طلاق، طلاق ثلاثہ اور حلالہ کا مسئلہ

مفتی محمد عارف باللہ القاسمی

’’نکاح‘‘  ایک عبادت ہے اورایک عظیم نعمت الہی ہے، جس سےعفت وپاکدامنی، راحت وسکون، معاشرتی نظم، اولاد ونسل جیسی عظیم نعمتیں حاصل ہوتی ہیں، اسی لئے اس کی ترغیب دی گئی ہے اور اسلام نے اس نعمت کو پائیدار بنانے کے لئے عارضی اور وقتی نکاح (نکاح متعہ اور نکاح مؤقت )پر پابندی لگائی ہے اور یہ لازم کیا ہے کہ عقد نکاح دائمی ہو کہ صرف موت ہی ان دونوں کو جدا کرسکے، اور اس جدائی سے قبل زندگی میں پیش آنے والے مختلف سرد گرم حالات کو دونوں ہی چشم پوشی، مصالحت اور صبر وتحمل اور دیگراخلاقی اقدار کی روشنی میں حل کریں، اورنبھاؤ کی شکلوں پر غور کرکے اللہ کے بنائے ہوئے رشتہ کا تحفظ کریں اور مردوں کی ذمہ داری اس سلسلہ میں عورت سے کچھ زیادہ رکھی گئی کیونکہ ان کو قوام (نگراں ) بنایا گیا ہے، اور یہی قوامیت اور ذمہ داری ان کو افضلیت عطا کرتی ہے، اور اگر یہ دونوں آپس میں حل دھونڈھنے اور محبت کی فضا کو قائم رکھنے میں ناکام ہوں تو پھر خاندان کے بڑے بزرگوں کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ اپنے تجربات اور اثر ورسوخ سے استفادہ کرتے ہوئے دنوں کے درمیان تلخی کو کم کرنے اور عقد نکاح کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں، تاکہ عقد نکاح ٹوٹنے سے بچے اور دنوں محبت والفت کی فضاء میں اپنی ازدواجی زندگی گزاریں اور مقاصد نکاح حاصل کریں۔ قرآن کریم کی ان ہدایات کو پڑھیں :

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا() وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا  (سورۃ النساء: ۳۴۔۳۵)

’’ مرد وعورتوں کے نگراں ہیں، کیونکہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور کیونکہ مردوں نے اپنے مال خرد کیے ہیں۔ چناچہ نیک عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں، مرد کی غیر موجودگی میں اللہ کی دی ہوئی حفاظت سے (اس کے حقوق کی) حفاظت کرتی ہیں۔ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو (پہلے) انہیں سمجھاؤ، اور (اگر اس سے کام نہ چلے تو) انہیں خواب گاہوں میں تنہا چھوڑ دو، (اور اس سے بھی اصلاح نہ ہو تو) انہیں مار سکتے ہو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کارروائی کا کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ یقین رکھو کہ اللہ سب کے اوپر، سب سے بڑا ہے‘‘

ان آیات میں اللہ نے مرد کو سرپرست اور نگراں بنایا ہے کہ کیونکہ حاکم ونگراں میں مطلوب صفات بالخصوص محافظت ومدافعت کی قوت وصلاحیت، کمانے اور کسب کی معاش کی تدبیروں اور کوششوں کی استعداد وہمت اور تحمل مزاجی مردوں میں بطور خاص رکھی گئی ہے، ساتھ ہی عورت کو بھی گھریلو نظام کی ذمہ داریاں دی ہےاور گھر کے ماحول کو بہتر بنانے میں جن اخلاقی پہلو وں کو انہیں پیش نظر رکھنا ان صفات سے انہیں متصف کرکے انہیں یہ تعلیم دی ہےکہ وہ خود کو ان صفات سے آراستہ کریں تاکہ گھریلونظام میں بہتری اوران کے رشتہ ازدواج میں مضبوطی واستحکام پیدا ہو، کیونکہ عموما عورتوں کی طرف سے ان صفات میں کوتاہی کی وجہ سے ہی آپسی ناچاقی کا دروازہ کھلتا ہے، اور اگر دونوں کے درمیان ناچاقی ہوجائے تو تعلقات کو بہتر بنانے اور ناچاقی کے اسباب کو ختم کرنے کی کوششوں کا مرد کو ذمہ دار بنایا ہے کہ وہ اپنی بیوی کی نافرمانیوں کی صورت میں علی الترتیب اصلاحی کوششیں کرے، اور عورت کی وفاداری کی صورت میں مرد کو ظلم وزیادتی سے باز رہنے کا بھی حکم دے کر یہ وارننگ بھی دی ہے کہ تمہارے اوپر اللہ ہے جس کی پکڑ سے تم آزاد نہیں ہو۔

اور جب دونوں اپنی اصلاح کرنے میں ناکام ہوں تو پھر ان کے درمیان دونوں جانب کے حکم کو لاکھڑا کیا ہے تاکہ کسی پر بھی ظلم نہ ہواور جو خاطی ہو اس کی اصلاح ہوکر شقاق واختلاف ختم ہو، اور دونوں کو ظلم وزیادتی سے پاک محبت والی پرسکون زندگی نصیب ہو۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام بہرحال رشتہ نکاح کے تحفظ وبقا کو اہمیت دیتا ہے اور اسی کی تعلیم دیتا ہے، لیکن یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ بسااوقات زوجین میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ تماتر اصلاحی کوششوں کے باوجود دونوں کے مابین تلخیاں ختم نہیں ہوپاتیں اور رفاقت کی سانسیں دونوں کے لئے گراں بار ہو جاتی ہیں، اور ان کی قربت باعث سکون بننے کے بجائے درد وکرب اور بے چینی وبے قراری کا ذریعہ بنتی ہے اور بسا اوقات وہ دونوں سے متعدی ہوکر دو خاندانوں کو الجھا دیتی ہے اور قتل وخون کا ماحول پیدا کردیتی ہے، ایسے حالات میں حکمت ومصلحت کا تقاضا دونوں کی جدائی کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا۔اور ساحر لدھیانوی کے بقول:

تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر

تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا

وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن

اُسے اک خوبصورت موڑ دے کرچھوڑنا اچھا

ماہر قانون انگریز ’’ بیتام ‘‘ کی ایک بات یہاں قابل ذکر ہے، انہوں نے لکھا ہے :

’’اگر کوئی ایسا قانون بنایا جائے جس کے ذریعہ کمپنیوں کو تحلیل کرنے، وصیوں کی ولایت ختم کرنے، وکیلوں کو معزول کرنے اور دوستوں سے جدائی اختیار کرنے پر پابندی عائد کردی جائےتو سارے لوگ چیخ چیخ کر کہنے لگیں گے کہ یہ ظلم کی انتہاء ہے اور کسی کم عقل مجنون نے اس کو بنا یا ہے، اور یقینی طور پر ایسا قانون فطرت کے خلاف، حکمت سے خالی، مصلحت کے منافی اور قانون سازی کے اصول کے مغائر ہوگا، بہت سے متمدن ممالک زوجین کے محض باہمی عقد زوجیت کے ذریعہ ایسا ہی قانون بنارہے ہیں، گویا وہ ممالک لوگوں کو شادی بیاہ سے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں، کیونکہ کسی چیز سے نکلنے پر روک لگانا درحقیقت اس میں داخل ہونے پر روک لگانا ہے، جب معاملہ یہ ہے کہ نفرت اور شقاق وعداوت کا پیدا ہونا ناممکن نہیں ہے، تو ایسی صورت میں کون سا راستہ بہتر ہوگا؟ کیا زوجین کو ایسے مضبوط بندھن میں باندھ دینا بہتر ہوگا کہ دونوں دشمن بن کر ایک دوسرے کا کلیجہ چباجائیں، اور ایک دوسرے کے خلاف مکر وفریب کریں، یا یہ بہتر ہوگا کہ دونوں کے بندھن کو کھول دیا جائے تاکہ دونوں مضبوط بنیادوں پر نئے گھر کی تعمیر کریں ‘‘

بہر حال تعلقات کے بعد جدائی ایک بنیادی ضرورت ہے اور بہت سے مفاسد سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ گھر سے نکلنے کا راستہ بھی موجود ہو، اورساتھ رہ کربڑھتی ہوئی نفرت کو ختم کرنے کے لئے دورہونے کی شکل بھی ہو۔ایسے ہی ناخوشگوار موڑ پر زندگی کو بہتر رخ دینے اور دونوں کو نفرت کی فضا سے نکال کر نئی راہ محبت تلاش کرنے کا موقع دینے کے لئے  ’’ طلاق‘‘ رکھا گیا ہے، یقینا عام انسانی عقل بھی اس کا اقرار کرے گی کہ یہ اس طریقہ سے تو بہتر ہے جس میں زوجین کی زندگی جہنم بن جاتی ہے اور بالخصوص عورت ’’ معلقہ ‘‘ بن کر رہ جاتی ہے کہ نہ اسے ظالم اور حقوق سے غافل شوہر سے نجات ملتی ہے اور نہ ہی اسے بیوی کا مقام وحقوق میسر ہوتے ہیں۔ اور بہت سی مرتبہ ایک دوسری کی جان لے لینا ہی خلاصی کی واحد شکل رہ جاتی ہے، جیسا کہ اس کی بہت سی مثالیں ان معاشروں میں ملتی ہیں جن میں طلاق ایک’’اچھوت ‘‘راہ ہے، یا جن معاشروں میں اسے بہت برے عواقب ونتائج سے جوڑ دیا گیا ہے، چاہے طلاق کے اسباب جو بھی ہوں۔

چونکہ طلاق معاشرتی زندگی کی ایک فطری اوراہم ضرورت ہے اس لئے اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب نے بھی اس کی ضرورت کو تسلیم کیا اور اسے مباح قرار دیا ہے، البتہ اسلام کی یہ خوبی ہے کہ اسلام نے اس موڑ پر بھی اچھے اخلاق بتاکر عورت کی عظمت وحقوق کو تحفظ فراہم کیا ہے۔

اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں طلاق کا ایسا غلط رواج تھا کہ عورت مکمل طور پر مظلوم تھی اور شوہر کو اس بات کا مکمل اختیار تھا کہ اسے جب چاہے اپنی زوجیت سے خارج کردے، شوہر اس سلسلہ میں خود مختار تھا کہ وہ بغیر کسی نفقہ وخرچ اور عوض کے اسے طلاق دے کر اسے تمام تر حقوق سے محروم کردے۔

ابتداء ًرومیوں کے قانون میں طلاق دینا تو حرام تھا لیکن مرد کو عورت پر اتنا تسلط دیا گیا تھا کہ بعض خاص حالات میں اس سے علاحدگی اختیار کرنے کے لئے وہ اسے قتل کرنے کا مجاز تھا، بعد میں رومیوں نے بھی طلاق کی اجازت کو تسلیم کیا۔

یہودیت کے قانون طلاق نے بھی عورت کو مظلوم بنایا کہ اس میں طلاق کی اجازت میں بڑی وسعت تھی، اور یہ قانون بھی کہ اگر کسی عورت سے کوئی فسق کا ارتکاب ہوگیا تو ایسی صورت میں شوہر پر لازم تھا کہ وہ اسے طلاق دے چاہے اس کے شوہر نے اسے معاف کردیا ہو۔اسی طرح اگر کسی عورت کو بچہ نہیں ہوا اور شوہر کے ساتھ اس نے دس سال گزار دئے تو بھی شوہر پر لازم تھا کہ اسے طلاق دے کر بے یار ومددگار چھوڑ دے۔

ابتداء ًعیسائیت کا قانونِ طلاق دیگر مذاہب سے مختلف تھا کہ اس میں طلاق دینا حرام تھا، البتہ بیوی کے زنا وخیانت کے مرتکب ہونے کے صورت میں طلاق کی اجازت تھی، اور اگر کسی عورت کو طلاق دی گئی تو اب اس مطلقہ سے شادی کرنا حرام ہوجاتا۔بعد میں کنیسہ نے بہت سی شرطوں اور قیود کے ساتھ اس کی اجازت کی راہ کھولی، لیکن بنیادی طور پر طلاق ممنوع ہی تھا، اس لئے ازادواجی زندگی کی دشواریوں سے نجات پانے کے لئے فسخ نکاح اوربنا طلاق علاحدگی کو طلاق کے متبادل کے طور پرمسیحیت میں اختیار کیا گیا۔ بعد میں رفتہ رفتہ تمام مغربی ممالک نے دین سے تعلق توڑتے ہوئے طلاق کا قانون وضع کرلیا۔اور اب اٹلی کے شہر روم میں واقع ایک خودمختار ریاست ویٹیکن سٹی اور فلپائن کے علاوہ تمام ممالک میں قانون طلاق ہے اور ازدواجی رشتہ کو طلاق کے ذریعہ ختم کیا جاتا ہے۔ (ar.wikipedia.org/wiki/الطلاق فی المسیحیۃ)

ہندو ازم میں شاستری قانون کی رو ہندو شادی ایک اٹوٹ رشتہ تھا اور اس کے لئے طلاق کا کوئی جواز نہیں تھاحتی کہ ان کے نزدیک انتقال کی بعد بھی رشتہ قائم رہتا ہے۔ لہٰذا جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے وہ کبھی بھی دوسری شادی نہیں کرسکتی تھی۔ البتہ چند قبائل اور برادریوں کے پاس طلاق رواج پا چکا تھا، جنہیں زیادہ تر مذہب پر عمل پیرا ہندو درست نہیں سمجھتے تھے۔ عدالتوں میں سماج کے ان طبقوں میں رواج کی وجہ سے اِن کے آپس کے طلاق کو تسلیم کیا جاتا تھا، مگر ہندو سماج وسیع پیمانے پر اس کی نفی کرتا تھا۔ہندو قانونِ شادی 1955ء سے قبل شادی اور طلاق کے موضوع پر بھارت کی ہندو آبادی میں کافی اختلاف پایا گیا تھا۔ ممبئی ہائی کورٹ نے کچھ ہندو برادری میں جرمانہ ادا کر کے طلاق دینے کے رواج کی مذمت کی تھی۔ اس کے برعکس چینائی ہائی کورٹ نے ایک رواج کی مدافعت کی تھی جس میں زوجین میں کوئی بھی دوسرے کو باہمی رضامندی سے طلاق دے سکتا تھا۔ ہندو قانون شادی کی قانون سازی بھارتی پارلیمان کی جانب سے 1955ء میں کی گئی، اس قانون کے ذریعہ علاحدگی اور طلاق کا تعارف کرایا گیا، جو پہلے شاسترک قانون میں موجود نہیں تھا۔ (ur.wikipedia.org/wiki/شاسترک۔قانون)

اسلام چونکہ دین فطرت ہے اور اس میں انسانی ضروریات ومصالح کی مکمل رعایت ہے، مردو عورت ہر ایک کے ساتھ عدل کا معاملہ کیا گیا ہے، اور معاشرتی زندگی میں اس بات کا بخوبی خیال رکھا گیا ہے کہ بنی نوع انسان کے مابین مساوات اور انس ومحبت قائم رہےاس لئے اس نے معاشرتی زندگی کے تلخ لمحات کی اہم ضرورت ’’طلاق‘‘ کی اجازت تو دی، لیکن ممکنہ حد تک اس سے بچتے رہنے کی ہدایت بھی دی ہے تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہو اور اس میں من مانی نہ ہو، نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

أبغض الحلال إلى الله الطلاق(سنن ابن ماجۃ : ۲۰۱۸)

’’مباح چیزوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے ‘‘

نیزنبی اکرم ﷺ نے زوجین میں سے ہر ایک کواس کے غلط استعمال پر سنگین وعید بھی سنایا ہے، ایک حدیث میں آپﷺ کا ارشاد ہے:

أيما امرأة سألت زوجها الطلاق في غير بأس، فحرام عليها رائحة الجنة

’’جو عورت بلاوجہ اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے ‘‘

مردوں کو مخاطب کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:

مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يَلْعَبُ بِحُدُودِ الله يَقُولُ: قَدْ طَلَّقْتُ، قَدِ ارْتَجَعْتُ(صحیح ابن حبان:  ۴۲۶۵)

’’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اللہ کے حدود سے کھلواڑ کرتے ہیں، (جب جی میں آیاتو) کہہ دیتے ہیں میں نے طلاق دے دیا، اور جب چاہا کہہ دیتے ہیں کہ ) میں نے رجوع کرلیا‘‘

گویا اسلام نے اس بات کی تعلیم دی کہ بلاوجہ بغیر کسی شرعی عذر کے اس کو اختیار نہ کیا جائے بلکہ جہاں تک ممکن ہوسکے رشتہ نکاح کو باقی رکھنے اور تعلقات کو نبھانے کی کوشش کی جائے، اور اس کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ ایک دوسری کی کمی کوتاہی کو نظر انداز کرکے خوبیوں پر نظر رکھی جائے ؛ کیونکہ ہرانسان میں بہت سی خامیوں کے باوجود بہت سی خوبیاں بھی ہوتی ہیں، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

لا يفرك مؤمن مؤمنة، إن كره منها خلقا رضي منها آخر(مسلم : ۱۴۶۹)

’’ کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے دشمنی نہ رکھے اگراس کی کوئی ایک عادت اسے ناپسند ہوگی تو اس کی دوسری عادت سے وہ خوش ہوجائے گا ‘‘

اور عورتوں کے حوالے سے مرد کو صبر وتحمل اور سنجیدگی عطا کرنے اور ان میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کے لئے آپ ﷺ نے یہ وصیت بھی فرمائی:

اتقو اللہ فی النساء، فإنكم اخذتموهن بأمان الله واستحللتم فروجهن بكلمة الله (مسلم : ۱۲۱۸)

’’تم لوگ عورتوں کے حقوق ادا کرنے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ اللہ کی امانت کے ساتھ انہیں تم نے حاصل کیا ہے اور تم نے اللہ کے حکم سے ان کی شرم گاہوں کو حلال سمجھا ہے ‘‘

ایک اور روایت میں آپﷺ نے مردوں کو وصیت فرمایا:

استوصوا بالنساء خيرا، فإنما هن عوان عندكم، ليس تملكون منهن شيئا غير ذلك {إلا أن يأتين بفاحشة مبينة}  فإن فعلن فاهجروهن في المضاجع، واضربوهن ضربا غير مبرح، فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا إلا إن لكم من نسائكم حقا، ولنسائكم عليكم حق، فأما حقكم على نسائكم، فلا يوطئن فرشكم من تكرهون، ولا يأذن في بيوتكم لمن تكرهون، ألا وحقهن عليكم أن تحسنوا إليهن في كسوتهن، وطعامهن(نسائی :۹۱۲۴، ابن ماجٖۃ : ۱۸۵۱)

’’ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو، اس لئے کہ عورتیں تمہاری ماتحت ہیں، لہٰذا تم ان سے اس (ازدواجی تعلق) کے علاوہ کسی اور چیز کے مالک نہیں ہو، الا یہ کہ وہ کھلی بدکاری کریں، اگر وہ ایسا کریں تو ان کو خواب گاہ سے جدا کر دو، ان کو (معمولی )مارو، سخت مار نہ مارو، اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر ان پر زیادتی کے لئےکوئی بہانہ نہ ڈھونڈو، تمہارا عورتوں پر حق ہے، اور ان کا حق تم پر ہے، عورتوں پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارا بستر ایسے شخص کو روندنے نہ دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو، اور وہ کسی ایسے شخص کو تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت نہ دیں، جسے تم ناپسند کرتے ہو، سنو ! اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کواچھاکھلاؤ اوراچھا پہناؤ ‘‘

ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہ رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں :

أكمل المؤمنين إيمانا أحسنهم خلقا، وخياركم خياركم لنسائكم(مسند: ۱۰۱۰۶)

ایمان والوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ شخص جس کا اخلاق سب سے اچھاہو، اور تم میں وہ شخص سب سے بہتر ہے جو اپنی بیویوں کے لئے بہتر ہو‘‘

اسلام کی ان ہی تعلیمات کا اثر ہے کہ مسلمانوں میں طلاق کی شرح دیگر اقوام کے مقابلہ میں بہت کم ہے جیسا کہ انٹر نیٹ پر موجود تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم ملکوں کے بہ نسبت مغربی ممالک میں طلاق کا تناسب بہت زیادہ ہے، حالانکہ مغربی ممالک میں آزدانہ میل جول کی اجازت کی وجہ سے مسلم ملکوں کے بالمقابل نکاح کا تناسب کم بلکہ بہت کم ہے اور اس میں دن بدن گراوٹ آرہی ہے، ایک سروے رپوڑٹ کے مطابق ولایات متحدہ امریکہ میں ۱۹۶۰ میں ۷۲فیصد بالغ مردو عورت رشتۂ ازدواج سے منسلک تھے، جب کہ ۲۰۱۰ ء میں شادی شدہ جوڑے صرف ۵۱  فیصد درج کئے گئے، اور اس کے بعد بھی اس میں مزید کمی آئی۔ شادی کے بندھن میں بندھنے کا فیصد اس حد تک کم ہونے کے باوجود طلاق کی شرح امریکہ میں ۶۰ فیصد تک پہونچتی ہے، جب کہ وہاں کی شادیاں بہت طویل عرصہ ایک دوسرے کو دیکھنے سمجھنے اور پرکھنے کے بعد ہوتی ہیں۔ (بی بی سی عربک، ۹؍جنوری ۲۰۱۲ء )

یہ تعجب خیز حقیقت صرف ایک امریکہ کی بات نہیں ہے دیگر یورپی ممالک کی حالت بھی اسی جیسی ہے، بلکہ اس سے بھی بدتر ہے، بلجیم میں طلاق کا تناسب%71 ہے، پرتگال میں % 68 ہے، ہنگری میں %67 ہے، اسپین میں 61% ہے، فرانس میں % 55 ہے۔ اور اگر ہندوستان کی سطح پر موازانہ کیا جائے تو یہاں بھی دیگر اقوام کے مقابلہ میں مسلمانوں میں طلاق کا تناسب بہت کم ہے۔ ۲۰۱۱ کی مردم شماری کی رپوڑٹ کے مطابق مسلمانوں میں طلاق کا تناسب سکھ، بدھسٹ، عیسائی، اور جین کے مقابلہ میں بہت کم ہے، اور رسمی طلاق مسلمانوں کے مقابلہ ہندوؤں میں گرچہ کچھ کم ہے (انڈین ایکسرپس: ۲۳؍اگست ۲۰۱۶) لیکن بلاطلاق علاحدگی کو شامل کیا جائے تو پھر ازداوجی رشتہ کو ختم کرنے میں ہندو بھی مسلمانوں سے آگے بڑھ جاتے ہیں، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندووں میں طلاق سے جڑے قیود وشرائط اور اس کی عدالتی کارروائی کے لئے درکار طویل وقت کی وجہ سے بلاطلاق ایک دوسرے سے علاحدہ ہوجانے کا رواج بہت زیادہ ہے۔اور طلاق کے ذریعہ ایک دوسرے سے الگ ہوجانے سے یہ حد درجہ بدتر ہے ؛ کیونکہ اس میں عورت کی زندگی معلق بن کر رہ جاتی ہے کہ اسے نہ تو اس شوہر سے حقوق حاصل ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ اس سے نجات پاکر اپنا کوئی اور بہتر شریک حیات تلاش کرپاتی ہے۔

عجیب تماشا ہے کہ تمام برادران وطن اور تمام مذاہب میں طلاق کی کثرت کے باوجودالزام مسلمانوں پر دیا جاتا ہے اور ایسا باور کرایا جاتا ہے کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس میں طلاق کی تلوار عورتوں پر لٹکتی ہے، اور مسلم عورتوں کو انصاف دلانے کا نعرہ لگایا جاتا ہے، اوربعض کم فہم اورمزاج شریعت سے نا آشنا مسلم عورتیں بھی مخالفین کا آلہ ٔکار بن جاتی ہیں۔ جب کہ سچائی اور حقیقت اس کے خلاف ہے کہ مسلمانوں میں عالمی اور ملکی دونوں سطح پر طلاق کی شرح دیگر اقوام کے بالمقابل کم ہے۔ اس کی مزید سچائی کو دیکھنے کے لئے انٹر نیٹ بالخصوص ویکیپیڈیا پربلحاظ ملک طلاق کا تناسب دیکھا جاسکتا ہے۔ اور اس سے اندازہ  لگایا جاسکتاہے کہ عالمی سطح پر مسلم ممالک میں طلاق کی شرح دیگر ممالک کے مقابلہ کس حد تک کم ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے:(en.wikipedia.org/wiki/Divorce_demography )

اور ملکی سطح پر اس میدان میں مسلمانوں کے پیچھے ہونے کی دلیل ۲۰۱۱ کی مردم شماری کی رپوڑٹ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ جو متعدد ویب سائٹ پر موجود ہے۔

بہر حال طلاق دینا ناگزیر ہی ہوجائے تو اسلام نے پاکی کے زمانہ میں صرف ایک طلاق دینےکی تعلیم دی ہے، تاکہ غلطیوں کے احساس کے بعد رشتہ کی بحالی کی راہ کھلی رہے۔تین طلاق دینے کی صورت میں یہ گنجائش ختم ہوجاتی ہے اس لئے اسلام نے تین طلاق کو سختی سے منع کیا ہے، اور اس کے اختیار کرنے والے کو گنہگار قرار دیا ہے، حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کو یہ اطلاع دی گئی کہ فلاں شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہے، اس خبر کے سنتے ہی رسول اللہ ﷺ غصہ میں کھڑے ہوگئےاور فرمایا کہ کیا اللہ کی کتاب سے کھیلا جارہاہے جبکہ ابھی میں تمہارے درمیان ہوں ؟!! آپﷺ کے انداز اور آپ کی ناراضگی سے صحابہ کو ایسا لگا کہ اس نے اتنا بڑا گناہ کرلیا ہے کہ وہ واجب القتل ہوچکا ہے، چناں چہ ایک صحابی نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺکیا میں اسے قتل کردوں ؟(نسائی:۳۴۰۱)

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طریقۂ طلاق کو اختیار کرنا انتہائی ناپسندیدہ ہے اور مذموم ہے، تاہم اگر کوئی اسے اختیارکرلے تو وہ گنہگار ہوگااور یہ طلاقیں نافذہوجائیں گی (فتح الباری: ۹؍۳۶۲)

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ ایک صحابی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، اس عورت نے دوسرا نکاح کرلیا، دوسرے شوہر نے بھی (جنسی تعلق سے قبل) طلاق دے دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پہلے مرد کے لئے حلال ہوگئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک دوسرا شوہر پہلے شوہر کی طرح اس سے صحبت نہ کرلے۔ (صحیح بخاری: ۵۲۶۱، صحیح مسلم:۱۴۳۳)

حضرت فاطمہ بنت قیس ؓکہتی ہیں : 

طلقنی زوجی ثلاثًا وھو خارج الی الیمن فأجاز ذلک رسول اللہ صلی اللّہ علیہ وسلم(ابن ماجہ ۲۰۲۴)

’’ میرے شوہر حفص بن عمرو نے مجھے تین طلاق دیدی اور وہ یمن کے سفر میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائز یعنی نافذ قرار دیا‘‘

دار قطنی کی روایت میں ہے کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن کے پاس کچھ لوگوں نے ایک مجلس کی تین طلاق کے مکروہ ہونے کا تذکرہ کیا، ابوسلمہ نے کہا کہ حفص بن عمرو نے فاطمہ بنت قیس کو ایک مجلس میں تین طلاق دیا تھا، لیکن کسی روایت سے ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نکیر فرمائی ہو۔ (دارقطنی: ۳۹۱۷)

حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے :

فقلت: یا رسول اللہ أرأیت لو أنی طلقتھا ثلاثًا أکان یحل لی أن أراجعھا قال: لا، کانت تبین منک، وتکون معصیة (بیہقی:۱۴۹۳۹)

’’میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ کا کیا خیال ہے اگر میں اپنی بیوی تین طلاق دیتا تو کیا میرے لئے رجوع کرنا حلال ہوتا؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، اس کا تم سے رشتہ ختم ہوجاتا، اور اس طرح طلاق دینا گناہ ہوتا‘‘

حضرت عویمرؓ اور ان کی اہلیہ کے مابین نزاع اور تہمت زنا کا قضیہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہونچا، جس پر آپ نے دونوں سے شرعی طریقہ پر قسم لیا، جسےشرعی اصطلاح’’ لعان‘‘ کہتے ہیں،  لعان کے بعد رسول اللہ ﷺ کے کسی فیصلہ صادر کرنے سے قبل اسی مجلس میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے حضرت عویمر ؓتین طلاق دے دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں کو نافذ کردیا۔(ابوادؤد:۲۲۵۰)

سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ جب حضرت علی ؓشہید کردئیے گئے تو حسن بن علی کی بیوی عائشہ خثعمیہ نے آکر حضرت حسنؓ سے کہا: آپ کو خلافت مبارک ہو، حضرت حسن نے کہا: امیرالمومنین کی شہادت پر مجھے مبارک باد دیتی ہے، جا! تجھے تین طلاق دیتا ہوں (اذهبي فأنت طالق ثلاثا)، عائشہ خثعمیہ نے اپنی اوڑھنی اوڑھ لی اور عدت میں بیٹھ گئی، حضرت حسن نے ان کے پاس دس ہزار درہم اور مہر کی بقیہ رقم بھیجی تو انہوں نے کہا : جدا ہونے والے محبوب کی طرف سے یہ تھـوڑا سا سامان ہے، جب حضرت حسن کو جب ان کی یہ بات معلوم ہوئی تو روپڑے اور فرمایا: اگر میں نے اس کو طلاق بائن نہ دی ہوتی تو میں اس سے رجعت کرلیتا، مگر میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی اپنی بیوی کو تین طلاق دے ہر طہر میں ایک طلاق، یا ہر مہینے کے شروع میں ایک طلاق یا بیک وقت (ایک مجلس میں ) تین طلاق دے تواس کے لیے وہ عورت حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے۔(دارقطنی:۳۹۷۲، بیہقی: ۷/۳۳۶)

قرآن کریم میں مذکور حکم الہی اور مذکورہ روایات وعہد نبوی کے واقعات کی وجہ سے حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ وغیرہ اکثر اصحاب رسول نے اسی کو اختیار کیا ہے، بعض حضرات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی جانب یہ منسوب کرتے ہیں کہ وہ تین طلاق کے ایک ہونے کے قائل ہیں، حقیقت یہ ہے کہ تمام صحابہ سمیت ان کی رائے بھی یہی ہے کہ تین تین ہی ہے، ایک نہیں ہے، جیسا کہ کئی روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے :

محمد بن ایاس کہتے ہیں کہ: ابن عباس، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم تینوں سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو قبل الدخول طلاق دے دی، تینوں نے کہا: عورت اس کے لیے حلال نہیں ہے جب تک کہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے(ابوداؤد:۲۱۹۹)

مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما خاموش رہے، مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ ابن عباس ؓبیوی کو اس آدمی کے نکاح میں لوٹادیں گے، پھر ابن عباس نے کہا: تم لوگ حماقت کا کام کرتے ہو، پھر آکر چلاتے ہو اے ابن عباس، اے ابن عباس، اللہ فرماتا ہے: ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً، اور تم اللہ سے نہیں ڈرے، اسلئے میرے یہاں تمہارے لئے کوئی سبیل نہیں ہے، تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔ (اخرجہ ابوداؤد:۲۱۹۷، والدارقطنی: ۴/۱۳)

بہر حال صحابہ کرام بشمول حضرت ابن عباس اسی بات کے قائل ہیں کہ ایک ساتھ یا ایک مجلس کی تین طلاقیں مکمل تین نافذ ہوتی ہیں، اورجمہور ائمہ احناف، شوافع، حنابلہ اور مالکیہ کی بھی متفقہ رائے یہی ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے کی صورت میں تین طلاقیں پڑیں گی، امام بخاری علیہ الرحمۃ نےبخاری شریف میں باب من جوز الطلاق الثلاث کا عنوان قائم کرکے یہی ثابت کیا ہے کہ تین طلاق ایک ساتھ دینے کی صورت میں تینوں نافذ ہوں گی، علامہ کرمانی ؒنے اور علامہ ابن حجر عسقلانی ؒنے فتح الباری میں اس کی صراحت کی ہےکہ امام بخاری نے یہ عنوان قائم کرکے یہی ثابت کیا ہے کہ تین طلاق تین ہوگی: أراد تجويز الثلاث مجموعۃ (فتح الباری: ۹؍۳۶۵)یہی بات علامہ قرطبی نے بھی کہی ہے کہ امام بخاری نے اس باب سے تین طلاق واقع ہونے کو ثابت کیا ہے۔ علامہ قرطبی مزید لکھتے ہیں :

’’ہمارے علماء نے فرمایا ہےکہ تمام ائمہ فتاویٰ ایک لفظ سے تین طلاق کے لازم ہونے پرمتفق ہیں اور یہی جمہور سلف کا قول ہے ‘‘(تفسیر قرطبی: ۳؍۱۲۹)

علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں :

جمہور تابعین، اکثر صحابہ، مذاہب اربعہ کے ائمہ، اہل بیت کی ایک جماعت جن میں امیرالمؤمنین علی ؓ ہیں، ناصر اور امام یحیٰ بھی ہیں، اور بعض امامیہ سے یہ منقول ہے کہ ایک ساتھ دی گئی تین طلاق تین ہوگی(نیل الاوطار:۶؍۲۷۴)

علامہ نوویؒ ایک مجلس کی تین طلاق کے بارے ائمہ اربعہ کا موقف تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’علماء کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو اپنی بیوی سے انت طالق ثلاثا کہے (میں تجھے تین طلاق دیتا ہوں ) امام شافعی، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام احمد اور جمہور علماء سلف و خلف اس بات کے قائل ہیں کہ تینوں واقع ہوجائیں گی‘‘(شرح نووی علی صحیح مسلم: ۵/۳۲۸)

 علامہ ابن عربیؒ نے اپنی کتاب الناسخ والمنسوخ میں کہا ہے اور اسے علامہ ابن قیم نے بھی اپنی کتاب تہذیب السنن میں نقل کیا ہے :

’’ اللہ تعالی فرماتا ہے : الطلاق مرتان(یعنی طلاق دو مرتبہ ہے)آخر زمانہ میں ایک جماعت نے لغزش کھائی اور کہنے لگے: ایک لفظ کی تین طلاق سے تین نافذ نہیں ہوتی، انھوں نے اس کو ایک بنادیااور اس قول کو سلف اول کی طرف منسو کردیا، علی ؓ زبیرؓ، ابن عوفؓ، ابن مسعودؓ، اور ابن عباس ؓ سے روایت کیا اور حجاج بن ارطاۃ کی طرف روایت کی نسبت کردی، جن کا مقام ومرتبہ کمزور اور مجروح ہے، اس سلسلہ میں ایک روایت کی گئی، جس کی کوئی اصلیت نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔ علماء اسلام اور احکام شرعیہ کے ارباب حل وعقد اس بات پر متفق ہیں کہ ایک ساتھ دی گئی تین طلاق نافذ ولازم ہوتی ہے، اگر چہ کہ بعض کے نزدیک اس طرح طلاق دینا حرام ہے اور بعض کے نزدیک بدعت ہے۔ ۔۔۔۔۔لوگوں نے اس سلسلہ میں جو احادیث صحابہ کی طرف منسوب کی ہے، وہ محض افتراء ہے، کسی کتاب میں اس کی اصل نہیں، اور نہ کسی سے اس کی روایت ثابت ہے۔ ۔۔۔ حجاج بن ارطاۃ کی حدیث نہ امت میں مقبول ہے اور نہ کسی ا مام کے نزدیک حجت ہے ‘‘ ( تہذیب السنن : ۹۲۶)

عصر حاضر میں سعودی عرب کے مجلس ہیئت کبار علماء نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں :

بعد دراسۃ المسئلۃ وتداول الرأی واستعراض الأقوال التی قیلت فیہا ومناقشۃ ما علی کل قول من إیراد توصل المجلس بأکثریتہ إلی اختیار القول بوقوع الطلاق الثلاث بلفظٍ واحدٍ ثلاثاً۔ (مجلۃ البحوث الإسلامیۃالمجلد الأول، العدد الثالث، ص: ۱۶۵)

’’مسئلہ موضوعہ کے مکمل مطالعہ، تبادلۂ خیال اور تمام اقوال کا جائزہ لینے اور ان پر وارد ہونے والے اعتراضات پر جرح ومناقشہ کے بعد مجلس نے اکثریت کے ساتھ ایک لفظ کی تین طلاق سے تین واقع ہو نے کا قول اختیارکیا‘‘

بہر حال یک بارگی تین طلاق کا تین ہونا قرآن وسنت سے ثابت ہے اور یہی امت کا مقبول ومختار مذہب ہے، اس لئے اس کو ایک ماننا یا کالعدم ماننا درست نہیں ہے، واضح رہے کہ میڈیا میں زور وشور سے اس بات کو نمایاں کیا جاتا ہے کہ بہت سے مسلم ممالک میں تین طلاق پر پابندی ہے، اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات تو یہ ہےکہ کسی مسلم ملک میں کسی عمل کا رائج ہونا یا ممنوع ہونا کوئی حجت نہیں ہے، حجت قرآن وسنت ہے، اور جو چیز قرآن وسنت سے ثابت ہو اس کو کالعدم قرار دینا انسانی اختیار میں نہیں ہے۔

جہاں تک پابندی کی بات ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس طریقۂ طلاق کو اختیار کرنے پر ان ممالک میں پابندی ہے اور اسے جرم اور لائق سزا عمل تصور کیا گیا ہے، لیکن اگر کسی نے اس جرم کاارتکاب کر لیا تو ان ممالک میں بھی اسلامی احکامات کے مطابق اس کو نافذ مانا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی منقول ہے کہ اگر ان کے پاس تین طلاق کا مقدمہ آتا تو آپ ؓ ایسے مرد کو سزا دیتے تھے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس کی یک بارگی تین طلاق نافذ نہیں ہوتی تھی بلکہ سزا کے ساتھ ساتھ تین طلاق کے نافذ ہونے کا فیصلہ بھی صادر ہوتا تھا۔

تین طلاق کے خلاف ہنگامہ درحقیقت اس بنیاد پر بھی کیا جاتا ہے کہ اس میں دوبارہ رشتہ میں یہ رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے کہ ’’حلالہ‘‘ کے بغیر عورت اس مرد سے شادی نہیں کرسکتی ہے اور ’’حلالہ‘‘ کو عورت پر زیادتی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے، حالانکہ بذات خود حلالہ اسلام میں ناپسندیدہ ہے اور حلالہ کرنے اور کرانے والے پر اللہ کی لعنت بھیجی گئی ہے ( ابوداؤد: ۲۰۱۷۶) اور اسلام نے ایسی صورت میں حلالہ کی راہ کی تعلیم نہیں دی ہے، اور اسے تین طلاق کا کفارہ اور عقد ثانی کی کوئی تدبیر نہیں بنایا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے اس موڑ پر عورت کو اہمیت دی ہے کہ ایسا انسان جسے اسلامی تعلیمات کا پاس و لحاظ نہیں ہےکہ اس نے تمام حدود کو پامال کرکے تین طلاقیں دے دی تو وہ اس قابل نہیں ہے کہ ایک شریف عورت دوبارہ اس کے پاس رہے، اور عورت کو مکمل اختیاردے دیا گیا کہ وہ چاہے تو کسی سے شادی کرے یا نہ کرے، اور کسی دوسرے مرد سے شادی کرنے کی صورت میں بھی اس کو مکمل اختیار ہے کہ وہ دوسرے شوہر سےعلاحدگی اختیار کرے یااسی کے ساتھ اپنی پوری زندگی گزاردے، اس میں پہلے مرد کا کوئی رول نہیں ہے، ہاں اگر اتفاقاً اس شوہر کے ساتھ بھی نبھاؤ نہ ہواور وہ از خود طلاق دیدے تو اس صورت میں امید ہے کہ جدائی وفرقت اور تنہائی کی مدت میں پہلا شوہر کچھ سبق حاصل کرچکا ہو، اس لئے اب اگر اس سے نکاح کرنے پر بیوی رضامند ہوتو اس کی اجازت دے دی گئی۔ان تمام مراحل میں عورت کی مرضی کو ہی اہمیت حاصل ہے، اسی کی رضامندی سے ہی دوسرے مرد سے شادی ہوسکتی ہے اور پھر دوبارہ اس سے شادی کرنے کے لئے بھی اس کی رضامندی ضروری ہے۔ اوریہ چیز اسلام نے اس وجہ سے بھی رکھی ہے تاکہ مسلمانوں کے درمیان طلاق اور بالخصوص تین طلاق کی نحوست کو کم کیا جائے اورطلاق سے سماج میں پیدا ہونے والے مسائل کا سد باب کیا جائے چونکہ جب انسان اپنی زوجہ کوتین مرتبہ طلاق دے دے گا اس کے بعد اگر اپنے کئے پر پشیمان بھی ہو تو اس پشیمانی کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، چونکہ اب اس عورت کو حاصل کرنا گویا انتہائی مشکل ہے، اس لئے کہ جب وہ عورت کسی دوسرے مرد سے شادی کرے گی تو ضروری نہیں کہ اس کے بعد اس سے طلاق کا مطالبہ کرے اور بالفرض اگر وہ مطالبہ کرے تو ضروری نہیں کہ اس کا شوہر اسے طلاق دے دے اور اس دوسری شادی میں اسلامی نے ہمبستری کی قید لگائی ہے کہ دوسرا مرد اس عورت کے ساتھ جو اب اس کی بیوی ہے ہمبستری بھی کرے اس چیز سے پہلے مرد کو یہ احساس بھی ہو گا کہ اگروہ اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے گاتو وہ کسی دوسرے مرد سے شادی کر کے جنسی تعلق کر لے گی، اس کے بعد اگر بالفرض طلاق کی صورت میں وہ اس سے شادی بھی کرے تو بھی اس سے اس کی غیرت کو ضرور چوٹ لگے گی۔

آج کل میسیج اور ای میل کے ذریعہ طلاق کو بھی موضوع بحث بناکر یہ بات اٹھائی جارہی ہے کہ میسیج یا ای میل کے ذریعہ طلاق واقع نہیں ہونی چاہئے، قابل غور بات یہ ہے کہ میسج اور ای میل کو عام انسانی معاملات میں کیا حیثیت حاصل ہے، یہ بات تو سب جانتے اور مانتے ہیں کہ تحریر انسانی زبان وفکر کی ترجمانی کرتی ہے اسی لئے تمام عقود ومعاملات میں تحریر کو تسلیم کیا جاتا ہے، بلکہ عام دنیاوی معاملات میں تحریر کا جو درجہ ہے وہ وہ زبان کو بھی حاصل نہیں ہے، ماضی میں تحریر وکتابت کے لئے صرف قلم وکاغذ کا استعمال ہوتا تھا لیکن موجودہ زمانہ میں الکٹرانک ایجادات کی وجہ سے تحریر وکتابت کے میدان میں بھی وسعت ہوئی ہے، اور میسیج اور ای میل نے بھی پیغام رسانی میں اپنی اہمیت کو تسلیم کرالیا ہے، بلکہ آج کل تمام تر معاملات میں قلمی تحریر کے بجائے کمپیوٹر ائز تحریر کا استعمال ہی غالب ہوگیا ہے اور پیغام رسانی کے لئے ماضی کے پوسٹل نظام کے بجائے زیادہ تر ای میل اور میسیج کا استعمال ہورہا ہے اور بڑے بڑے معاملات میسیج اور ای میل کے ذریعہ ہورہے ہیں، کیونکہ یہ بھی تحریر اور پیغام رسانی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔تو جب سارے معاملات میں اس کو تسلیم کیا جارہا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ’’ طلاق‘‘ کے واقع ہونے میں اس کو تسلیم نہ کیا جائے۔میسیج اور ای میل کی اسی حقیقت کی وجہ سے فقہاء کرام نے اس کے ذریعہ طلاق دینے کی صورت میں طلاق کو نافذ قرار دیا ہے، کیونکہ یہ پیغام رسانی کےذرائع اور آلات ہیں، ان کا جیسا استعمال کیا جائے گا ویسےہی احکام مرتب ہوں گے، اور فقہاء کرام کا اتفاق ہے کہ تحریر تکلم کے قائم مقام ہے اور تحریری طلاق واقع ہوتی ہے (الموسوعۃ الفقہیۃ: ۱۲؍۲۱۷)اس لئے ای میل اور میسیج وغیرہ کے ذریعہ بھی طلاق واقع ہوگی۔

تبصرے بند ہیں۔