ضبط ہے مہلک تمھارا جان لیوا اجتناب

افتخار راغبؔ

ضبط ہے مہلک تمھارا جان لیوا اجتناب

سامنا جس کا ہے دل کو، ضبط ہے یا اجتناب

کس طرح ہوتا ہے دیکھیں آگ پانی کا ملن

اک سراسر اضطراب اور اک سراپا اجتناب

دیکھ کیا ہر آن تیرے ذہن و دل پر ہے سوار

وجہِ بے تابی نہ بن جائے زیادہ اجتناب

آگ سے کچھ کم نہیں تیرا عتاب اے شعلہ رو

دھوپ سے کب تک کرے گا کوئی پودا اجتناب

دیکھ لے کیا ہو گئی حالت ترے بیمار کی

مرنے والے سے خدارا مت کر اتنا اجتناب

مہرباں ہو جائے مجھ پر اک توجہ آپ کی

غم نہیں کر لے جو مجھ سے ساری دنیا اجتناب

 کس قدر راغب رہی تیری نگاہِ التفات

قہر کیسا ڈھا گیا راغبؔ پہ تیرا اجتناب

تبصرے بند ہیں۔