عدالت

محمد حسن

 مستان کورٹ کے باہر کھڑا وکیل صاحب کےآنے کا انتظار کر رہا تھا، کورٹ کی سنوائی کا وقت ہونے ہی والا تھا،نو بجنے میں صرف دس منٹ باقی رہ گئے  تھے،  اس کی دائیں طرف سے جج صاحب کا گزر ہوا جدھر سے جج صاحبان کو  عدالت پہونچنے کا خاص راستہ تھا،  مستان کورٹ میں تقریبا  ہر آدمی کو جانتا اور ہر چیز کو پہچانتا تھا،  کورٹ کی دیواریں اسے اپنے گھر سے زیادہ جانی پہچانی ہوگئی تھیں کیونکہ جب سے  اس کا معاملہ کورٹ پہونچا تھا ہر مہینے تاریخ پر حاضری دینے اسے آنا ہی ہوتااور ساتھ میں وکیل صاحب کی جی حضوری اور خوشامد کے لئے برابر اسے کورٹ میں حاضر رہنا پڑتا، وکیل صاحب جہاں اس سے خوب پیسے اینٹھتے وہیں روزانہ ثبوتوں اور گواہوں کی تفتیش اور کھوج کے لئے اسے کورٹ آنے کی تاکید کرتے اور مستان بے چارہ کام سے بھی جاتا اور پیسے سے بھی، اسے پیچھے سے کسی کے آنے کی آہٹ سنائی دی  مڑ کر دیکھا تو اس کے وکیل حضرت تھے جن کے انتظار میں وہ ایک گھنٹے سے کھڑا تھا، وکیل صاحب نے آتے ہی سوال داغا اور اپنے نکھرے اس پر چھاپ دیئے، (سنوائی کے دن وکیل صاحب کا رویہ بالکل بدل جاتا، گئے دنوں میں تو بہت لمبی چوڑی چھوڑتے اورکہتے مستان اس بارفیصلہ تمہارے حق میں محفوظ ہوجائے گا، زیادہ چنتا مت کرو، وکیل ہوں میں، یہ کالا پوشاک دیکھ رہے ہو،  اس کو میں کالا جادو ہے اور یہ کالا اسی لئے ہے کہ اس پر جادو کا اثر ہے ان کی باتوں سے مستان کو ایسا لگتا کہ انہیں وکالت کے چولے میں قانون نہیں بلکہ جادوگری پڑھائی گئی ہے  لیکن مستان  ٹھہرابے چارہ، کرتا کیا، گھر کا نہ گھاٹ کا)مستان کہاں ہیں تمہارے گواہ اور کہاں ہیں وہ ثبوت جسے میں نے تم کو لانے کے لئے کہا تھا، جان لو آج بھی اگر تم نے غفلت سے کا م لیا ہے تو فیصلہ تمہارے خلاف چلا جائے گا اور میں کسی بھی طرح سے اس کا ذمہ دارنہیں ٹھہروں گا، میرا کام وکالت کرنا ہے، میں صرف تمہاری طرف داری کرسکتا ہوں، تمہارے احساس کو آواز دے سکتا ہوں اور تمہاری صدا اپنی زبان سے بلند کرسکتا ہوں لیکن میں موکل نہیں بن سکتا،  میں ایک وکیل ہوں، پھر وکالت اور جادوگری پر لاکر بات اٹکا دیتے۔۔اور ‘گئے وقت کچھ ہاتھ نہ حاصل’کی روایت باقی رہ جاتی اور مقدمہ کی سنوائی ختم ہوجاتی۔

اس بار بھی وہی ہوا، ہر بار کی طرح سارے گواہ  مکر گئے اور مقدمہ اگلی سنوائی کے لئے ملتوی ہوگیا۔ عدالت سے باہر نکلتے ہی وکیل صاحب نے مستان کو کھانے چبانے والی نظروں سے دیکھا، لعن طعن سے نوازا، گالیوں سے زینت بخشی اور سب وشتم کا مالا پہنایا پھر مستان کو  یہ دھمکی دی کہ اس بار میں تمہارا مقدمہ چھوڑ دوں گا،  تم کوئی دوسرا وکیل دیکھ لو، تم تو مذاق بنتے ہی ہو، مخالف وکیل مجھے چِڑھاتی نظروں سے دیکھتے ہیں اور جج صاحب کے سامنے مجھے شرمندگی کی مار برداشت کرنی پڑتی ہے۔آخر تمہارے گواہ مکر کیوں جاتے ہیں؟ کیا تم انہیں نقدی نہیں دیتے ؟ یا کم دیتے ہو، یا انہیں لالچ نہیں دلاتے کہ مقدمہ جیت جانے کی صورت میں مستقبل میں تم ان کی مدد کروگے، آخر ماجرا کیا ہے؟مستان چپ چاپ کھڑا سنتا رہتا،  اسے بھی سمجھ نہیں آتا کہ یہ ایسا کیوں ہوجاتا ہے، یہ لوگ تو خود میرے ساتھ کورٹ آنے کے لئے اصرار اور ضد کرتے ہیں،  یہ سب میرے پڑوسی ہیں،  ان میں سے کچھ میرے چچا زاد بھائ بھی ہیں لیکن یہاں ان کو آتے ہی کیا سونگھ جاتا ہے کہ ان کی زبان سے ہاں کے بجائے نا نکلنے لگتا ہے، کہیں یہ جج صاحب کو دیکھ کر  ڈر تونہیں جاتے لیکن جج صاحب کی تو کوئی مداخلت بھی نہیں ہوتی یہ واقعی مستان کے لئے بھی ایک حیران کن معاملہ تھا۔وکیل صاحب منہ پھیر کر چلے جاتے اور مستان گھر کا راستہ ناپ لیتا، گھر پر پہلے  سے  ہی اس کی بیوی مختلف سوالات لئے  اس کا استقبال کرنے کا منتظر رہتی، جیسے ہی مستان گھر میں داخل ہوتا اس کی بیوی بجائے  کچھ کھانا پانی دیئے سارے سوالوں کا ایک ہی سانس میں بوچھار کر ڈالتی اور مستان بستر پر دھڑام سے گر اشکبار ہوجاتا اور نم آنکھیں لئے تقدیر کے مالک سے دل ہی دل شکایت کرتا، اس کی بیوی  حالت دیکھ کر سمجھ جاتی کہ آج پھر گواہ ہمیشہ کی طرح مکر گئے ہیں کیوں  کہ یہ  پانچواں سال  تھااس کے مقدمے کا اور اب تک سو سے زائد سنوائیاں ہوچکی تھیں۔

تھوڑی دیر بعدجب اس کی بیوی اسے تسلی دلاتی تو سارا  داستان کہتا اور وکیل کی ڈنکیتی اور طنز وخوار باتوں کا چرچا کرتا،وکیل ہونے کے نام پر وہ ایک کلنک تھا، روزانہ اسےکورٹ بولا کر، خود غائب رہتا، جس دن پیسے لینے ہوتے صرف اسی دن تھوڑی دیرے کے لئے نظر آتا اور پھر نو دو گیارہ ہوجاتا۔

مستان عدالت کا چکر کاٹنے اور وکیل کے جھانسے سے پوری طرح  اُب چکا تھا، اسے  اب کسی وکیل میں سچائی نظر آتی اور  نہ ہی عدالت میں انصاف کی امید باقی رہ گئی،  بستر پر لیٹےہوئے اسے انصاف کے خالی ترازو    اوراس کے آنکھوں پر بندھی کالی پٹی  اب مایوسی کی وجہ بن رہے تھے، عدالت میں چپ چاپ بیٹھا جج  اسے کوئی گونگا شخص محسوس ہورہا تھا، جس کے اختیار میں عدالت تھی لیکن وہ اس کا کٹ پتلی بن کر رہ گیا تھا۔ مستان کے سامنے اب صرف ایک ہی راستہ بچا تھا  اور و ہ یہ کہ گھر کی زمین جس پر مکھیا کا دعوی تھا کہ اس کے پُروجوں کی ہے اسے لوٹا دے اور عدالت سے انصاف کی امید ترک دے ورنہ اس کی ہستی عدالت کے گِرد گھوم کر بہت جلد خاک ہوجائے گی،  اس کا نام ونشان مٹ جائے گا اور عدالت کے آنکھوں پر پٹی جوں کا توں رہے گی، قانون ساز ویسے کے تیسے رہیں گے اور عدالت میں قانون کی بولی بولنے والے جادوگر اپنی وکالت کی جادوگری دکھاتے رہیں گے اور نوٹ بٹورتے رہیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔