طالب علم کے اوصاف

قمر فلاحی

طالب علم زمین کی سب سے قیمتی حصہ ہوا کرتے ہیں کیوں کہ ہر طالب علم کبھی نہ کبھی معلم بنتے ہیں ،اگر اچھی تعلیم اور تربیت ملی تو مسیحا ورنہ جرم کے بادشاہ بن سکتے ہیں لہذا طالب علموں کے اوپر بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ۔

طالب علموں کے اوصاف بہت سارے ہیں ان میں سے چند اہم اوصاف ہیں جو حصول علم میں معاون ہیں :

کثرت طلب

طلبہ کے اندر سب سے زیادہ علم کی طلب ہونی چاہیے اور اس کی یہ بھوک کبھی مٹنی نہیں چاہیے، اسی لئے انہیں طالب علم کہا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ گود سے گور تک علم حاصل کرو۔چونکہ علم نام ہے مشاہدات، تجربات، اقوال،و افعال کا اس لئے ایک طالب علم اپنی پوری زندگی بھی حصول علم کیلئے وقف کردے تو بھی اسے علم کے زخیرہ میں سے تھوڑا ہی ملنے والا ہے ۔

معلم کی قدر

طالب علموں کومعلم کو اللہ کی نعمتوں میں شمار کرنا چاہیے کہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو محض چند روپوں کے بدلے لگاتے ہیں تاکہ بچے کچھ سیکھ سکیں ۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ’ اگر تم نعمتوں کی قدر کروگے تو تمہیں مزید عطا کروں گا’۔ استاد بڑی نعمت ہوتے ہیں ان کی تعظیم کی جائے ،ان کی خدمت کی جائے اور انکے جائز مشوروں کو زندگی کا حصہ بنایا جائے۔

ہوشیاری

طالب علم کو کوے کی طرح ہوشیار ہونا چاہیے ،ہمیشہ چوکس رہے ،ارد گرد سے واقف رہے تاکہ وہ اپنے نفع ونقصان کو اچھی طرح سمجھ سکے ۔آپ نے کوے کو دیکھا ہوگا کہ اس کا شکار تقریبا ناممکن ہوتا ہے ۔

یکسوئ

طالب علموں کو بگلا کی طرح یکسو ہونا چاہیے جب وہ مطالعہ میں مصروف ہو، اس طرح وہ کم وقتوں میں زیادہ مطالعہ کر سکتاہے ،اکثر یہ دیکھا جاتاہے کہ طلبہ ادھر اُدھر متوجہ ہوکر پڑھتے ہیں اور نتیجتا بہت زیادہ سیکھ نہیں پاتے اس طرح وقت کا ضیاء ہوتا ہے ۔

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے کہ وہ مطالعہ کررہے تھے اور بغل میں کھجور کی ٹوکری رکھی ہوئ تھی انہیں پتہ بھی نہیں چلا اور انہوں نے ساری کھجور کھالی۔

مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ مطالعہ قرآن میں مصروف تھے اور انکا آپریشن کر دیا گیا۔

کم خوابی زود بیداری

طالب علموں کو بہت زیادہ دیر تک سونے سے لازما گریز کرنا چاہیے اس سے انسان غبی ہوتا ہے ،اور جسم بھدا ہوتا جاتا ہے ،ایک طالب علم کیلئے زیادہ سے زیادہ چھ گھنٹے سونے کیلئے کافی ہوا کرتے ہیں اس سے زیادہ سونا صحت کیلئے نقصان دہ ہے ۔بچوں کو سوتے وقت ہی یہ سوچ لینا چاہیے کہ ہمیں اتنے بجے جگنا ہے اس طرح انہیں جب وقت پہ جگایا جائیگا تو انہیں جگنے میں دشواری نہیں ہوگی۔ جو بچے جگنے میں سستی کرتے ہیں، جان لینا چاہیے کہ انکے جسم میں خون کی کمی ہے وہ کمزور ہوچکے ہیں ۔

کم خوری

طالب علموں کو معتدل غذا کا استعمال کرنا چاہیے، بہت زیادہ کھانے سے آدمی کا بدن بھاری ہو جاتاہے وہ کسی کام کے لائق نہیں رہ جاتا، اور اس کی طبیعت سونے اور آرام کی طرف مائل ہونے لگتی ہے ۔حدیث پاک میں صاف طور پہ کہا گیا ہے کہ معدہ کے ایک تہائ حصہ میں ہی غذا بھرنی چاہیے بقیہ ایک تہائ میں پانی اور ایک تہائ میں ہواکیلئے خالی رکھنی چاہیے۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ فوجیوں کو معتدل غذا دی جاتی ہے ۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ بہت زیادہ کھانے سے انرجی نہیں آتی ہے بلکہ انرجی طاقتور غذا کے کھانے سے آتی ہے ۔ اور انرجی کی وافر مقدار فطری غذامیں ہے نہ کہ مصنوعی غذا میں ۔ فطری غذا مثلا دال سبزی ،پھل میوہ جات ،دودھ دہی ملائ گھی وغیرہ۔

مسابقت

طلبہ میں مسابقت کا جزبہ ہونا چاہیے اسی لئے ادارہ میں گریڈ اور سکشن بنائے جاتے ہیں میڈل دئے جاتے ہیں ۔سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہ کافی زور دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رض کی خوبیوں کے مطابق لقب دیا کرتے تھے ۔عمر فاروق ،ابوبکر صدیق، عثمان غنی،علی مرتضی و حیدر۔ وغیرہ

طلبہ کے اندر ہمیشہ اس خوبی کو پروان چڑھانا چاہیے کہ تمہارے اندر یہ خوبی پائ جاتی ہے تم اس خوبی کو اور نکھارو کہ یہ تمہاری پہچان بن جائے۔

تبصرے بند ہیں۔