ظاہر ہے اُس کے ہر ڈھب سے ایسا ویسا نہیں ہے وہ

افتخار راغبؔ

ظاہر ہے اُس کے ہر ڈھب سے ایسا ویسا نہیں ہے وہ

اُس کی بات نرالی سب سے ایسا ویسا نہیں ہے وہ

مُثبت سوچ کا پیکر ہے اور ہمدردی کی مورت بھی

جھڑتے ہیں پھول اُس کے لب سے ایسا ویسا نہیں ہے وہ

خیر سے دنیا نے بھی اُس کو جلدی نادر مان لیا

میں تو بول رہا ہوں کب سے ایسا ویسا نہیں ہے وہ

ایسا لگتا ہے کہ سلیقہ مندی اُس پہ تمام ہوئی

وہ مرطوب ہے آبِ ادب سے ایسا ویسا نہیں ہے وہ

سونے چاندی جیسا قالب،  قلب ہے اُس کا ہیرے سا

مانگوں کیوں نہ میں اُس کو رب سے  ایسا ویسا نہیں ہے وہ

اُس کے جیسا کون ہے راغبؔ مطلب کی اِس دنیا میں

نفرت ہے اُس کو مطلب سے ایسا ویسا نہیں ہے وہ

تبصرے بند ہیں۔