عبادت اور اطاعت کا حقیقی سزاوار اللہ تعالیٰ ہے 

ترتیب: عبدالعزیز 
سورہ الزمر قرآن مجید کی 39ویں سورہ ہے۔ اس میں توحید کے حق میں پر زور دلائل دیئے گئے ہیں اور شرک کے ابطال میں بھی ایسی زبردست اور مدلل باتیں بیان کی گئی ہیں کہ اگر اس سورہ کا کوئی اچھی طرح سے مطالعہ کرلے تو وہ شرک و بدعت کی تمام قسموں کو اپنانے سے باز آجائے گا اور پکا سچا مومن بن جائے گا۔ شرک کی ذرا سی آزمائش نیکیوں کو برباد کر دیتی ہے اور شرک کی تھوڑی بہت آمیزش انسان کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس سورہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’یہ سورہ سابق سورہ ’سورۂ صٓ‘ کے مثنیٰ کی حیثیت رکھتی ہے، جس مضمون پر سابق سورہ ختم ہوئی ہے اسی مضمون سے اس کا آغاز ہوا ہے۔ سورہ صٓ کے آخر میں فرمایا ہے کہ یہ قرآن دنیا والوں کیلئے ایک عظیم یاد دہانی ہے۔ لوگوں کو یاد دلا رہا ہے کہ آخرت شدنی ہے اور سب کو ایک ہی رب حقیقی کے آگے پیش ہونا ہے تو جو لوگ آج اس کو جھٹلا رہے ہیں وہ بہت جلد اس کی صداقت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ اب اس سورہ کی تلاوت کیجئے تو اس کا آغاز بھی اسی مضمون سے ہوتا ہے کہ خدائے عزیز و حکیم نے یہ کتاب نہایت اہتمام سے اس لئے اتاری ہے کہ لوگوں نے اللہ کی توحید کے بارے میں جو اختلافات پیدا کر رکھے ہیں ان کا فیصلہ کردے تاکہ حق واضح ہوجائے اور جو لوگ اپنے فرضی دیویوں دیوتاؤں کے بل پر آخرت سے نچنت بیٹھے ہیں وہ چاہیں تو وقت آنے سے پہلے اپنی عاقبت کی فکر کرلیں۔ اسی پہلو سے اس میں توحید کے دلائل بھی بیان ہوئے ہیں، شرک اور شرکاء کی تردید بھی فرمائی گئی ہے اور قیامت کا بھی بیان ہوا ہے۔ یہ سورہ اس گروپ کی ان ساری سورتوں میں سے ہے جو کشمکش حق و باطل کے اس دور میں نازل ہوئی ہیں جب ہجرت کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے۔ چنانچہ بعد کی سورتوں میں یہ مضمون بالتدریج واضح ہوتا گیا ہے۔
سورہ کے مطالب کا تجزیہ:
(1۔4) خدائے عزیز و حکیم نے یہ کتاب توحید و شرک کے قضیہ کا فیصلہ کرنے کیلئے ایک قول فیصل کی حیثیت سے اتاری ہے تو لوگ اللہ واحد ہی کی عبادت و اطاعت کریں۔ عبادت و اطاعت کا حقیقی سزاوار وہی ہے۔ جو لوگ دوسرے معبودوں کو خدا کے تقرب کا ذریعہ بنائے بیٹھے ہیں۔ اگر وہ اس کتاب پر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو اللہ ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ فرمائے گا اور وہ یاد رکھیں کہ اللہ جھوٹوں اور ناشکروں کو بامراد نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے ارفع ہے کہ وہ اپنے لئے بیٹے بیٹیاں بنائے۔ وہ بالکل یکتا اور ساری کائنات کو کنٹرول کرنے کیلئے کافی ہے۔
(5۔8) یہ دنیا اللہ تعالیٰ نے غایت اور حکمت کے ساتھ پیدا کی ہے۔ رات اور دن کی آمد وشد، سورج اور چاند کی گردش اسی کے حکم سے ہے۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسی نے اس کی پرورش کا سامان کیا ہے۔ وہی خالق، وہی رب اور وہی اپنی تمام کائنات کا علم رکھنے والا اور اس کا مالک ہے تو لوگ اس کو چھوڑ کر کہاں بھٹکے جارہے ہیں! لوگ یاد رکھیں کہ اللہ لوگوں کی بندگی اور شکر گزاری کا محتاج نہیں ہے بلکہ لوگ ہی اس کے محتاج ہیں۔ سب کی واپسی خدا ہی کی طرف ہونی ہے اور اس دن کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نہیں بنے گا۔ خدا سب کے بھیدوں سے خود واقف ہے اور وہ سب کا کچا چٹھا ان کے سامنے رکھ دے گا۔ لوگوں کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو خدا کو پکارتے ہیں لیکن جب وہ مصیبت دور کر دیتا ہے تو اس کو اس طرح نظر انداز کردیتے ہیں گویا کبھی اس سے کوئی واسطہ تھا ہی نہیں۔
(9۔21) اللہ کے جو بندے توحید پر ایمان لانے کے جرم میں اپنی قوم کے اشرار کے ہاتھوں ظلم و ستم کا ہدف بنے ہوئے تھے ان کو فوز و فلاح کی بشارت دی اور یہ پیغام کہ اپنے ایمان پر جمے رہو۔ اگر یہ سر زمین تمہارے اوپر تنگ کر دی گئی تو اللہ کی زمین تنگ نہیں ہے۔ اپنی راہ میں ثابت قدم رہنے والوں کو اللہ بے حساب اجر دیتا ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے شرک اور مشرکین سے برائت کا اعلان کیا۔ مشرکین کو عذاب کی وعید اور توحید پر قائم رہنے والوں کو کامیابی کی بشارت دی۔ آخر میں ان لوگوں کو تنبیہ جو اپنی دنیوی زندگی کے غرور میں قرآن اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے تھے۔
(22۔35) پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تسلی کہ اس قرآن کی دعوت پر وہی لوگ ایمان لائیں گے جن کی فطرت کا نور زندہ ہے، جن کے دل سخت ہوچکے ہیں وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے۔ وہ اسی پر انجام سے دو چار ہوں گے جس سے رسولوں کی تکذیب کرنے والی قومیں دوچار ہوئیں۔ قرآن نے ہر پہلو سے توحید اور شرک کی حقیقت نہایت واضح طور پر بیان کر دی ہے۔ جو لوگ اب بھی اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
(36۔52) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطمینان دہانی کہ اگر یہ لوگ تم کو اپنے معبودوں سے ڈرا رہے ہیں تو ان کو بتادو کہ میری حفاظت کیلئے اللہ کافی ہے وہ جس رحمت سے مجھے بہرہ مند کرنا چاہے گا کوئی مجھے اس سے محروم نہیں کرسکتا اور اگر وہ کوئی ضرر پہنچانا چاہے گا تو کوئی دوسرا اس سے مجھے بچا نہیں سکتا۔ پس تم اپنی جگہ کام کرو، میں اپنی جگہ کام کرتا ہوں۔ فیصلہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔
اس امر کی وضاحت کہ زندگی اور موت تمام تر اللہ ہی کے قبضہ میں ہے تو جو لوگ باطل شفاعت کی امید پر جی رہے ہیں انھیں بتا دو کہ شفاعت اللہ کے اختیار میں ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت کہ ان لوگوں کا معاملہ اللہ کے حوالے کرو، اس کیلئے دعا کی تلقین کرو۔
متکبرین کے اصل سبب استکبار کی طرف اشارہ کہ اللہ نے ان کے جو مال و جاہ بخشا ہے اس کو یہ اپنی تدبیر اور اپنے تدبر کا کرشمہ سمجھتے ہیں۔ ان سے پہلے بھی اس خبط میں مبتلا رہنے والے گزرے ہیں، جب وہ اللہ کی پکڑ میں آئے تو ان کی تدبیر ان کے کچھ کام نہ آسکی۔ یہی حشر ان کا بھی ہونا ہے۔ رزق و فضل سب اللہ کا عطیہ ہے، اس وجہ سے ہر ایک پر اللہ ہی کا شکر واجب اور یہی توحید کا تقاضا ہے۔
(53۔61) لوگوں کو یہ تذکیر کہ خدا سے مایوس ہوکر دوسرے شرکاء و شفعاء کا دامن پکڑنا جائز نہیں ہے بلکہ ہر حالت میں اللہ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہئے، وہ بڑا ہی غفور رحیم ہے۔ پس خدا کی پکڑ سے پہلے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجائیں اور اس بہترین کتاب پر ایمان لائیں جو اللہ نے اپنے فضل سے ان کی ہدایت کیلئے اتاری ہے، ورنہ ایک دن وہ ایمان کی حسرت کریں گے اور اپنی محروی پر اپنے سر پیٹیں گے لیکن وقت گزر جانے کے بعد ان کیلئے یہ چیز کچھ نافع نہیں ہوگی۔
(62۔75) خاتمۂ سورہ جس میں پہلے یہ وضاحت فرمائی گئی ہے کہ عبادت کا حقدار صرف اللہ تعالیٰ ہے، وہی ہر چیز کا خالق ہے اور اسی کے اختیار میں آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں۔ اس کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے مشرکین کو خطاب کرکے یہ اعلان فرمایا ہے کہ تم لوگ مجھے غیر اللہ کی عبادت کا حکم دیتے ہو؛ حالانکہ میری طرف اور مجھ سے پہلے تمام نبیوں کی طرف یہی وحی آئی ہے کہ جو اللہ کا شریک ٹھہرائے گا اس کے تمام عمل خبط ہوجائیں گے۔ اس کے بعد مشرکین کو ملامت کہ ان لوگوں نے خدا کی شان بالکل نہیں پہچانی۔ یہ فرضی معبودوں کی شفاعت کے بل پر جی رہے ہیں؛ حالانکہ جس وقت صور پھونکا جائے گا سب بے ہوش ہوکر گر پڑیں گے اور پھر جب دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو سب اٹھ کھڑے ہوں گے۔ زمین خدا کے نور سے چمک اٹھے گی، دفتر کھولا جائے گا، نبیوں اور گواہوں کی طلبی ہوگی اور لوگوں کے درمیان بالکل انصاف کے مطابق فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد اہل دوزخ اور اہل جنت کے حالات کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔