طلاق کیا ہے؟

عبدالعزیز

     ’’تین طلاق ‘‘پر آج کل ہندستان کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ میں بحث جاری ہے ۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے بحثوں کو بنیادی سوالات تک محدود رکھنے کیلئے کہا ہے یعنی تین طلاق بیک وقت بنیادی حیثیت رکھتی ہے ؟ کیا اس کی نوعیت تقدیسی فعل کی ہے؟ کیا وہ کوئی ایسا حق ہے جو قانوناً نافذ کیا جاسکتا ہے ؟ علامہ یوسف القرضاوی دور حاضر کے عالمی سطح پر گنے چنے علماء میں ہیں جن کا مطالبہ بہت وسیع ہے جو اپنی رائے قرآن و سنت کی روشنی میں دیتے ہیں موصوف کی رائے ملاحظہ فرمائیں اور آج جو بحثیں ہورہی ہیں اس پر بھی غور کریں اگر ہمارے ملک کے علماء مسلکی تنازع سے ہٹ کر اپنی رائے دیتے جیسا کہ علامہ یوسف القرضاوی صاحب دیتے ہیں یا لکھتے ہیں تو ملک میں تین طلاق کی بحث ہوتی یا نہیں ؟۔

  جدید دور میں مستشرقین اور مشینری یلغار نے طلاق اور تعددِ ازدواج کے معاملے میں اسلام پر شدید حملے کئے ہیں اور ان دونوں معاملوں میں اسلام کے موقف کو ہدفِ طعن بنایا ہے حالانکہ یہ دونوں چیزیں اسلام کے مفاخر و محاسن سے ہیں ۔

 یہ بڑی افسوس ناک بات ہے کہ بعض مسلمان بھی ان دونوں معاملوں میں ایسی شدو مد کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ خاندان اور معاشرے کے مسائل میں یہ دونوں بڑے اہم مسئلے ہیں ۔ یہ لوگ جس طرح اس دونوں موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ محض اسلام اور اس کے شاندار قوانین کا مذاق اڑارہے ہیں ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام نے ان دونوں معاملوں میں قانون سازی کرکے عورت اور مرد کی زندگی اور خاندان اور معاشرے کے بے شمار مسائل حل کئے ہیں ۔ ہمارے نزدیک اصل مسئلہ شریعتِ الٰہی کے سلسلے میں پائی جانے والی غلط فہمی اور اس کا غلط طریقے سے نفاذ ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی چیز کا غلط طریقے سے استعمال ہوتا ہے تو اس کے بڑے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔

اسلام نے طلاق کو کیوں قانونی جواز فراہم کیا ہے؟

 اسلام کی نگاہ میں طلاق کوئی پسندیدہ عمل نہیں ہے ۔ بہت سے طلاق کو اسلام ناپسند ہی نہیں کرتا، بلکہ اسے حرام قرار دیتا ہے ۔ بالخصوص وہ طلاق جس کے نتیجے میں خاندان تہ و بالا ہوجاتا ہے اسلام جس کی تعمیر و تشکیل کا خواہاں ہے ۔ اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ نبیؐ نے فرمایا ـ: ’’ اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ طلاق ہے۔‘‘ (ابودائود ) یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن کریم نے شوہر اور بیوی کے درمیان تفریق (ایک دوسرے سے جدا کرنا ) کو ایک کافرانہ جادوئی عمل قرار دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 ’’پھر بھی یہ لوگ ان سے (ہاروت و ماروت نامی فرشتوں سے ) وہ چیز (جادو) سیکھتے جس سے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی ڈالتے ۔‘‘    (البقرہ ،۲:۱۰۲)

 اسلام نے جس طلاق کو مشروع اور جائز قرار دیا ہے وہ دردانگیز عمل جّراحی (Operation) کے بالکل مشابہ ہے ۔ اس آپریشن میں عقل مند آمدمی اپنے زخم سے اٹھنے والے درد کو براشت کرتا ہے ۔ بسا اوقات پورے جسم کی حفاظت اور ایک بڑے ضرر کو دفع کرنے کیلئے جسم کے ایک عضو کو کاٹ دیا جاتا ہے۔

 اسی طرح جب زوجین (میاں بیوی ) کے درمیان نفرت جڑ پکڑ لیتی ہے اور اصلاح کی ساری تبدبیریں ناکام ہوجاتی ہیں اور دونوں کے درمیان موافقت کی کوشش کرنے والوں کی کوششیں بے اثر اور رائیگاں ہوجاتی ہیں ، تو ایسی صورتِ حال میں طلاق ہی ایک کڑوی دوا ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ اور کوئی دوا کارگر نہیں ہوگی ۔ اسی لئے کہا گیا ہے : اگر موافقت نہ ہو تو فراق و جدائی ناگزیر ہوجاتی ہے ۔‘‘ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:

  ’’لیکن اگر زوجین کے ایک دوسرے سے الگ ہی ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اپنی وسعت سے بے نیاز کرے گا۔ ‘‘          ( النساء ،۴:۱۳)

 اسلام نے جس چیز کو مشروع قرار دیا ہے وہی عقل و حکمت اور مصلحت کا تقاضا بھی ہے ۔ یہ بات نہایت غیر منطقی اور خلافِ فطرت ہے کہ قانون کی قوت سے دو شریکوں پر ہمیشگی کی شرکت تھوپی جائے ، جبکہ صورتِ حال یہ ہوکہ دونوں ایک دوسرے سے سکون نہ پاتے ہیں اوردونوں کے درمیان بداعتماد کی کیفیت ہو، بلکہ دونوں ایک دوسرے سے متنفر ہوں اور آپس میں بخض رکھتے ہوں اورکسی صورت میں دونوں آپسی گزارے کیلئے تیار نہ ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ قانون کے زور پر اس طرح کی زندگی مسلط کرنا ایک سخت سزا ہے ، جس کا سزاوار کوئی بڑا مجرم ہی ہوسکتا ہے ۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ یہ ساز حبسِ دوام سے بھی زیادہ بری ہے ، بلکہ یہ ایک ایسی جہنم ہے، جس میں رہنا انسان کے بس سے باہر ہے۔ قدیم زمانے کے کسی حکیم کا قول ہے : ’’ وہ شخص جو نہ تمہارے ساتھ موافقت کرتا ہو اور نہ تم ابوالطیب متبنی کا قول ہے:

 ’’ شریف آدمی کیلئے دنیا کی یہ بڑی نحوست ہے کہ اس کا کوئی ایسا دشمن ہو جس کی دوستی سے اسے چھٹکارا نہ ہو۔‘‘

 جب یہ بات اس ساتھی کے بارے میں کہی گئی ہے جس سے انسان ہفتے میں کچھ دن یا ایک دن ملتا ہے یا اس کے ساتھ دن کے کچھ لمحات گزارتا ہے ۔ اب آپ خود بتایے کہ اس بیوی کی بیوی کے ساتھ کیسے گزارا کیا جاسکتا ہے جو شوہر کے گھر میں ہمیشہ موجود رہی ہے اور جو اس کے پہلو میں رہتی ہے اور اس کی شریکِ عمر ہے؟۔

طلاق کے دائرے کو کم کرنا

 اسلام نے بہت سے ایسے اصول و ضوابط بنائے ہیں اور احکام و تعلیمات دی ہیں کہ اگر لوگ اس پر اچھی طرح عمل کریں تو طلاق کی ضرورت کم سے کم ہوگی اور بڑی حد تک اس کا دائرہ محدود ہوجائے گا۔

  1۔   نکاح کیلئے اچھی عورت کا انتخاب کیا جائے ۔ مال و جاہ اور حسن و جمال سے پہلے دین و اخلاق پر توجہ دی جائے۔ نبی(ﷺ) کا قول ہے : ’’ عورت سے نکاح کرنے میں چار چزیں ملحوظ رکھی جاتی ہیں : مال ، حسب و نست ، حسن و جمال اور دین واخلاق تو تم دین والی کو اختیار کرو، تمہارا بھلا ہوگا۔ (بخاری و مسلم)

  2 ۔    اسلام نے شادی کا پیغام دینے والے نوجوان کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ چاہے تو اپنی منگیتر کو ایک نظر دیکھ لے، تاکہ اسے اطمینان قلب حاصل ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ایک شخص جس نے کسی عورت کو پیغام دیا تھا، اس سے کہا: ’’جائو اس کو دیکھ لو، کیونکہ تم دونوں کے درمیان الفت و محبت پیدا کرنے کا یہ بہت مناسب طریقہ ہے۔‘‘ ( احمد ، دارقطنی، حاکم اور بیہقی )

  رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان:’’ اس کو دیکھ لو‘‘ اگرچہ وجوب پر دلالت نہیں کرتا ہے ، لیکن اس سے اتنا تو معلوم ہی ہوتا ہے کہ ایسا کرنا مستحب ہے ۔ کتب احادیث میں اس معنی و مفہوم کی متعدد حدیثیں موجود ہیں ۔ حضرت بابرؓ بہت مشہور صحابی ہیں ، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنے کیلئے ایک درخت کی اوٹ میں چھپا رہتا تھا ۔ یہاں تک میں نے اسے دیکھ لیا اور نکاح کا پیغام دے دیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے مسلمان اس بات کو انتہائی برا مانتے ہیں کہ لڑکا اپنی منگیتر کو دیکھے ۔ اس لئے وہ اپنی دلہن کو شب زفاف ہی میں دیکھ سکتا ہے ۔ حالانکہ وہ اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کی طالبہ ہوتی ہے ، وہ بازار اور گھر سے باہر جاتی ہے ، جہاں اسے سارے لوگ دیکھتے ہیں ۔ البتہ اسے اگر نہیں دیکھ سکتا ہے تو وہ اس کا ہونے والا شوہر ہے۔  اس کے برعکس وہ لوگ ہیں جو اس بات کو جائز قرار دیتے ہیں کہ لڑکا اپنی منگیتر کے ساتھ خلوت میں مل سکتا ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ پکنک کیلئے جاسکتے ہیں ۔ سنیما گھروں اور دوسرے تفریحی مقامات پر شب بیداری کرسکتے ہیں ۔ اس طرح افراط و تفریط کے درمیان حق ضائع ہوگیا۔

 3۔    عورت اور اس کے اولیاء (سرپرستوں ) کو شریف جوڑے کے انتخاب میں دلچسپی لینا چاہئے اور جس کا دین و اخلاق پسندیدہ ہواسے ترجیح دینا چاہئے ۔ ہم اس سے پہلے یہ حدیث بیان کرچکے ہیں :’’ جب تمہارے پاس وہ شخص (تمہاری لڑکی کیلئے پیغام لے کر) آئے جس کے دین اور اخلاق کو تم لوگ پسند کرتے ہو تو اس سے (اپنی لڑکی کو) بیاہ دو۔‘‘  اور سلف صالحین کا کہنا ہے:’’جب تم اپنی لڑکی کی شادی کرو تو دین والے کے ساتھ کرو، اگر وہ اس کو پسند کرے گا تو اسے عزت دے گا اور اگر ناپسند کرے گا تو اس کے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں کرے گا۔‘‘

  4۔    نکاح کا پیغام لے کر آنے والے کو عورت کی رضامندی حاصل کرنا، ایک لازمی شرط ہے ۔ وہ جس کس پسند نہ کرتی ہو اس سے نکاح کرنے پر اسے مجبور کرنا بالکل جائز نہیں ہے ۔ گزشتہ صفحات میں یہ بات گزر چکی ہے کہ نبی(ﷺ) نے اس طرح کا نکاح محض اس بنا پر فسخ کرادیا تھا کہ لڑکی اس کو پسند نہیں کرتی تھی جس سے اسکا نکاح ہوا تھا۔

  5۔    عورت کے ولی کی رضامندی اور اس کی منظوری کو واجب یا مستحب اس لئے قرار دیا گیا ہے تاکہ وہ ایسی جگہ نکاح نہ کرے جس جس کو اس کے گھر والے ناپسند کررہے ہوں ۔ اگر وہ ان کی رضا کے بغیر شادہ کرے گی تو وہ لوگ اس پر غضب ناک ہوں گے اور نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ ان سے الگ تھلگ ہوجائے گی اور وہ اس سے بے تعلق ہوجائیں گے ۔ بسا اوقات یہ رویہ عورت کی ازدواجی زندگی پر اثر انداز ہوسکتا ہے اور وہ خود بری طرح نفسیاتی طور پر متاثر ہوسکتی ہے ۔

  6۔    مائوں سے ان کی بیٹیوں کی شادی کے بارے میں مشورہ کرنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے تاکہ شادی کی تقریب جملہ متعلقین کی رضامندی سے مضبوط بنیادوں پر انجام پذیر ہو ۔ اللہ کے رسول(ﷺ) کا فرمان ہے: ’’عورت سے ان کی بیٹیوں کے (نکاح) کے بارے میں مشورہ کرو۔ ‘‘

  7۔   بھلے طریقے سے باہمی رکھ رکھائو کی تاکید اور زوجین کے درمیان متبادل حقوق و واجبات کی تفصیل اورمومن ضمیروں کو اللہ کے حدود کی پاس داری کیلئے بیدار کرنا اور اللہ سے خوف کو ان کے سب معاملات میں نگراں بنانا، یہ وہ باتیں ہیں جو میاں بیوی کے تعلقات میں ہمواری پیدا کرنے کیلئے ممدو معاون ہیں ۔ زوجین میں سے ہر ایک پر اگر کچھ ذمے داریاں ہیں تو اس کے مقابل اس کے کچھ حقوق بھی ہیں ۔ اور ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے حقوق کے مطالبے سے پہلے اپنی ذمے داریوں کو کما حقہ ادا کرے۔  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

   ’’ اور عورتوں کیلئے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں ، جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں ۔

  8۔   شوہر کو اس بات کی ترغیب دینا کہ وہ واقعیت پسند ہو ، بایں طور پر کہ وہ اپنی بیوی کے اندر درجۂ کمال (Perfection) نہ تلاش کرے۔ بلکہ اس کے عیوب کے ساتھ اس کے محاسن اور خوبیوں پر بھی نگاہ رکھے ۔ اگر بیوی کی کسی عادت سے وہ ناراض ہوتا تو کسی دوسری عادت سے خوش ہوجائے گا۔ اور حدیث میں ہے:’’ کوئی مومن شوہر کسی مومنہ بیوی سے نفرت نہ کرے، اگر اس کی کچھ عادتیں اسے ناگوار ہوں گی تو ان کے علاوہ کچھ دوسری خوش گوار ہوں گی ۔‘‘    (احمد و مسلم)

  9۔    جب شوہر اپنی بیوی کے اندر کوئی ایسی چیز محسوس کرے جو ناپسندید گی کا باعث ہو تو اس سے کہا جائے گا کہ وہ جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے عقل سے کام لے اور مصلحت کے تقاضے کو پیشِ نظر رکھے ۔ اور اللہ سے امید رکھے کہ وہ کوئی بہتر شکل ضرور نکالے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 ’’ ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہو تو ہوسکتا ہے کہ تم کو ایک چیز پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔‘‘

  10۔    اللہ تعالیٰ نے شوہر کو حکم دیا ہے کہ نافرمان سرکش بیوی کا حکمت کے ساتھ بدریجاً علاج کرے۔ اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے، لیکن کمزوری کا اظہار نہ ہو ۔ اس کے ساتھ سخت رویہ اپنائے لیکن تشدد نہ اختیار کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو انہیں سمجھا ئو ، ان سے الگ سوئو اور انہیں مارو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات ماننے لگیں تو ان پر دست درازی کے بہانے نہ تلاش کرو۔ ‘‘      (النساء : 34)

11۔   اللہ تعالیٰ نے سماج کو حکم دیا ہے کہ میاں بیوی میں اختلاف رونما ہونے کی صورت میں ان کے معاملے میں مداخلت کرے۔ دونوں کے متعلقین میں سے قابلِ اعتماد لوگوں کی ایک کمیٹی بنائے تاکہ ان کے درمیان میل و جول اور موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اور ان کے درمیان پائی جانے والی بحرانی کیفیت کا کوئی بہتر اور مساسب حل تلاش کی جاسکے ۔ ارشادِ ربانی ہے:

’’ اگر تم لوگوں کو میاں اور بیوی کے درمیان تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حکم مرد کے رشتے داروں میں سے اور ایک عورت کے راشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اگر اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا۔ ‘‘

 یہ ہے اسلام کی تعلیم ۔ اگر مسلمان اس پر عمل کریں اور مذکورہ بالا امور کا بھرپور خیال رکھیں تویقینا طلاق کا دائرہ روز بروز محدود ہوتا چلا جائے گا۔

طلاق کب اور کیسے واقع ہوتی ہے؟

  اسلام نے ہر وقت اور ہر حال میں طلاق کو مشروع قرار نہیں دیا ہے ۔ طلاق مشروع وہی ہے جس کا ذکر قرآن و سنت میں آیا ہے۔ طلاق کے سلسلے میں یہ بات انتہائی ناگزیر ہے کہ آدمی سنجیدگی اختیار کرے اور مناسب وقت میں طلاق دے۔ وہ اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق نہ دے اور نہ ایسے طہر (پاکیزگی کی حالت) میں طلاق دے جس میں اس نے اپنی بیوی سے ہم بستری کی ہو۔ اگر وہ ایسا کرے تو اس کی طلاق حرام اور طلاقِ بدعت ہوگی ۔ بعض فقہا کے نزدیک یہ واقع نہ ہوگی ۔ اس لئے یہ خلاف ِ سنت ہے اور صحیح حدیث میں ہے :’’ جس شخص نے ہمارے دین (اسلام) سے ہٹ کر کوئی کام کیا وہ مردور(غیر مقبول) ہے۔‘‘ (مسلم)

 طلاق دینے کیلئے ضروری ہے کہ مطلِّق (طلاق دینے والا ) شعوری حالت میں ہو ، اس کا دماغی توازن درست ہو۔ وہ آزادانہ موقف اختیار کرنے کی پوزیشن میں ہو ۔ طلاق دینے والا جب غیر شعوری حالت میں ہو یا کسی قسم کے دبائو میں ہو یا شدید غصے کی حالت میں ہو جس میں اسے ہوش ہی نہ ہو کہ وہ کس بات کا قصد و ارادہ کررہا ہے اور غیر ارادی طور پر اس کے منہ سے وہ بات نکل جائے ، جو اس کے تصورِ خیال میں بھی نہ ہو۔ ایسی صورت میں طلاق درست نہ ہوگی ۔ جیسا کہ حدیث شروع میں ہے : شدید غصّہ اور مجبوری میں طلاق نہیں ہے ۔ ‘‘ حدیث میں لفظ’’ اغلاق‘‘ آیا ہے جس کی تشریح امام ابو دائود نے غضب سے کی ہے۔ اور ان کے علاوہ دوسروں نے اکراہ وزبردستی کے معنی لئے ہیں اور دونوں صحیح ہیں ۔اوریہ ناگزیر ہے کہ طلاق دینے والا بالفعل (عملی طور پر ) طلاق اور اپنی بیوی سے علاحدگی کا قصد کرے۔ اگر وہ طلاق دینے کی قسم کھاتا ہے یا دھمکی دیتا اور ڈراتا ہے تو صحیح طلاق واقع نہیں ہے ہوگی ، جیسا کہ بعض علمائے سلف نے کہا ہے ۔ علامہ ابن قیمؒ اور ان کے شیخ امام ابن تیمیہ ؒ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔

اور جب طلاق کی یہ ساری قسمیں واقع نہیں ہوں گی تو اب باقی بچی وہ طلاق جو بامقصداور بالارادہ ہو۔ جس کے بارے میں شوہر سوچ بچار سے کام لیتا ہے اور اس کے معاملے قدم بڑھانے سے پہلے بھر پور جائزہ لیتا ہے ۔اور اس زندگی سے چھٹکاراپانے کیلئے جس پر وہ مزید صبر نہیں کرسکت ہے ، طلاق ہی کو احد علاج تصور کرتا ہے ۔ یہی بات حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کے قول میں بھی ہے:’’ طلاق تو بامقصد ہونی چاہئے۔‘‘

 طلاق کے بعد کی صورتِ حال

طلاق ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ازدواجی تعلقات قطعی طور پر منقطع ہوگئے ، اب اس کے اصلاح کی کوئی سہل نہیں ہے ۔ ہرگز نہیں ، قرآن کریم میں طلاق سے متعلق آیت میں ہر مطلِّق (طلاق دینے والے) کو رجوع کرنے اور باہمی معاملے کو درست کرنے کے دو موقعے دیئے گئے ہیں ۔ بس طلاق ایک کے بعد ایک ہونی چاہئے۔ اگر وہ الگ الگ بار طلاق دینے کا کوئی فائدہ نہ ہو تو تیسری تو زوجین کے تعلقات بالکل ختم کردے گی اب اس کے بعد وہ اس کیلئے اسی طرح حلال ہوگی جس وہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرلے اور وہ اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے ۔

اس لئے ایک ہی بار میں تین طلاق دینا شریعت کے منافی ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ اور ان کے شاگرد رشید علامہ ابن قیمؒ کا یہی موقف ہے اور انہوں نے قرآن کی مذکورہ آیت سے استدلال کیا ہے۔ بہت سے عرب ممالک کی شرعی عدالتوں نے اسی کو اختیار کیا ہے۔

 اسی طرح طلاق کسی بھی حال میں عورت کو عدت کی مدت میں اس کے نفقہ (خرچ کی ضرورت) سے محروم نہیں کرتی ہے اور نہ شوہر کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اس کو اپنے گھر سے باہر نکال دے ۔ بلکہ حکم یہ ہے وہ اس کے گھر میں رہے اور اس کے قریب رہے ، شاید کہ محبت لوٹ آئے ۔ اس طرح دلوں کی صفائی کی صورت نکل آئے گی اور جذبات و احساسات میں تازگی اور نیاپن پیدا ہوگا ۔ ارشاد ربانی ہے:

’’ تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت ) کی کوئی صورت پید ا کردے۔‘‘      (الطلاق ،65:1)   (جاری)

تبصرے بند ہیں۔