قول و عمل کا تضاد، شخصیت کا کمزور پہلو

جمشید عالم عبد السلام سلفی

تاریخ کے صفحات قابلِ نمونہ شخصیات کے عبرت آموز احوال سے لبریز ہیں، ہر دور اور ہر زمانے میں مثالی و مقتدر قسم کے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ آدمی کافی تگ و دو، کردار کی درستی اور اپنے موقف کی صالحیت کے بعد اُس مقام پر پہنچتا ہے جسے لوگ اپنا آئیڈیل سمجھیں، اس کے انداز و اطوار اور آدابِ زندگی کو اپنانے کی کوشش کریں اور اسے اپنے قلب و نظر کا مرکز بنائیں۔ علم صاحبِ علم کو اوج و بلندی کے ارتقا پر پہنچا دیتا ہے، یہ وہ زیور ہے جس سے آراستہ و پیراستہ شخص پوری دنیا کی نظروں میں آجاتا ہے، لوگ اسے عزت کی نگاہوں سے دیکھنے لگتے ہیں، اور اس طرح کے لوگوں سے ملنا فخر محسوس کرتے ہیں، ان سے مل کر خوش ہوتے ہیں اور ان کی توقیر و عزت افزائی اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں، ان کے بارے میں بہت سی خوش گمانیوں میں مبتلا رہتے ہیں، علم و دانائی کے تعلق سے ان سے بہت سی امیدیں وابستہ کیے رہتے ہیں، ان پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کرتے ہیں، انھیں فرشتہ صفت انسان متصور کرتے ہیں، خود سے بلند و بالا سمجھتے ہیں، ان سے کسی طرح کی معصیت کے صدور کے خواہاں نہیں ہوتے، ہر جہت سے نیکی کے طالب ہوتے ہیں؛ لیکن جب اسی اہم شخصیت کے سیرت و کردار کا کوئی ایسا پہلو ان کے سامنے آتا ہے جو ان کے تصور کے خلاف ہوتا ہے تو اس سے ان کو کافی تکلیف پہنچتی ہے، اعتماد کی کشتی بھنور میں ہچکولے لینے لگتی ہے، وہ ذہنی خلجان کے شکار ہو جاتے ہیں اور کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے کہ کیا کریں؟ آنکھوں دیکھی حقیقت کو تسلیم کریں یا اسے شخصیت کی سادہ لوحی پر محمول کریں؟ جب کسی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتا ہے تو اس کی وجہ سے بڑی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں، وہ صحیح ڈھنگ سے اپنی آئندہ کی پلاننگ نہیں کر پاتا ہے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس طرح کی اہم شخصیات سے بدظن ہو کر گناہوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور ان کے قول و عمل کے تضاد کو اپنی بے عملی کی دلیل بنا لیتا ہے۔ دراصل انسان فطرتاً زبانی دعوؤں کو حقیقت کے آئینے میں دیکھنا چاہتا ہے، کہی باتیں جب قائل ہی کی جانب سے عملی صورت میں سامنے آتی ہیں تو وہ دل کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، ذہن و دماغ پر اچھا اثر ڈالتی ہیں، یہ اپنی باتوں کو دوسروں تک پہنچانے اور انھیں اپنا ہمنوا بنانے اور اپنی باتوں سے متفق کرانے کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے، اس طرح کہی ہوئی باتیں سامع کی کردار سازی میں کافی ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں، وہ اس کو اپنانے میں کسی طرح کی جھجھک نہیں محسوس کرتا ہے اور اس پر بلا کراہت و چوں چرا عمل پیرا ہو جاتا ہے۔ چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جو کچھ کہا اور امت کو جس چیز کی طرف دعوت دی عملی طور پر اسے کرکے دکھایا، اہلِ عرب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق و کردار کی بلندی اور قول و فعل کی حد درجہ یگانگت کو دیکھ کر حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے۔

      دعوت و تعلیم کتنی بھی سچی ہو، لیکن اپنی ذاتی زندگی سے پرے کرکے دوسروں کو اس کی طرف دعوت دی جائے تو بہت ہی کم لوگ اس کو تسلیم کریں گے، آدمی کتنا ہی بڑا جانکار اور عالم کیوں نہ ہو، لیکن عملی تضاد شخصیت کو گرا کر رکھ دیتا ہے، ایسوں پر سے بتدریج لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے اور یہ اُن کی نگاہوں میں مبغوض و ناپسندیدہ انسان بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں زبانی باتوں کو عملی صورت نہ دینے والوں کی سخت زجر و توبیخ کی گئی ہے۔ ربِ کریم نے فرمایا :

 ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ۞ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾

      ترجمہ : ’’اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں، تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔‘‘ [الصف: ۲ ، ۳]

      راہِ حق سے بھٹکے اور بھول بھلیوں میں بھٹکے ہوئے شعراء کی صفات کی تذمیم کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

﴿وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ﴾

ترجمہ : ’’اور وہ لوگ وہ باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔‘‘ [الشعراء: ۲۲۶]

      قول و فعل کا تضاد ایک طرح سے عملی نفاق ہے، حدیثِ نبوی میں منافقین کی جو تین علامات بتلائی گئی ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی قولاً تو عہد و پیمان کرے، لیکن عملی طور پر اس کی خلاف ورزی کرے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

      ((آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ : إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ))

      ترجمہ : ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب وہ گفتگو کرے جھوٹ بولے، جب وہ وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرے۔‘‘ [صحیح بخاری کتاب الایمان باب علامات المنافق، صحیح مسلم کتاب الایمان باب خصال المنافق]

      ہمارا دینی و شرعی اور معاشرتی تقاضا یہ ہے کہ جو کچھ کہا جائے اسے کر دکھایا جائے، یہی ایک سچے پکے مومن کی شان اور صفت ہے۔ یہ تو بزدلی کی علامت ہے کہ کہا کچھ جائے اور کیا کچھ جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے قول و فعل کے تضاد کے بزدلانہ رویے کو منافقین کی خاص صفت بتلایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

      ﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نَافَقُوا يَقُولُونَ لِإِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَئِنْ أُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيعُ فِيكُمْ أَحَدًا أَبَدًا وَإِنْ قُوتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ۞ لَئِنْ أُخْرِجُوا لَا يَخْرُجُونَ مَعَهُمْ وَلَئِنْ قُوتِلُوا لَا يَنْصُرُونَهُمْ وَلَئِنْ نَصَرُوهُمْ لَيُوَلُّنَّ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ﴾

      ترجمہ : ’’کیا تو نے منافقوں کو نہ دیکھا؟ کہ اپنے اہلِ کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم جلا وطن کیے گئے تو ضرور بالضرور ہم بھی تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوں گے اور تمہارے بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی جائے گی تو بخدا ہم تمھاری مدد کریں گے، لیکن اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ قطعاً جھوٹے ہیں۔ اگر وه جلا وطن کیے گئے تو یہ ان کے ساتھ نہ جائیں گے اور اگر ان سے جنگ کی گئی تو یہ اُن کی مدد (بھی) نہ کریں گے اور اگر (بالفرض) مدد پر آبھی گئے تو پیٹھ پھیر کر (بھاگ کھڑے) ہوں گے پھر مدد نہ کیے جائیں گے۔ ‘‘ [الحشر: ۱۱ ، ۱۲]

      قول و فعل کا تضاد ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے، ہٹ دھرمی و بے شرمی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے، ضُعف و کمزوری کی وجہ سے بھی ہوتا ہے، سستی و کاہلی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے، بزدلی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے اور مکرو فریب کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ بہرحال ہر ایک صورت قبیح و شنیع ہے۔ قول و گفتار کے خلاف عمل کا صدور بڑی مضحکہ خیز بات ہوتی ہے، یہ آدمی کی ناپختگی کی دلیل ہوا کرتی ہے، ذہنی پراگندگی، فکری تزلزل اور خود کے نظریے پر عدمِ ٹھہراؤ کی وجہ سے آدمی عمل سے گریز کرتا ہے، جس سے خود کو تو نقصان پہنچاتا ہی ہے اوروں کا بھی اس سے نقصان ہوتا ہے، لوگوں کا اعتماد اس سے اٹھ جاتا ہے، آدمی کی ثقاہت مجروح ہو کے رہ جاتی ہے۔ ہر کوئی شکوہ کناں ہے کہ عوام علما کی قدر نہیں کرتے اور ان کی باتوں کو سننا تک بھی گوارا نہیں کرتے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ خود اہلِ علم نے عوام کے سامنے اپنے آپ کو معمہ بنا کر کے پیش کیا ہے، غلطیوں کا صدور عین ممکن ہے اس سے مجالِ انکار نہیں لیکن اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے، ہماری اکثریت کی حالت یہ ہے کہ عوام کو پند و نصائح سے نوازا اور پلک جھپکتے ہی اس کی مخالفت پر اتر آئے۔ اس دہری اور دوغلی پالیسی نے امت کے اجتماعی بندھن کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا ہے، آپسی شیرازہ منتشر ہو کے رہ گیا ہے، اجتماعیت کا دور دور تک کوئی تصور نہیں، ہر کوئی اپنے آپ میں مست ہے، اپنے اندر کی کمی کسی کو نظر نہیں آتی، خود کی شخصیت میں لگا پیوند دکھائی نہیں دیتا اور اپنے اوپر لگے گندگی کی بو کوئی نہیں محسوس کرتا۔ مزاج بگڑ چکا ہے، عملی زندگی کے حالات بد سے بدتر ہو چکے ہیں، نصیحت کرو اور دوسروں کی تضحیک کرو، معمولی معمولی باتوں کو لے کر کے لوگوں پر سرِعام کیچڑ اچھالو کا معمول بن چکا ہے، احترام و ترحم اور نصیحت پذیری کی صفت مفقود ہو چکی ہے، نصیحت گر تو بہت ہیں مگر نصیحت پذیر کم ہی ملتے ہیں، ایک شعلہ بیاں اور فصیح زماں خطیب کو دیکھیے اسٹیج پر تو پورا شیر نظر آتا ہے مگر عملی زندگی میں گیدڑ سے بھی زیادہ سست و ناکارہ دکھائی دیتا ہے، دعوت و تبلیغِ دین ایک اہم دینی فریضہ ہے اس کا اعتراف ہر ایک کو ہے، مگر دعوتی امور کو خود کی عملی زندگی میں داخل کرنے والے کم ہی نظر آتے ہیں۔ دعوت و تبلیغ کے بھی کچھ آداب ہیں یہ نہیں کہ جب دل میں آیا اور جس طرح طبیعت نے چاہا لگے نصیحت کرنے اور حالت یہ ہے کہ علم و فن میں تو نابغۂ روزگار ہیں مگر عمل میں زیرو۔ قرآن کریم میں دعوت کے لیے ’’حکمت‘‘ کو ضروری شرط قرار دیا گیا ہے اور حکمت یہ نہیں ہے کہ عوام کے سامنے عملی کوتاہی کے ساتھ مجرد علم لے کر حاضر ہوں، خود اپنی ضمیر سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا حکمت کا تقاضا یہی ہے؟ کہ جس بات کی طرف بلایا جائے داعی خود عملاً اس کا مخالف ہو۔ اس طرح کی دعوت کا ثمرہ لوگوں کا دین سے برگشتگی کے سوا اور کیا سامنے آئے گا؟ اگر کسی شخص میں کوئی برائی پائی جارہی ہے تو اسے اس عملِ قبیح سے باز رکھنے کا عمدہ ذریعہ یہی ہے کہ خود ایسی چیزوں سے دور رہ کر احسن طریقے سے نہایت نرمی کے ساتھ اس سے روکا جائے، درشت رویہ اپنانے سے انا کا مسئلہ سامنے آسکتا ہے جس سے اصلاح کے بجائے بگاڑ کے پہلو کو ہوا مل سکتی ہے، خود ہی وہی کام انجام دے کر کے دوسروں کو اس سے روکنا اور بھی زیادہ برا ہو سکتا ہے یہ تو وہی معاملہ ہوا کہ خود را فضیحت دیگراں نصیحت، برائیوں سے کنارہ کش ہوکر برائیوں سے روکنا اور نیکیوں کے کاموں پر عمل پیرائی کے بعد نیکیوں کی طرف دعوت دینا زیادہ مؤثر اور کارگر ہوتا ہے، اس سے آدمی کو نصیحت حاصل کرنے میں آسانی ہوتی ہے، یہ طریقہ اپنانے سے دشمن بھی دوست بن سکتا ہے۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسی اصول کو اپنایا اور نتیجۃً جلد ہی لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے، دشمن بھی ان سے متاثر ہوکر مرعوب زدہ نگاہوں سے انھیں دیکھنے لگے جس سے اسلام کے پھلنے اور پھولنے میں کافی مدد ملی۔ دعوت کے اسی اسلوب کی وضاحت قرآن کریم کے اندر بڑے حسین پیرائے میں کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

      ﴿ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ﴾

      ترجمہ : ’’برائی کا جواب ایسے طریقے سے دو جو بہت اچھا ہو (اگر تم ایسا کروگے) تو وہ شخص جو تمھارا دشمن ہے، ایسا ہو جائے گا گویا وہ تمھارا گہرا دوست ہے۔‘‘ [حم السجدۃ : ۳۴]

      دوسری جگہ فرمایا :

      ﴿ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾

      ترجمہ : ’’اپنے رب کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجیے، یقیناً آپ کا رب اپنی راه سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وه راه یافتہ لوگوں سے بھی پورا واقف ہے۔‘‘ [النحل : ۱۲۵]

      عملی تضاد نے لوگوں کو داعیان سے برگشتہ کر رکھا ہے، داعی اور مدعو کے بیچ ایک خلیج پیدا ہو گئی ہے۔ ہماری اکثریت کی حالت یہ ہے کہ زبان سے کچھ کہا جاتا ہے اور عملاً اس کی مخالفت کی جاتی ہے، غیر مسلمین اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں اور جب انھیں ہمارا عملی تضاد دکھائی دیتا ہے تو انھیں کافی تعجب ہوتا ہے، وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے کہ کیا کیا جائے؟ کتابی و زبانی علم کو تسلیم کیا جائے یا پھر آنکھوں دیکھی حالت پر اعتبار کیا جائے؟ بعض لوگ تو اتنے گئے گزرے ہو چکے ہیں کہ اگر کوئی غیر مسلم انھیں قرآنی آیات کے ذریعہ ان کے عملی تضاد کی طرف انگشت نمائی کرتا ہے تو وہ اسے تسلیم کرنے کے بجائے اپنی بے عملی کی لایعنی قسم کی تاویل و توجیہ کرنے لگتے ہیں جو عذرِ گناہ بدتر از گناہ کا نمونہ بن جاتا ہے، اس طرح کا رویہ اپنا کر اشاعتِ اسلام کی راہ میں ہم نے بہت بڑی دیوار حائل کر رکھی ہے۔ علم سے آراستگی کے بعد خود اسے اپنی زندگی میں داخل کرنا الٰہی مطالبہ ہے، انبیائے کرام علیہم السلام کا یہ اسوہ و طریقہ رہا ہے کہ انھوں نے جو کچھ کہا اسے کر دکھایا تاکہ مدعویین متذبذب ہونے کے بجائے اعتماد و تیقن کے دائرے میں آجائیں، مخاطبین و مخالفین انبیاء و رسل کی تکذیب ضرور کرتے رہے، لیکن ان کی سیرت و کردار پر انگشت نمائی کی جرأت نہ کر سکے۔ انبیاء و رسل کے قول و عمل میں یکسانیت پائی جاتی تھی، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انھوں نے قوم کو کسی بات کا حکم دیا اور خود اس سے مستثنیٰ رہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کا قول نقل کرتے ہوئے قرآن عظیم میں کہا گیا ہے :

      ﴿وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ۚ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ﴾

      ترجمہ : ’’میرا یہ اراده بالکل نہیں کہ تمھارے خلاف کر کے خود اس چیز کی طرف جھک جاؤں جس سے تمھیں روک رہا ہوں، میرا اراده تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنے کا ہی ہے۔ میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے، اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔‘‘ [ھود : ۸۸]

      زندگی جمود و تعطل کے بجائے حرکت و نشاط کا نام ہے، فعال رہنا بڑا مستحسن عمل ہے، علمی دنیا میں نظریات کی تبدیلی کوئی حیرت کی بات نہیں ہوتی ہے، تحقیق پسند طبیعتیں تلاش و جستجو میں لگی رہتی ہیں، آئے دن محققین ایک نظریہ چھوڑ کر دوسرا نظریہ قائم کرتے رہتے ہیں، حالات و واقعات کے تحت علمی اختلافات ہوتے رہتے ہیں، سنجیدہ اختلافات اور تحقیق و تفتیش کے بعد فکر کی تبدیلی مستحسن متصور کیے جاتے ہیں، لیکن قول و عمل کا تضاد بڑا بُرا مرض ہے، اس کی وجہ سے اعتباریت کے اٹھنے کے ساتھ ہی زندگی کا کوئی مقصود نہیں رہ جاتا ہے، توازن بگڑ جاتا ہے، تصور کی بلند بانگ عمارت منٹوں میں زمیں بوس ہو جاتی ہے، آدمی ثریا سے زمین پر آگرتا ہے۔ خود کو علیٰحدہ رکھ کر فقط دوسروں کی نصیحت پر اکتفا کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے، معروفات کی دعوت دینا اور منہیات سے روکنا مختلف دلائل سے جہاں وجوب و استحباب کا درجہ رکھتی ہے وہیں اسے خود کی زندگی میں داخل کرنا بھی ضروری ہے، دعوت و تبلیغ کے لیے یہ شرطِ اولیں کا درجہ رکھتی ہے، اس کے بغیر اس میدان میں حقیقی کامیابی نہیں مل سکتی ہے، قرآن کریم میں بنو اسرائیل کے اسی طرح کے طرزِ عمل پر بڑی تہدید آمیز زجر و توبیخ کی گئی ہے، جس میں اس طرزِ عمل کے اپنانے والے اس امت کے افراد بھی داخل و شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

      ﴿أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾

      ترجمہ : ’’کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجود یہ کہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟‘‘ [البقرۃ : ۴۴]

      اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

      ((مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى قَوْمٍ تُقْرَضُ شِفَاهُهُمْ بِمَقَارِيضَ مِنْ نَارٍ. قَالَ : قُلْتُ : مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالُوا : خُطَبَاءُ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا، كَانُوا يَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ، وَيَنْسَوْنَ أَنْفُسَهُمْ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ، أَفَلَا يَعْقِلُونَ؟))

      ترجمہ : ’’جس رات مجھے معراج کرایا گیا میرا گزر کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے ہونٹ آگ کی کینچیوں سے کاٹے جارہے تھے۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہے؟ جواب دیا گیا کہ یہ دنیا دار خطیب ہیں جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے تھے، مگر خود کو بھلا بیٹھے تھے جب کہ وہ کتاب پڑھتے تھے۔ کیا وہ سمجھ نہیں رکھتے؟  [مسند احمد، مصنف ابن أبي شيبہ، مسند احمد کے محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔]

      سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جس نے علم سیکھا اور سکھلایا تھا اور قرآن پڑھا تھا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا تو وہ انھیں پہچان لے گا۔ اللہ اس سے فرمائے گا : تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا : میں نے علم سیکھا اور سکھلایا اور تیری خاطر قرآن پڑھا۔ اللہ فرمائے گا : تو نے جھوٹ کہا، تو نے علم اس لیے سیکھا تاکہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لیے سیکھا تاکہ تجھے قاری کہا جائے اور یہ کہا جا چکا ہے۔ پھر اس کے بارے میں حکم ہوگا اور اسے منہ کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ [صحيح مسلم کتاب الامارہ باب من قاتل للریاء……. مختصراً]

      ہمیں اپنے طرزِ عمل اور حالاتِ زندگی پر غور کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کل قیامت کے دن اس طرح کی رو سیاہی ہمارا مقدر بن جائے، عملی تضاد ہمیں لے ڈوبے، اور ہماری علمی برتری ہمارے کچھ کام نہ آئے۔ اللہ ہمیں علم کے ساتھ عمل کی بھی توفیق دے اور ہمارے قول و کردار میں خلوص عطا فرمائے۔ آمین

      عملی میدان کی کوتاہی ضمیر و احساس کو مردہ کر دیتی ہے، آدمی برائیوں کو انجام دینے میں جری و بیباک ہو جاتا ہے، بے محابا برائیاں کرتا پھرتا ہے، ہٹ دھرمی و بے شرمی کا خوگر ہو جاتا ہے، علمی پوتھیاں تو دنیا کے سامنے پیش کر دیتا ہے؛ لیکن مثالی نمونہ پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے، ایسے لوگوں کے یہاں علمی باریکیاں تو مل سکتی ہیں، مگر اثرپذیری سے عاری اور روحانیت سے خالی ہوتی ہیں۔ قول و عمل کے تضاد نے علما کو عوام سے منقطع کردیا ہے، دونوں میں باہمی ربط و ضبط کا سلسلہ مفقود کے کگار پر پہنچ چکا ہے، علما عوام سے نالاں ہیں کہ وہ ان کی عزت و توقیر نہیں کرتے، بلکہ تحقیر و تذلیل سے کام لیتے ہیں اور عوام کا علما سے یہ شکوہ کہ وہ قیادت و سیادت کی صلاحیت نہیں رکھتے اور انھوں نے خود اپنے ہاتھوں اپنی عزت کا لبادہ اتار پھینکا ہے، اس کشمکش اور سرد جنگ سے ہر ایک کو نقصان پہنچ رہا ہے، باہمی صلح و صفائی کی ضرورت ہے اور اس کی پیش رفت اہلِ علم کی جانب سے ہونی چاہیے، اہلِ علم اپنے منصب کو پہچانیں اور اپنی گری ہوئی حالت کو سدھاریں، لوگوں کے لیے اسوہ و نمونہ بنیں تاکہ عوام انھیں اپنے دل و نگاہ کا مرکز بنائیں، اپنی سیرت و کردار کا صالح اور مثالی نمونہ اگر پیش کریں تو ایسی صورت میں عوام خود بخود انھیں عزت دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ عملِ صحیح کے سبب عالم و جاہل کے مابین تفریق کی گئی ہے کہ عالم معرفتِ الٰہی کے سبب جاہل کے بالمقابل اللہ تعالیٰ سے کہیں زیادہ ڈرنے والے ہوتے ہیں۔ رب کریم نے فرمایا :

      ﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُۗ﴾

ترجمہ : ’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔‘‘ [فاطر : ۲۸]

      دوسری جگہ فرمایا :

      ﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾

ترجمہ : ’’بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟‘‘ [الزمر : ۹]

      علما نے اپنی عملی کوتاہی سے اپنے اس شرف و منزلت کو کھو دیا ہے، عالم و جاہل کے مابین جو تمیز و تفریق ہونی چاہیے وہ مفقود ہو چکی ہے، اور علما کا کوئی امتیازی وقار باقی نہیں رہا تو عوام کیوں کر انھیں عزت و توقیر دیں؟ ایسا نہیں ہے کہ امت کے بیشتر علما اس مرض کے شکار ہیں بلکہ الحمد للہ علمائے حق کی ایک معتدبہ جماعت موجود ہے۔ دراصل علما کے تین گروپ ہیں : ایک وہ جو اپنے علم سے خود بھی مستفید ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں، دوسرے وہ جو اپنے علم سے خود تو مستفید ہوتے ہیں مگر دوسرے لوگ ان سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے، تیسرے وہ جو دوسروں کو تو اپنے علم سے فائدہ پہنچاتے ہیں مگر خود فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں یعنی ان کے قول و عمل میں تضاد پایا جاتا ہے، نصیحت کرتے ہیں لیکن خود عمل پیرا نہیں ہوتے۔ ایک چوتھا گروہ بھی ہے جو اپنے علم سے نہ خود فائدہ اٹھاتا ہے اور نہ دوسرے لوگ اس سے مستفید ہوتے ہیں، درحقیقت یہ متعالم قسم کے لوگ جاہل ہوتے ہیں اور پہن کر جبہ و کرتا لگے کہلانے مولانا والی صورت حال ہوتی ہے۔ ابوحیان تیمی کہتے ہیں :

      ’’العلماء ثلاثة عالم بالله وبأمر الله، وعالم بالله وليس بعالم بأمر الله. وعالم بأمر الله وليس بعالم بالله. فأما العالم بالله وبأمره فذلك الخائف لله العالم بسنته وحدوده وفرائضه. وأما العالم بالله وليس بعالم بأمر الله فذلك الخائف لله وليس بعالم بسنته ولا حدوده ولا فرائضه. وأما العالم بأمر الله وليس بعالم بالله فذالك العالم بسنته وحدوده وفرائضه وليس بخائف له.‘‘

      ’’علما کی تین قسمیں ہیں : عالم باللہ و بامر اللہ، یہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اس کی سنت اور حدود و فرائض کا جاننے والا ہے۔ صرف عالم باللہ، یہ وہ ہے جو اللہ سے ڈرنے والا ہے، لیکن اس کی سنت اور حدود و فرائض کا جاننے والا نہیں ہے۔ صرف عالم بامر اللہ، یہ وہ ہے جو سنن اور حددود و فرائض کا جاننے والا ہے لیکن اسے اللہ کا خوف نہیں ہے۔‘‘ [جامع بیان العلم و فضلہ بتحقیق ابی الاشبالی الزھیری ۲/۸۲۲]

      علم و فن سے متعارف بے عمل شخص چوپائے کی طرح ہوتا ہے۔ قران کریم میں بے عمل یہودیوں کی مثال بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

      ﴿مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾

      ترجمہ : ’’جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہو۔ اللہ کی باتوں کو جھٹلانے والوں کی بڑی بری مثال ہے اور اللہ (ایسے) ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ [الجمعۃ : ۵]

      یہی مثال بے عمل اور قول و عمل کا تضاد رکھنے والے مسلمانوں کی بھی ہے جو کتاب و سنت کا علم تو حاصل کرتے ہیں؛ لیکن اس کے مطالبات و مقتضیات پر عمل کرنے سے بھاگتے ہیں۔ شیخ سعدی نے قول و فعل کا تضاد رکھنے والے بے عمل شخص کی تشبیہ چوپائے سے دی ہے۔ کہتے ہیں :

علم  چنداں کہ  بیشتر خوانی

چوں عمل در تو نیست نادانی

نہ   محقق   بود   نہ  دانشمند

چار  پائے    برو   کتابے    چند

      یعنی علم چاہے جتنا حاصل کر لیا جائے اگر اس کے مطابق عمل نہیں ہےتو کچھ بھی نہیں ہے، ایسا شخص نہ محقق کہلانے کے قابل ہے اور نہ دانشمند بلکہ ایسے بے عمل شخص کی مثال اس چوپائے کی سی ہے جس پر ڈھیر ساری کتابیں لدی ہوئی ہوں اور وہ اس سے مستفید ہونے سے عاری ہو۔

      رب العالمین! ہمیں علمِ نافع عطا فرما، کتاب و سنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور خلوص و للہیت کی دولت سے ہمارے سینوں کو معمور کردے۔ آمین والحمد للہ رب العالمین و الصلوۃ و السلام علی خیر خلقہ محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین

تبصرے بند ہیں۔