مشرف عالم ذوقی کا ناول: پوکے مان کی دنیا

ڈاکٹر کوثرمظہری

(شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)

جب میں نے بانو قدسیہ کے ناول ’راجہ گدھ‘ پر فکشن کے مشہور ناقد وارث علوی کا تیس صفحے کا مضمون پڑھا تو یہ انکشاف ہوا کہ ایک ناکام ناول پر بھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ حالانکہ میں اسے ناکام ناول تصور نہیں کرتا بلکہ وارث علوی نے یہ فتویٰ صادر فرمایا ہے۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ ناول اگر ناکام ہے تو کیا وارث علوی کا مضمون بھی بیکار ہے اور اگر مضمون کسی کام کا نہیں تو موصوف نے اتنی خوبصورت ناکام کوشش کیوں کی؟ معلوم نہیں مشرف عالم ذوقی کے ناول ’پوکے مان کی دنیا‘ کے حوالے سے میری یہ کوشش ناول اور مضمون دونوں کو کہاں پہنچاتی ہے؟

عہد رفتہ کے حوالے سے اگر ہم ناولوں پر گفتگو کریں تو اس میں آزادی ہے۔ پہلی آزادی تو یہی ہے کہ بیشتر ناول نگار مرحوم ہوچکے یا پھر وہ خود یا ان کے حوارییّن رفتار زمانہ سے بچھڑ گئے، لیکن نئے ناولوں پر گفتگو کرنا ’لوہے کے چنے چبانا‘ ہے۔ سب کے سب یا بیشتر ناول نگار حاضر یا پھر حاضر نہیں تو کم ازکم حیات سے تو ہیں ہی۔ لہٰذا آج نئے ناولوں پر جو کچھ بھی لکھا پڑھا جاتا ہے، بہت سوچ سمجھ کر۔ سو مجھے کیا پڑی ہے کہ اپنا سر اوکھلی میں دوں ۔ یعنی مجھے بھی بہت سنبھل کر اور حزم و احتیاط کے ساتھ اس ناول پر کچھ لکھنا ہے۔

آج کے تناظر میں اہم بات یہ ہے کہ کائنات اور اشیائے کائنات کی تفہیم میں ناول نگار کتنا کامیاب ہے۔ موضوع کا انتخاب اور پھر اس کی پیش کش جو واقعے، حادثے، وقوعے وغیرہ کو زماں و مکاں (Time & Space) سے ہم آہنگ کرکے ایک تخلیقی فن پارہ بنا دیتی ہے، وہ کیسی ہے اور ہم اس سے کہاں تک مطمئن ہیں ۔ ایک سچے فنکار کے لیے ضروری ہے کہ موضوع کو پرکھنے اور اس کی چھان پھٹک کرنے کے بعد ہی ناول کے لیے اسے منتخب کرے۔ یہ بھی خیال ہے کہ ناول ایک Artistic Genre  ہے۔ یعنی اگر موضوع آرٹ نہیں بن پاتا تو اس Genre کی کسوٹی پر ناول پورا نہیں اُتر سکتا۔ میرا تو ماننا ہے کہ ناول محض ایک Genre نہیں بلکہ اس کے دو قدم آگے کی چیز، یعنی ایک Dicipline ہے۔ ظاہر ہے ڈسپلن کے مالہٗ وماعلیہ (Pros & Cons) سے آپ بخوبی واقف ہیں ۔

آج اگر ہم سرسری طور پر بھی نئے ناولوں کی فہرست تیار کریں تو بیس بائیس نام آہی جائیں گے۔ اس وقت جو ناول یاد آرہے ہیں وہ اس طرح ہیں : نمک (اقبال مجید)، فرات (حسین الحق)، مہاساگر (عبدالصمد)، آخری داستان گو (مظہرالزماں خاں )، تین بتّی کے راما (علی امام نقوی)، مہاماری (شموئل احمد)، بادل اور کابوس (شفق)، دویّہ بانی، وِش منتھن (غضنفر)، اوس کی جھیل (انل ٹھکّر)، دل مُن ( یعقوب یاور)، اگر تم لوٹ آتے (آچاریہ شوکت خلیل)، جانے کتنے موڑ (آشا پربھات)، آنکھ جو سوچتی ہے (کوثرمظہری)، موت کی کتاب، نعمت خانہ (خالد جاوید)، لمینیٹڈ گرل (اختر آزاد)، میرے نالوں کی گمشدہ آواز (محمد علیم)، جنگ جاری ہے (احمدصغیر)، روحزن (رحمن عباس) وغیرہ۔

آئیے اب ذوقی کے ناول ’پوکے مان کی دنیا‘ کی طرف چلتے ہیں ۔ دو ابتدائی اقتباس دیکھیے:

’’آنکھیں بند کرتے ہی ایک چمکیلی سی دُھند آجاتی ہے۔ دُھند کے اُس پار سے کوئی منظر، مجھ پر حملہ کرنا چاہتا ہے مگر آنکھیں تو بند ہیں ۔ منطروں کے آنے کا راستہ بند…..‘‘ (ص 13)

میں ایک جج ہوں ، جو ڈیشیل مجسٹریٹ یہ صرف اس لیے بتا رہا ہوں کہ اس کے بغیر شاید میں آپ کو وہ سب کچھ نہ سمجھا پاؤں ، جو بتانا چاہتا ہوں … اور ہر جج کی طرح میرا ایک نام ہے۔ سنیل کمار رائے….. ایک چھوٹا خاندان ہے۔ بیوی اسنیہہ لتا رائے اور دو بچے۔ نتن اور رِیا۔ نِتن کمپیوٹر انجینئرنگ کرپارہا ہے۔ ریاکالج میں ہے۔‘‘ (ص 14)

پہلا اقتباس ناول کا درکھولتاہے۔ دوسرا اقتباس مرکزی کردار سنیل کمار رائے اور اس کے خاندان کا تعارف پیش کرتا ہے۔ پہلے اقتباس میں جس ’چمکیلی سی دھند‘ کا استعمال ہوا ہے، اس ترکیب کا استعمال پورے ناول میں کم و بیش دس گیارہ جگہوں پر ہوا ہے۔ یہ ترکیب اپنا معنوی انسلاک اور اپنا ایک استعاراتی نظام (Metaphorical framework) بھی رکھتی ہے۔ ’دُھند میں چمک‘ گویا ایک مٹتی بجھتی زندگی میں ا ُمید کی کرن کا استعارہ ہے۔ سنیل رائے کے سامنے بھی ایک  دھند ہے لیکن اس میں اُمید کی ایک چمکیلی کرن بھی ہے۔ یہ ’دھند‘ سنیل کمار کے لیے آج کا مغربی کلچر ہے اور جو ’چمک‘ ہے وہ اپنے اقدار و روایات کا اشاریہ ہے۔ چونکہ اس ناول کا موضوع کلچرل تصادم ہے اور اس تصادم کے اسباب کا تجزیاتی نظام اس میں شامل ہے۔ اس لیے ناول نگار نے ’چمکیلی دُھند‘ جیسا ایک تخلیقی استعارہ وضع کیا ہے۔ یہ استعارہ موضوع کی تفہیم اور تفہیم کے لیے کائنات کو Penetrate کرنے کا ایک آلہ بھی بن گیا ہے۔ ناول کا بیانیہ یہی کہتا ہے، ناول کے کردار اور ناول کے وقوعے یہی کہتے ہیں ۔ یہ میرا ذاتی زاویۂ تفہیم ہے جس سے اختلاف کی پوری گنجائش موجود ہے۔ اختلاف اگر منہا کرلیا جائے تو پورا ادب شفاف چشمے کے بجائے ایک کائی جمے ہوئے جوہڑمیں تبدیل ہوجائے گا۔

’پوکے مان کی دنیا‘ مگر غیرادبی سا نام لگتا ہے۔ مجھے بھی یہ نام سن کر اچھا نہیں لگا تھا۔ سوچا تھا کہ ذوقی صاحب نے کچھ جدیدیوں کی سی فیشن پرستی کی چادر تو نہیں اوڑھ لی۔ لیکن ناول پڑھ کر ان کی جدت کاری اور جودتِ طبع کی داد دینا پڑی کہ انھوں نے بڑی خوشی اسلوبی سے پوکے مان کو عہد حاضر کے کلچرل ڈسکورس میں ضم کردیاہے۔ جاپان کی ڈیزائننگ کمپنیوں نے پوکے مان کو جس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور اس کے جو منفی اثرات مشرقی ممالک پر مرتب ہورہے ہیں ، ذوقی نے اپنی تیسری آنکھ سے اس تبدیلی کو دیکھنے اور اپنی قوت مدرکہ (Power of perception) سے اس کی تفہیم کی کامیاب کوشش کی ہے۔ سنیل کمار رائے کا کردار جس طرح مضطرب اور بے چین نظر آتا ہے، اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ذوقی نے ایک تخلیق کار کی بے چینی اس کردار کی سرشت میں بھر دی ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ ناول میں ساتھ ساتھ  موجود رہتے ہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو ناول کا تانا بانا بگڑ جاتا، کیوں کہ ایسے میں معروضیت (Objectivity) مجروح ہوجاتی ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو فنکار بہت چالاک ہوتا ہے وہ کرداروں کی شریانوں میں پوری طرح حلول کرجاتا ہے۔ ایسے میں وہ متعلق بھی ہے اور نہیں بھی۔ کسی بھی فن پارے کا اصل اعجاز و معیار بھی یہی ہے۔ جب کردار فن کار پر حاوی ہوجاتا ہے تو ایسے میں فن مجروح ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ایک مضحکہ خیز صورتِ حال بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ مشہور فکشن رائٹر جیمس جوئس کے نزدیک آرٹ کی معراج یہ ہے کہ فنکار کائنات کے خالق کی طرح اپنے فن پارے کے اندر بھی ہو اور باہر بھی، اس کے پیچھے بھی اور اس کے اوپر بھی اور اپنی تخلیق سے بالکل بے پروا دور کھڑا ناخن تراشتا ہوانظر آئے۔ فلابیرؔ کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ فنکار کو چاہیے کہ وہ اپنے کردار کی شخصیت میں فنا ہوجائے اور کردار کو اپنی شخصیت میں گم نہ ہونے دے۔ ’پوکے مان کی دنیا’ میں ذوقیؔ نے جس طرح اپنے کرداروں کو پیش کیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس مذکورہ بالا راز سربستہ کو پالیا ہے۔

سنیل کمار رائے جج بھی ہے اور ایک حساس انسان بھی۔ وہ بارہ سال کے Rapist بچے کو بچانے کی فکر میں ہے۔ وہ اس بچے سے ملنے کئی بار ریفارم ہاؤس جاتا ہے اور اس کے حرکات و سکنات کو Watch کرتا ہے۔ انٹرنیٹ سے اس طرح کے مقدموں کے حوالے سے معلومات فراہم کرتا ہے اور اپنے وکیل دوست نکھل اڈوانی سے بار بار اس سلسلے میں مشورے کرتا ہے۔ اس کردار کے اس عمل سے اس کے اخلاص اور Seriousness کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک ریپ کرنے والے بچے کو بچانا دراصل اس نئی نسل کو بچانا ہے جو مغربی اور Imported کلچر کے سیلِ تُند میں بہتی جارہی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ذوقی نے کچھ پالیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جس طرح آرکمیڈیس (Archimedes) نے پانی میں غوطہ لگاتے ہوئے کچھ پالیا تھا اور پھر وہ ننگا ہی پانی سے باہر آکر یوریکا یوریکا (Eureka) کہہ رہا تھا، چلّا رہا تھا۔ دیکھنے والے اسے پاگل سمجھ رہے تھے۔ حالانکہ اُس نے غوطہ لگاتے ہوئے Law of Buoyancy کو پالیا تھا۔ کبھی کبھی فنکار بھی سائنٹسٹ ہوتا ہے یا یوں کہیں کہ سائنسی زاویۂ نظر سے دنیا میں ہورہے تغیر و تبدل کو دیکھتا ہے۔ ذوقی بھی گویا پوکے مان کی دنیا میں آرکمیڈیس کی طرح مستغرق تھے۔ دریں اثنا انھیں کچھ ہاتھ آگیا۔ کلچرل آلودگی کا نیا استعارہ، دھندمیں ایک کرن اور ان کے درمیان دو نسلوں کی سوچ میں تفاوت اور اس کے اسباب۔ پھر وہ چلاتے ہوئے باہر آئے اور ہماری دنیا میں آکر ’پوکے مان کی دنیا‘ کی ایک دل دوز اور لرزہ خیز کہانی سنانے لگے۔ ہم دم بخود ان کے چہرے بشرے کو دیکھنے لگے۔ ان کے قفس عنصری میں ایک سیمابی روح نظر آئی۔ اُن کے اس ناول میں میکانکی طرز کا ماحول نہیں ملتا۔ ملتا بھی کیسے، کہ ’پوکے مان کی دنیا‘ سے لوٹ کر آنے والا آدمی میکانکی طرز فکر سے رشتہ استوار نہیں رکھ سکتا۔ حضرتِ وارث علوی نے بجا طور پر لکھا ہے کہ ’’ناول کا سب سے بڑا کام دریافت ہے، انکشاف ہے، صداقت کی تلاش ہے۔‘‘ (بورژواژی بورژواژی: وارث علوی، ص 37)

گویا ذوقی نے ’پوکے مان کی دنیا‘ تلاش کرلی ہے جو اردو والوں سے بہت دور تھی۔ اِس طرح وہ اس صنف ادب کے واسکوڈی گاما بھی ہوگئے۔ دریافت کرنا کوئی کھیل نہیں ۔ پھر یہ کہ سائنس کے لیے تو Laboratory ہوتی ہے جہاں تجربے ہوتے رہتے ہیں ، لیکن ادب میں اور وہ بھی ناول جیسی صنف میں یہ کام بے حد مشکل ہے کہ تجربوں کے لیے یہاں کوئی Laboratory نہیں ہوتی۔ یہاں تو جو کچھ بھی ہے فنکار کا اپنا Power of Perception ہے، اس کی اپنی بصیرت ہے  اور تجربے کی کسوٹی ہے۔ بہرحال ذوقی نے اپنے ماقبل ناولوں نیلام گھر، بیان، ذبح سے آگے جاکر کچھ دریافت کرلیاہے۔

ذوقی کے ناول ’بیان‘ میں بالمنکد شرما جوش اور اس ناول میں سنیل کمار رائے، حسین الحق کے ناول ’فرات‘ میں وقار احمد، عبدالصمد کے ناول ’مہاساگر‘ میں ویاس جی اور منشی جیسے کردار روایات، اقدار اور قومی یکجہتی کے عناصر کو پیش کرتے ہیں ۔ شاید یہ کردار ناول میں تضاد معنوی پیداکرنے کے لیے آئے ہیں ۔ غور کریں تو یہ کردار اس عہد میں موضوع کے لحاظ سے ضرورت بھی بن گئے ہیں ۔ جس طرح ذوقی کے ’پوکے مان کی دنیا‘ میں سنیل کمار رائے کا بیٹا نِتن اور بیٹی رِیا اپنے آپ کو نئی سوسائٹی میں ڈھال چکی ہے، اسی طرح ’فرات‘ میں وقار احمد کے بیٹے تبریز اور بیٹی شِبل دونوں مغربی تہذیب سے ہم آہنگ ہوچکے ہیں لیکن اس مماثلت کے باوجود دونوں ناولوں کا تناظر الگ ہے۔

مرکزی کردار سنیل کمار رائے پوکے مان کی اسٹڈی کررہا ہے۔و ہ یہ بتاتا ہے کہ جاپانی کمپنی نے 150 طرح کے پوکے مان کے ماڈل تیار کیے ہیں ۔ میں ایک سو اکیانواں پوکے مان ہوں جسے جاپانی کمپنی نے اب تک ڈیزائن نہیں کیا ہے۔ (ص 16) ناول کے دوسرے باب میں سنیل کمار گھر کی سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے جو منظر پیش کرتا ہے وہ اس فیملی کے روایتی کلچر کی شکست و ریخت اور نئی پیڑھی میں تیز ی سے آرہی تبدیلی کی چغلی کھاتا ہے۔ ’’وہ زمانے سے بے نیاز تھی۔ بے حد تنگ کپڑوں میں ۔ سلیولِس شرٹ اور شارٹ جینس لیکن میں اس کے کپڑوں کا جائزہ لے سکتا تھا، نہ ہی اس کے جسم کا— وہ میری بیٹی تھی۔ ریا۔‘‘ (ص 17)میرے لیے یہ بات کچھ زیادہ ہی اداس کرنے والی تھی۔ یہ بیٹیوں میں لڑکی والا جسم کیوں آجاتا ہے۔‘‘ (ص 18)

 ’’بیٹی میں لڑکی والا جسم‘‘ ایک معنی خیز اور متحرک Ironical فقرہ ہے۔ بس یہیں سے ’چمکتی دھند‘ شروع ہوجاتی ہے۔ سنیل کمار بیوی، بیٹی اور بیٹے کے ساتھ اپنی منفرد سوچ اور احساس لے کر سوتا، اٹھتا، جاگتا ہے۔ وہ اندر ہی اندر روتا بھی ہے اور ہنستا بھی ہے۔ سب کے رہتے ہوئے بھی وہ کبھی کبھی شدید تنہائی محسوس کرتا ہے۔ اُسے اپنا گوپال گنج کا گاؤں یاد آتا ہے اور پھر وہاں کے لوگ کھانے کی میز پر جب سب آپس میں محو گفتگو ہوتے ہیں تو سنیل کمار رائے جیسے اپنے آپ سے گفتگو کرنے لگتا ہے۔ بیٹے اور بیٹی کی باتیں اس کے دل پر تیر کی طرح لگتی ہیں ۔ نتن اور ریابار بار اپنے ڈیڈ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کے وقت میں یہ سائبر کیفے تھا؟ یہ ٹی وی تھی؟ کمپیوٹر، فریج، کلب، ہیلتھ کلب، ڈسکو؟ سنیل کمار سب کا جواب نفی میں دیتا ہے۔ ریا سوال کرتی ہے:

’’تب، تب تم لوگ جیتے کیسے تھے پاپا؟‘‘

اس سوال پر سنیل کمار کے باطن میں کپکپی سی پیدا ہوتی ہے۔ اس کا وجود مرتعش ہوجاتا ہے۔ باطن کی آوازابھرتی ہے:

’’کیاکہوں بچوں کو۔ تب ہم زیادہ جیتے تھے۔ تم سے زیادہ۔ کھانے کی میز پر یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ کسی شوک سبھا میں ا ٓگئے ہوں ۔‘‘

چاندنی راتوں کا رس پیتے تھے۔ جھوم جھوم جھیّاجھیّا۔

تاتا۔ تھیّا۔ ہاہا۔ ہیّا۔

تب چاندنی راتیں ہوتی تھیں ۔ چھت پر ہمارا بستر ہوتا تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں ہوتی تھیں ۔ تب ہم کہانیاں دیکھتے نہیں سنتے تھے۔ پتا جی اور بڑے بوڑھوں کے منھ سے۔‘‘ (ص 25)

سنیل کمار یہ بھی کہتا ہے کہ ہم اس وقتReality کی دنیا میں جیتے تھے اور آج تم سب Fantasy کی دنیا میں جیتے ہو!یہ سن کر ریاکا شدید ردعمل سامنے آتا ہے جس سے دو نسلوں کی سوچ میں بنی ہوئی واضح کھائی دیکھی جاسکتی ہے:

’’ریا زور سے چیختی ہے۔ یہ ہے جنریشن گیپ،آپ کے اور ہمارے بیچ کا ڈیڈ۔ آپ ہماری جنریشن میں بیکٹریا ڈھونڈوگے۔ غلط باتوں کا بیکٹریا۔ یو آر سو کنزرویٹو اینڈ سو اولڈ فیشنڈ…‘‘ (ص 28)

رِیا نے جو کچھ کہا،وہ غلط تو نہیں ۔ سارا چکّرہی جنریشن گیپ کا ہے۔ لیکن کیا سنیل کمار رائے کی سوچ اپنی جگہ غلط کہی جاسکتی ہے؟ اس کا گوپال گنج کے اپنے گاؤں کو یادکرنا، کھلی چھت پر بستر لگا کر سونااور بڑے بوڑھوں سے کہانیاں سننا، کیا زندگی کی جڑوں کو روشن نہیں کرتا۔ ہم اسے ایک طرح سے Root Revivalism کا اشاریہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ یہی جڑوں کی تلاش انتظار حسین کی بیشتر تحریروں میں ملتی ہے جسے Nostalgia سے موسوم کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے منفی رویہ بھی تصور کرتے ہیں لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ اسی رویے کی نیو پر تہذیبی اقدار کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ بیٹی جب ترکی بہ ترکی جواب دیتی ہوئی باپ کو کنزرویٹو‘ اور ’اولڈ فیشنڈ‘ کہتی ہے تو کیا زہر بجھا ہوا تیر باپ کے دل کو چھیدتا ہوا پار نہیں کرجاتا ہوگا؟ مجھے تو لگتا ہے کہ ساری کی ساری قدریں چھلنی ہوجاتی ہوں گی۔ سنیل کمار رائے جس کمرے میں بیٹھ کر مطالعہ کرتاہے اور اپنے دوستوں سے مشورے اور گفتگو کرتا ہے، اسے اس کی اولادیں ’لاک اَپ‘ کہہ کر پکارتی ہیں ۔ اس کمرے کو ’لاک اَپ‘ سے موسوم کرنے میں بھی طنز و تضحیک کا پہلو ہے۔ سنیل کمار کو دکھ ہوتا ہے کہ اس کا بیٹا نتن اس ملک میں ہندوتواکے پرچار کا بھی شکار ہوچکا ہے سنیل کمارکو ایسااس لیے لگتا ہے کہ وہ گودھرا، گجرات فساد، ایکشن اور ری ایکشن پر بڑے ہی شد و مد سے اپنی رائے پیش کرتا ہے۔

ذوقی نے سنیل کمار کے اندر 12 سالہ روی کنچن کے تئیں ہمدردی کا جذبہ بھرد یا ہے مگر یہ کام آسانی سے نہیں ہوا ہے۔ اس کردار نے بچے کی نفسیات کو قریب سے پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ Rape کے پیچھے کام کرنے والے نفسیاتی عوامل کا گہرائی سے مشاہدہ کیا ہے۔ وہ انٹرنیٹ سے بچوں کی دل چسپی کی چیزیں اکٹھا کرتا ہے۔ اپنے دوست نکھل اڈوانی سے دوران گفتگو سنیل کمار کہتا ہے:

’’بچے ہر اس ہیرو کو رئیل ہیرو تسلیم کرتے ہیں جو ظلم کے خلاف لڑتا ہے۔ اب ہیری پوٹر کو لو۔ جے کے رولنگ نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ — بچے اس کی نئی کتابوں کے ایڈیشن کے لیے موسم سرما کی سرد ترین راتوں میں رات سے ہی ایک لمبی قطار میں کھڑے ہوں گے—  فینٹاسی کی دنیا میں رہ رہے بچے Neo بن گئے ہیں جو خوابوں میں رہتا ہے۔ ذرا سوچو ہندوستانی بچوں کو یہ خواب کون دے رہا ہے۔ بچوں کو ایک آدمی کا جیتنا پسند ہے۔ اس فتح یا جیت کے بیچ کس کی جان جاتی ہے، بچے جاننا نہیں چاہتے۔‘‘ (ص 77)

یہ ذہنی جست و اُفتاد ایک ریپ کیس کو سلجھانے کے لیے ہے۔ 12 سال کا روی کنچن کیا اپنی ہم عمر کلاس میٹ سونالی کا ریپ کرسکتا ہے۔ اگر کرسکتا ہے تو اس کے پیچھے کام کرنے والے عوامل کون سے ہوسکتے ہیں ۔اس کی تہہ میں پہنچنے کے لیے ذوقی سیاست اور معاشرے کے تمام چلتے پھرتے پوکے مانوں کو کھنگالا ہے۔ ان کے ذہنوں کو ٹٹولا اور کھولا ہے۔ سنیل کمار اس کی فکر میں ہے کہ روی کنچن کی اس Tendency کی تہہ تک وہ کسی طرح پہنچ جائے۔ روی کو ریفارم ہائوس میں رکھا گیا ہے۔ سنیل کمار اس سے کئی بار ملنے جاتا ہے۔ ناول نگار نے اس بچے کو مغرور، غصے والا اور Arrogant دکھایاہے۔ سنیل کمار سے وہ کسی طرح مخاطب نہیں ہوتا۔ ’’فرینڈ فرینڈ‘‘ کہہ کر پکارنا بھی بے سود ثابت ہوجاتا ہے۔ سنیل کمار اپنی ڈائری میں کچھ نوٹ کرکے واپس آجاتا ہے۔

ذوقی قارئین کی اکتاہٹ کے مدنظر سنیل کمار کو اس کے اپنے گھر کے معاملات و معمولات کے ساتھ بھی دکھاتے ہیں ۔ سنیل کمار کا بیٹا نتن بلیو برڈ کمپنی میں کام کرنے لگتا ہے اور ریا ایک ’ہیلپ موزک‘ سے اپنا رشتہ جوڑ لیتی ہے۔ اس کا ایک بوائے فرینڈ گھر میں آنے جانے لگتا ہے۔ کھانے کی میز پر ایک اجنبی کو دیکھ کر سنیل کمار چونکتا ہے۔ ریا اور سنیل کمار کے درمیان مکالمہ دیکھیے:

’’یہ کون ہے؟‘‘ میرے لہجے میں سختی تھی۔

’’مائی فرینڈ‘‘/ ’’رات کے دس بج رہے ہیں ‘‘/ ’’بجتے ہوں گے‘‘/’’آج رات یہ—‘‘ / ’’یہ یہیں رہے گا، میں نے بلایا ہے اِسے‘‘/ ’’کہاں رہے گا؟‘‘/ آب ویسلی میرے کمرے میں ۔‘‘

ریا اپنے بوائے فرینڈ کا ہاتھ پکڑ کر جاتے ہوئے رک جاتی ہے اور یوں گویاہوتی ہے، بلکہ پھٹ پڑتی ہے:

’’میں سمجھتی تھی میرے گھر میں ایٹی کیٹس ہیں ، شرافت ہے، آپ کس زمانے میں رہتے ہیں اور ہمیں کیا بنانا چاہتے ہیں ، ہم بن نہیں سکتے۔ Remember آپ نے ہمیں پیدا کیا ہے، کوئی احسان نہیں کیا ہے۔ آپ نہیں پیدا کرتے، نہ کرتے،کوئی نہ کوئیWomb کہیں نہ کہیں ہمیں بنانے اور دنیامیں پھینکنے کے لیے تیار ملتی۔ لیکن ڈیڈ گھر کے مہمان کی بے عزتی کرکے آپ نے اچھا نہیں کیا۔ یہ ویلسی ہے ویلسی۔‘‘

یہ ذوقیؔ کی فنی چابکدستی ہے کہ دو کہانیاں اس ناول میں Juxtaposed ہیں یعنی ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔

ذوقیؔ نے جہاں بچے روی کو مغرور اور ضدی دکھایا ہے وہیں سنیل کمار کو مجسم صبر و تحمل بنا کے پیش کیا ہے۔ وہ بچے سے ملنے ریفارم ہاؤس پھر جاتا ہے۔ بچہ دھیرے دھیرے کھلتا ہے:

’’مجھے سب پتہ ہے، اتنا چھوٹا نہیں ہوں ۔ یہ جیل ہے بچوں کا جیل۔‘‘

’’یہ تم سے کسی نے کہا کہ یہ جیل ہے؟‘‘

’’سب کہتے ہیں ۔‘‘

’’سب جھوٹ کہتے ہیں ۔‘‘

سنیل کمار بچے پر Psychotherapy کے نسخے کو آزماتا ہے۔

’’میں جانتا ہوں روی تم نے— تم سمجھ رہے ہو نا۔ تم نے کچھ نہیں کیا ہے۔ لیکن ایک گھٹنا گھٹ چکی ہے۔ سمجھ رہے ہو نا لیکن ڈونٹ وری— میں ہوں نا۔‘‘

روی سنیل کمار سے اور بھی کھلتا چلا جاتا ہے۔ سنیل کمار بھی اسی موقعے کی تلاش میں ہوتا ہے:

’’بتاؤ گے نہیں تو معلوم کیسے ہوگا‘‘/ ’’تمھیں کیا چاہیے بتاؤ نا۔‘‘

کیا بتاؤں ۔ یہاں تو ٹی وی بھی نہیں ہے‘‘/ ٹی۔ وی؟/

’’تو تمھیں ٹی وی چاہیے/ ’’ہاں !‘‘

روی یہ بھی بتاتا ہے کہ ٹی وی پر اس کی دل چسپی ’پوکے مان‘ میں سب سے زیادہ ہے۔ سنیل کمار جب تیسری بار ریفارم ہاؤس جاتا ہے تو روی کے پاس پوکے مان کارڈس ہوتے ہیں جو اُسے مہیا کرائے گئے ہوتے ہیں ۔ یہاں بھی جو مکالمہ ہے اس میں اور ناول کے تھیم میں ایک معنوی انسلاک ہے۔ ذوقی نے بڑے سلیقے سے ایک چین ری ایکشن (Chain Reaction) کی طرح سب کو جوڑ دیا ہے۔ مکالمہ:

’’تم بھی پوکے مان ہو؟‘‘/ ہاں / ’’مجھے کھلاؤ گے؟/ ’’ہاں ‘‘

 اس نے ایک کارڈ بڑھا دیا۔ یہ کیا ہے؟/ جِگلی پَف/ جگلی پف؟ وہ ہنس رہا تھا زور سے، ایسے نہیں جیسے بچے ہنستے ہیں ۔

’’ایسے کیوں ہنس رہے ہو؟/ کیوں کہ یہ میں تھا۔ جگلی پف، جگلی پف جانتے ہو یہ کیا کرتا ہے؟/ ’’نہیں ‘‘ پہلے گانا گاتاہے۔ اس کے گانے سے سب سوجاتے ہیں ۔ پھر وہ مائک نکالتا ہے۔ وہ زور زور سے ہنس رہا تھا۔ اس کا موٹا جسم غبارے کی طرح بار بار پھول اور پچک رہا ہے…

تمھارے پاس اس طرح کے کتنے کارڈس ہیں ؟/ ’’2000:‘‘ اس نے انگریزی میں بتایا۔‘‘ (ص 187)

اس مکالمے سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ بچہ جو ریپ کرچکا ہے، اس کی ساری کی ساری دل چسپی ’پوکے مان‘ میں ہے۔ تبھی تو اس نے دو ہزار پوکے مان کارڈس جمع کررکھے ہیں ۔ دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ وہ بچہ خود کو جگلی پف سمجھتا ہے۔ یعنی وہ اپنے بچپن کی معصومیت سے الگ ہوچکا ہے یاپھر وہ دوہرے کردار کے ساتھ زندگی جی رہا ہے۔اس بچے کے ہم عمروں میں کسی کو اسکوبی ڈوبی اچھا لگتا ہے تو کسی کو پاورپف گرلز اچھی لگتی ہیں ۔

سنیل کمار اپنے اندر ہر لمحہ ایک تبدیلی محسوس کرتا ہے۔ مقدمے کی پیچیدگی سلجھانے کے لیے اس کے ساتھ ایک جرنلسٹ پر مار کر بندھو اور دوسری ایک Social Activist ریتا بھاوے شامل ہوجاتے  ہیں ۔ ریتا بھاوے روی کے خلاف ہی اپنا نظریہ رکھتی ہے اور کہتی ہے کہ بچے کی معصومیت کو دیکھ کر یہ کہنا کہ وہ ریپ نہیں کرسکتا، درست نہیں ، کیوں کہ سب سے بڑا پریورتن یہی آیا ہے کہ بچے اپنی کم عمری میں اپنی عمر سے کافی آگے نکل گئے ہیں ۔ اس لیے ایسے بچے مرڈر کرسکتے ہیں ، ریپ کرسکتے ہیں ۔ پرمارکر بندھو بھی اپنا نقطۂ نظر یوں بیان کرتا ہے:

’’آپ نے ان بچوں کی گفتگو سنی ہے، سنئے۔ کیوں بے فشوش۔ کیوں بے پوکے مان۔ کیوں بے اسکوبی ڈوبی بچے Chips خریدتے ہیں ۔ اس لیے نہیں کہ کھانا ہے، بلکہ انھیں Tazo چاہیے۔ پلاسٹک کا گول سا Tazo۔ وہ ہاتھا پائی کرتے ہیں تو WWF کے انداز میں ۔ ان کے ذہن پر کارٹون اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ بچے اپنی پسند کا کارٹون دیکھنے کے لیے آپ سے لڑ سکتے ہیں ۔‘‘ (ص 199)

اس ناول کی بُنت پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہسارے کرداروں کی سوچ سنیل کمار رائے کی سوچ کے چاروں طرف طواف کرتی ہے اور سنیل کمار رائے کی سوچ روی کنچن اور معاشرے میں ا ٓئی تبدیلی کے گرد گھومتی ہے۔ اس کا تجزیہ ہے کہ کچھ لوگ گھروں میں ٹی وی پرگندے  پروگرام دیکھتے ہیں ۔ بڑے بچوں کو چھوٹا سمجھ کر ساتھ میں سلاتے ہیں اور ان کے نفسیاتی میلان کو نظرانداز کردیتے ہیں جس کے خطرناک نتائج سامنے آتے ہیں ۔ سی ڈی پلیئر پر بلیو کیسیٹ دیکھتے ہیں اور کیسیٹ نکالنا بھول جاتے ہیں جسے موقع ملتے ہی بچے بھی کسی وقت اسے دیکھ لیتے ہیں ۔ اس کا سراغ روی اور سونالی سے بھی مل جاتا ہے جس کی طرف ذوقی نے واضح اشارے کیے ہیں ۔ عدالت میں پبلک پروز کیوٹر اور ایک ماہر نفسیات کے زاویہ ہائے نظر کو دیکھیے:

’’اگرمان لیجیے روی سات سال کی عمر سے ایسی فلمیں دیکھنے کا عادی ہے تو باقی پانچ برسوں میں ریپ کرنے کی طاقت اس میں پیدا ہوسکتی ہے۔‘‘ (ص 217)

’’بچے کو بہت زیادہ عمر کی عینک سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہ دیکھیے کہ اس نے جو جرم کیا ہے وہ کتنا بھیانک ہے۔ اس سے ایک بچی کا مستقبل کس حد تک برباد ہوسکتا ہے اور ایسے بچے خود کتنے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ۔‘‘ (ص 218)

اگر جنسی جبلّت (Sexual Instinct) کی بات کریں تو فرائڈ بھی لاشعور میں موجود تمام تر جبلتوں میں جنسی جبلت یا جنسی توانائی یعنی (Libids) کو اہم قرار دیتاہے۔ فرائڈ نے تو یہ بھی کہا ہے کہ انسان کی جتنی بھی ظاہری اور باطنی سرگرمیاں ہیں وہ سب بلاواسطہ کسی نہ کسی شکل میں اسی جنسی جبلت سے اپنا رشتہ قائم رکھتی ہیں ۔ اگر ذوقی نے اپنے کرداروں میں فرائڈ  کی سی سوجھ بوجھ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تو اس کے لیے انھیں اس جبلت کا تجزیہ ضرور کرنا پڑا ہوگا۔ سنیل کمار بھی یہ محسوس کرتا ہے کہ پوری دنیا کے معصوم بچے سائبر انقلاب کی زدمیں ا ٓچکے ہیں ۔ اس کردار کا vision اس اقتباس میں ملاحظہ کیجیے:

’’میں ٹھہر گیا ہوں ۔ رک گیاہوں ۔ روی کنچن کاچہرہ جھلملاتا ہے۔ سائبر کرائم کی ہی ایک اور کڑی ہے۔ آن لائن پورنوگرافی۔ دنیا بھر میں 60  ہزار سے بھی زیادہ ایسے سائٹس ہیں جو بچوں کو تباہ کررہے ہیں ۔ جانے انجانے ایسے سائٹس کو کلک کردیتے ہیں ۔ ظاہر ہے ایسے سائٹس بچوں کو Sexual کرائم کی طرف اکساتے ہیں ۔‘‘ (ص 235)

ایک طرف تو کلچر کا یہ پہلو ہے، دوسری طرف ذوقی نے بڑی چالاکی سے ریفارم ہاؤس میں روی کے ساتھ میریؔ  فرنانڈیس کے گھناؤنے کھیل کا ذکر بھی کردیا ہے۔ غصے میں روی اس کے چہرے پر تھوک دیتا ہے بلکہ روی خود کو میری فرنانڈیس کے پنجے سے آزاد کرانے کے لیے ایک پتھر بھی دے مارتا ہے۔ اس کا انکشاف سنیل کمار رائے کی ٹیم میں شامل جرنلسٹ پرماکر بندھو کرتا ہے۔ پرماکر بندھو کو روی سب کچھ بتا دیتا ہے۔ میری فرنانڈیس کی حرکتیں قارئین کو بری لگتی ہیں اور روی سے ایک طرح کی ہمدردی ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ شک ہونے لگتا ہے کہ ممکن ہے اس نے سونالی کے ساتھ کچھ بھی نہ کیا ہو۔

ذوقی کے مکالموں میں برجستگی ہوتی ہے۔ ناول میں مکالمہ ڈرامے سے آیا ہے۔ مکالمے کے لیے زبان آشنا بلکہ اس سے بھی آگے زبان کا رمز آشنا ہونا ضروری ہے۔ زبان مکالمے کو رواں اور مکالمہ ناول کو اثرانگیزبناتا ہے۔ مکالمے کو زبان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ زبان تو ناول میں object of representation کا کام کرتی ہے۔

میخائل ایم باختن نے لکھا ہے:

To a greater or lesser extent every novel is a dialogised system made up of the images of ‘languages’ styles and consciousness that are concrete and inseparable from language.”

                                   (Theory of the Novel: Ed. by Michael McKeon, 2000, page: 333)

ذوقی کے اس ناول کا ایک مکالماتی نظام ہے جو اس کی روح کی ضرورت ہے۔ اب میں عدالت میں ہورہی بحث کے  اس حصے کو پیش کرنا چاہتاہوں جس میں نکھل اڈوانی نے سونالی سے پوچھ تاچھ کی ہے۔ ذوقی نے دکھایا ہے کہ وہ صرف ایک بار ’جی‘ کہتی ہے اس کے بعد چپی سادھ لیتی ہے۔ ذوقی نے اس کی خاموشی کو ایک چیختی ہوئی آواز میں بدل دیا ہے۔ جواب میں خالی جگہیں واوین میں قید ہیں ۔ ان خالی جگہوں کو تحریر میں ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

 ’’تمھارے ساتھ بلاتکار ہوا ہے؟‘‘

’’جی‘‘

’’بلاتکار کے بارے میں جانتی ہو؟‘/ ’’—‘‘/ کیسے ہوا تھا بلاتکار؟/ ’’—‘‘ تم نے بلیو فلم کے بارے میں بتایا۔ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی/ ’’—‘‘ تمھیں سورگ کی کنجی مل گئی ہے نا؟ پھر روی نے وہ کیسٹ چلا دیا۔ جو کچھ پردے پر چل رہا تھا وہی کچھ تم رئیل زندگی میں بھی کرتے جارہے تھے/ ’’—‘‘

سنیل کمار چونکہ اس مقدمے کے ملزم روی کنچن سے ہمدردی رکھتا ہے۔ اس لیے اس کی سائیکی کو پوری طرح سمجھنے کی فکر میں رہتا ہے۔ جس وقت روی پوکے مانوں کے بارے میں بتا رہا ہوتا ہے، سنیل کمار اس سے ریپ والی بات دریافت کرلیتا ہے۔ پھر روی پوکے مان کی خوبیاں بیان کرتا جاتا ہے۔ صرف روی کے فقرے ملاحظہ کیجیے:

’’آپ پوکے مان دیکھتے ہیں ؟ دیکھیے— دیکھیے— پھر آپ بہادر ہوجائیں گے۔ آپ سب پر حملہ کریں گے۔ ان پوکے مانوں کو دیکھیے۔ ان کا ویٹ اور ہائٹ دیکھیے۔ سب ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں ۔ مجھے ان کے حملے پاگل کردیتے ہیں ۔‘‘ (ص 292)

سنیل کمار کی Sensibility فزوں ترہوجاتی ہے۔ اس کے احساس اور وجود میں ایک کپکپی سی پیداہوتی ہے۔ یہاں اس کے احساس کی ایکجہت ملاحظہ کیجیے:

’’آوازیں چہار طرف سے شب خون مارر ہی ہیں ۔آگ، ہوا، پانی، مٹی،آنکھوں کے آگے آہستہ آہستہ اندھیرا چھا رہا ہے۔ ساری چیزیں حرکت کررہی ہیں ۔ میں اُڑ رہا ہوں ۔ نہیں پوکے مان میں تبدیل ہورہا ہوں ۔ یہی حال روی کا ہے۔ وہ چھوٹا ایش بن گیا ہے۔ جنھیں آبرا،آبرا بھی نہیں ڈابرا۔ یہ بھی نہیں ۔ پورا پورا جگلی پَف۔‘‘ (ص 299)

سنیل کمار نے جیسے ناگ پھنی نگل لی ہو۔ شب و روز کی تحقیق اور مشقت کے بعد اب اسے عدالت میں روی کنچن اور سونالی کے مقدمے کا فیصلہ سنانا ہے۔ وہ جذبات سے مغلوب ہے۔ ذوقی نے اس باب کو ’استعفیٰ نامہ‘ سے موسوم کیاہے جس کے دو حصے ہیں ۔ دوسرا حصہ اضافی اور غیرضروری ہے۔ اگر ذوقی خود بھی غور کریں گے تو یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی کہ بات پہلے حصے میں ہی مکمل ہوجاتی ہے۔ ذوقی نے اس حصے میں سنیل کمار کی حسّیت میں دنیااور ہماری زندگی میں تیزی سے آرہی تبدیلیوں کی کرچیں بھر دی ہیں ۔ دکھ اور کرب کا لاوا پھوٹتا دکھائی دیتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے جیسے لاشعور سے ایک دھدکتے ہوئے آگ کے شعلے نے سنیل کمار کو اپنی چپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس حصے میں پورے ناول کا نچوڑ بھی سمٹ آیا ہے۔ چونکہ یہ فیصلہ سنیل کمار سنا رہا ہے اس لیے اس کے نظریات اور فکری میلان کو سمجھنے کے لیے سنائے جانے والے فیصلے سے منتخب اقتباسات کو یہاں پیش کرنا ضروری ہے:

’’تو جنٹل مین آپ میری آواز سن رہے ہیں … ہونے اور نہ ہونے کے بیچ یہ دنیا پھنس گئی ہے۔ ہم مارس پر جارہے ہیں اور دوسری طرف موہن جوداڑو کے ٹوٹے حصے کو جوڑنے کے لیے مٹیاں ڈھونڈی جارہی ہیں ۔ ہم ایک بہت بڑے بازارمیں الجھ کر کونے بن گئے ہیں ۔ ایک بہت بڑا بازار جو ہماری سنسکرتی، ہماری جڑوں سے الگ ہے… بارہ سال کا روی کنچن ریپ کرسکے گا۔ ہاں وہ ریپ کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ  ہارمونس ڈس بیلنس نے دنیا کے چھوٹی عمر کے کتنے ہی بچوں کو بالغ بنا دیا ہے۔ وہ بڑے بالغ ہیں ۔ ہمارے آپ سے زیادہ آگے دیکھنے والے۔‘‘

بچہ ایک بھیانک Reality سے گزر چکا ہے اور دوسری طرف وہ پوکے مان دیکھ رہا ہے۔ ایک دن وہ فینٹاسی اور رئیلٹی کو آپس میں ملا دے گا۔ شاید اسی لیے مجھے روی کے من کی کھوج میں پوکے مان تک جانا پڑا۔ میں گیا اور مجھے دل چسپ تجربے ہوئے۔‘‘ (ص 316-323)

سنیل کمار رائے شش و پنج میں ہے۔ وہ انسانی کمزوری ’جذباتیت‘ کے حصار میں ہے بلکہ اس سے مغلوب ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی جذباتیت منطقی بھی ہے۔ آج وہ اپنا استعفیٰ نامہ بھی ساتھ لے کر آیا ہے کہ اس فیصلے کے بعد سیاسی بازی گر اس کے خلاف تحریک بھی شروع کرسکتے ہیں ۔ عدالت میں لوگ ہمہ تن گوش دم سادھے کھڑے ہیں ۔ سنیل کمار فیصلہ سناتا ہے:

’’میں پورے ہوش و حواس میں فیصلہ سناتا ہوں کہ تعزیرات ہند دفعہ 302 کے تحت میں اس نئی ٹکنالوجی، ملٹی نیشنل کمپنیز، کنزیومر ورلڈ اور گلوبلائزیشن کو سزائے موت کا حکم دیتا ہوں ۔ ہینگ ٹل ڈیتھ۔‘‘ (ص 33)

اس ناول کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔ گاہے گاہے موقع کی مناسبت سے ذوقی نے سیاست کی غلاظت کو بھی کریدنے کی کوشش کی ہے۔ روی جس بچی کا ریپ کرتا ہے وہ جے چنگی رام کی بیٹی ہے۔ جے چنگی آرہ سے دلی کچھ بننے اور کر دکھانے کی غرض سے آتا ہے۔ آرہ میں اس کی بیوی سُمترا اور ایک بیٹی ہے لیکن دلی میں شوبھا سے دوسری شادی کرلیتا ہے جس سے سونالی پیدا ہوتی ہے۔ دھیرے دھیرے جے چنگی رام سیاست میں آجاتا ہے۔ وہ بھاجپا جوائن کرلیتا ہے۔ پھر وہ دلی کے اشوک نگر کا انچارج بن جاتا ہے۔ بیٹی سونالی کا جب ریپ ہوتا ہے تو شوبھا اور جے چنگی رام کے درمیان مکالمہ ہوتا ہے:

’’کہاں جارہے ہو؟‘‘/ ’’تھانے‘‘/ پاگل ہوگئے ہو؟/ اس میں پاگل پن کی کیا بات ہے؟/ ہے کیسے نہیں ۔ بیٹی کو سارے زمانے میں بدنام کرو گے۔ جے چنگی رام اب دوسری جگہ فون کرتا ہے تو شوبھا بولتی ہے:

’’کہاں فون کررہے ہو؟/ پارٹی دفتر/ دفتر والوں کو بولوگے کہ بیٹی کی اِجّت کھراب ہوگئی ہے/ نہیں مشورہ کروں گا/ مشورہ گیا بھاڑ میں ۔‘‘

لیکن یہ بات کسی طرح پارٹی کے منتری جی تک پہنچ جاتی ہے۔ منتری جی کا ردعمل یوں سامنے آتا ہے:

’’معاملہ بارہ سال کے لڑکے کا نہیں ، بارہ سال کی لڑکی کا ہے۔ وہ بھی دلت لڑکی کا۔ ایک دلت لڑکی کے ساتھ ہونے والا انّیائے پارٹی کبھی بھی برداشت نہیں کرے گی۔ جاؤ ایف آئی آر درج کراؤ۔ پھر ہم دیکھتے ہیں ۔‘‘ (ص 174)

دوسرا اقتباس:

’’آدیش ہے سونالی کو منچ پر لاؤ۔ وہ اپنا دکھڑا روئے گی۔ چلّا چلّا کر بتائے گی کہ وہ نردوش ہے۔ اس کا دوش کیول یہ ہے کہ وہ دلت ہے۔‘‘

ان اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آج کے سیاسی بازی گروں کو Issues وضع کرنے میں کس قدر مہارت حاصل ہے۔ ذوقی نے ’پوکے مان‘ اور انسان کے درمیان ایک طرح کی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ناول ایک سوال یہ بھی قائم کرتا ہے کہ کیا آج ہمارے معاشرے میں اور زندگی کے ہر شعبے میں انسانی  پوکے مان پیدا نہیں ہوگئے ہیں ؟ ہمارے اردگرد جو ہنگامہ آرائی اور ایک طرح کاانتشار و اضطراب ہے، ناول نگار ان سب کو اپنی بصیرت کا حصہ بناتا ہے۔

وارث علوی نے بڑی اچھی بات لکھی ہے کہ:

’’ناول نگار کا الہامی سرچشمہ وہ انسانی تماشہ ہے جو روز اس کے چاروں طرف کھیلا جاتا ہے، یعنی اس کا سروکار قدروں سے ہوتا ہے۔‘‘ (جدید افسانہ اور اس کے مسائل)

’پو کے مان کی دنیا‘ کا ایک پہلو اور ہے جس میں سنیل کمار کی بیٹی ریا اور اس کے بوائے فرینڈ کے درمیان مکالمے ہیں ۔ کہیں کہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ مکالمے کا دامن پھیل گیا ہے اور اس میں بیانیہ سما گیا ہے۔ میں یہ بات فیشن کے طور پر نہیں کہہ رہا ہوں ۔ آپ اس کی Close Reading کرکے کم و بیش یہی نتیجہ نکالیں گے جو میں نے اخذ کیا ہے۔ ویلسی جس طرح سے ناول میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے، وہ لائق توجہ ضرور بن گیا ہے۔ وہ ماضی کے اندھیروں سے نکل کر حال کی روشنی میں جینے کا قائل ہے۔ ریا جب روتی ہے تو ویلسی کا ردعمل بڑا دل چسپ نظر آتا ہے۔ دیکھیے یہ حصہ:

’’ڈونٹ بی سلی۔ آنسو پونچھو۔‘‘

مجھے دیکھو میرے پاس کوئی پاسٹ نہیں ۔ آخری بار گھر سے چلتے ہوئے ایک چھوٹی سی ڈائری بنائی تھی۔ معلوم؟ چلتے وقت ایک چھوٹی سی ندی ملی۔ ایک لمحے کو دل و دماغ میں جنگ ہوئی۔ دل ہار گیا۔ دماغ جیت گیا۔ سر کو جھٹکا۔ڈائری ندی میں پھینک دی۔ پھر تو ایک body ہے میرے پاس جس میں بہت کچھ عورتوں جیسا ہے۔ مجھے لگا میرے بدن میں ، چہرے پر غضب کا سرتال ہے۔ میں نے چھلے پہنے۔ گودنے گدوائے۔ کبھی کبھی ہونٹ بھی رنگوا لیتا ہوں ، تو؟ کس کے کہنے سے یہ سب چھوڑ دوں ۔ کیا دنیا میرے کہنے سے میری لیک پر چلے گی۔ نہیں نا؟ تو میں دنیا کے لیے کیوں چلوں ۔‘‘ (ص 128-29)

ذوقی نے ویلسی کا کردار بڑی محنتوں سے تراشا ہے۔ وہ سُر تال اور سنگیت کو زندگی سے ہم آمیز کرکے سچائیوں کو بے نقاب بھی کرتا ہے۔ ایسے کردار کو ہمارا معاشرہ ازکار رفتہ تصور کرتا ہے۔ ذوقی نے اس کردار کو قیمتی بنا دیا ہے۔ پھر یہ کہ جس طرح کی فلسفہ طرازی وہ کردار کرتا ہے، اس سے اس کے گہرے مشاہدے کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ذوقی نے اس کے لیے ڈکشن بھی خوب صورت اپنایا ہے جس میں اس کے جسم کی طرح لوچ ہے، سنگیت ہے۔ وہ ریا سے کہتا ہے:

’’ہلکی ہلکی ہوا۔ نیلے آسمان پر بچھے تارے۔ بدن کو گدگداتی چاندنی کی کرنیں ۔ روشنی کے ہالے میں اندھیرے میں پڑا آپ کا جسم اور پراسرار رات۔ پراسرار رات کا سناٹا۔ ٹھنڈی چاندنی کی بارش اور ان سب سے پھوٹتا سنگیت۔ دنیا بھول جاؤ ریا۔ میں بھول گیا۔ جو سچ ہے وہ نیچر ہے۔ نیچر میں اپنے دکھ ڈال دو۔ نیچر سے بہتر کوئی علاج نہیں ۔‘‘ (ص 132)

یہاں غور کیجیے کہ فطرت اور انسان کی دل کشی کس طرح خوبصورت اسلوب میں ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ چونکہ ویلسی کے کردار کو محض ایک ذیلی کردار کہہ کر میں آگے گزر جانا نہیں چاہتا اور نہ بہت زیادہ اس کی تشریح اور وضاحت کرنا مناسب سمجھتا ہوں کیوں کہ ذوقی نے اس کردار کے مکالمے میں جان ڈال دی ہے۔ بالکل سبک اور رواں ۔ اس لیے میں ایک اقتباس اور پیش کرکے اپنی بات کی توثیق چاہوں گا:

’’میوزک کی آتما کو سمجھو۔ تم ابھی بھی بھٹکی ہوئی لہر ہو۔ سیکس ہمارے لیے میوزک کا صرف ایک سر ہے جس میں امنگیں ہیں مگر توازن کے ساتھ۔ آتما کو اس نرک سے مکتی دو یہ تمھیں جلا دے گا۔ پھر تم اوشو کے ہزاروں ماننے والوں کے درمیان کسی آشرم کے ایک کونے میں چلم پیتی ہوئی نظر آؤ گی۔‘‘ (ص 203-204)

ناول نگار نے ایک ایسی بہاؤ والی ندی سامنے رکھ دی ہے جس میں زیر و بم بھی ہے اور موجوں کا ترنم بھی، شعور و ادراک کی لہریں بھی ہیں اور فلسفۂ حیات کے رموز بھی۔ ذوقی نے اس ناول میں ہر چھوٹے بڑے کرداروں سے ایک دنیا آباد کی ہے۔

’پوکے مان کی دنیا‘ آج کے انسانوں اور ان کے اعمال کی لایعنیت کو پیش کرتا ہے۔ اسے پڑھ کرمعلوم ہوتا ہے کہ لایعنیت میں کتنی معنویت ہے اور اس کا انسلاک شعور فن سے کس طرح پیدا ہوجاتا ہے۔ اوہام پرستی نے حقیقت پر فوقیت حاصل کرلی ہے، جس کی تازہ مثال ’پوکے مان کی دنیا‘ ہے اور جو ہماری نئی نسل کے ذہنوں کو اپنے حصار میں لے چکی ہے۔ ذوقی نے شاید پوکے مان کی قلب ماہیت کی ہے اور Metamorphosis کے اس عمل سے نئی نسل میں اس کے اثرات منتقل کردیے ہیں ۔ ایسا ممکن اس لیے بھی ہوسکا ہے کہ ذوقی Illusian of Reality کو سمجھتے ہیں ، کیوں کہ بغیر اس کے حقیقت کو فکشن نہیں بنایا جاسکتا۔ نئی نسل اگر آلودہ ہوگئی ہے تو اسے منزہ و مصفا کرنے کا کام کون کرے گا، یہ ناول، ہم سے یہ سوال بھی کرتا ہے۔ ساتھ ہی ناول کا Thesis یہ بھی ہے کہ زمانہ تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھتا جارہا ہے اور ایک دن ہم سب بھی ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔ حال کا ہر ایک لمحہ ماضی کی خوراک ہوتا ہے۔ ناول نگار عہدحاضر کی موشگافیوں میں مصروف ہے۔ یہ کام وہی کرسکتا ہے جو تاریخیت کو اپنے خمیر کاحصہ بنانے کا ہنر جانتا ہے۔ شاید اسی تناظر میں لوکاچ نے کہا تھا:

’’ناول تاریخی شعور کا سفیر اور تاریخ کو وقف کی ہوئی انسانی تخلیق ہے۔‘‘

’پوکے مان کی دنیا‘ بھی ہمارے لیے تاریخی شعور کا سفر ہے۔مجھے تو کبھی کبھی یہ بھی احساس ہوا کہ یہ ناول ذوقی نے نہیں بلکہ خود پوکے مان نے تحریر کی ہے۔پوکے مان بھی تاریخی شعور سے نا بلد نہیں۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔