طائفہ منصورہ کی صفات

محمد عرفان شیخ یونس سراجی

آج عالم اسلام مذہبی ومسلکی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہےاوربہت کثرت کے ساتھ فرقہ بندی وگروہ بندی اورجماعتی  اختلاف وانتشار کا شکار ہے۔ ہر گروہ اور فرقہ  دوسروں کو چھوڑ کر محض  اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے اور عوام الناس کے مابین  اپنی حقانیت کو باور کراتے ہوئے  منہج نبوی اور منوال سلف صالحین پر ہونے کا دعوی کرتا ہے۔ تحریکی وجہادی حلقوں سے وابستہ  جماعت یہ سمجھتی  ہےکہ اسلام کی فتح ونصرت کا فریضہ ان کے ہاتھوں  سے پایہ تکمیل کو پہونچنے والا ہے، نیزتقلیدی اور کتاب وسنت سے منحرف  جماعت ببانگ دہل  اعلان کرتی  پھرتی ہے کہ  عظیم الشان  دینی فریضہ کی بالیدگی اس   کے ہاتھو ں سرانجام پانے والا ہے، لیکن منہجی واصولی طور سے دیکھا جائے، توحق بجانب  ہونے کادعوی کرنے والی جماعتیں نبوی منہج اور صحابہ کرام کے طریقے سے پرے نظر آتی ہیں۔ مختلف جماعات اور مسلکی ومذہبی حمایتیو ں کے وجود نےحق پر قائم جماعت کے بارے میں عام  لوگوں کے ذہن ودماغ میں  شک وشبہ کا بیج بو دیا ہے۔ حالانکہ دروغ گو اور ہرزہ سرا جماعتوں کے ساتھ ساتھ سچ گو اور حق کی صدا بلند کرنے والی جماعت (اہل السنہ والجماعہ)موجود ہےجو بہر صورت  محض کتاب وسنت سے رشتہ استوارکرنے کی تلقین کرتی ہے، مصائب ومشکلات اور درپیش پریشانیوں میں نبی کریم ﷺسے ثابت شدہ اوراد وظائف کا ورد  کرنے نیز صرف اللہ واحد کی بارگاہ میں سر بہ سجود ہونے کی تاکید کرتی ہے، اسی جماعت کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے پیشین گوئی کی ہے، نبی کریم ﷺکا فرمان ہے:”لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِيْ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ كَذلِكَ“(صحیح مسلم، ح:۱۹۲۰۔ سنن أبی داود، ح:۴۲۵۲)ترجمہ: ”میری امت کی ایک  جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی، اسے کوئی فتنہ پرور نقصان نہیں پہونچاسکے گا تااینکہ قیامت  قائم ہوجائے، وہ لوگ اسی حالت میں قائم رہیں گے“۔ نیز نبی کریم ﷺکا فرمان گرامی ہے:”لَا تَزَالُ مِنْ أُمَّتِیْ قَائِمَةً بِأَمْرِ اللهِ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، وَلَا مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ عَلَى النَّاسِ“(صحیح بخاری، ح:۳۶۴۱۔ صحیح مسلم، ح: ۱۰۳۷)ترجمہ: ”میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی، کوئی  مفسدہ پرداز اور مخالف نقصان نہیں پہونچاسکے گا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے، اور اسے لوگوں پر فوقیت حاصل رہے گی“۔

اور نبی ﷺ کا فرمان ہے : ”لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَوَّامَةً عَلَى أَمْرِ اللهِ لَا يَضُرُّهَا مَنْ خَالَفَهَا“(سنن ابن ماجہ:۷)ترجمہ :”میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم ودائم رہے گی، اس کےمخالف اسے نقصان نہیں پہونچاسکے گا“۔

متذکرہ بالا روایات کے علاوہ بہت سی روایات حدیث کی کتابوں میں دستیاب ہیں جو برحق جماعت کی تا قیامت باقی رہنے اور اسے  اس کے مخالفین ومعاندین  کی جانب سے کسی قسم کا نقصان نہ پہونچنے  کی تائید وتوثیق کرتی ہیں۔

اسلام دشمن طاقتیں  روز اول سے اسلامی تعلیمات  و احکامات کی بیخ کنی کے لیے نت نئے ہتھکنڈے تیار کررہی ہیں، اپنی  دسیسہ کاریوں اور ریشہ دوانیوں  سے   عوام الناس کو پھانسنے کے لیے روز افزوں جاں فشانیاں انجام دے رہی ہیں، اپنے باطل عقائد کی نشر واشاعت کے لیے   مال وزر کے بل بوتے پر دنیا کی رعنائیوں اور دل فریبیوں کے جال میں  لوگوں کو گرفتہ کرکے انہیں راہ راست سے بہکانے کی کوششیں کررہی ہیں، جو ہدایت ودین حق نبی کریم لے کر آئے تھے اس سے پھیرنے کے لیےجاں توڑ تگ ودو کررہی ہیں۔ اوریہود ونصاری اور مشرکین چاہتے ہیں کہ اپنے جنگ وجدال اورافتر سے اسے مٹا دیں۔ تاہم یہ کیسے ممکن ہے کہ جو دین حق اللہ تعالى نے اپنے نبی ﷺکو دے کر بھیجا ہےاس کا خاتمہ ہوجائے۔ فرمان باری تعالى ہے :”يُرِيدُونَ أَنْ يُّطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأبَى اللهُ إِلَّا أَنْ يُّتِمَّ نُورَهُ وَلَو كَرِهَ الْكَافِرُونَ*هُوَالَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَو كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ“(سورہ توبہ :۳۲) ترجمہ:”وہ چا ہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ انکاری ہے مگر اسی با ت کا کہ اپنا نور پورا کرے، گو کافر نا خوش رہیں۔ اسی نے اپنے رسول کو ہدایت   اور سچے دین کےساتھ بھیجا ہےکہ اسے اورتما م ادیان پر غالب کردےاگرچہ مشرکین برا مانیں“۔

ہمار ایمان جازم ہے کہ  اللہ تعالى معبود برحق ہے، تمام جہان کا پانہار ہے، نظامہائے جہان آب وگل اور  حیات  مخلوقا ت اس کے  ہاتھ میں  ہے، وہ جو چاہیں جب چا ہیں کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالى کافرمان ہے:”أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ  شَيْءٍ قَدِيرٌ“(سورہ بقرہ: ۱۰۶) ترجمہ:”یقینا  اللہ ہرچیز پر قادرہے“۔

اقوال سلف صالحین کی روشنی میں ”طائفہ منصورہ“سے مراد:

امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اگر "طائفہ منصورہ” سے مراد اہل حدیث نہیں ہے، تو میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں “۔ (شرف أصحاب الحدیث، ص:۲۷)

امام  علی بن مدینی رحمہ اللہ   فرماتےہیں:”اس سے مراد اہل حدیث ہے“۔ (سنن ترمذی، ح:۲۱۹۲)

عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”میرے نزدیک "طائفہ منصورہ” سے مراد اہل حدیث  ہیں“۔ (شرف أصحاب الحدیث، ص:۲۶)

قاضی عیاض رحمہ اللہ فرما تے ہیں :”در حقیقت امام احمد نے اس  سے مراد اہل السنہ والجماعہ لیا ہے، وہ  جو اہل حدیث کے مذہب پر یقین رکھتے ہیں“۔ (المنہاج فی شرح صحیح مسلم، ج۵، ص:۷۶)

یزید بن ہارون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”اگر”طائفہ”سے مراد اہل حدیث نہیں ہے تو مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون ہیں“۔ (شرف أصحاب الحدیث، ص:۲۶)

 "طائفہ منصورہ”ایسی خدا ترس جماعت ہے جو کتاب وسنت کی دلائل سے ثابت شدہ خصائص کے ذریعہ عالم اسلام میں متعار ف ہے، جو بھی اس کی  صفت سے متصف ہوگا، وہ "طائفہ منصورہ” میں سے ہوگا، اورجو اس کی صفت سے متصف نہیں ہوگا وہ لاکھ اپنی زبان سے اقرار کرلے کہ میں "طائفہ منصورہ” میں سے ہوں، ہرگر نہیں ہوسکتا۔ اس کی نمایاں صفا ت قرآن وحدیث میں مذکورہیں جن میں سے  بعض کا بالاختصارمندرجہ  ذیل نقاط  میں ذکریں گے۔

قرآن وسنت کو فیصل تسلیم کرنا:

"طائفہ منصورہ "ایسی جماعت ہے جو عامل بالکتاب والسنہ ہے، صحیح عقائد کی حامل ہے، فہم سلف کی پاسدار ہے۔ جب بھی کوئی دینی واسلامی اور سماجی  مسئلہ درپیش ہوتا ہے، تواسے کتاب سنت کی رو سے حل کرنے  کے لیےکسی خاص مسلک ومذہب کی تائید وتوثیق کیےبغیر تگ ودو کرتی ہے، شرعی دلائل کی موجودگی میں قیاس  آرائیوں  وبے جا اجتہادات اور اندھی تقلید سے کنارہ کش رہتی ہے، اختلافی مسائل میں علما وصلحا کے اقوال وافعال سے قطع نظر اللہ کاکلام اور نبی کے فرمودا ت  کو صمیم قلب سے تسلیم کرتی ہے۔

اللہ تعالى کا فرمان ہے:”وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللهُ وَرَسُولُه أَمْرًا أَنْ يَّكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَ مَنْ يَّعْصِ اللهَ وَرَسُولُهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِيْنًا“(سوره احزاب:36)

ترجمہ:”اور(دیکھو) کسی مومن مرد وعورت کو اللہ اور اس کے  رسولﷺ کے فیصلے کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی  اختیار باقی نہیں رہتا، (یادرکھو)اللہ اور اس کے رسول ﷺکی جو بھی نافرمانی کرے، وہ صریح گمراہی میں پڑے گا“۔

اوراللہ تعالى کا فرمان  ہے : ”فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتّى يُحَكِّمُوكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيْمًا“(سورہ نساء: ۶۵)ترجمہ: "سو قسم ہے تیرے پرور دگار کی !یہ مؤمن ہو ہی نہیں سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے  دل میں تنگی نہ پائیں اور فرماں برداری کے ساتھ قبول کر لیں "۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ابن کثیر رحمہ اللہ فرما تے ہیں: ”اللہ تعالى اپنی ذات کی قسم کھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ رسول اکرم ﷺکو تمام امور میں فیصل نہ تسلیم کرلے، پس نبی کریم ﷺکا جو بھی حکم  ہےوہ برحق ہے، بنابریں اس کی فرماں برداری کرنا ظاہر اور باطنی طورپر واجب ہے“۔ (تفسیرابن کثیر، ص:۱۵۲-۱۵۳، تحقیق :حکمت بن بشیر )

نیز اللہ تعالى فرمان ہے :”یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَومِ الْآخِرِ ذلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيْلًا“(سورہ نساء: ۵۹) ترجمہ: ”اے ایمان والو! اللہ تعالى کی فرماں برداری کرو اور رسول  اللہ (صلى اللہ علیہ وسلم )کی فرماں برداری کرو اور تم سے اختیار والو کی۔ اور پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ ‘اللہ کی طرف اور رسول کی طرف‘اگر تمہیں اللہ  پر اور قیامت کے دن پر  ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے“۔

تمام امت کا اس با ت پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالى کی طر ف لوٹانے سے مراد اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کرنا ہے، اور نبی کریمﷺکی طرف لوٹانےسے مراد آپ  کی حیات مبارکہ میں آپ کی ذات سے رجوع کرنا ہے اور آپﷺکی وفات کے بعد آپﷺکی سنت مطہرہ کی طرف رجوع کرنا ہے۔

اللہ تعالى اور اس کے رسول ﷺ کی طرف مسئلہ کو لوٹادینا ایمان کا  واجبی جزوہے۔ اگر کوئی انکاری  ہوجائے تو اس کے ایمان کی نفی لازم آئے گی۔ کیو ں کہ کتاب وسنت لازم وملزوم ہیں، قاعدہ کی رو سے لازم کے انکارسے ملزوم کا انکار خود بخود ہوجاتا ہے۔ (إعلام الموقعین:۱/۴۹-۵۰)

نبی کریم ﷺکا فرمان ہے:”تَرَکْتُ فِیْکُمْ أَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا كِتَابُ اللهِ وَسُنَّةِ رَسُوْلِهِ“(مؤطا امام مالک)  ترجمہ:”میں نے تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑی ہیں، جب تک تم اسے پختگی اور مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو گے  گمراہ ہر گز نہیں ہوسکتے“۔

اس حدیث کے پیش نظر یہ بات طشت از با م ہوگئی کہ کتاب وسنت ہی مسلمانوں کےخیر وصلاح اور فوز وفلاح کی ضامن ہے۔ علماوصلحا کی کتاب وسنت کے مد مقابل اجتہادی وقیاسی باتیں فوز وفلاح کی ضامن اورشریعت ہرگزنہیں ہو سکتیں۔ یہی اعتقاد جازم  طائفہ منصورہ (اہل حدیث )کا ہے کہ وہ  کتاب وسنت    کے ہوتے ہوئے بڑے سے بڑے فقہاوعلما اور شہرہ  آفاق شخصیات کے اقوال وافعال کو  ناقابل التفات  سمجھتے ہیں۔

میانہ روی اور اعتدال پسندی:

طائفہ منصورہ کی  صفات میں سے ایک نمایاں    صفت  میانہ روی اور اعتدال پسندی ہے۔ وہ اپنے دینی  و اسلامی  اور دنیاوی  تمام امور میں غلو  ومبالغہ آمیزی، افراط وتفریط  اور  زیادہ بیانی سے اغماض کرتے ہوئے  اعتدال پسندی کا راستہ اخیتار کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالى ہے:”وَكَذلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَّسَطًا لِّتُكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا“(سورہ بقرہ:۱۴۳) ترجمہ: ”ہم نے اسی طرح تمہیں افضل امت بنایا ہےتاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ۔ اور رسول تم پر گواہ ہوجائے“۔

نیز اللہ تعالی کا فرمان ہے:”یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِنْآنُ قَومٍ عَلَى أَلَّا تَعْدَلُوا اعْدِلُوا هَوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوى وَاتَّقُوااللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ“(سورہ مائدہ: ۸) ترجمہ: ”اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہوجاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ، کسی قوم کی عداوت تمہیں  خلاف عدل  پر آمادہ نہ کردے، عدل کیاکرو جو پر ہیزگاری کے زیادہ قریب ہےاور اللہ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے“۔

طائفہ منصورہ کا وطیرہ ہےکہ  دین میں انہی چیزوں  قابل عمل سمجھتے ہیں جو  کتاب وسنت سے مستخرج ہو، علاوہ ازیں   اقوال وافعال میں غلو سے    ایسے فرار اختیار کرتے ہیں جیسے کہ نبی ﷺنے  اپنے الفاظ میں فرار اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔

نبی کریمﷺکا فرمان ہے:”هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ“.قَالَهَا ثَلَاثًا.(صحیح مسلم: ۲۶۷۰۔ أبو داود، ح: ۴۶۰۸) ترجمہ: ” غلو کرنے والے ہلاک وبرباد ہوگئے“نبی کریم ﷺنے اسے تین مربتہ دہرایا۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو غلو  کرنے والے  ہیں اور اپنے اقوال وافعا ل میں اللہ کی حدود سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ (المنہاج  شرح صحیح مسلم بن الحجاج)

نیز نبی کریم ﷺکا فرمان ہے: ”لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا عَبْدُاللهِ وَرَسُولُهُ“ (صحیح بخاری، ح: ۳۴۴۵) ترجمہ: ”تم لوگ میری مدح وسپاس میں مبالغہ آمیزی نہ کرو جیساکہ عیسائیوں نے مریم علیہا السلام کی ثنا گوئی اور مدح سرائی میں زیادہ گوئی کیاتھا، اس لیےکہ میں اللہ کا بندہ ہوں، تو مجھے  عبد اللہ اور اللہ کا رسول کہاکرو“۔

اللہ تعالى کے لیے دوستی اور دشمنی رکھنا:

طائف منصورہ  کی صفات میں سے  اہم ترین صفت یہ  بھی ہےکہ  وہ اللہ کے لیے دوستی رکھتے ہیں اور اللہ کے لیے دشمنی رکھتے ہیں۔ ان  کے یہاں دوستی کامعیار صرف اور صرف عقیدہ ہےجس کی وجہ سے اللہ تعالى سے تعلق قائم ہے۔ مومنوں کے لیے نرم  پہلو رکھتے ہیں، آپس میں رحمت وشفقت کا معاملہ کرتے ہیں، کافروں کے لیے  ترش رو ہیں، اور ان پر سختی کرنے والے ہیں۔ جیساکہ اللہ وحدہ کا فرمان ہے: ”مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ“(الفتح: ۲۹) ترجمہ:”محمد اللہ کے رسول ہیں، جو ان کے ساتھ رہتے ہیں کافروں کے لیے سخت ہیں، آپس میں رحم دل ہیں“۔

ارشاد  باری تعالى ہے: ”قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ“(سورہ آل عمران: ۳۱) ترجمہ: ”کہہ دیجیے ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تم سے محبت کرےگا“۔

نبی کریمﷺکا فرمان ہے:”مَنْ أَحَبَّ للهِ، وَأَبْغَضَ للهِ، وَأَعْطَى للهِ، وَمَنَعَ للهِ، فَقَدْ اسْتَكْمَلَ الْإِيْمَانَ“(أبوداود، ح:4681) ترجمہ:”جس نے اللہ کے لیے محبت کی، اللہ کے لیے بغض رکھا، اللہ کےلیے عطا کیا، اللہ کے لیے منع کیا اس کا ایمان مکمل ہوگیا“۔

جس سے اللہ  محبت کرتا ہے اور پسند کرتا ہے ” طائفہ منصورہ” اسی سے محبت کرتے ہیں، اور اسے ناپسند کرتا ہے جسے  اللہ ناپسند کرتا ہے اور ناراض ہوتا ہے۔ ان کے ہاں کسی آدمی کی عزت وتوقیر  اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت وفرماں برداری اور محبت کی وجہ ہوتی ہے۔

حرف آخر:

اس مختصرسی روشنی میں یہ بات  واضح ہوگئی کہ” طائفہ منصورہ” وہ واحد جماعت ہے جو قرآن وسنت کی علمبردار ہے، اور اسلام کی بالادستی اور سر بلندی کے لیے، سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں عقیدہ توحید  کا پیغام عام کرنے کے لیے، اسلام کی صحیح صورت پیش کرنے کے لیے، شرک وبدعات، خرافات وترہات، سماجی غیر جائز روایات اور دقیانوسی  رسوم ورواج   کے سدباب کے لیےہمیشہ کوشاں  نظر آتی ہے۔

 آخر میں  دعا ہے کہ اللہ ہمیں   کتاب وسنت پر عمل پیرا ہونے اور طائفہ منصورہ کی صفات سے متصف ہونے  کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔