صلحِ حدیبیہ: غور و فکر کے چند پہلو

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

مدینے آئے ہوئے چھ سال کاعرصہ بیت چکاتھا۔ کعبہ سے دوری اورمہجوری پرچھ دورگزرچکے تھے۔ وطن ِعزیزکوچھوڑے ہوئے ایک لمبی مدت ہوچکی تھی۔ شوق گھڑیاں گن رہاتھا۔ امنگیں لمحے شمارکررہی تھیں ۔ چاہت بڑھتی جارہی تھی۔ خواہش دوچندہورہی تھی۔ جذبات کی تلاطم خیزی قنوط کی بندپرضربیں اوراحساس کی شدت صبرکے حصارپرٹھوکریں لگارہی تھیں کہ ایک رات شہ ِلولاک نے خواب دیکھاکہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ حلق کرائے ہوئے امن وسکون کے ساتھ مکہ داخل ہورہے ہیں ( دلائل النبوۃ للبیھقی، باب نزول سورۃ الفتح…: ۴/۱۶۴(حدیث نمبر: ۱۵۱۲)، السیرۃ الحلبیۃ، غزوۃ الحدیبیۃ:۲/۶۸۸)

؂ زبانِ نبوت سے خوابِ رحمانی کاتذکرہ سن کرصحابہ ث خوش ہوگئے۔ مہاجرین اس لئے کہ اُس شہرستان کادیدارنصیب ہوگا، جواُن کی جائے پیدائش رہی ہے، جہاں کے کوچے اورگلیاں آج تک اُن کی نگاہوں کے سامنے ہیں ، جہاں کے پہاڑاوروادی آج تک ذہنوں پرچھائے ہوئے ہیں ، جہاں کے پھولوں کی خوشبوسے ابھی تک دماغ میں تازگی ہے اورجہاں کاادنیٰ تذکرہ بھی دلوں کے لئے باعث ِسرورہے اورانصاراس لئے کہ نگاہوں کو اُس دیارکی رؤیت کی سعادت حاصل ہوگی، جواُن کے نبی کاوطن رہاہے، جہاں وہ کعبہ ہے، جسے روئے زمین پرپہلاگھرہونے کاشرف حاصل ہے اورجس کی طرف رخ کرکے آج تک نمازِ پنجگانہ کی ادائے گی کرتے رہے ہیں۔

  سن چھ ہجری کی پہلی تاریخ کوحضوراکرم ا نے اپنے چودہ سوقدسی صفات اصحاب ث کے ساتھ عمرہ کی غرض سے مکہ کے لئے رخت ِسفرباندھا۔ مقامِ ذوالحلیفہ میں ساتھ میں لائے ہوئے ہدی کے جانوروں کوقلادہ پہناکراُن کااِشعار(کوہان کوزخمی کرکے خون نکالنا؛ تاکہ لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ حرم لے جائے رہے ہیں )کیااورلبادۂ احرام پہنا۔ بسربن سفیان کوقریش کے حالات سے آگاہی کے لئے پہلے روانہ فرمایا۔ کاروانِ نبوت جب مقامِ عسفان میں پہنچاتواُنھوں نے یہ اطلاع بہم پہنچائی کہ قریش نے آپ کی آمدسن کرایک لشکرِجرارتیارکررکھاہے اوردخولِ مکہ سے آپ کوباز رکھنے کے لئے آپس میں عہدوپیمان باندھ لیاہے۔ یہ خبربھی گوش گزارکی کہ خالدبن الولید(جوابھی تک اسلام کی سعادت سے محروم تھے)ہراول دستے کے طورپردوسوشہ سواروں کے ہمراہ’’ غمیم‘‘ تک پہنچ چکے ہیں ۔ اِس خبرکے سنتے ہی آپ  انے اپناراستہ بدل لیاکہ مقصودلڑائی نہیں ؛ بل کہ سعادتِ عمرہ سے سرفراز ہوناتھا۔ (جوامع  السیرۃ لإبن حزم، غزوۃ الحدیبیۃ: ۱/۲۰۷)

 حدیبیہ کی سرزمین کے لئے یہ بخت بیداری کی گھڑی تھی اورقیامت تک تاریخ کے اوراق میں نسبتِ رسول کے ساتھ اُسے محفوظ رہناتھا؛ اس لئے آپ ا کی سواری کے بڑھتے قدم وادی ہی میں رُک گئے۔ لوگوں نے ’’خلأت القصویٰ، خلأت القصویٰ ‘‘(اونٹنی بیٹھ گئی، اونٹنی بیٹھ گئی)کی آواز لگانی شروع کی، آپ  انے فرمایا: ماخلأت القصویٰ، وماذاک لہابخلق، ولکن حبسہا حابس الفیل’’اونٹنی نہیں بیٹھی اورناہی اِس کی یہ عادت ہے؛ بل کہ اِسے اُس ذات نے روک لیاہے، جس نے ہاتھی کوروکاتھا‘‘۔ پھرآپ  ا نے فرمایا:والذی نفسی بیدہ! لایسألونّی خطّۃ یعظمون فیہاحرمات اللہ، إلاأعطیتہم إیاہا’’اُس ذات کی قسم، جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگروہ لوگ میرے سامنے کوئی ایسی تجویز رکھیں گے، جس میں اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم ہوتی ہوتومیں اُسے قبول کروں گا‘‘۔ پھراُونٹنی کوکوچادیاتووہ چل پڑی۔ اب آپ  ا مقامِ حدیبیہ کے ایک سِرے پر خیمہ زن ہوئے، جہاں کم مقدارپانی والے کنوئیں میں آپ ا کے ایک تیرڈالنے کی وجہ سے پانی کے جوش مارنے کا معجزہ ظاہرہوا۔ (بخاری، باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃمع اہل الحرب وکتابۃ الشروط، حدیث نمبر: ۲۷۳۱)

 یہاں سے آپ ا نے خراش بن امیہ خزاعی ص کونامہ بربناکرقریش کے پاس اِس پیغام کے ساتھ بھیجاکہ ’’ہم فقط بیت اللہ کی زیارت کے لئے آئے ہیں ، جنگ کے لئے نہیں ‘‘؛ لیکن قریش نے ان کے اونٹ کوذبح کرڈالا اوراُن کے قتل کے بھی درپے ہوگئے۔ حضرت خراش اپنی جان بچاکرواپس آئے اورساراماجرا آپ اکے روبروسنایا(الروض الأنف، غزوۃ الحدیبیۃ: ۴/۴۵)۔ آپ  ا نے حضرت عمرص کوپیغام بربناکربھیجناچاہا؛ لیکن اُنھوں نے یہ کہتے ہوئے معذرت چاہی کہ’’ قریش مجھ سے بہت زیادہ برہم اورمیرے سخت دشمن ہیں ۔ مزیدیہ کہ میرے قبیلہ کا کوئی شخص نہیں ، جومجھے بچاسکے؛ اس لئے حضرت عثمان ص کوبھیجنازیادہ مناسب ہے کہ وہاں اُن کے اعزہ موجود ہیں (جوناگفتہ بہ حالت میں اُن کی حفاظت کریں گے)۔ آپ انے حضرت عمرص کی یہ رائے معقول سمجھی اورحضرت عثمان ص کوابوسفیان(جوابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے)اوررؤسائے مکہ کے پاس اپناقاصد بناکر بھیجا، جب کہ وہاں پرموجودمسلمانوں کویہ بشارت بھی بھجوائی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ فتح نصیب کرے گااوراپنے دین کوغالب فرمائے گا۔

 حضرت عثمان ص اپنے ایک عزیز ابان بن سعیدکی پناہ میں مکہ آئے اورقریش ِمکہ کوآپ اکا پیغام اوروہاں موجودمسلمانوں کوخوش خبری سنائی۔ حضرت عثمان ص کی زبانی آپ ا کاپیغام سن کراہالیانِ مکہ نے جواب دیاکہ ’’اس سال تومحمد مکہ میں داخل نہیں ہوسکتے، ہاں اگرتم تنہاطوافِ زیارت کی سعادت حاصل کرناچاہوتوکرسکتے ہو‘‘۔ حضرت عثمان ص نے جواب دیاکہ’’میں تنہا کبھی اِس سعادت کوحاصل نہ کروں گا‘‘۔ قریش یہ جواب سن کرخاموش ہوگئے؛ لیکن حضرت عثمان ص کووہیں روک لیا۔ اِدھرمسلمانوں میں یہ خبرمشہورہوگئی کہ حضرت عثمان ص قتل کردئے گئے۔ جب قتل کی یہ خبرآپ اکی کانوں تک پہنچی توآپ کی طبیعت میں تکدرپیداہوااورآپ انے فرمایا: جب تک میں عثمان کابدلہ نہ لے لوں ، یہاں سے حرکت نہیں کروں گا۔ پھروہیں ایک ببول کے درخت کے نیچے حضرت عثمان ص کے خون کابدلہ لینے پرتمام صحابہ ث سے بیعت لی، جوتاریخ وسیرکی کتابوں میں ’’بیعۃ الرضوان‘‘ کے نام سے مشہورہے؛ لیکن بعد میں اِس خبرکے غلط ہونے کی بات معلوم ہوئی(السیرۃ النبویۃ لإبن ہشام، غزوۃ الحدیبیۃ: ۲/۳۱۵)۔ قریش کواِس بیعت کاحال معلوم ہواتووہ خوف زدہ ہوئے اورنامہ وپیام کا سلسلہ شروع کیا۔

 مقامِ حدیبیہ میں قیام پذیری کے دوران مسلمانوں کے پرانے حلیف بنوخزاعہ (جوپہلے بھی آپ  اتک قریش کی خبریں پہنچایاکرتے تھے)کے سرداربُدیل بن ورقاء  آپ  اکی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا: قریش کی ایک بھاری جمعیت مستعد کھڑی ہے، وہ آپ اکوکعبہ میں جانے نہ دیں گے۔ آپ انے اُن سے فرمایا: اُنھیں جاکرکہہ دو کہ ہم صرف عمرہ کی غرض سے آئے ہیں ، لڑائی ہمارے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں ۔ جنگ نے قریش کی حالت زارزارکردی ہے؛ اس لئے بہترہے کہ ہم سے ایک مدت تک کے لئے جنگ بندی کامعاہدہ کرلیں اورمجھے عربوں کے ہاتھوں چھوڑدیں ۔ اگروہ اِس پرراضی نہیں توخدا کی قسم ! میں اُس وقت تک لڑتارہوں گا، جب تک میراسرتن سے جدانہ کردیاجائے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی، باب المہادنۃ……، حدیث نمبر: ۱۹۲۸۰)

بدیل نے قریش کے پاس آکرکہاکہ میں محمدکے پاس سے کچھ پیغام لے کرآیاہوں ، اشرارنے سننے سے انکارکیا؛ لیکن سنجیدہ قسم کے افرادنے پیغام سنانے کی اجازت دی۔ اُنھوں نے آپ  اکا پیغام سنایا۔ عروہ بن مسعودثقفی نے اہل ِ مجلس سے کہا: کیوں قریش! کیامیں تمہارے لئے باپ کے مقام اورتم میرے لئے بیٹوں کے درجہ میں نہیں ؟ سبھوں نے کہا: ہاں ! ایسا ہی ہے۔ پھراُس نے کہا: میری نسبت تمہیں کوئی بدگمانی تونہیں ؟ جواب ملا: نہیں ! اس نے کہا: پھرتومجھے خود محمدکے پاس جاکرمعاملہ طے کرنے کی اجازت دو، اس نے معقول تجویز رکھی ہے۔

عروہ بن مسعود آپ ا کی خدمت میں حاضرہوئے۔ آپ  ا نے اُن سے بھی وہی باتیں کہیں ، جوبدیل سے کہہ چکے تھے۔ اُس وقت عروہ نے آپ ا کو مخاطب کرکے کہا: أی محمد! أرأیت إن استأصلت أمرقومک، ہل سمعت بأحد من العرب اجتاح أصلہ قبلک؟ وإن تکن الأخریٰ، فإنی واللہ لأری وجوہاً،  وإنی لأری أشواباً من الناس خلیقاً أن یفروا، ویدعوک’’ائے محمد! اگرتم نے اپنی قوم کا استیصال کردیاتوکیااس کی بھی کوئی مثال ہے کہ کسی نے اپنی ہی قوم کا خاتمہ کردیاہو؟لیکن اگرلڑائی کارخ بدلا(اوراہل ِ مکہ تم پرغالب آگئے)تومیں تمہارے ساتھ ایسے لوگوں کودیکھ رہاہوں ، جوتمہیں چھوڑکربھاگ کھڑے ہوں گے‘‘۔ عروہ کی اِس بدگمانی پرحضرت ابوبکرص نے سخت درشت لہجہ اختیارکرتے ہوئے فرمایا: کیاہم محمدا کوچھوڑکربھاگ جائیں گے؟حضرت ابوبکرص کی سخت کلامی کوسن کرعروہ نے پوچھا: یہ کون ہیں ؟ لوگوں نے جواب دیا: ابوبکرہیں ! عروہ نے کہا: اگرمجھ پرتمہارا(زمانۂ جاہلیت میں دیاہواوہ)احسان نہ ہوتا، جس کی میں نے ابھی مکافات نہیں کی ہے تومیں تمہیں اِس سخت کلامی کاجواب ضروردیتا۔

 اب عروہ حضورا سے محوگفتگوہوئے اورعربوں کی عادت کے مطابق اثنائے کلام آپ ا کی داڑھی مبارک پربھی ہاتھ پھیرتے جاتے۔ عروہ کی اِس حرکت کوحضرت مغیرہ بن شعبہ ص جسارت تصورکیا اوراُن کے ہاتھ پرٹہوکادیااورکہا: أخریدک من لحیۃ رسول اللہا’’حضوراکی داڑھی مبارک سے اپنے ہاتھ دوررکھو‘‘۔ عروہ نے زرہ پوش حضرت مغیرہ ص کی طرف نگاہ اُٹھائی اورپوچھا: یہ کون ؟جواب ملا: مغیرہ بن شعبہ! یہ سن کرعروہ نے کہا: ارے اوغدار! کیامیں نے تمہاری اُس غداری کابدلہ نہیں دیاتھا (جوتم نے زمانۂ جاہلیت میں ایک قوم کے ساتھ کیاتھا؟)۔ پھردُزدِیدہ نگاہوں سے صدق وصفاکے پیکرعشاقِ رسول کودیکھنے لگے اورجاں نثارانِ رسول کی اِک اِک اداکاگہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کے بعدقریش کے پاس لوٹے اوریہاں کاآنکھوں دیکھاحال اس طرح بیان کرنے لگے:’’ ائے اہل ِ مجلس!بخدا میں نے بادشاہوں کے محلات اورقصورکے سیرکئے ہیں ، میں نے کسریٰ اورقیصرکا درباربھی دیکھاہے؛ لیکن میں نے کسی بھی ایسے بادشاہ کونہیں دیکھا، جس کے لوگ اُس کی اِس قدرتعظیم کرتے ہیں ، جس قدرتعظیم محمدکے ساتھی محمدکی کرتے ہیں ۔ خداکی قسم! محمدکی ناک کی ریزش بھی زمین پرگرنے نہیں پاتی کہ اُس کے ساتھی اپنے ہاتھوں میں لے کراپنے چہروں اوراپنے جسموں پرمل لیتے ہیں ۔ وہ جب کسی کام کا حکم دیتے ہیں تواُس کے ساتھی اُس کام کوانجام دینے کے لئے لپک پڑتے ہیں ۔ جب وہ وضوکرتے ہیں تووضوکے پانی کولینے کے لئے منافست پراترآتے ہیں ۔ جب وہ گفتگوکرتے ہیں توتمام لوگ مہربہ لب ہوجاتے ہیں اورکوئی بھی شخص عظمت وجلال کی وجہ سے اُسے نگاہ بھرکربھی نہیں دیکھتا۔ یقیناً محمدکی طرف سے ایک مناسب تجویز آئی ہے، اُسے قبول کرلینا چاہئے‘‘۔

عروہ کی باتیں سن کربنوکنانہ کے ایک فرد نے آپ اکے پاس آنے کی اجازت چاہی، قریش نے اُسے بھی جانے کی اجازت دیدی۔ جب وہ کاروانِ نبوت کے قریب پہنچاتوآپ  ا نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا:’’دیکھو! فلاں آرہاہے، اِس کاتعلق ایسی قوم سے،  جوہدی کے جانوروں کوتعظیم کی نگاہ سے دیکھتی ہے، لہٰذا تم لوگ ہدی کے جانوروں کے ساتھ اِس کا استقبال کرو‘‘۔ صحابہ نے جانوروں کے ساتھ تلبیہ پڑھتے ہوئے خوش آمدیدکہا۔ جب اُس نے یہ کیفیت دیکھی توبے ساختہ پکارا: سبحان اللہ! ماینبغی لہؤلاء أن یصدوا عن البیت’’سبحان اللہ! ایسے لوگوں کوتوبیت اللہ سے نہیں روکاجاناچاہئے‘‘۔ پھروہ قریش کے پاس لوٹ کرآیااوراُس نے اپنی یہی رائے پیش کی۔

 اب مکرز بن حفص نے آنے کی اجازت لی۔ جب وہ آپ  ا کے قریب پہنچاتوآپ  انے فرمایا: ’’مکرزبن حفص آرہاہے، یہ بُراآدمی ہے‘‘۔ پھراُس کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہوگئے۔ اِسی دوران قریش کی طرف سے وثیقۂ عہدتیارکرنے کے لئے آپ  اکے پاس سہیل بن عمروآیا۔ آپ  انے حضرت علی ص کواملاء کے لئے بلایااورکہا: لکھو{بسم اللہ الرحمٰن الرحیم}۔ سہیل نے کہا: ’’ہم رحمان کونہیں جانتے؛ اِس لئے وہ لکھو، جوہم لکھتے چلے آرہے ہیں ، یعنی: باسمک اللہم‘‘۔ آپ  انے باسمک اللہملکھوایا، پھرکہا: لکھوہذاماقاضی علیہ محمدرسول اللہ ’’یہ وہ ہے، جس پراللہ کے رسول محمدنے مصالحت کی ہے‘‘۔ سہیل نے کہا: ’’خداکی قسم ! اگرہم آپ کواللہ کا رسول تسلیم ہی کرلیتے توبیت اللہ سے ہرگز نہ روکتے اورناہی آپ سے جنگ کرتے؛ اِس لئے محمدبن عبداللہ لکھئے‘‘۔ آپ  انے اُس کی یہ بات سن کرفرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں اللہ کارسول ہوں ، اگرچہ کہ تم لوگ مجھے جھٹلاؤ‘‘۔ پھرحضرت علی ص سے محمدبن عبداللہ ہی لکھنے کے لئے کہا۔

  اب تحریری شکل کوآگے بڑھاتے ہوئے آپ  انے املاکرایا: ’’یہ مصالحت اِس بات پرہے کہ تم لوگ بیت اللہ کے طواف سے ہمیں نہیں روکوگے‘‘۔ سہیل نے کہا: اس کی وجہ سے کہیں عرب یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم نے دب کرصلح کی ہے؛ اِس لئے یہ آئندہ سال پراٹھارکھیں ‘‘۔ آپ  انے اُس کی یہ بات بھی مان لی۔ اب سہیل نے اپنی طرف سے ایک شق لکھائی کہ’’ ہماراکوئی بھی مرد مسلمان ہوکرآپ کے پاس آجائے توآپ اُسے ہمارے پاس لوٹادیں گے؛ لیکن اگرآپ کاکوئی ساتھی آپ کا دین چھوڑکرآئے توہم اُسے نہیں لوٹائیں گے‘‘۔ صحابہ ث نے کہا: سبحان اللہ! دائرہ ٔاسلام میں داخل ہونے کے بعدکسی کو کیسے لوٹایاجائے گا؟

 معاہدہ کی اِس شق پربحث وتمحیص چل ہی رہی تھی کہ ابوجندل ص بن سہیل بن عمروقفس ِتعذیب سے فرارہوکربیڑیوں میں گھسٹتے ہوئے یہاں پہنچے۔ سہیل نے اُنھیں دیکھتے ہی کہا:’’ معاہدہ کا نفاذ یہیں سے ہوگا‘‘۔ آپ انے فرمایا:’’ ابھی تومعاہدہ کی تکمیل بھی نہیں ہوئی‘‘۔ سہیل نے جواب دیا: ’’پھرتوکسی چیز پرمصالحت نہیں ہوسکتی‘‘۔ آپ انے فرمایا: ’’اچھامیری خاطراِسے چھوڑدو‘‘۔ اس نے کہا: ’’میں اِس پربھی تیارنہیں ‘‘۔ (بخاری، باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃمع اہل الحرب وکتابۃ الشروط، حدیث نمبر: ۲۷۳۲)آپ ا نے اُس وقت حضرت ابوجندل ص کومخاطب کرکے فرمایا: یاأباجندل! إصبر واحتسب، فإن اللہ عز وجل جاعل لک ولمن معک من المستضعفین فرجاً ومخرجاً، إناقد عقدنابیننا وبین القوم صلحاً، فأعطیناہم علی ذلک، وأعطوناعلیہ عہداً، وإنالن نغدربہم۔ (السنن الصغریٰ للبیہقی، باب المہادنۃ علی النظرللمسلمین، حدیث نمبر:۳۷۷۲(۸/۱۶۳)، مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۸۹۱۰(۳۱/۲۱۹)’’ائے ابوجندل! صبرکرواورامیدرکھو، اللہ تعالیٰ تمہارے اورتمہارے ساتھ دوسرے کمزوروں کے لئے ضرورکوئی سبیل نکالے گا۔ ہم نے قریش سے عقدصلح کرلیاہے اوراس پرزبان دیدی ہے اوران لوگوں نے بھی ہم سے عہدکیاہے اورہم ان غداری کے مرتکب نہیں ہوسکتے ‘‘۔ اوراُنھیں واپس مکہ بھیج دیا۔

اِس معاہدہ کی وہ تمام شقیں ، جن پرقریش راضی تھے، اِس طرح ہیں :

 ۱)  دس سال تک حرب وضرب موقوف رہے گی۔

   ۲)  قریش کا جومرد مسلمان ہوکراپنے اولیاء اورموالی کی اجازت کے بغیرمدینے آجائے، اُسے واپس کردیاجائے گا۔

  ۳)  مسلمانوں میں سے جومرد(راہِ ارتداداختیارکے)مکہ آجائے، اُسے واپس نہ کیاجائے گا۔

 ۴)  مدتِ معاہدہ میں کوئی دوسرے پرتلوارنہیں اُٹھائے گااورناہی کسی سے خیانت کرے گا۔

 ۵)  محمداِس سال واپس چلے جائیں اورآئندہ سال مکہ میں صرف تین دن رہ کرعمرہ کرکے واپس ہوجائیں ، سوائے تلواروں کے اورکوئی ہتھیارساتھ نہ ہواوروہ بھی نیام میں رہیں ۔

  ۶)  قبائل ِمتحدہ جس کے حلیف بنناچاہیں ، بن سکتے ہیں ۔ (زادالمعاد، فصل فی قصۃ صلح الحدیبیۃ: ۳/۲۹۹، القول المبین فی سیرۃ سیدالمرسلین لمحمدالطیب النجار، صلح الحدیبیۃ:۱/۳۱۶)

  اِس معاہدہ میں آپ ا نے قریش کی وہ تمام شرطیں منظورکرلیں ، جوبظاہرمسلمانوں کے خلاف تھیں ، جس کی وجہ سے صحابہ ث ایک قسم کی اندرونی گھٹن میں مبتلاہوگئے؛ حتیٰ کہ حضرت عمرص نے آپ اکی خدمت میں حاضرہوکراِس طرح سوال کرناشروع کردیا: کیاآپ اللہ کے برحق نبی نہیں ہیں ؟ کیاہم حق پراوردشمن باطل پرنہیں ہیں ؟آپ ا نے ہرسوال کے جواب میں ’’کیوں نہیں ‘‘(یعنی ہاں ! ہم حق پرہیں اورمیں اللہ کابرحق نبی ہوں ) فرمایا۔ تب حضرت عمرص نے کہا: فلم نعطی الدنیئۃ فی دیننا إذن؟’’پھرہم دین میں کمی کیوں برداشت کریں ؟‘‘۔ آپ ا نے جواب دیا: إنی رسول اللہ، ولست أعصیہ، وہوناصری’’میں اللہ کارسول ہوں ، اس کی نافرمانی نہیں کرسکتااوروہ میراحامی وناصرہے‘‘۔ حضرت عمرصنے پھرسوال کیا: کیاآپ انے ہمیں نہیں بتایاتھاکہ ہم بیت اللہ جاکراُس کاطواف کریں گے؟ آپ انے جواب دیا: توکیامیں نے تمہیں یہ بات بھی بتائی تھی کہ اِسی سال کریں گے؟تم ضرورجاؤگے اوربیت اللہ کاطواف کروگے۔

  جب معاہدہ کی تکمیل ہوگئی توآپ ا نے صحابہ ث سے فرمایا: قوموا، وانحروا، ثم احلقوا ’’اُٹھو، اپنے جانوروں کانحرکرواورپھراپنے سروں کاحلق کراؤ‘‘۔ گھٹن کی کیفیت میں مبتلاہونے کی وجہ سے کسی صحابی نے بھی جنبش نہ کی؛ حتیٰ کہ آپ انے تین مرتبہ یہی بات فرمائی۔ جب کسی نے حرکت نہیں کی توآپ ا حضرت ام سلمہ(رضی الہہ عنہا) کے پاس آئے اورلوگوں کے اِس ردعمل کاتذکرہ کیا۔ حضرت ام سلمہ (رضی الہہ عنہا)نے فرمایا: یانبی اللہ! أتحب ذاک؟ أخرج، ثم لاتکلم أحداًمنہم کلمۃً؛ حتیٰ تنحربدنک، وتدعوحالقک فیحلقک’’ائے اللہ کے نبی! کیاآپ یہی چاہتے ہیں ؟ (اگرآپ یہ چاہتے ہیں )تونکلئے اورکسی سے ایک لفظ مت کہئے، بس سیدھے جاکراپنے ہدی کے جانور ذبح کردیجئے اورنائی کوبلواکرحلق کروایئے‘‘۔ آپ انے حضرت ام سلمہ(رضی الہہ عنہا) کے مشورے پر عمل کیا۔ جب صحابہ ث نے آپ اکوایساکرتے دیکھاتواُن لوگوں نے بھی اپنے جانورذبح کردئے اور(مارے گھٹن کے) ایک دوسرے کا اِس طرح حلق کرنے لگے، جیسے گردن ہی کاٹ ڈالیں گے۔ (بخاری، باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃمع اہل الحرب وکتابۃ الشروط، حدیث نمبر: ۲۷۳۲)

حدیبیہ میں تقریباً دوہفتے قیام کرنے کے بعدآپ انے اپنے رفقاء کے ساتھ واپسی کے لئے کجاوہ کسا۔ جب مکہ مکرمہ اورمدینہ کے درمیان پہنچے توسورۂ فتح نازل ہوئی۔ آپ انے صحابہ ث کوجمع فرماکر{إنافتحنالک فتحاًمبیناً }سنائی۔ صحابہ انگشت بدانداں رہ گئے اوردریافت کیا: ائے اللہ کے رسول! کیا یہ فتح ہے؟ آپ انے جواب دیا: قسم ہے اُس ذات کی، جس کے قبضے میں میری جان ہے! بے شک یہ عظیم الشان فتح ہے۔ (مسنداحمد، حدیث مجمع بن جاریۃؓ، حدیث نمبر: ۱۵۴۷۰(۲۴/۲۱۲)

 جب رسول اللہ ا مدینہ پہنچ گئے توابوبصیرکفارقریش کی قیدسے بھاگ کرمدینہ پہنچے۔ قریش نے فوراًاِن کی واپسی کے لئے دولوگوں کومدینہ روانہ کیا۔ آپ انے ایفائے عہدکرتے ہوئے ابوبصیرکواُن کے ساتھ مکہ کے لئے روانہ کردیا۔ ابوبصیراُن کے ساتھ روانہ توگئے؛ لیکن راستہ میں اُن میں سے ایک کوقتل کردیا، جب دوسرے نے یہ حال دیکھاتوبھاگ کھڑاہوااورسیدھامدینہ آپ اکی خدمت میں حاضرہوااورکہا: میراساتھی توماراگیااوراب میں بھی ماراجانے والاہوں ۔ اُسی کے پیچھے ابوبصیربھی مدینہ پہنچے اورحضوراکرم ا کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیا: ائے اللہ کے رسول ا! اللہ تعالیٰ نے آپ کے عہدکوپوراکردیا۔ آپ نے تومجھے اُن کے حوالے کردیاتھا۔ پھراللہ تعالیٰ نے اُن سے نجات کی میرے لئے ایک سبیل مہیافرمادی ہے۔ میں نے یہ جوکچھ کیا، محض اس لئے کیاکہ میرے اوراِن کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ آپ انے فرمایا: ویل أمہ!  مسعرحرب۔ لوکان لہ أحد!’’ناس ہو! جنگ بھڑکانے والاہے۔ کاش! کوئی اِس کے ساتھ ہوتا‘‘۔ حضرت ابوبصیرسمجھ گئے کہ آپ اکومیرایہاں ٹھہرناپسندنہیں ؛ چنانچہ اُنھوں نے ساحل ِسمندرکوٹھکانہ بنایا(بخاری، باب الشروط فی الجہاد…حدیث نمبر: ۲۷۳۲)۔ اب جوبھی مکہ سے فرارہوکرآتا، سیدھے ساحل پرپہنچتا، اِس طرح ستر(۷۰) یاتین سو(۳۰۰)لوگوں کی ایک بڑی تعداد اکٹھی ہوگئی۔ یہ ساحل مکہ سے شام جانے والے تاجرین ِقریش کی راہ میں پڑتاتھا؛ چنانچہ اِن لوگوں نے اُن کے مال واسباب کو اپنی غذائی قلت دورکرنے کاذریعہ بنایا۔ جب قریش اِن سے تنگ آگئے توآپ کواِن لوگوں کواپنے پاس بلالینے اجازت دیدی اوراِس طرح معاہدہ کی ایک شق کو اُن لوگوں نے خود ہی کالعدم قراردے دیا، جب کہ پورامعاہدہ اُس وقت اختتام پذیرہوا، جب قریش کے حلیف بنوبکر نے قریش کے ساتھ مل کربنوخزاعہ پرچشمۂ’’وتیر‘‘میں شب خوں مارااوراُن کے بہت سارے افرادکوموت کی نیندسُلادیا۔ چنانچہ عمروبن سالم خزاعی نے بنوخزاعہ کا ایک وفدلے کردربارِنبوت میں حاضرباش دُہائی دی، جس کو سن کرآپ انے فرمایا: نُصِرْتَ یاعمروبن سالم۔ (سنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر: ۱۹۳۳۱)’’ائے عمروبن سالم! تمہاری مددکی جائے گی‘‘۔ پھرآپ نے بنوخزاعہ کی مددکی، جس کے نتیجہ میں مکہ فتح ہوا۔

  یہ تھی رودادِ معاہدہ۔ اب آیئے اِس معاہدہ سے حاصل ہونے والے دروس واسباق پرنظرڈالتے چلیں :

معاہدہ کالحاظ

آپ انے کفارِقریش سے کئے ہوئے اِس معاہدہ کاپوراپورالحاظ فرمایااورمعاہدہ کے مطابق ہراُس کام کوانجام دیتے رہے، جومعاہدہ میں طے ہواتھا؛ چنانچہ مدینہ پہنچنے کے بعد جب ابوبصیرقیدوبندکی صعوبتوں سے چھٹکارا حاصل کرکے مدینے پہنچے اورمشرکین ِ مکہ نے اِن کی واپسی کامطالبہ کیاتوآپ ا نے اِنھیں اُن کے بھیجے ہوئے آدمیوں کے حوالہ کردیااوراُس عہد کی پاسداری کا مکمل ثبوت دیا، جوآپ انے اُن سے حدیبیہ کے مقام پرکیاتھا۔

  آج ہمیں اپناجائزہ لیناچاہئے کہ کیاہم بھی اپنے کئے ہوئے عہدکاایفاکرتے ہیں ؟کیاہم وعدہ کرکے اپنی ادنیٰ منفعت کی وجہ سے اُس کی خلاف ورزی نہیں کربیٹھتے؟ کیاایسانہیں ہے کہ ہم نے معاہدہ کونقصان سے بچنے کا ایک ظاہری سبب بنارکھاہے اورپس ِ پشت مُعاہِدْ(معاہدہ کرنے والا)کوضررپہنچانے کی تدبیریں نہیں کرتے رہتے؟ ہمارے آقاانے توغیرسے کئے ہوئے عہدکونباہ کرکے دکھادیااورہم اُسی کے امتی ہونے کے باوجوداپنوں سے کئے ہوئے پیمان کاپاس نہیں رکھتے۔ کاش! آپ اکے اِس عمل سے ہم نصیحت حاصل کرتے!

مقصد پرنظر

 آپ ا جب مقامِ عسفان پہنچے توآپ کویہ اطلاع دی گئی کہ خالدبن الولید(جوابھی تک اسلام کی سعادت سے محروم تھے)ہراول دستے کے طورپردوسوشہ سواروں کے ہمراہ ’’غمیم‘‘ تک پہنچ چکے ہیں ۔ اِس خبرکے سنتے ہی آپ ا نے اپناراستہ بدل لیاکہ مقصودلڑائی نہیں ؛ بل کہ سعادتِ عمرہ سے سرفراز ہوناتھا۔ اگرآپ اچاہتے تواُن کا مقابلہ کرکے بہ زورشمشیراُن سے راستہ خالی کروالیتے؛ لیکن چوں کہ آپ اکا مقصد قطعاً لڑائی نہیں تھا؛بل کہ آپ اکا مقصد بیت اللہ شریف کی زیارت سے مشرف ہوناتھا؛ اس لئے آپ ا نے مقصدپرنظررکھتے ہوئے بذا تِ خوداپناراستہ بدل لیا۔

  آج ہمیں اِس بات کاجائزہ لیناچاہئے کہ کیاہم بھی اپنے مقصدپرنظررکھ رہے ہیں ؟ کیاہم بھی اپنے مقصد کے حصول کے لئے جھگڑا وفسادسے گریز کرتے ہیں ؟ ہم توایسے ہیں کہ بلاوجہ اپنے بھائی کومقدمات کے گھن چکرمیں ڈال کراُس کی زندگی کے مقصدبھی اُسے محروم کردیتے ہیں ۔ ہم حقیقی مقصدکوچھوڑکراناکی جیت کومقصدکادرجہ دیتے ہیں ۔ کاش! معاہدۂ حدیبیہ کے اس واقعہ سے ہم ’’مقصدپرنظر‘‘رکھنے کا سبق حاصل کرسکیں ۔

مصلحت اندیشی

  آپ انے کفارقریش کے پاس سب سے پہلے یہ پیغام بھیجوایاکہ’’ ہم صرف عمرہ کی غرض سے آئے ہیں ، لڑائی ہمارے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں ۔ جنگ نے قریش کی حالت زارزارکردی ہے؛ اس لئے بہترہے کہ ہم ایک مدت تک کے لئے جنگ بندی کامعاہدہ کرلیں اورمجھے عربوں کے ہاتھوں چھوڑدیں ‘‘۔ یہ اِس مصلحت کے پیش نظرتھاکہ اگرایک مدت تک جنگ بندی ہوگئی تواِس طرف سے دھیان ہٹاکردعوتِ اسلام کی طرف پوری توجہ مرکوز کی جاسکتی ہے اورہوابھی یہی کہ معاہدہ کے بعدہی آپ ا نے دیگربادشاہوں کے نام دعوتی خطوط لکھے۔

  آج ہم اپنامحاسبہ کریں کہ کیاہمارے اندریہ مصلحت اندیشی پائی جارہی ہے؟ آج ہم صرف جوش کے ٹٹوپرسوارہوکرنہ جانے کتنے بنتے کام بگاڑ دیتے ہیں ! اورجہاں عزم وجزم کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں دُبک کربیٹھ جاتے ہیں ۔ خود ہمارے ملک میں ہماری مصلحت نااندیشیوں کی کئی مثالیں موجودہیں ۔ قضیۂ بابری مسجدکے سلسلہ میں ایک بات یہ آئی تھی کہ اُسے آثارِ قدیمہ کے حوالے کردیاجائے؛ لیکن مشورہ دینے والے پرہی یہ الزام دھردیاگیاکہ یہ حکومت کا پٹھوہے۔ حالاں کہ آثارِقدیمہ کے حوالے کردینے کی بات مصلحت سے خالی نہیں تھی۔ جب مسجدکی چولیں ہل گئیں تب یہ بات سمجھ میں آئی۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ہم اپنی کم ہمتی اوربزدلی کوضرور’’مصلحت اندیشی‘‘کانام دیتے ہیں ۔ ہمیں آپ ا کی اِس مصلحت اندیشی سے کچھ سیکھناچاہئے۔

صلح میں پہل

 کفارِقریش کی طرف سے کسی پیش قدمی سے پہلے ہی آپ نے صلح ومعاہدہ کاپیغام اُنھیں بھجوایا۔ یہ آپ ا کی طرف سے دست ِصلح درازکرنے میں پہل کرنے کی ایک اعلیٰ مثال ہے____آج ہمیں یہ غورکرناچاہئے کہ کیاہم بھی کسی سے صلح کرنے میں پہل کرتے ہیں ؟ آج ایسے بہت سارے نمونے ہمارے سامنے موجودہیں کہ ایک سگے بھائی کی چپقلش اپنے سگے بھائی سے برسوں سے چلی آرہی ہے۔ راہ چلتے ایک دوسرے سے منھ چراتے ہیں ۔ نہ خوشی کی بزم میں شریک ہوتے ہیں اورناہی غم کی مجلس میں حاضر؛ بل کہ ایک دوجے کی دشمنی میں جلتے بھنتے رہتے ہیں ۔ بہت سارے مواقع پرایک دوسرے سے بغل گیربھی ہوناچاہتے ہیں ؛ لیکن مونچھ کی اکڑن اورناک کی اونچائی ایسا کرنے سے مانع بنتی ہے۔ کاش! آپ ا کے اِس اُسوہ پرہم عمل پیراہوسکتے!

اہانتِ رسول پرردعمل

  جب عروہ آپ ا سے ہم کلام ہوئے اورعربوں کی عادت کے مطابق اثنائے کلام آپ اکی داڑھی مبارک پربھی ہاتھ پھیرنے لگے تو عروہ کی اِس حرکت کوحضرت مغیرہ بن شعبہ ص نے جسارت اوراہانت تصورکیا اوراُن کے ہاتھ پرٹہوکادیااورکہا:’’حضورا کی داڑھی مبارک سے اپنے ہاتھ دوررکھو‘‘۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ ص کے اِس فعل سے ہمیں سبق ملتاہے کہ آپ ا کی شان میں ادنیٰ گستاخی بھی ہمارے لئے قابل ِقبول نہیں ۔ آج دشمنانِ اسلام آپ ا کی شان میں طرح طرح کی گستاخیاں کررہے ہیں ؛ لیکن ہم اُن گستاخیوں کاجواب بجز احتجاج کے اورکسی طرح نہیں دے رہے ہیں ، ہمیں احتجاج سے آگے بڑھ کرایسے قوانین وضع کرنے کامطالبہ بھی کرناچاہئے، جس میں اِس طرح کی حرکت کرنے والوں کے لئے سخت ترین سزاؤں کی تعیین ہواوراگرطاقت ہوتواُس مرتکب ِجرم کواُسی طرح ٹہوکادینے سے گریز نہ کریں ، جس طرح حضرت مغیرہ بن شعبہ ص نے دیاتھا۔

بُرے کی بُرائی سے آگاہی

جب مکرز بن حفص آپ اکے قریب پہنچاتوآپ انے صحابہث کومخاطب کرکے فرمایا: ’’مکرزبن حفص آرہاہے، یہ بُراآدمی ہے‘‘____آپ اکے اِس عمل سے ہمیں یہ درس ملتاہے کہ ہم برے شخص کی برائی دوسروں کے سامنے واضح کردیں ؛ تاکہ وہ اُس کی برائی سے محفوظ رہ سکے۔ آج ہمارے درمیان بہت سارے ایسے لوگ ہیں ، جوبروں کی برائی سے اپنے بھا ئی کواس لئے آگاہ نہیں کرتے کہ یہ اُس کا معاملہ ہے،  وہ سمجھے، مجھے اس سے کیاسروکار؟ خصوصاً رشتوں کے معاملے میں اِس طرح کے واقعات بکثرت پیش آتے ہیں ۔ آپ ا کے اس عمل سے ہمیں نصیحت حاصل کرنی چاہئے اوربرے کی برائی سے دوسروں کوبھی محفوظ رکھناچاہئے۔

مستقبل پرنظر

 معاہدہ کی تمام شقیں بہ ظاہرمسلمانوں کے خلاف تھیں ؛ لیکن آپ انے تمام کومنظورفرمایا۔ دراصل آپ ا کے پیش نظرمستقبل تھاکہ ایک بارمعاہدہ ہوجانے کے بعدسکون واطمینان کے ساتھ دعوتِ دین کے فریضہ کی ادائے گی کی طرف توجہ دی جاسکے گی، جس کے نتیجہ میں دیگرقبائل ِ عرب کے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کاقوی امکان تھا۔ ہوابھی ایساہی۔ مدتِ معاہدہ میں اچھے خاصے لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔

 آج ہماری نگاہ کسی بھی کام میں مستقبل کے بجائے حال پرہوتی ہے۔ ہم کام کم اورنتیجہ کی فکرزیادہ اورشِتاب کرتے ہیں ؛ حالاں کہ عجلت پسندی کے نتیجہ میں آراستگی کم اوراُجاڑزیادہ ہوتاہے۔ کسی بھی کام کی ابتداء ہمیں یہ سوچ کرنہیں کرنی چاہئے کہ اِس کاثمرہ پیش ازپیش حاصل ہوجائے؛ بل کہ مستقبل کوسامنے رکھناچاہئے۔ اسی سوچ کے ساتھ کوئی فعل یافیصلہ کرناچاہئے کہ صلح حدیبیہ کا ایک پیغام یہ بھی ہے۔

بیوی کے درست مشورے پرعمل

 جب معاہدہ کی تکمیل ہوگئی توآپ انے صحابہ سے ہدی کے جانوروں کوذبح کرنے اوراپنے سروں کے حلق کرانے کاحکم دیا۔ گھٹن کی کیفیت میں مبتلاہونے کی وجہ سے کسی صحابی نے بھی جنبش نہ کی؛ حتیٰ کہ آپ انے تین مرتبہ یہی بات فرمائی۔ جب کسی نے حرکت نہیں کی توآپ ا حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا)کے پاس آئے اورلوگوں کے اِس ردعمل کاتذکرہ کیا۔ حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا)نے فرمایا: ’’ائے اللہ کے نبی! کیاآپ یہی چاہتے ہیں ؟ (اگرآپ یہ چاہتے ہیں )تونکلئے اورکسی سے ایک لفظ کہے بنااپنے ہدی کے جانور ذبح کردیجئے اورنائی کوبلواکرحلق کروایئے‘‘۔ آپ انے حضرت ام سلمہ کے درست مشورے پر عمل کیا۔

 آج ہم اپنی بیویوں کے کسی بھی مشورے کوقبول کرنے کی نگاہ سے نہیں دیکھتے؛ حالاں اُن کے بہت سارے مشورے راہِ صواب کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ آپ اکے اِس عمل سے ہمیں یہ درس ملتاہے کہ اپنی بیویوں کے مشورے کوبھی قدر کی نگاہ سے دیکھیں ، درست معلوم ہونے پراُس پرعمل کرنے سے صرف یہ سوچ کرنہ کترائیں کہ لوگ کہیں ’’جوروکاغلام‘‘نہ کہنے لگیں ۔

مسلمان کی جان کی قیمت

  جب آپ کویہ معلوم ہواکہ حضرت عثمان ص کوقتل کردیاگیاہے توآپ ا نے ان کے خون کابدلہ لینے پرصحابہ ثسے بیعت لی اورفرمایا: جب تک میں عثمان کے خون کا بدلہ نہ لے لوں ، اُس وقت تک یہاں سے حرکت نہیں کروں گا۔ اِس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کی جان کی قیمت کیاہے؟

   آج ہم اپنے معاشرہ پرنظردوڑائیں کتنے ایسے لوگ ہیں ، جوایک مسلمان کے خون کواتنی اہمیت دیتے ہیں ؟ جوگھریلولڑائی کے بدلہ اپنے حقیقی بھائی کے قتل کے درپے نہیں ہوجاتے؟ جوایک مسلمان کے خون ہوجانے کی خبرسن کربے چین ہوجاتے ہیں ؟ آج مختلف ممالک میں خونِ مسلم کوپانی کی طرح بہایاجارہاہے، کیاہمارادل اِس پرمچل اُٹھتاہے؟ کاش! بیعۃ الرضوان سے یہ سبق ہم سیکھ سکتے!!

تبصرے بند ہیں۔