تاریخ سے متعلق علامہ عبدالحی فرنگی محلی کی کتابوں کا تعارف

مولانا ولی اللہ مجید قاسمی
زندگی ایک سفر کا نام ہے اور دنیا ایک مسافر خانہ ہے، جہاں انسان تھوڑی دیر کے لئے رکتا ہے اور پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجاتاہے، اس مسافر خانے میں کچھ ایسے لوگ بھی آکر ٹھہرتے ہیں جوجانے کے بعد بھی موجود رہتے ہیں۔ دلوں میں ان کا نقش اور زبانوں پر ان کے تذکرے ہوتے ہیں، تاریخ اور تذکرے کی کتابیں اسی لئے لکھی جاتی ہیں تاکہ ان کا نقش قدم محفوظ رہے، جن راہوں پر چل کرکے انھوں نے کامیابی حاصل کی ہے ، دوسرے لوگ بھی کامیابی حاصل کرنے کے لئے اسی راستے کو اپنائیں، ان کی خوبیوں اور اچھائیوں، ان کی عظمتوں اور خصوصیتوں پر نظر رہے تاکہ انھیں اپنی زندگی میں لایاجاسکے، خامیاں اور ناکامیاں بھی معلوم رہیں تاکہ ان سے بچاجاسکے۔ ان کے مراتب اور مدارج سے بھی آگاہی رہے تاکہ ہر شخص کو اس مرتبے اور درجے پر رکھاجاسکے، تاریخ پیدائش اور وفات نیز ان کازمانہ اور اس وقت کے حالات سے واقفیت رہے تاکہ ان کی مختلف رایوں کے درمیان تطبیق دی جاسکے اور متقدم و متاخرکے بارے میں معلوم ہوسکے۔ ان کے آثار، حکایات ، فیوضات اور تصنیفات کے متعلق علم رہے تاکہ ان کی سیرت کو اپنانے کا جذبہ اور شوق بیدارہو۔
علم تاریخ و رجال کے یہ وہ فوائد ہیں جو علامہ عبدالحئی فرنگی محلی نے اپنی کتاب ’’فوائدبھیۂ‘‘ کے شروع میں لکھے ہیں۔ یہ کتاب درحقیقت علامہ محمود سلیمان لکھنوی کی کتاب ’’کتائب اعلام الاخیار فی طبقات فقھاء مذہب النعمان المختار‘‘ کی تلخیص ہے۔ یہ ابھی تک مخطوطہ کی شکل میں ہے اور زیورطباعت سے آراستہ نہ ہوسکی ہے۔ علامہ لکھنوی دسویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں۔ انھوں نے اس کتاب میں امام ابوحنیفہ ؒ سے لے کر اپنے زمانے تک کے مشہور علماء حنفیہ اور بزرگان کا تعارف کرایاہے۔ علامہ فرنگی محلی نے اس کتاب کی تلخیص کے ساتھ بہت سی اہم چیزوں کا اضافہ بھی کیا ہے۔ شروع میں ایک طویل مقدمہ لکھاہے، جو فقہ کی تاریخ، تعریف ، اہمیت اور طبقات فقہاء پر مشتمل ہے۔ کتاب کی تلخیص کے ساتھ مفید اضافے بھی ہیں اور بعض جگہوں پر علامہ لکھنوی پر تنقیداور ان سے اختلاف بھی کیاہے۔ ختم کتاب پر الگ سے دو ’’فصل‘‘ لکھی ہے، جن میں ان لوگوں کے ناموں کی تعیین کی گئی ہے جنھیں رجال کی کتابوں میں مبہم طور پر ان کی صفت، نسبت یا کنیت وغیرہ سے ذکر کیا گیاہے اور دوسری فصل ’’علم رجال‘‘ سے متعلق مختلف فوائد اور لطائف پر مشتمل ہے۔
علامہ لکھنوی کی کتاب میں پانچ سو چھبیس فقہاء کرام اور علماء عظام کا تذکرہ ہے اور ذیلی طور پر سترہ لوگوں کے نام آئے ہیں۔ علامہ فرنگی محلی نے چوالیس نئے ناموں کا اضافہ کیا ہے اور بعض لوگوں کے تذکرے خاتمہ میں آئے ہیں، اس طرح سے پوری کتاب چھ سو چار شخصیات کے تعارف پر مشتمل ہے، جس میں تاریخ پیدائش اور وفات، تالیفات و تصنیفات اور اساتذہ و تلامذہ کے تذکرے کا اہتمام کیاگیاہے، خوبیوں کے ساتھ خامیوں کا بھی تذکرہ ہے، امیر کاتب اتقانی کے خودستائی پر مشتمل جملوں کی خوب خبر لی گئی ہے، یہی وہ صاحب ہیں جن کا خیال ہے کہ رکوع میں جاتے اور اٹھتے ہوئے’’رفع یدین‘‘ کرنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے ، علامہ فرنگی محلی نے ان کے اس نقطہ نظر پر بھی کتاب میں متعددجگہ تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور پرزور انداز میں اس غلط رائے کی تردید کی ہے۔
اور عصام بن یوسف کے تذکرے میں لکھاہے کہ یہ امام ابویوسف کے خصوصی تلامذہ میں سے ہیں اور رکوع میں جاتے اور اس سے اٹھتے ہوئے ’’رفع یدین‘‘ کیاکرتے تھے، علامہ فرنگی محلی اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
’’اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اگر کوئی حنفی کسی مسئلے میں قوت دلیل کی وجہ سے اپنے امام کی رائے کے برخلاف رائے اختیار کرتاہے تو وہ تقلید سے باہر نہیں ہوگا، بلکہ ترک تقلید کی شکل میں یہ عین تقلید ہے۔۔۔ ہمارے زمانے کے جہلاء اس شخص پر زبان طعن دراز کرتے ہیں جو کسی مسئلے میں دلیل کی بنیا د پر امام کی تقلید نہیں کرتاہے، عام لوگوں کی طرف سے اس طرح کی بات بہت زیادہ تعجب خیز نہیں ہے لیکن تعجب ان لوگوں پر ہے جنھوں نے علماء کی شباہت اختیار کی ہے ، لیکن عوام کی طرح وہ بھی جانوروں کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔‘‘
تاریخ سے متعلق تالیفات کی تعداد
شیخ ابوغدہ نے تاریخ اور رجال سے متعلق ان کی درج ذیل کتابوں کا تذکرہ کیاہے:
[1]الفوائد البھیۂ[2]التعلیقات السنیۃ علی الفوائد البھیءۃ[3]مقدمہ الھدایۃ[4] مذبلۃالدرایۃ[5]النافع الکبیر مقدمہ الجامع الصغیر[6]مقدمہ السعایہ[7]مقدمہ عمدۃ الرعایۃ [8]مقدمہ التعلیق الممجد[9]خیرالعمل بذکر تراجم علماء فرنکی محل[10]النصیب الاوفرفی تراجم العلماء المءۃ الثالثۃعشر[11]ابناء الخلاف بابناء علماء ہندوستان[12]ابرازالغی فی شفاء العی[13]تذکرۃ الراشد بردتبصرۃالناقد[14]طرب الامثال بتراجم الاماثل[15]حسرۃ العالم بوفاۃ مرجع العالم (مقدمہ الرفع والتکمیل/24از عبدالفتاح ابوغدہ)
ان میں سے بعض کتابوں کا سرسری تعارف پیش خدمت ہے۔
1۔ النافع الکبیر مقدمۃ الجامع الصغیر
امام محمدکی مشہور کتاب ’’جامع صغیر‘‘ کے تعارف اور جائزے پر مشتمل ایک مختصرمگر جامع اور نافع مقدمہ ہے جو چار فصلوں اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔
پہلی فصل میں فقہاء کے طبقات اور فقہ حنفی کی کتابوں کے درجات کا تذکرہ ہے، عام طور پر فقہاء کے طبقات میں جن لوگوں کا نام ذکر کیاجاتاہے اس پر بے اطمینانی کا اظہار کیاہے۔ مجتہد کی مشہور تین قسموں (مجتہدمطلق، مجتہدمنتسب ، مجتہدفی المذہب)کے بیان کے بعد لکھا ہے کہ بحرالعلوم لکھنوی کہتے ہیں کہ عام طور پر یہ خیال پایاجاتاہے کہ ائمہ اربعہ کے بعد اجتہاد مطلق کا دروازہ بند ہوگیا ہے اور امت پر ان میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے۔ یہ بے دلیل اور ہوس پر مبنی ہے۔ ان کی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ایسے لوگ ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے متعلق حدیث میں کہاگیا ہے کہ وہ بغیر جانے بوجھے فتویٰ دیں گے اور خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ کیاانھیں یہ معلوم نہیں کہ یہ غیب کی بات ہے اور ان پانچ چیزوں میں شامل ہے جنھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ علامہ فرنگی محلی اسے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
’’حاصل یہ ہے کہ جس شخص کا یہ دعویٰ ہو کہ ائمہ اربعہ کے بعد اجتہاد مطلق اور مستقل کا دروازہ اس طرح سے بند ہوگیا ہے کہ اب اس کا کھلنا ناممکن ہے تووہ غلطی پر ہے ، کیونکہ اجتہاد اللہ کی رحمت ہے اور رحمت خداوندی کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہوتی ہے ، ائمہ اربعہ کے بعد بھی مجتہد مطلق پیدا ہوئے ہیں جیسے داؤدظاہری، امام بخاری وغیرہ۔‘‘
دوسری فصل میں جامع صغیر کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور تیسری فصل میں امام محمد، ابویوسف اور امام ابوحنیفہؒ کی سیرت ذکرکی گئی ہے ، چوتھی فصل میں جامع صغیر کے شارحین ، مرتبین اور ناظمین کا تذکرہ ہے اور چونتیس شخصیات کاتعارف کرایا گیاہے اور خاتمہ خود نوشت سوانح حیات پر مشتمل ہے۔امام ابوحنیفہ کے تذکرے میں لکھا ہے کہ بعض حنفیوں کا یہ حال ہے کہ وہ ہر حال میں امام کے اقوال اور فتاوی سے چمٹے رہتے ہیں گرچہ وہ صحیح حدیث کے مخالف ہی کیوں نہ ہو اور اپنے اس طرزعمل کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ اگر حدیث صحیح ہوتی تو صاحب مذہب ضرور اس پر عمل کرتے اور اس کے خلاف فتوی نہ دیتے۔ صاحب مذہب کا اس کے برخلاف فتویٰ دینا اس حدیث کے صحیح نہ ہونے کی دلیل ہے، یہ جہالت کی بات ہے ، اس لئے کہ قابل اعتماد لوگوں نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ حدیث کو ان کی رائے پر مقدم رکھاجائے۔ لہٰذاجورائے حدیث کے برخلاف ہو اسے چھوڑدینا ہی صحیح رائے ہے اور عین تقلید ہے نہ کہ ترک تقلید۔
2۔ مقدمۃ الھدایۃ
یہ مقدمہ چھ فصلوں پر مشتمل ہے اور ہر فصل کو انھوں نے ’’ہدایہ‘‘ کے عنوان سے ذکر کیا ہے، پہلی ہدایہ میں مولف ہدایہ کا تعارف اور ان کی تصانیف کا ذکر ہے۔ دوسری اور تیسری ہدایہ میں صاحب ہدایہ کی بعض اصطلاحات کی تشریح اور فروگذاشتوں کا بیان ہے ، چوتھی ہدایہ میں ’’ظاہرالروایہ‘‘ سے کیا مراد ہے، اس کی وضاحت کی گئی ہے ۔ پانچویں ہدایہ میں ہدایہ کی آخر کی دو جلدوں میں مذکور شخصیات کا تعارف ہے اور حروف تہجی کے اعتبار سے 98علماء اور فقہاء کا تذکرہ ہے ، جس میں اختصار اور جامعیت کے ساتھ تاریخ پیدائش ووفات، تصنیفات اور خصوصیات کا ذکر ہے اور چھٹی ہدایہ میں علامہ محلی نے صاحب ہدایہ تک اپنی بعض سندوں کو بیان فرمایاہے۔
3۔ مذبلۃ الدرایۃ لمقدمۃ الھدایۃ
یہ کتاب بھی متعدد ہدایات پر مبنی ہے۔ پہلی ہدایہ میں لوگوں کا تعارف ہے۔ دوسری ہدایہ میں ہدایہ میں مذکور مبہم اور غیر واضح ناموں اور جگہوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ تیسری ہدایہ میں بعض قبائل ، فرقوں اور ادیان کا تذکرہ ہے جیسے بنوتمیم، قریش، خوارج، یہودونصاریٰ اور ان کی کل تعداد انیس ہے۔ چوتھی ہدایہ میں کتاب میں مذکور جگہوں اور شہروں کی تعیین کی گئی ہے۔ اس ہدایہ میں انھوں نے ’’بدر‘‘ نامی جگہ کے تذکرے میں لکھاہے کہ
’’اس جگہ کے متعلق یہ بڑی عجیب وغریب بات ہے کہ یہاں غزوہ بدر کے بعد سے قیامت تک فتح و نصرت کا نقارہ بجایاجاتارہے گا۔ متعدد بزرگوں نے یہاں نقارے کی آواز سنی ہے اور بہت سے سربرآوردہ لوگوں نے اسے نقل کیا ہے، لہٰذابعض قابل احترام لوگوں کے انکار کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، اس لئے کہ کسی شخص کا جاننااس کے خلاف حجت ہے جو نہ جانے۔‘‘
کشف سے معلوم ہونے والی چیزوں کو علم، یقین اور قطعیت کا درجہ دینے کا جو خطرناک انجام ہوسکتا ہے، اسے اس عبارت میں دیکھاجاسکتاہے۔
حجراسود کے تعارف میں حضرت عمرؓ کامشہور مقولہ نقل کیاہے’’انی اعلم انک حجر لاتنفع ولاتضر۔۔۔‘‘ مجھے معلوم ہے کہ تو پتھر ہے ، تیرے ہاتھ میں نہ تو نفع ہے نہ ضرر۔ اگر اللہ کے رسول ﷺ کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھتاتو میں تجھے ہرگز بوسہ نہ دیتا۔ یہ مشہور روایت ہے اور صحیح سندوں سے مروی ہے اور حجراسود کے بوسے کے سلسلے میں اسلامی عقیدے کی بھرپور ترجمانی کرتی ہے،لیکن علامہ عبدالحی فرنگی لکھنوی نے ایک ضعیف بلکہ موضوع حدیث کا سہارا لے کر نہ معلوم کیوں اسے رد کرنے کی کوشش کی ہے ۔ حاکم کی روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے جب یہ جملہ کہا تو قریب ہی میں حضرت علیؓ بھی موجود تھے وہ بول پڑے کہ ہرگز نہیں، حجراسود نفع، نقصان پہنچاتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان سے عہدومیثاق لینے کے بعد اسے لکھ کر حجراسود کے سینے میں محفوظ کردیاہے اور قیامت کے دن حجراسود اس طرح سے آئے گا کہ اس کی دو آنکھیں اور ایک زبان ہوگی اور اس کے لئے گواہی دے گا جس نے اس عہد کے ساتھ وفاداری کی ہوگی، حاکم جو کسی حدیث پر حکم لگانے کے سلسلہ میں سہولت پسند اور جلد باز واقع ہوئے ہیں، انھوں نے بھی اسے نقل کرنے کے بعد خاموش رہنے ہی میں عافیت سمجھی ہے ، لیکن ذہبی نے صراحت کردی ہے کہ اس حدیث کوحضرت ابوسعید خدریؓ سے نقل کرنے والا ابوہارون ساقط ہے، اس کے نیچے کے راویوں کا حال اور بھی برا ہے۔(دیکھئے مستدرک حاکم 1/458)
ہندوستان کے تذکرے میں لکھا ہے کہ
’’وھو الاقلیم الذی حبط فیہ آدم علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام و حل فیہ نور سیدنا محمدﷺ اولا۔‘‘
یہ وہ ملک ہے جہاں آدم (ہمارے نبی پر اور ان پر درودوسلام ہو) آسمان سے اتارے گئے اوریہیں پر سب سے پہلے نور محمدی ان کے اندر داخل ہوا۔
اس فصل میں 59شہروں اور جگہوں کا تذکرہ ہے اور کتاب کے آخرمیں صاحب ہدایہ کی مسامحات کا ذکر ہے۔
مقدمہ ہدایہ میں امام شافعیؒ کے تذکرے میں لکھاہے کہ علامہ محلی کے والد سے دورانِ سفر ایک مشہور مورخ ، محدث اور شافعی عالم عبداللہ بن عقیل نے بطور مزاح کہاکہ جس دن امام شافعی کیپیدائش ہوئی ہے وہی دن امام ابوحنیفہؒ کی وفات کا دن ہے، اسے شافعی اور حنفی الگ الگ زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں، شوافع کہتے ہیں کہ جب ہمارے امام ظاہر ہوئے تو تمہارے امام بھاگ کھڑے ہوئے، حنفیہ کہتے ہیں کہ تمہارے امام ڈر کی وجہ سے چھپے ہوئے تھے جب ہمارے امام رخصت ہوگئے تب باہر نکلے۔ علامہ محلی کے والد نے کہاکہ یہ سوچ عصبی ذہن کی پیداوار ہے۔ ہمارے لئے دونوں ہی قابل اعتماد اورلائق احترام ہیں۔ جب ابوحنیفہ کی ضرورت تھی اللہ نے ان کو باقی رکھا اور جب ان کی ضرورت نہیں رہی اور ان سے جو کام لیاجانا تھا وہ پورا ہوگیا تو اللہ نے انھیں اپنے پاس بلالیا اور امام شافعیؒ نے آکر ان کے کام کو آگے بڑھایا۔
اس واقعہ سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ اسلاف کے احترام کے سلسلہ میں علامہ محلی اور ان کے والد کس درجہ حساس تھے اور مزاح میں بھی بے احترامی پر مبنی جملہ انھیں گوارا نہیں تھا۔
4۔ مقدمہ عمدۃ الرعایہ
یہ مقدمہ نودراسات پر مشتمل ہے، پہلے میں اللہ کے رسول ﷺ کے عہد مبارک سے علامہ محلی کے زمانے تک علم کی اشاعت کا ذکر ہے۔ دوسرے میں حنفی فقہاء کے طبقات کا بیان ہے اور تیسرے میں طبقات مسائل کی تشریح ہے، جبکہ چوتھا ’’دراسہ‘‘ مفتی اور مصنف سے متعلق مختلف فوائد پر مشتمل ہے ۔ فتاوے کے لئے کونسی کتابیں معتبر ہیں اور کونسی غیرمعتبر اس پر سیرحاصل بحث ہے، خصوصاً’’خلاصہ کیلانی‘‘ پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں اس بات پر بھی گفتگو کی گئی ہے کہ فقہی کتابوں میں مذکور احادیث پر کہاں تک اعتماد کیاجاسکتاہے ، علامہ محلی لکھتے ہیں کہ فقہی کتابوں میں مذکور احادیث پر مکمل اعتماد نہیں کیاجاسکتاہے، کیونکہ فقہ کی معتبر اور مستند کتابوں میں ضعیف اور موضوع حدیثوں کی ایک بڑی مقدار موجود ہے جیسے:
(الف) لسان اھل الجنۃ العربیۃ
جنت والوں کی زبان عربی ہوگی۔
(ب) من صلی خلف عالم تقی فکأنما صلی خلف نبی
جس نے کسی متقی عالم کے پیچھے نماز پڑھی گویا اس نے کسی نبی کی امامت میں نمازپڑھی۔
(ج) علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل
میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں۔
اور اس کی وجہ انھوں نے یہ بیان کی ہے کہ ہر فن کے لئے کچھ لوگ مخصوص ہوتے ہیں، چونکہ فقہاء کی پوری توجہ مسائل کے استنباط اور استخراج کی طرف ہوتی ہے اس لئے وہ اس پہلو کی رعایت نہیں کرپاتے۔
واضح رہے کہ خود علامہ محلی کے یہاں کبھی کبھی اس طرح کی چیزیں پائی جاتی ہیں ان کے حواشی ، مقدمات اور تعلیقات میں بھی کسی وضاحت کے بغیر ضعیف بلکہ موضوع حدیث مل جاتی ہے ، اس کی دو ایک مثالیں آچکی ہیں۔ خود اسی مقدمہ کے شروع میں انھوں نے یہ حدیث نقل کی ہے۔
اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اہتدیتم
اور انھیں اعتراف بھی ہے کہ محدثین کے یہاں یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ مختلف لوگوں کے کشف کے ذریعہ اس کی صحت ثابت ہوتی ہے۔ اسانیدہ وان کانت ضعیفۃ لکنہ صحیح عند اھل الکشف حالانکہ ’’آثارمرفوعہ‘‘ وغیرہ میں خود انھوں نے صراحت کی ہے کہ حدیث کی صحت کو جاننے کے لئے کسی کاکشف کوئی معیار نہیں ہے اور یہ ایک اجماعی اور اتفاقی چیز ہے، شاید ہی اس میں کسی کا اختلاف ہو، اگر کسی حدیث کی اصلیت اور صحت کو جاننے کے لئے یہی معیار ہے تو پھر علم رجال کی کتابوں اور جرح و تعدیل کے اصولوں کو ایک طرف رکھ کر کسی صاحب کشف کو بلا کر تحقیق کرلیناچاہئے۔
پانچواں ’’دراسہ‘‘ فقہ حنفی کی کتابوں کے مطالعہ کرنے والوں کے لئے چندفوائد نافعہ پر مشتمل ہے، چھٹے میں صاحب ’’وقایہ‘‘ اور شارح ’’وقایہ‘‘ کا تعارف ہے اور ساتویں میں دس ایسے لوگوں کا تذکرہ ہے جنھوں نے وقایہ کی شرح کی ہے اور آٹھویں میں چوالیس لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے وقایہ پر حاشیہ آرائی کی ہے ، جس میں ان کے والد اور والد کے چچا کا تفصیلی تذکرہ ہے اور خود نوشت سوانح حیات بھی ہے ، آٹھویں میں ان اکسٹھ لوگوں کا تذکرہ ہے جن کا نام کسی بھی حیثیت سے وقایہ یا شرح وقایہ میں آیاہے۔
5۔ مقدمۃ التعلیق الممجد
موطاامام مالک بروایت امام محمدپر علامہ فرنگی محلی کا حاشیہ ایک شاہکار اور بے مثال یادگار ہے۔ اگر ان کی صرف یہی ایک کتاب ہوتی تو ان کی عظمت و رفعت کے لئے کافی ہوتی۔ تقلید کے دائرے میں رہتے ہوئے تحقیق کا حق کیسے ادا کیاجاسکتاہے؟ عصبیت سے بے زاری اور حق کی طرفداری کیاچیز ہوتی ہے؟ بے لاگ تجزیہ کسے کہتے ہیں؟ ان سب سوالوں کا جواب آپ کو اس کتاب سے مل سکتاہے۔ اس کتاب میں حدیث کے تقریباًچارسوساٹھ راویوں کا تذکرہ ہے، ان کیتذکرے میں کن چیزوں کا خیال رکھاگیاہے ؟ اس کے متعلق خود علامہ محلی کا بیان ہے:
’’انی ذکرت تراجم الرواۃ واحوالھم وما یتعلق بتوثیقھم و تضعیفھم من دون عصبیۃ مذھبیۃ وحمیۃ جاھلیۃ‘‘
میں نے راویوں کا تعارف اور ان کے حالات کو بیان کیا ہے اور ان کو ثقہ یا ضعیف قرار دینے میں مذہبی عصبیت اور جاہلی حمیت کورکاوٹ نہیں بننے دیاہے۔
کتاب کے شروع میں ایک طویل مقدمہ ہے جو اہم فوائد اور نکات پرمشتمل ہے۔ سب سے پہلے تدوین حدیث پر گفتگو کی گئی ہے ، پھر امام مالک کا تفصیلی تعارف ہے، اس کے بعد موطا کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حدیث کی صحیح ترین کتاب موطا ہے یا صحیح بخاری اس پر بحث کی گئی ہے۔ امام مالک سے موطانقل کرنے والوں کی تعداد، موطا کے متعدد نسخے اور اس کی احادیث و آثار کو شمار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ موطاکی تعلیق میں حصہ لینے والوں میں سے تیرہ لوگوں کا تفصیلی تعارف کرایا گیاہے ساتھ ہی امام محمد، ابویوسف اور امام ابوحنیفہ کا تعارف اور ان پر کئے گئے اعتراضات کا جواب دیاگیاہے۔
یہ مقدمہ تیرہ فوائد اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔ خاتمہ میں لکھتے ہیں کہ اس کتاب میں کوئی موضوع حدیث نہیں ہے۔ ضعیف حدیث موجودہے، لیکن ان کا ضعف بہت معمولی ہے۔ نیز دوسرے طریقوں سے اس کمزوری کی تلافی بھی ہوجاتی ہے۔ بعض حدیثیں شدید ضعیف ہیں، لیکن ان میں واردمضمون صحیح سندوں سے ثابت ہے، اس لئے یہ کمزوری بھی مضرنہیں ہے۔
حاصل مطالعہ
حاصل یہ ہے کہ علامہ فرنگی محلی جہاں ایک طرف بلندپایہ محدث اور انصاف پرور فقیہ ہیں وہیں وہ اعلیٰ درجے کے مورخ اور تذکرہ نگار بھی ہیں اور اس میں بھی وہ مجتہدانہ صلاحیت اور بصیرت کے حامل نظرآتے ہیں، تاریخ نگاری میں انھوں نے بعض معاصرین خصوصاً علامہ قنوجی پر جو فاضلانہ اور محققانہ تنقید کی ہے انھیں دیکھنے سے فن تاریخ میں ان کی دقیقہ رسی اور تیزنگاہی اور حقیقت پسندی کا اندازہ ہوتاہے۔
عیب اور خامی سے پاک صرف اللہ کی ذات ہے۔ نافرمانی اور گناہ سے معصوم صرف نبیوں کا پاکیزہ گروہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسولوں کے علاوہ کسی کی بھی تمام باتیں صحیح نہیں ہوسکتی ہیں۔ علامہ فرنگی محلی پر بھی تاریخ کے حوالے سے بعض لوگوں نے بجاتنقید کی ہے ، اس سلسلہ میں علامہ کو ثری کی بعض تصنیفات کا مطالعہ کیاجاسکتاہے۔

تبصرے بند ہیں۔