جدید مغربی نظریۂ تعلیم

(انیسویں صدی کے بعض اہم رجحانات کا مطالعہ)

ڈاکٹرعبیداللہ فہد فلاحی
اٹھارہویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے آغاز میں یوروپ میں رونما ہونے والی سیاسی و سماجی تبدیلیوں اور معاشی و صنعتی تغیرات نے قدیم اشرافی مطلق العنانیت اور استبدادی فکر کو کمزور کیا،یوروپ کے توسیعی عزائم نے نئے ممالک، نئے خطے اور نئے انسان تلاش کئے اور اس کے نتیجہ میں رونما ہونے والی تاجرانہ رقابت کی افزائش نے قومی دولت کو استحکام بخشا اور متوسط طبقہ کی آبادی بھی ان نعمتوں سے فیضیاب ہوئی۔ ان سماجی اور معاشی تبدیلیوں کے جلو میں ٹکنالوجی کی تیزرفتار ترقی بھی آئی۔ اسٹیم انجن کی ایجاد اور فیکٹری نظام کے تعارف نے صنعت کا ری، آبادی کی شہروں میں منتقلی اور طبقہ عوام کی محنت و مزدوری میں دلچسپی کو فروغ دیا۔ دانشوروں اورمفکروں نے اقتصادی استحصال ، قدیم ظالمانہ مراعات، سیاسی و حکومتی بدانتظامی ، عدم تحمل وغیرہ سماجی برائیوں کے خلاف آواز اٹھائی، ان کے افکار و نظریات نے ۔جن میں فرد کے شہری حقوق پر زور دیاگیا تھا۔ سیاسی انقلابات ہی کو جنم نہیں دیا بلکہ تمام حکومتوں کو مجبور کیا کہ وہ عامۃ الناس کی بہبود کے بارے میں سوچیں اورمنصوبہ بنائیں۔
ایک عظیم نفسیاتی تبدیلی وجودمیںآئی۔یوروپ کا عام آدمی بیدار ہوا۔ اس کے اندر خود اعتمادی پیداہوئی۔ وسائل کے استعمال پر قدرت کی صلاحیت ،خودی کا احساس ، مستقبل کو خود سنوارنے کا جذبہ مستحکم ہوا، قومیت کے جذبے اور نظریہ نے اس احساس کو مزید توانائی بخشی اور اپنے اختیارات کو استعمال کرنے کی آزادی انگڑائی لینے لگی۔ ان رجحانات نے تعلیم اور تعلیمی نظام کی پیش رفت کو متاثرکیا۔ایک دور رس نتیجۂ فکر کے طور پر بتدریج تعلیم کو حکومت کے فرائض میں شمار کیاگیا ۔ فرانس اور جرمنی جیسے ملکوں میں انیسویں صدی کے آغازہی میں قومی جذبہ اور نظریہ وجودمیں آچکا تھا کہ پبلک تعلیمی نظام قائم کیاجائے۔ دوسرے ممالک جیسے برطانیہ عظمیٰ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کو مدتوں یہ ترددرہاکہ حکومت تعلیمی نظام میں مداخلت کرے۔ ان ملکوں کے تعلیمی مصلحین کو اس غالب رجحان کے خلاف زبردست مزاحمت کرناپڑی کہ ’’مفت تعلیم‘‘صرف غریب بچوں کو فراہم کی جائے۔ انہیں سماج کو دلائل کے ساتھ مطمئن کرناپڑاکہ پورے معاشرہ پر عام ٹیکسوں کے نفاذ سے ہی تمام بچوں کو مناسب تعلیم دی جاسکتی ہے اور اس کے بھاری اخراجات پورے کئے جاسکتے ہیں۔
نئے سماجی اور معاشی تغیرات نے نجی اور عوامی اسکولوں کو اپنے اغراض و مقاصد اور نصاب تعلیم کووسیع تر کرنے پر مجبور کیا۔ اسکولوں سے وابستہ توقعات میں خواندگی، دماغی نظام اوراچھی اخلاقیات کو فروغ دیناہی شامل نہیں رہا بلکہ اب اُن کی ذمہ داری یہ بھی قرار پائی کہ وہ طلبہ کو شہریت کے لئے ، ملازمت اور خود کفالت کے لئے اور انفرادی ترقی و خوشحالی کے لئے بھی تیار کریں۔ طریقۂ تدریس اب بھی نصابی کتب کو حفظ کرنے اور سخت ڈسپلن کو ملحوظ رکھنے کے گرد گردش کرتارہا بلکہ ایک نمایاں تبدیلی یہ ہوئی کہ طلبہ کے تئیں ہمدردی اور ان کے حقوق کی رعایت پر توجہ مرکوزہونے لگی۔اسکولوں میں طلبہ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر باہم طلبہ کو آموختہ سنانے کے انفرادی رواج نے اجتماعی طریقۂ سماعت میں اپنے کو تبدیل کیا اور بتدریج مانیٹوریل سسٹم مقبول ہوا طلبہ کی تعدا د جس تناسب سے بڑھی اسکولوں میں اتنے اساتذہ کاتقرر نہ ہوسکا اور مجبور ہوکر سینئرطلبہ کو مانیٹرمقررکیاگیا تاکہ وہ ایک جماعت کے جونیئر طلبہ کو مقررہ اسباق پڑھاسکیں ، اسی طرح طلبہ کی عمر کے لحاظ سے انہیں مختلف طبقوں اور جماعتوں میں تقسیم کرنے کاعمل۔جوجرمنی میں اٹھارہویں صدی میں شروع ہوچکاتھا۔بتدریج دوسرے ملکوں میں بھی مقبول ہوا۔
یہی دور ہے جس میں تعلیمی اصولوں اور نظریات کی تشکیل جدید کے لئے یوروپی مفکرین، مصلحین اور دانشوروں نے بڑے اہم قدم اٹھائے۔یوروپ نئے تعلیمی افکار سے روشناس ہوا ، کچھ نئے تجربے کئے گئے اور اسکول اور کلاس روم ان افکارو تجربات کا مرکز بنے، فرانسیسی مفکر اور دانش ور جان جاک روسو (Jean Jacques Rousseau, 1844-1910)کااثراس دور کے تعلیمی نظریات پر سب سے گہراہے، روسو کے فکری متبعین میں ایک نمایاں نام پیسٹالوزی Pestalozzi کا ہے۔پیسٹالوزی کا اعتقاد تھا کہ علوم و فنون کے ہیکل کے بجائے بچہ کی فطرت اور اس کا مزاج تعلیم کا نقطۂ آغازہو۔روسو کے انقلابی خیالات کی جھلک جرمن ماہر تعلیم فریڈرک فروبل(Friedrich Froebel, 1782-1852) کے ہاں بھی دکھائی دیتی ہے ، جس نے 1837ء میں بچوں کے لئے پہلے کنڈرگارڈن کی بنیادرکھی۔ اس کا خیال تھا کہ بچوں کی تعلیم میں ان کیخود کارکردگی (Self-activity) کومرکز و محور قرار دیاجائے، اسی طرح جوہان فریڈرک ہربرٹ (Johann Friedrich Herbart, 1776-1841)پر بھی روسو کا اثر صاف محسوس ہوتاہے، آخرالذکر کو انیسویں صدی کے ان اہم ترین مفکرینِ تعلیم میں شمار کیا جاتاہے جنھوں نے منہج تدریس کو باقاعدہ ایک علم و فن کی روپ ریکھاعطاکی۔
پیسٹالوزی کے نظریات
سوئزرلینڈ کے تعلیمی مصلح جوہان ہیزک پیسٹالوزی(1746ء۔1827ء) کے افکارو نظریات نے جدیدابتدائی تعلیم و تدریس کی بنیاد رکھی، محرومین اور پسماندہ طبقہ کے دفاع کے لئے جدوجہد کو اس نے اپنی زندگی کا شعار بنایا ،زورخ کے قریب 1774ء میں اس نے ایک یتیم خانہ قائم کیا اور محروم و پسماندہ بچوں کو زراعت اور معمولی تجارت کے گرسکھائے تاکہ وہ خود کفالتی زندگی گزارسکیں اور دوسروں کے محتاج نہ رہیں۔ چند سالوں کے اندر اس کا یہ تجربہ ناکام ثابت ہوگیا۔ اس نے طریقہ تدریس پر قلم اٹھایا اور اپنے افکاروخیالات کو کاغذات پر منتقل کرنے لگا۔ چنانچہ 1801ء میں اس کی اہم ترین تصنیف سامنے آئی جس کا عنون تھا:(گرٹروڈ اپنے بچوں کو تعلیم کیسے دیتی ہے؟) How Gertrude teaches her children?
اس نے دوبارہ تدریس شروع کردی۔ آخرکار 1805ء میں اس نے Yverdonمیں اپنامشہور بورڈنگ اسکول قائم کیا جو بیس سالوں تک چلتارہا۔ اس اسکول کا معائنہ و مشاہدہ اس وقت کے بڑے مفکرین اور دانشوروں نے کیا جیسے فلسفی فکٹے (Johann Gottlieb Fichte) ماہرتعلیم فروبل اور جغرافیہ داں کارل ریٹر (Carl Ritter, 1779-1859) وغیرہ۔
پیسٹالوزی نے تعلیم و تدریس کے میدان میں بہت کچھ لکھا مگراپنے اصولِ تدریس اور طریقہ تعلیم پر ایک کتاب بھی ایسی نہیں لکھی جس میں اس کے افکارونظریات منضبط اندازمیں ایک جگہ مل جائیں ۔ اس کے اصول و نظریات کا ایک خاکہ تیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی تمام تحریروں کا مطالعہ کیاجائے۔ اس کے اصولِ تدریس کی بنیاد یہ تھی کہ تعلیم و تدریس کو نامیاتی(Organic) ہوناچاہئے یعنی جسمانی ، اخلاقی اور عقلی پہلوؤں پر یکساں توجہ دی جائے اور اگرپیسٹالوزی کی اصطلاحات استعمال کی جائیں تو سر، دل اور جسم کا ارتقاایک ساتھ ہو اور انسان کی تمام قابلیتوں اور حواس پر یا اُس قوتِ خودی(Self-Power) پر توجہ مرکوز کی جائے جوہرشخص کے اندر خفتہ ہے۔ تعلیم کا اصل کام ہے اس قوتِ خودی کو متحرک کرنا، اس کی خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرنا مختلف سرگرمیوں اور حرکات کے ذریعہ جیسے جسمانی میدان میں محنت اور ورزش کے ذریعہ، اخلاقیات میں آداب اور اخلاقی اقدار کی پرورش کرکے اور عقلی میدان میں حواسِ خمسہ کے صحیح استعمال کی تربیت دے کر کہ محسوس اشیاء کا مشاہدہ درست ہو اور اس کے نتیجہ میں صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوسکے ۔ پیسٹالوزی کا اصرار ہے کہ الفاظ ، نظریات ، افکار ، اعمال و سکنات اور اخلاقیات و اقدار اسی وقت بامعنیٰ ہوتی ہیں جبکہ وہ محسوس و متعین اشیاء سے ہم رشتہ ہوں۔
ان تعلیمی افکار سے چند متعین تدریسی اصول مستنبط کئے گئے؛علامتی طریقۂ تدریس پر تجربی طریقہ کو اولیت حاصل ہے یعنی ایسے اسباق پرزور دیاجائے جو بچوں کو زندگی کے حقائق سے قریب کرسکیں۔ انہیں اسباق سے اصولی فکر کا استخراج ہو، انسان کی زندگی کے افعال و حرکات سے علم کا سوتاپھوٹے یعنی تعلیمی نظام کا محور طالب علم ہو نہ کہ مضمونِ تدریس ۔ استادکاکام یہ ہے کہ طالب علم کی سرگرمیوں میں شرکت کرکے اس کی فطرت اور مزاج کو سمجھے اور پھر اس کی تعلیم کی تفصیلات طے کرے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تعلیم کے مراحل کی تعیین طفلی ارتقاء کے مراحل سے ہم آہنگ ہو ۔ جیسے جیسے بچہ کی عمر بڑھتی جائے اور اس کے مزاج، فطرت اور رجحانات میں تبدیلی آئے اسی تناسب سے مرحلۂ تعلیم اور نصاب تعلیم کی تفصیل بھی طے ہو۔ یہ اصول بھی متعین ہواکہ عقلی، اخلاقی اور جسمانی تربیت ساتھ ساتھ ہو اور ان میں وحدت اور یکسانیت لازمی طور پر موجود ہو۔
پیسٹالوزی کے ان افکارو نظریات پر غریب اور مجبور بچوں سے متعلق اُس کی خدمات اور دلچسپیوں کا گہرا اثردکھائی دیتاہے۔ ان افکار میں خانگی تعلیم پر بھی کافی زور ملتاہے، فنون اور حرفتوں کے ارتقاء پر بھی کافی توجہ دی گئی ہے مگر خود اُن کی ترقی مطلوب نہیں ہے مگر علمی اور اخلاقی ترقی کے جلو میں ان کی ترقی پر گفتگو کی گئی ہے۔ دست کاری کی تربیت اہم قرار دی گئی مگر سر، دل اور ہاتھ کے لئے یوروپ کی روشن خیالی اور فرانسیسی انقلاب نے محرومین و مظلومین کی آزادی کی تحریک چلائی تھی اور پیسٹالوزی نے غریبوں کی امداد کی تھی تاکہ وہ خود اپنی امداد کرسکیں۔ یہ ایک سماجی اصلاح کی تحریک تھی ، سماجی انقلاب کی نہیں۔
پیسٹالوزی نے کہاتھاکہ’’فن تدریس پر اس کی تمام جہتوں میں زور دیاجائے تاکہ وہ ایک منضبط علم کی حیثیت میں ترقی کرسکے یعنی فطرت انسانی کے عمیق ترین علم سے اس کا سوتا پھوٹے اور اس کی گہرائیوں میں اتر کر اس کی عمارت تعمیر کی جائے:
"The art of education must be significantly raised in allits facets to become a science that is to be built on and proceeds from the deepest knowledge of human nature.”
چنانچہ اس تعلیمی مصلح کی اپنی جدوجہد سے مغربی دنیا کے مختلف ملکوں میں اس کے نظریۂ تعلیم کو فروغ ہوا، غریبوں اور محروموں کے تئیں اس کی خصوصی مشنری دلچسپی رنگ لائی، اس نے ابتدائی تعلیم کی نئی منہاجیات کی تشکیل کی جس کا نفاذ اسکولوں ہی میں نہیں ہوا بلکہ یوروپ اور امریکہ کے تدریسِ اساتذہ پروگراموں میں بھی اسے بروکارلایاگیا ، خود پیسٹالوزی نے اپنی مثال کے ذریعہ اساتذہ کو زبردست پیشہ ورانہ تحریک فراہم کی۔ یوروپ کی تحریک روشن خیالی نے اگرجدیدطریقۂ تعلیم و تدریس میں تعقل کی روشنی پیداکی تو پیسٹالوزی نے یہ ثابت کیاکہ تعقل تنہا تعلیمی مشن کی کامیابی کے لئے کافی نہیں ہے ، اس سے زیادہ اہم بے لوث محبت اور جذبۂ ترحم ہے دنیا کو مشکلات کے دلدل سے نکالنے کے لئے۔
تدریسِ اطفال کے میدان میں پیسٹالوزی کے اثرات کا جائزہ لیناآسان نہیں ہے۔، اس دور کے تقریباً تمام مناہج تدریس پر اس مصلح کی چھاپ پائی جاتی ہے ، تاہم جرمنی نے اس کے اثرات سب سے زیادہ قبول کئے، خاص طور سے پروسیا اور سیکسون جیسے شہروں میں اسکولوں نے اس منہج تدریس کو اختیار کیا، انیسویں صدی کے پہلے نصف میں برطانیہ عظمیٰ کا اسکول سسٹم عام طور پر سخت انضباطی مانیٹوریل نظام کا پابند تھا اور زیادہ تر انگریز شرفاء پیسٹالوزی کو ایک ’’مایوس اور پراگندہ فکر‘‘ کی حیثیت سے دیکھتے تھے جو ایک ’’عینیت پسند اور اپنے ہی خوابوں میں مگن رہنے والا‘‘ مفکر تھا، مگرآگے چل کر اس نے انگلینڈ میں London infant school society, James Pierrepont Greaves اورElizabeth Mayo and the home and colonial Society کی معرفت اپنے اثرات قائم کئے۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں فلاڈلفیا کے سائنسداں اور انسانیت نواز ولیم میکلور (William Maclure, 1763-1840)نے اور جوزف نیف (Joseph Neef)نے اس کے نظریات کا تعارف کرایا، خود سوئزرلینڈمیں Philipp Emanvel von Fellenbergنے غریب بچوں کی تعلیم کے لئے ایک ادارہ قائم کیا اس نے کوشش کی کہ منہج تعلیم اور نصاب تعلیم پرمشتمل ایک مخصوص ریاست تشکیل دے جس میں محنت اور کام کرکے طلبہ اپنی کفالت کرسکیں اور منہجی تدریس کا پروگرام طلبہ اور اساتذہ کے اشتراک عمل سے نافذ ہو۔
فریڈرک فروبل
انیسویں صدی کا دوسرا ماہر تعلیم فروبل ہے جس نے کنڈرگارڈن تحریک کی تاسیس کی اور عہد طفولیت میں کھیلوں اور خودکارکردگی کے پروگراموں کے ذریعہ تدریس کو مؤثربنانے کی نظریہ سازی کی۔ وہ بنیادی طور پر مذہبی تھا اور عیسائیت کے وحدت الوجودی طبقہ سے تعلق رکھتاتھا، اپنی زندگی میں اسے کوئی زیادہ شہرت نہ ملی کیونکہ اس کی نثرنگاری اور اس کے فلسفیانہ نظریات بڑے دقیق علمی اور مبہم تھے ، جنھیں پڑھنا اور سمجھنا کارے دارد تھا۔
عنفوانِ شباب میں فروبل نے مختلف قسم کے روزگار تلاش کرنے کی کوشش کی، 1805ء میں اس کی ملاقات اینٹن گرونر (Anton Gruner)سے ہوئی، یہ پیسٹالوزی کا ایک شاگرد اور فرانکفرٹ میں ایک اسکول کا ڈائرکٹرتھا، اس نے فروبل کو استاد بننے پر آمادہ کرلیا، گرونر کے ساتھ دو سال گزارنے کے بعد اس نے پیسٹالوزی سے ملاقات کی ، گوٹنگسن اور برلن میں مزید تعلیم حاصل کی اور اپنے نفسیاتی افکار کی بنیادوں پر ایک اسکول قائم کرنے کا فیصلہ کیا، آخرکار اس نے 1816ء میں گریشیم میں یونیورسل جرمن ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی ، اگلے سال اس نے ادارہ کو کیلہاؤمنتقل کردیا ، یہ ادارہ ایک طرح سے فروبل ، اس کے احباب واقارب اور اہل خانہ کے لئے تعلیمی کمیونٹی میں تبدیل ہوگیا، 1826ء میں اس نے اپنی سب سے اہم کتاب لکھی جس کا نام تھا: The education of manمگرنظریہ اب بھی بڑافلسفیانہ اور غیرواضح تھا، 1831ء میں وہ پھرسوئزرلینڈمیں تھاجہاں اس نے ایک اسکول ، ایک یتیم خانہ اور اساتذہ کی تدریسی تربیت کے لئے ایک کورس کا آغازکیا، 1837ء میں کیلہاؤواپس آیاتو اس نے پہلا کنڈرگارڈن قائم کیا جس کا مطلب تھا ’’گلستانِ اطفال‘‘ ۔ اس تجربہ نے بڑی کشش اور مقبولیت دکھائی، سیاسی مخالفت کے باوجود دوسرے ادارے بھی اسی گلستانِ اطفال کے طرز پر قائم ہوئے۔
تحریک گلستانِ اطفال کنڈرگارڈن یا گلستانِ اطفال کے تدریسی و تعلیمی نظریہ کے پس پشت ایک قسم کے صوفیانہ اور مابعدالطبیعاتی سیاق کی کارفرمائی ہے۔ فروبل کااعتقادتھاکہ آدمی خدا کا، فطرت کا اور انسانیت کا بچہ ہوتا ہے، اس لئے اسے اپنے سہ جہاتی وجود کے اطراف و جوانب کا احاطہ کرتے ہوئے اپنی وحدت ، تنوع اور انفرادیت کو سیکھنا چاہئے۔ دوسری طرف اسے تمام اشیاء کی وحدت کا راز بھی معلوم کرنا چاہئے یعنی وحدت الوجودی فلسفہ کی تہ تک پہنچنا اس کی ضرورت ہے، وہ کہتاہے کہ تعلیم کا مقصدہے کہ ایک سوچنے والے، ذہین وجود کو جو عرفانِ نفس کے مقام تک پہنچنے کی کوشش کررہاہے، ایک خاص، صالح شعور تک لے جائے اوراسے الہامی و حدت کے باطنی قوانین کی آزادانہ نمائندگی کا سلیقہ سکھائے اور اس تک پہنچنے کے راستوں اور ذرائع کی تفہیم کرے۔
"Edacation consists of leading man, as a thinking, intelligent being, growing into self-consciousness, to a pure and unsullied, conscious and free representation of the inner law of the divine unity and in teaching him ways and means hereto.”
تدریس کے دو پہلو ہیں؛ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کے اندر موجود خود ارتقائی صلاحیت یا خود کارکردگی کی قابلیت کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں ، انہیں دور کریں اور ان کے فرائض میںیہ بھی شامل ہے کہ آدمی نے تجربہ سے جو صحیح اور بہترطریقۂ فکر و عمل اخذ کیا ہے اس کے اندر اگرکوئی انحراف درآیاہے تو اسے درست کریں۔ اس کا سیدھامطلب یہ ہے کہ استاد کو قانونی اور لازمی تعلیم کومسلط نہیں کرناچاہئے، اس کے برعکس جب طالب علم ، بطور خاص کنڈرگارڈن کی سطح کا بے سکون ہوتا ہے، اس کی آنکھوں میں آنسوآجاتے ہیںیا اس پر پژمردگی کے اثرات طاری ہوتے ہیں اُس وقت استاد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سبب معلوم کرے اور طالب علم کی تخلیقی ترقی کی راہ میں حائل ظاہری رکاوٹ کو دور کرے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ استاد کے حکم یا مشورہ کا مصدر اس کا اپنا مزاج یا فوری ردعمل نہ ہو، اس کا رویہ اور ردعمل منضبط ، موزوں اور متناسب ہو اور اس کی تشکیل میں استاد اور طالب علم کے درمیان ایک تیسری قوت کی کارفرمائی بھی ہو ، وہ تیسری قوت عیسائیت کا نظریۂ حق و صداقت ہے۔
فروبل کے نزدیک اسکول’’ علم خارجی کے کمتر یا وسیع تر تنوع کے حصول کے لئے کوئی ادارہ‘‘ نہیں ہے، اس کے مطابق بچے اُن چیزوں میں تعلیم اور رہنمائی حاصل کرلیتے ہیں جن کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی، اسکول کی حیثیت اس مقام کی جہاں بچوں کو ’’اشیاء کے اندرونی ربط کا علم‘‘ ہوتاہے، اشیاء سے یہاں مراد خدا، انسان، فطرت اور ان کے درمیان پائی جانے والی وحدت ہے، اس علم کے مضامین ہیں مذہب، زبان اور ادب، فطری تاریخ اور شکل اور ہیولیٰ کا علم،ان تمام مضامین میں اسباق طلبہ کے مفادات اور ان کی دلچسپیوں کے لئے پرکشش اور موثرہوں ، فروبل کے نظریہ کے مطابق ایسا محسوس ہوتاہے کہ اسکول کی دلچسپی اصلاً علوم کی منتقلی نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس کی توجہات کا محور طلبہ کے کردار کا ارتقاء اور حصول علم کی صحیح تحریک پیدا کرناہو۔
کھیل اور تفریح کی اہمیت
گلستانِ اطفال کے اس تعلیمی پروگرام میں فروبل کے نزدیک زیادہ اہمیت کھیلوں اور تفریحات کی ہے ، ہوم ورک اور اسباق کی طرح ان کھیلوں کو طالب علم کے خفتہ مقدر کے ادراک کے لئے استعمال کرناچاہئے، کھیل وقت کے ضیاع کے لئے ذریعہ نہیں بنتے، یہ ’’بچوں کے اندر ارتقاء کااہم ترین زینہ ‘‘ہیں، ان کھیلوں کے ذریعہ اساتذہ کو پتہ لگانا ہے کہ بچے کس طرح ترقی کررہے ہیں فروبل کی اصل دلچسپی کھلونوں سے ہے جسے وہ ’’تحائف‘‘ سے تعبیر کرتاہے جن کی تجویز اس لئے رکھی گئی ہے کہ بچے منظم اور منضبط کھیل کے ذریعہ سیکھ سکیں، یہ تحائف ہیں: گیند، گلوب، توڑجوڑ کے ذریعہ بنائے جانے والے گھروندے اور چیزیں، لکڑی کے خوبصورت ٹکڑے جنھیں آسانی سے جمع اور منتشر کیاجاسکے، کاغذ کے ٹکڑے جوتہہ کئے جاسکیں، چھڑیاں، ہلکے راڈ، گڑیا گڈے کے کھلونے، غبارے وغیرہ۔ ان کھلونوں کے ذریعہ بچوں کے اندر شکل، رنگ، سائز، حجم کی پہچان، جمع و تفریق اور ملانے اور الگ کرنے کی خصوصیت ، تقابل اور موازنہ کرنے کی قابلیت پیدا کرناہے۔
گلستانِ اطفال کا یہ تجربہ اپنے دور میں بڑاکامیاب نکلا۔ اس وقت ہالینڈ، جرمنی اور انگلینڈ میں بے بی کیئر سینٹرپہلے سے کام کررہے تھے اور اس طرح برسرروزگار والدین کو کچھ راحت مل چکی تھی، فروبل نے اس سے آگے بڑھ کر ایسے اداروں کی بنیاد رکھی جہاں بچوں کو کھیل اور تفریح کے ذریعہ نفسیاتی تربیت دی جاسکے، ظاہر ہے یہ ادارے اور اسکول اطفال کے لئے قائم ہوئے تھے بالغان کے لئے نہیں، نصاب میں تین طرح کی سرگرمیاں شامل تھیں:(1)کھلونوں سے بچوں کو بہلانا اور اس طرح مختلف چیزوں سے انھیں متعارف کرانا(2)مختلف کھیلوں اور نغموں کے ذریعہ بچوں کے ہونٹوں اور آواز کی ورزش اور ایک طرح کی انسانیت اور فطرت کی تربیت(3)پودوں اور جانوروں کی دیکھ ریکھ تاکہ ان کے تئیں ترحم کا جذبہ بیدار ہو، یہ تینوں اعمال منظم طریقے سے انجام دینے کی تجویز تھی، گلستانِ اطفال کے اس منہج تدریس کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ فروبل کا 1852ء میں انتقال ہوگیا۔ اس کی موت کے بعد پچیس سالوں کے اندر آسٹریا، بلجیم ، کناڈا، جرمنی، برطانیہ عظمیٰ، نیدرلینڈ، ہنگری، جاپان، سوئزرلینڈ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے مختلف شہروں میں کنڈرگارڈن اسکول کھلتے چلے گئے۔فریڈرک ہربرٹ
جوہان فریڈرک ہربرٹ معاصرتھا فروبل کا، اس کی زندگی میں اس کی منظم و منضبط ’’فلسفیانہ واقعیت ‘‘ کی زیادہ تشہیر نہ ہوسکی۔اس کی وفات کے بعد انیسویں صدی کے نصف آخرمیں اس کے نظریات پر لوگوں نے توجہ دی، اسے فن تدریس کے نظریہ کاروں میں ایک معمار کی حیثیت حاصل ہے، جس نے فن تدریس کی منہاجیات میں نفسیات اور مابعدالطبیعات دونوں کا بھرپور استعمال کیاہے۔
اٹھارہ سال کی عمرمیں ہربرٹ نے مشہور فلسفی فٹشے سے یونیورسٹی آف جینا میں تعلیم حاصل کی، اس نے ایک لمبے سفر کے بعد فٹشے کی عینیت پسندی سے ناطہ توڑکر’’فلسفیانہ واقعیت ‘‘ کی راہ اپنائی جس میں یہ نکتہ نظرمضمرتھاکہ مظاہر کی دنیا میں اشیاء یا حقائق کا تنوع پایاجاتاہے، تبدیلی رونما ہوتی ہے مگر بس ان حقائق کے درمیان رابطوں اور تعلقات میں ہوتی ہے، یہ حقائق متبدل تعلقات کی بحیثیت حفاظت خود کے واقعہ کے مزاحمت کرتے ہیں، اشیاء کی طرح افکار و نظریات بھی ہمیشہ اپنا وجود رکھتے، تبدیلی کی مزاحمت کرتے اور حفاظتِ خود کی وکالت کرتے ہیں، یہ صحیح ہے کہ بعض افکار شعور کی دہلیز سے نکل جاتے ہیں مگر یہ خارج شدہ افکار بھی لاشعور کی شکل میں موجود ہوتے ہیں اور تعلیم کے ذریعہ حجابات جیسے ہی دور ہوجاتے ہیں وہ پھر برجستہ شعور میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، شعور میں افکار ہوتے ہیں جو دوسرے افکار کو اپنے قریب کرکے پیچیدہ نظامات کی تشکیل کرتے ہیں، افکار کا یہ ہجوم فرد کے مختلف مفادات(جیسے اس کا اپنا گھر، اپنے مشاغل اور دلچسپیاں) سے مطابقت کرتا اور فلسفیانہ و مذہبی تصورات اور اقدار کی توسیع کرتاہے، دماغی ارتقاء کے عمل میں افکار کے متنوع مجموعے ایک مستقل غلبہ حاصل کرلیتے ہیں اور یہ غلبہ شعورمیں داخل ہونے یا دوبارہ گھسنے کی کوشش کرنے والے افکار کے انتخاب میں بڑاموثرہوتاہے۔
فن تدریس کے مزاج او رفطرت پر اپنے منضبط اور منظم گفتگو میں ہربرٹ نے اس عمل کو ہجومِ افکار کے آغاز سے تعبیر کیا ہے جسے بچہ تجربہ سے اور سماجی تعامل کے ذریعہ حاصل کرتاہے، استاد تجربہ کے ذریعہ علم کو اور سماجی تعامل کے ذریعہ جذبۂ ترحم کوپیداکرتاہے، اس کا آخری نصب العین ایک ایسے روشن خیال ارادہ کو ترقی دے کر کردار کی تشکیل کرناہے جو صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کرسکے، حقائق کی طرح اخلاقی فیصلے بھی حتمی اور قطعی ہوتے ہیں، یہ مراقبہ سے رونماہوتے اور دلیل سے بے نیاز ہوتے ہیں، دوسرے لفظوں میں ہربرٹ کے نزدیک اخلاقیات فنِ تدریس کا حتمی اور آخری مقصدہے۔
کلاس روم کے اندر اسباق کا مقصد نئے تصورات سے متعارف کرانا، انھیں باہم مربوط کرنا اور مرتب اور منضبط کرناہے، ہربرٹ زور دیتاہے تنسیق(Articulation)پرجس سے اس کی مراد ’’طالب علم کے ذہن میں صحیح یا اخلاقی ہجومِ افکار کی تشکیل کے منظم منہج‘‘ سے ہے ، طالب علم پہلے ایک مخصوص مسئلہ پر متوجہ ہوتاہے پھر اس کے مشمولات پر دھیان دیتاہے، ان دونوں مراحل میں سے ہر ایک مرحلہ آرام اور ارتقا کے وقفے رکھتاہے اور اس طرح تنسیق کے چار مرحلے ہوجاتے ہیں: (1)مخصوص تصورات کی توضیح یا ان میں متوازن مراقبہ(2)نئے تصورات کو قدیم تصورات سے مربوط کرنا یا ان کے درمیان متحرک ربط تلاش کرنا(3)تنظیم کاری یا قابل قدر تصورات کو مرتب کرنا یا انھیں ترمیم و تنسیخ کے مرحلہ سے گزارنا(4)منہاجیات کاری یا حاصل کردہ علم کو تسلیم کرنا اور ان کا تحرکانہ اطلاق کرنا، ہر برٹ اس نظام تعلیم و تدریس کو عمومی انداز میں لیتے ہیں مگر ان کے جانشینوں نے اس نظام کو ایک جامد جدول میں تبدیل کردیاجسے ہر سبق پر نافذ کرناچاہئے، ہربرٹ نے خود متنبہ کیاتھا کہ ہمیں ان منہاجیات سے واقف رہناچاہئے، حالات کے حساب سے ان کا اطلاق کرنا چاہئے، ان میں ترمیم و تبدیلی کرتے رہنا چاہئے اور انہی میں ہمیشہ کے غوطہ زن ہوکر نئے امکانات سے محروم نہیں ہوناچاہئے:

"We must be familiar with them, try them out according to circumstances, alter, find new ones, and extemporize, only we must not be swallowed up in them nor seek the salvation of education there.”

ہربرٹ کا تدریسی منہاجیات کی تاسیس دماغی اعمال اور نفسیاتی ملحوظات پر کرنا، اس کا یہ نظریہ کہ نفسیات اور اخلاقی فلسفہ دونوں باہم مربوط ہیں، اس کی یہ فکر کی تعلیم ذریعہ ہے اخلاقی فیصلہ کا، ان تمام افکار نے انیسویں صدی کی تدریسی منہاجیات پر بڑے اثرات مرتب کئے، ہربرٹ کے متبعین میں لیپزگ کے توسکن زیلر (Tuiskon Ziller, 1817-1882) ایک نمایاں نام ہے، جس نے Association for scientific pedogogyکی بنیاد رکھی، ایک دوسرا نام جینا کے ولہیم رین(Welhelm Rein)کاہے،1895ء سے 1901ء کے درمیان ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں National Herbart Society for scientific study of pedagogy قائم ہوئی جس نے انہی افکار و نظریات کے فروغ کو اپنا نصب العین قرار دیا۔
زیلر کے افکار و خیالات ہر برٹ اسکول کے علم برداروں کی ترجمانی کرتے ہیں، اس نے اپنی تحریروں میں زور دیاکہ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کے تمام اجزا باہم دگر مربوط اور متحد ہوں، تاریخ اور مذہب دراصل بنیادی و محوری مضمون کی حیثیت رکھتے ہیں جن پر دوسرے مضامین معلق ہیں، تعلیم کی ترتیب فرد کے نفسیاتی ارتقاء سے پوری طرح ہم آہنگ ہو اور یہ ارتقاء انسانیت کے تہذیبی ارتقائی مراحل کے۔جس میں ماقبل تاریخ کے دور وحشت سے ترقی کرکے انسانیت دور تہذیب میں داخل ہوئی۔مطابق حال ہو، میدان تعلیم میں زیلر کا اہم مقصد، ہربرٹ کے دوسرے متبعین کی طرح، طلبہ میں علم کی منتقلی سے آگے بڑھ کر تعمیر کردار کو فروغ دیناتھا۔
دوسرے جرمن مفکرین
جرمنی کے ماہرین تعلیم جنھوں نے فن تدریس کے علم کو وسعت اور گہرائی عطا کی، انیسویں صدی میں کثیر تعداد میں ہوئے۔ ہربرٹ ، فروبل اور پیسٹالوزی کے علاوہ ایک بڑی تعداد دیگر مفکرین کی ہے جن کے مشاہدہ، تجربہ اور فکر سے یہ فن مالامال ہوا۔ جیسے:
فریڈرک شیلرFriedrich Schiller, 1759-1805
جوہان وولف گانگ گوئٹے Johann Wolfgang von Goethe, 1749-1832
ہیگلG.W.F. Hegel, 1770-1831
فریڈرک لدوگ جانFriedrich Ludwig Jahn, 1778-1852
فریڈرک ریشرJohann Paul Friedrich Richter, 1763-1825
ارنسٹ موریزانٹErnst Moritz Arndt, 1769-1860
فریڈرک نطشے Friedrich Nietzsche, 1844-1900
جوہان فکٹے Johann Gottlieb Fichte, 1762-1814
فریڈرک شیلر ماکسر
ولہیم ون ہمبولٹ
ان میں سے آخرالذکر تین فلسفی اور ماہرین تعلیم بڑے اہم ہیں، فٹشے نے 8۔1807ء میں برلن میں جو خطابات کئے ہیں وہ شائع ہوچکے ہیں:
Addresses to the German Nation, 1807-8
ان میں جرمنی کی شان و شوکت کی بازیافت کے علاوہ پیسٹالوزی کے افکار کی روشنی میں جرمن اسکولوں کی تنظیم نو پر بھی زور ہے، تمام بچوں کو تعلیم دی جائے گی اور تعلیم کے تمام مصارف حکومت برداشت کرے گی، طلبہ اور طالبات کی مخلوط تعلیم ہوگی اور نصاب تعلیم بھی بڑی حد تک یکساں ہوگا، زراعت اور صنعتی علوم میں دست کاری کی تربیت دی جائے گی، جسمانی تدریب کا کورس ہوگا،دماغی تربیت بھی ہوگی جس کا مقصد محض علوم کو منتقل کرنا نہیں ہوگا بلکہ دماغی تجسس کو بیدار کیاجائے گا اور انسانوں کے تئیں محبت اور ترحم کے جذبات پیدا کئے جائیں گے ، فٹشے تاہم والدین اور ماحول کی مداخلت سے پریشان ہے اور زور دیتاہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک ’’علاحدہ آزاد معاشرہ‘‘ (Separate and Independent Community) ہو یا اس معاشرہ کو اس وقت تک قائم رکھاجائے جب تک کہ والدین کی ایک نئی نسل جدید افکار و نظریات کی روشنی میں تیار نہ ہوجائے۔
مغرب کے یہ تعلیمی رجحانات بنیادی طور پر لادینی طرز فکر کے علم بردار ہیں جن میں دین و مذہب کا کوئی فعال کردار دکھائی نہیں دیتا۔ روسو نے جس کے اثرات تعلیمی رجحانات و افکار پر سب سے زیادہ پڑے، تعلیمی نظام پر کسی اخلاقیات یا اقدار کے موثر ہونے کی مخالفت کی ہے۔ اس نے حقیقت پسند اور مبنی بر واقعہ نظریۂ تعلیم(Realistic and Positive) کی وکالت کی جس میں کسی الہامی عقیدہ کا کوئی دخل نہ ہوبلکہ طلبہ کی فطری صلاحتیوں کو بروئے کار لانے کے لئے حقائق پر مبنی تعلیم دی جائے، ان تمام ماہرین تعلیم کا جہانی نظریہ انکار مذہب اور انکار مابعدالطبعیات پر استوار ہواہے اور مذہب کے عمل دخل کو اگر تسلیم کیاہے تو بس ذاتی و انفرادی زندگی کی حد تک، اسی لئے اس تعلیمی نظام میں بے سمتی اور بے چہرگی عام ہے۔ اقدار حیات کا فقدان ہے اور اعلیٰ تر مقاصد کے لئے جینے کا سلیقہ ناپید ہے۔
مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر
چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام

تبصرے بند ہیں۔