ہیں۔(دیکھئے الملل و النحل)
صابۂ اپنے کو دوسرے فرقوں کے سامنے صابی ہی کہتے ہیں اس لئے اسی نام سے ان کو موسوم کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔
صابۂ کے اہم عقائد
خدا کا تصور: صابۂ اس بات کے قائل ہیں کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے جو حکیم ہے اور داغ حدوث سے پاک ہے ، جس کے جلال تک پہونچنے کے لئے عجز کااعتراف ہم پر واجب ہے، جس کا تقرب مقدس و مقرب وسیلوں کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتاہے، الشہرستانی کے بقول یہ مقرب واسطے وہ روحیں ہیں جو اپنے جوہر، افعال اور حالت کے اعتبار سے پاک اور مقدس ہیں اور اپنے جوہر کے لحاظ سے وہ جسمانی مواد سے پاک، قوائے طبیعی سے مبرا اور حرکات مکانی اور تغیر زمانی سے منزہ ہیں، وہ روحوں کو اپنا رب، اپنا دیوتا اور اللہ رب الارباب کے پاس اپنا سفارشی اور وسیلہ مانتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ انسان اپنی شہوانی خواہشات اور قوائے غضبیہ کو مغلوب کرکے ان روحوں سے مناسبت پیدا کرسکتاہے اور پھر ان کے توسط سے خالق کائنات سے اپنی حوائج و ضروریات کو مانگ سکتاہے۔
ابن ندیم کے بقول: اللہ تعالیٰ نے اپنے اصحاب عقل و تمیزبندوں کو اپنی ربوبیت کے اقرار کا مکلف ٹھہرایا ہے، حق کا راستہ ان کے لئے واضح کیاہے، ان کی رہنمائی اور اتمام حجت کے لئے پیغمبر بھیجے ہیں اور ان کوحکم دیاہے کہ لوگوں کو اللہ کی رضاجوئی کی دعوت دیں اور اس کے غضب سے ڈرائیں۔ ان پیغمبروں نے اس کی اطاعت کرنے والوں کو لازوال نعمتوں کی نوید سنائی ہے اور نافرمانی کرنے والوں کو عذاب کی دھمکی دی ہے جو بقدر استحقاق کے ہوگا اور پھر منقطع ہوجائے گا۔ (الفہرست:727)
رسالت کا تصور: صابۂ رسالت کے قائل ہیں، وہ درج ذیل اشخاص کو اپنا پیغمبر مانتے ہیں:
[1] عاذیمون(پاکیزہ روح) Agatholemon
[2] ہرمس (Hermes)
بعض اہل تحقیق کے نزدیک عاذیمون سے مراد شیث علیہ السلام اور ہرمس سے مراد ادریس علیہم السلام ہیں۔
[3] ادرفیوس (Orpheus)
[4] یحییٰ علیہ السلام (دیکھئے اردو دائرہ معارف لاہورص4)
کواکب پرستی: صابۂ اگرچہ دین توحید کے علمبردار تھے لیکن رفتہ رفتہ کواکب پرستی کے قائل ہوگئے اور دوگروہوں میں منقسم ہوگئے۔ ایک وہ جو ستاروں کی براہ راست پرستش کرتے تھے جنھیں معابدکہتے ہیں اور دوسرے وہ جو ہاتھ سے بنی ہوئی مورتیوں(اشخاص) کی پوجاکرتے تھے جنھیں انسانوں کے تعمیر کردہ معابد میں رکھاجاتاتھا اور جو ستاروں کی نمائندگی کرتی تھیں۔ان کا خیال ہے کہ ستاروں کا طلوع و غروب بارش وغیرہ پر اثراندازہوتاہے، اس کائنات میں جو حرکات و سکنات بھی ہوتی ہیں اس میں ان ستاروں کا بڑا دخل ہے۔
عہدرسالت میں یہ تصور عراق و حجاز میں پھیلاہواتھا جس کی تردید کرتے ہوئے آپ ﷺ نے حدیبیہ میں بادل والی رات کی صبح بعد نماز فجر فرمایا تھاکہ اللہ تعالیٰ نے ابھی فرشتوں کے درمیان یہ بات ارشادفرمائی ہے کہ میرے بندوں نے آج صبح اس حال میں کی ہے کہ بعض ان میں سے مومن ہیں اور بعض کافر، جن لوگوں نے آج کی اس بارش کو ستاروں کا کرشمہ قرار دیا ہے گویا انھوں نے مجھ سے کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لائے، اور جنھوں نے اسے خدا کی رحمت قرار دیاگویا وہ میری ربوبیت پر ایمان لائے اور ستاروں کی تدبیر کا انکار کیا۔(المؤطا:ص67)
نبی اکرم ﷺ کے بیٹے ابراہیم علیہ السلام کا جب دس ہجری میں انتقال ہوا تو اتفاق سے اسی دن سورج کوگہن بھی لگ گیا، چنانچہ اسی تصور کی بناپر بعض لوگوں نے سورج گہن کو ابراہیم کی موت سے جوڑدیا تو نبی اکرم ﷺ نے اس کی یوں تردید فرمائی: ’’ان الشمس والقمر آیتان من آیات اللہ ،لایخسفان لموت احد ولالحیاتہ‘‘(الموطا)
یقیناًسورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ان دونوں کو گہن کسی کی موت و حیات کی بناپر نہیں لگتا۔

تبصرے بند ہیں۔