عورت دور جدید میں!

مُبینہ رمضان
عورت نصف انسانیت ہیںیہ ایک عیاں حقیقت ہے جو چاہے نہ چاہے بھی قابل تسلیم بات ہے عورت کو اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم مقصد کے ساتھ اور گونا گوں صفات کے سمیت تخلیق کیا ہے۔ اگر چہ عورت ہر روپ میں قابل تعریف ہیں لیکن سب سے منفرد خوبی ہے کہ اِسے ایک قوی جذبے مامتا سے نوازا ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لئے ہردور اور ہر مرحلہ میں ایسے بہترین انتظامات کئے کہ انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ خالق کائنات نے ایک عظیم منصوبہ بندی سے ہر شئے کی تخلیق کی ہے۔ انسانی معاشرہ کی تشکیل ، تمدن کی ارتقاء اور معاشرے کی تعمیر میں جن عناصر کا موجود ہونا لازم ہیں وہ تمام تر خوبیاں عورت یعنی(betterhalf) میں موجود ہیں۔ بس ایک مثبت سوچ کا ہونا شرط ہے۔
ایسی صفات کی مالکہ اکیسوی صدی کے دوراہے پر کیا محسوس کرتی ہے۔ کیا اتنی صورتوں میں گھر کو سنوارنے والی، نسل نو کو جنم دینے اور پرورش کرنے والی، غم و خوشی میں اپنے شریک حیات کو ہمراز و ہمسفربنانے والی اور سسرال کے اُتار چڑھاؤ سب کچھ مشاہدات کے باوجود ہونٹوں کو سینے والی کیا دور حاضر میں ایک پُر سکون زندگی جی رہی ہیں کیا وہ اب اس معاشرے میں خود کو محفوظ تصور کرتی ہیں۔ کیا یہ ایثار و محبت کی پیکر خود کو آزاد سمجھتی ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جو آج کل کی خواتین من ہی من میں اپنے آپ پوچھتی ہیں؟
چونکہ ہم اسی حلقہ میں شب وروز گذارتے ہیں اور اکثر ایسی خواتین سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہے ۔ایک خاتون سے اچانک ہم نے پوچھا کہ آپ کسی زندگی گذارتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ کیسے دور سے گذررہے ہیں میں اچھے گھر میں بیاہی ہوں اور میں خود نوکری کرنے کے لئے نکلتی ہوں گھر میں ایک سال کا بیٹا ہے اور میں بہت پریشان ہوں۔ بات کرتے ہوئے اُسکی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور کہنے لگی کہ میں صبح سویرے نکلتی ہوں اور نہ چاہتے ہوئے بھی میں نوکری کرتی ہوں جبکہ اپنے شیر خوار بچے کو بہت مِس کرتی ہو وہ بھی میرے بغیر روتا رہتا ہے۔ لیکن گھر میں سارے کام کرنے کے باوجود میں گھر کی کمائی کا ایک ذریعہ ہوں۔ میں یہ سُن کر دم بخود ہوگئی اور بہن کو تسلی دی لیکن میرے شعور میں کئی سوالات گردش کررہے تھے کہ کیا وجہ ہے کہ ماں اپنی ممتا کو قتل کر کے اپنی خواہش،چین و سکون، حُسن و قراراور اپنے جسم کے حصے کو چھوڑ کر اس مادیت کی دوڑ میں دوڑ رہی ہیں جسکی منزل کہیں نہیں ہے اور جہاں صرف اندھیرا ہے۔ کیا یہ ذہنی غلامی اور پستی نہیں شوہر حضرات اپنی شریک حیات سے کیا کیا تقاظے کرتے ہیں۔ کیوں ہماری بہنیں مجبور ہیں یہ سب کرنے کے لئے ۔ کیا اس میں صرف عورت قصور وار ہیں اور مرد حضرات سب بری ہیں؟
بِلاشبہ ہماری زندگی میں جدیدیت تو آئی ہے لیکن ذہنی غلامی ہمارا پیچھا ہی نہیں چھوڑتی۔ ہم روز بروز اپنی معلومات میں اضافہ تو کرتے ہیں لیکن اپنی اقدار کو روبہ زوال دیکھ کر خاموش رہتے ہیں۔ اور ایسے مسائل اُبھر رہے ہیں جن سے ہمارا سماج کھوکھلا ہو چکا ہے ۔یا معاشرہ کی اُبھرتی بُرائیوں کے پنپنے میں بھی عورت کا ہاتھ ہے، عورت ظالم ہے یا مظلوم۔۔۔۔ ایسے سوالات ہیں جو حل طلب ہیں کبھی شعور میں یہ بات آتی ہیں کہ شاید ہمارے تصورات (concepts) بنیاد سے ہی غلط ہیں۔ اگر عورت کو عورت کے تناظر سے ہی قبول کرتے تو یہ سارے مسائل خود سے حل ہوتے ۔ اگر مسائل ہمارے ہی طرف سے اُبھرے ہیں تو ہمارے پاس ہی ان کا حل مضمر ہیں۔ شرط ہیں کہ مسئلہ کی جڑ تو نظر آئے۔ اس بحث سے واضح ہوتا ہے کہ جب بھی بنی نوع انسان نے فطرت کے قوانین یا قدرت کے قانون سے انحراف کیا تو سماج میں بُرائیاں ناسور بن کر اُبھر یں گی، مادیت، فیشن پرستی، فحاشی، عُریانیت، بگڑتی ازدواجی زندگی،والدین کی نافرمانی، رسموں و رواج کا پروان چڑھنا، بچوں کا منحرف ہونا، خود سوزی، عورتوں کی حقوق کی پامالی، حق تلفی، مغرب پرستی، ایسے ہیں جو مسائل آج ہمارے سماج میں جڑیں پکڑ چکے ہیں۔ ذی شعور اور ارباب دانش پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ ایسے مسائل کو حل کرنے میں ہر ایک فرد انفرادی طور پر ذمہ دار ہے اور ایسے مسائل کی اصلاح انسانیت کی بقا کے لئے بے حد ضروری ہے تاکہ ہمارا سماج ہر ایک بُرائی سے پاک ہو ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے ذہنوں میں صحیح اور مثبت تصورات ہی محفوظ رکھے اور حق کو تسلیم کرے اُسی کو اپنائے چاہے کسی کو کتنا ہی کڑوا لگے۔ہمارے سماج میں اب جرائم کا پیش آنا بھی معمولی بات بن گئی ہے۔ قتل و غارت کے واقعات بھی عام ہے۔
کیا اب بھی ہماری بہنیں جہیز کی آڑلے کر ستائی نہ جاتی ہیں۔ کیا اب بھی خود سوزی کے واقعات نہیں آتے روز بروز گھریلو تشدد ، جیسے اضافہ ہورہا ہے کیا نام نہاد مہذب دنیا صرف مادیت کی اندھی دوڑ میں پریشان ہیں اور اسکے حصول کے لئے کوئی بھی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ کیا ’’یہی وُومن پاوَر ہے‘‘ جسکو لوگ تقریروں میں دہراتے رہتے ہیں کہ اب عورت آزاد ہے اور empowered ہے جبکہ ہمارے خیال میں یہ آزادی نہیں غلامی اور وہ بھی ذہنی غلامی ہے۔ ہماری مہذب دنیا میں تہذیب کے معیار کب قائم ہونگے ؟کیا معلوم کب اور کس صدی میں لوگ فہم حاصل کریں گے اور سماج میں عورت کو یکطرفہ چھوڑ کے قوام حضرات یہ ذہن نشین کریں کہ عورت کی تخلیق ایک عظیم مقصد کے لئے ہوتی ہے جسکی قدر و منزلت اِس کام سے افضل ہے جو کہ اِسے ذریعہ آمد ن سمجھا جائے انسانیت و اسلام کی اقدار کے مطابق اِسکی تمام تر ذمہ داریاں مرد حضرات پر ہیں۔ عورت کا اصل محاذ تو اسکا گھر ہے۔ اسکی شناخت ہیں ہاں حالت اضطراری میں اگر چہ عورت کسی حد تک گھر کے چلانے میں معاونت کرے تو بہتر ہے لیکن ہر حال میں اسلام نے ذمہ داری مرد حضرات کے سپرد کی ہے اور عورت ان ذمہ داریوں سے بری ہیں ۔
’’آج کی عورت دور جدید کے ذی شعور قوم سے سوال کرتی ہیں کہ عورت آج بھی جاہل تخیلات کی غلامی میں گٹ گٹ کے دن کاٹ رہی ہیں کیا وہ ہر حق پارہی ہیں۔ اگر چہ سماج میں سب ایسے ذہن رکھنے والے نہیں ہیں تاہم اکثر اسی سوچ کو فروغ دیتے ہیں کہ عورت کھانہ پکانے میں بھی ماہر ہو اور کمانے میں بھی پیش پیش ہو۔ یہ سوچ تو ذہن کی پستی کا مظاہرہ ہیں۔ ہماری تحریر کا مطلب یہ نہیں کہ عورت گھر سے باہر قدم ہی نہ رکھے ۔ نہیں عورت کو چند شعبوں میں اپنے دائرہ کارمیں رہ کر مثبت کردار ادا کرسکتی ہیں لیکن اس فریضہ کا مقصد یہ نہ ہو کہ عورت ذریعہ آمدن بنے بلکہ وہ اپنے کردار سے سماج میں اصلاح کرے۔ خود اعتماد پا کر دوسروں کے لئے سعی کرے۔
آج کے دور کی عورت اسی دُھندلی سی دنیا میں اپنی شناخت تلاش کررہی ہیں۔ اب حالات بہت بدل چکے ہیں، ہمارے رہنے، سہنے، اُٹھنے، بیٹھنے یہاں تک کہ کھانے پینے کے معیارات تو کافی بدل گئے ہیں اور اعلیٰ بہوئے ہیں لیکن ہمارا ذہن، سوچ، نظریہ، منفی رویہ، سلیقہ شعاری، کجح فہمی ہماری زندگیوں میں بالکل عیاں ہیں جسکے نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ ہمارا سماج ایک ہزار بیماریوں سے جھوج رہا ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔