گاؤں اور شہر

محمد شاہد خان
عام طور سے جب گاؤں کا نام لیا جاتا ہے تو ایک سیدھی سادی زندگی کا تصور ابھرتا ہے جہاں چھل کپٹ، دروغ دھوکہ جھوٹ مکر و فریب سے پاک سماج آباد ہو جہاں سچائی اور ایمان داری کا بول بالا ہوں ، جہاں لوگ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے کام آتے ہوں اوربوقت ضرورت ایک دوسرے کی دستگیری کرتے ہوں اور جہاں فضائی آلودگی سے محفوظ ایک صاف وستھری آب وہوامیسر ہو اور کھیتوں سے تازی سبزیاں جسے آجکل organic کہا جاتا ہے دستیاب ہوں ، دیسی مرغ اوردیسی مرغی کےانڈے ، گائے اور بھینس کا تازہ و خالص دودھ مہیا ہو ، شام ہوتے ہی چوپال لگتی ہو جہاں گاؤں بھر کے مسائل پر چرچا ہوتی ہو اور دیر رات تک یہ سلسلہ چلتا رہتاہو، لوگ تمباکو بیڑی اور شوقیہ چیزوں کو آپس میں مل بانٹ کر وقت گزاری کیلئے کھاتے ہوں ، کھلیان میں کبڈی اور آم کے باغ میں لچی ڈاڑی کاکھیل ہو ، ساون بھادوں میں پیڑوں میں جھولے پڑجاتے ہوں ، ہر طرف اڑتے ہوئے پرندوں کا غول ہو چڑیوں کی چہچہاھٹ ہو ، گاؤں کے ماحول کو اکثر فلموں میں بڑی خوبصورتی اور کشش کے ساتھ فلمایا گیا ہے کسی فلم میں ایک نغمہ تھا کہ
گوری گاؤں ترا بڑا پیارا میں تو گیا مارا آکے یہاں رے
اس پر روپ ترا سادا،چندرما جیوں آدھا،آدھا جواں رے
رنگ برنگے پھول کھلے ہیں ، لوگ بھی پھول کے جیسے
آجائے اک بار یہاں جو ، جائے گا پھر کیسے

گاؤں کے تعلق سے ابن انشاء کی یہ نظم دیکھئے
چل انشاء اپنے گاؤں میں
یہاں الجھے الجھے روپ بہت

پر اصلی کم بہروپ بہت
اس پیڑ کے نیچے کیا رکنا

جہاں کم ہو دھوپ بہت
چل انشاء اپنے گاؤں میں

بیٹھے گے سکھ کی چھاؤں میں
کیوں تیری آنکھ سوالی ہے

یہاں ہر اک بات نرالی ہے
اس دیس بسیرا مت کرنا

یہاں مفلس ہونا گالی ہے
چل انشاء اپنے گاؤں میں

جہاں سچے رشتے یاروں کے
جہاں وعدے پکے پیاروں کے

چل انشاء اپنے گاؤں میں

گاؤں کے کردار کے تعلق سے منور رانا کا یہ شعر ملاحظہ ہو کہ
مرا خلوص تو پورب کے گاؤں جیسا ہے
سلوک دنیا کا سوتیلی ماؤں جیساہے
کسی اور شاعر کا شعر ہے کہ
آج بھی گاؤں میں کچھ کچے مکانوں والے
گھر میں ہمسائے کے فاقہ نہیں ہونے دیتے
گاؤں کا یہی وہ تصور ہے جسےہم نے اپنے بچپن میں دیکھا تھا اور شعراء اور ادباء کااسی طرح کا ڈھیر سارا کلام گاؤں کے تعلق سے کتابوں میں بھرا پڑا ہے
غرض کہ گاؤں کا مطلب ایک جنت نظیرماحول کا تصورتھا
اسکے برعکس شہری زندگی گھٹن ، تنگی ، مادہ پرستی ، جنس بازاری ، فضائی الودگی ، فریبی و دغاباز ،پیشہ ور اور چالاک لوگوں کی آبادی سمجھی جاتی تھی، پہلے کے زمانے میں گاؤں کے لوگ صرف تعلیم یا علاج کی غرض سے شہروں کا رخ کیا کرتے تھے لیکن رہائش کیلئے گاؤں ہی کو ترجیح دیا کرتےتھے
لیکن اب سب کچھ ویسا نہیں ہے بلکہ بہت کچھ بدل گیا ہے اب گاؤں میں وہ ساری خصوصیات باقی نہیں رہیں جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے اب گاؤں کے لوگوں میں ایک دوسرے کے تئیں نفرت ، حسد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ملے گا اب وہ تازہ و خالص دورھ یہاں مہیا نہیں ہے بلکہ گاؤں کا سارا دودھ شہر بھیج دیا جاتاہے پھرشہر سے دیہات میں سپلائی کیا جاتا ہے اب نہ وہ دیسی مرغیاں ملتی ہیں اور نہ ہی دیسی مرغی کے انڈے،اب تو لگتا ہے کہ شاید پرندے بھی کہیں ہجرت کرگئے ہیں ، اب گاؤں میں سبزیاں بھی بازار سے خرید کر لائی جاتی ہیں ،اب نہ وہ کھیل کود ہوتے ہیں اور نہ ہی چوپال لگتے ہیں ، ہاں غلہ اب بھی کھیتوں میں پیدا ہوتا ہے ہرے ہرے کھیت اب بھی لہلہاتے ہیں ،لیکن اب کسان بھی بہت سارا غلہ خرید کر کھاتا ہے اوروہ اپنے کھیتوں میں صرف وہ فصل اگاتا ہے جس کی قیمت بازار میں زیادہ ملتی ہو ، تازہ آب و ہوا اب بھی دستیاب ہے لیکن اب گاؤں کی زندگی میں وہ کشش باقی نہیں رہ گئی ہے جو کبھی ہوا کرتی تھی ،دیسی حسن جس کا اپنا ایک خاص رنگ اور کیفیت ہےاب وہ بھی سورج کی تپش سے جلتا جا رہا ہے ، اب شہری زندگی گاؤں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوگئی ہے اسلئے گاؤں سے شہروں کی طرف ہجرت کا رجحان بے تحاشا بڑھا ہے ایک اندازے کے مطابق اگلے بیس پچیس سالوں گاؤں کی ستر فیصد آبادی شہروں میں منتقل ہوجائے گی ، شہروں میں ،اسکول ، ہاسپٹل ، سڑک بجلی کی سہولیات ،روزگار،کھیل کود اور خدمات کے ضمن کی ساری چیزیں مہیا ہیں ، لوگ ایک دوسرے کا بلا معاوضہ تعاون تو نہیں کرتے ہیں لیکن حسد و جلن بھی نہیں کرتے ہیں بلکہ شہروں میں اکثر لوگوں کو اپنے پڑوسی کی بھی خبر نہیں رہتی ہے کہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے اب شہروں میں انسانی ضروریات کی چیزیں اداروں اور کمپنیز کی شکل اختیارکرتی چلی جارہی ہیں اور زندگی دن بدن منظم ہوتی جارہی ہے۔
لیکن اگر گاؤں کے سدھار اور سہولیات کی طرف توجہ نہ کی گئی تو شہری آبادی گاؤں کے بوجھ سے چرمرا اٹھے گی اور ماحولیاتی الودگی بلدیاتی نظام ، شہری ترقیاتی پروگرام سب متاثر رہےگا ، آج بھی ہمیں گاؤں کی یاد آتی ہے آج بھی اپنے بچپن والا گاؤں تلاش کرتے جس کا اظہار کسی شاعر نے یوں کیا ہے کہ
یہ شہرِتمنا یہ امیروں کی دنیا
یہ خود غرض اور بے ضمیروں کی دنیا
یہاں سکھ مجھے دو جہاں کا ملا ہے
میرا گاؤں جانے کہاں کھو گیا ہے

وہ گاؤں کے بچے، وہ بچوں کی ٹولی
وہ بھولی، وہ معصوم چاہت کی بولی
وہ گُلی وہ ڈنڈا وہ لڑنا جھگڑنا
مگر ہاتھ پھر دوستی سے پکڑنا
وہ منظر ہر اک یاد پھر آ رہا ہے
میرا گاؤں جانے کہاں کھو گیا ہے

وہ چوپال وہ نانی اماں کے قصے
وہ گیتوں کی گنگا، وہ ساون کے جھولے
وہ لٹتا ہوا پیار وہ زندگانی
ہے میرے لئے بُھولی بسری کہانی
چھلکتی ہیں آنکھیں، یہ دل رو رہا ہے
میرا گاؤں جانے کہاں کھو گیا ہے

یہ چاندی، یہ سونا، یہ ہیرے یہ موتی
تھی انمول ان سب سے اک سوکھی روٹی
جو میں نے گنوایا نہ کوئی گنوائے
کہ گھر چھوڑ کوئی نہ پردیس آئے
ملے گا نہ اب وہ جو پیچھے لٹا ہے
میرا گاؤں جانے کہاں

تبصرے بند ہیں۔