’صفائی ہی خدمت‘ کو جھارکھنڈ میں ملا نیا مقام

ڈاکٹرمظفرحسین غزالی

حکومت کی جانب سے 22ستمبر سے 2 اکتوبر تک ملک میں ’صفائی ہی خدمت‘ مہم چلائی گئی۔ اس میں تقریباً سبھی ریاستوں نے حصہ لیا لیکن جن ریاستوں نے اسے عوام سے جوڑ کر کامیاب بنانے کی کوشش کی جھارکھنڈ ان میں سے ایک ہے۔ ریاست کا 29 فیصد حصہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق جھارکھنڈ کی آبادی 3.3 کروڑ ہے۔ جس میں قریب 26 فیصد شیڈولڈ ٹرائب اور 12فیصد کا تعلق شیڈولڈ کاسٹ سے ہے۔ یہاں کی آبادی بکھری ہوئی ہے اور کچھ طبقات انتہائی دشوار گزار علاقوں میں رہتے ہیں۔ ان میں حاشیہ پر ڈھکیلے گئے انتہائی پسماندہ آدی واسی گروپ شامل ہیں۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق دیہی جھارکھنڈ میں 77 فیصد آبادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم تھی۔ جبکہ شہر کے 32.8 فیصد گھروں میں ہی ٹوائلیٹ موجود تھا۔ یہ ملک کی دوسری ایسی ریاست ہے جہاں 45 فیصد بچے نقص تغذیہ کے شکار ہیں۔ بھوک سے بھی سب سے زیادہ اموات اسی ریاست میں ہوئی ہیں۔

گزشتہ برسوں میں جھارکھنڈ کے حالات میں کچھ تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ نومولود اموات شرح (ایس آر ایس 2000) ستر سے گھٹ کر (ایس آر ایس 2017 میں ) 29 رہ گئی ہے۔ اسی طرح ڈائریا سے ہونے والی اموات میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔ تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے سوچھ بھارت مشن – دیہی نے یہاں عوامی تحریک کی شکل اختیار کی۔ ملک اس وقت جھارکھنڈ کی طرف متوجہ ہوا جب 25 فروری 2018 کو وزیراعظم نریندرمودی نے ’من کی بات‘ میں جھارکھنڈ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جھارکھنڈ کی قریب 15 لاکھ خواتین نے سوچھ بھارت مشن کے تحت بیس دنوں میں ایک لاکھ ستر ہزار بیت الخلا بنا کر مثال قائم کر دی ہے۔

اس کامیابی میں صوبائی حکومت کی منفرد حکمت عملی کا دخل ہے۔ صاف پانی، سینی ٹیشن اور حفظان صحت کے معاملات کے لئے ہر گاؤں میں ایک خاتون کا جل سہیا کے طور پر تقرر کیا گیا ہے۔ بچوں و خواتین کی صحت کا خیال رکھنے سہیا کرتی ہے۔ اس وقت ریاست میں 29598 جل سہیا سوچھ بھارت مشن کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ 2012 میں حکومت نے گاؤں کی واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمیٹی کے کھاتے میں لین دین کے لئے مکھیا کے ساتھ جل سہیا کے دستخط کو لازمی کر دیا تھا۔حکومت کی جانب سے گاؤں میں ٹوائلیٹ بنوانے کے لئے مالی امدد اسی کھاتے میں آتی ہے۔

 جل سہیا کے ساتھ ہی خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ بنائے گئے ہیں۔ بڑے گاؤں میں خواتین کے کئی گروپ ہیں جو گاؤں کی دشا اور دشا بدلنے میں لگے ہیں۔ ان تمام کمیٹیوں کی مہینہ میں ایک بار مشترکہ میٹنگ ہوتی ہے۔ جس میں یونیسیف کی گرام کوارڈینیٹر بھی شریک ہوتی ہیں۔ ضرورت کے مطابق گاؤں کے مکھیا، بی ڈی او یا کسی سرکاری افسر کو بھی بلایا جاتا ہے۔ وہ خواتین جو تعمیراتی کاموں میں راج یا مزدور کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ سرکار نے اس کیڈر کو منظم کیا اور یونیسیف نے دیہی بیت الخلا بنانے کی تربیت دی۔ انہیں رانی مستری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پھول منی ایسی ہی ایک رانی مستری ہیں جنہوں نے اپنی ساتھی رانی مستری کے ساتھ مل کر گٹوا ٹولی گاؤں میں 125 ٹوائلٹ بنا کر اسے کھلے میں رفع حاجت کے مسئلہ سے نجات دلا دی۔ حال ہی میں نائب صدر جمہوریہ نے جھارکھنڈ دورے کے موقع پر پھول منی کی عزت افزائی کی تھی۔

راتو بلاک ہرہری پنچایت رانچی کے گٹوا گاؤں میں یونیسیف کے توسط سے میڈیا ٹیم پہنچی تو اس کا زبردست استقبال ہوا۔ وہیں پھول منی اور ان کی ساتھیوں سے بات کرنے کا موقع ملا۔ اس وقت ہرہری پنچایت کی سر پنچ حنا پروین بھی موجود تھیں۔ پھول منی نے بتایا کہ جنوری 2018 میں جب انہوں نے اپنے گاؤں کو بیت الخلا بنانے کے لئے فنڈ دینے کی بی ڈی او متھلیش کمار کو درخواست دی تو انہیں یقین نہیں تھا کہ ہم عورتیں یہ کام کر سکتی ہیں لیکن ہماری 8 – 10 خواتین کی ٹیم نے جسے فیٹا گاؤں میں یونیسیف نے ٹرینگ دی تھی یہ کر کے دکھا دیا۔ وہ ہمارے کام سے اتنے خوش ہیں کہ انہوں نے پوری ہرہری پنچایت کا کام ہمیں دے دیا۔ پھول منی کے مطابق ایک ٹوائلٹ بنانے میں چار دن کا وقت لگتا ہے۔

نینا دیوی جو خود ایک خواتین گروپ کی ذمہ دار ہیں، نے بتایا کہ گھر میں بیت الخلا نہ ہونے سے بہت پریشانی تھی۔ باہر جانا پڑتا تھا، ضرورت سے فارغ ہونے کے لئے اندھیرا ہونے کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ یا پھر دن نکلنے سے پہلے باہر جاتے تھے۔ باہر جانے میں کتے کے کاٹنے یا سانپ کے ڈسنے کے علاوہ بھی کئی طرح کے خطرے رہتے تھے۔ پانی کم پینے اور کھانا مختصر کھانے سے بیمار ہونے کا ڈر رہتا تھا۔ گھر میں بیت الخلا بننے سے خود اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔ رانی مستری سشیلا دیوی کا کہنا تھا کہ جب سے ہم نے یہ کام شروع کیا ہے، ہماری مالی حالت بھی بہتر ہوئی ہے۔ پہلے کام کے لئے باہر جانا پڑتا تھا اب گاؤں میں ہی کام موجود ہے۔ میں نے سلائی سیکھی اب اپنے گروپ کی خواتین کو سکھا رہی ہوں۔ گٹوا گاؤں میں 186 – 187 خاندان رہتے ہیں۔ یہاں بنے ٹوائلٹ کے باہر طرح طرح کی پینٹنگ بنا کر سجائے گئے ہیں۔ جگناتھ پہان گاؤں کے پردھان ہیں ان کا کہنا تھا کہ وہ سرکار کی اسکیموں کا خیال رکھتے ہیں اور انہیں گاؤں تک لے کر آتے ہیں۔ گاؤں کی دوسری سرگرم خواتین میں دشمی دیوی، مینا دیوی چانو دیوی، مونیکا دیوی، سمن دیوی، انیتا دیوی(صحت سہیا) اور سونی دیوی (جل سہیا)  سے بھی ملاقات ہوئی۔

کاکے بلاک رانچی کے نگری گاؤں جانے کا بھی موقع ملا۔ یہاں رانی مستری سیتا کشیپ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے رانچی وومین کالج سے بی ایس سی تک تعلیم حاصل کی ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ وہ اتنی پڑھی لکھی ہو کر رانی مستری کا کام کیوں کر رہی ہیں ؟ گاؤں کو کھلے میں رفع حاجت سے نجات دلانے کے لئے انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہے وہ جل، جنگل، زمین بچاؤ مہم سے بھی جڑی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے خاندان کی بھی مدد ہو جاتی ہے۔ ان کے گاؤں میں خواتین کے آٹھ گروپ ہیں۔ ہر مہینے کی 26 تاریخ کو ان کی میٹنگ ہوتی ہے۔ جس میں وہ شراب بندی، صاف صفائی، خوتین کے لئے غذائیت سے پر کھانے اور خواتین کے امپاورمنٹ پر بات ہوتی ہے۔ اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو مارتا پیٹتا یا ستاتا ہے تو اس کو سمجھایا جاتا ہے۔ سنیتا دیوی جو ایک گروپ کی مکھیا ہیں نے بتایا کہ گاؤں کے پردھان، سرپنچ اور عام لوگ ان کے کاموں میں مدد کرتے ہیں۔ جب سے گاؤں میں خواتین نے مل کر کام کرنا شروع کیا ہے تب سے انہیں دس بیس روپے کے لئے مردوں کا منھ نہیں دیکھنا پڑتا۔ کرن ٹوپو کا کہنا تھا کہ ٹوائلٹ بنانے کے لئے سرکار کی جانب سے بارہ ہزار روپے ملتے ہیں اگر کچھ پیسہ اپنا لگا دیا جائے تو بیت الخلا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔

جھارکھنڈ کا تجربہ واقعی ایسا ہے کہ اسے پورے ملک میں دوہرایا جا سکتا ہے۔ یہاں سہیا، جل سہیا اور رانی مستری نے مل کر صحت، صفائی، حفظان صحت اور سینی ٹیشن کے مسائل کو حل کرنے کی ایسی چین تیار ہوئی ہے جو سماجی بدلاؤ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اسے کمزور کرنے کے بجائے مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔