عورت: رسول اکرمﷺ کی نظر میں (قسط 3)

 ڈاکٹر محمد واسع ظفر

  ایک اور پہلو جس کی طرف سے کچھ لوگ لا پرواہی برتتے ہیں عورتوں کا نان و نفقہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق عورتوں کو روٹی، کپڑا اور سکونت اپنی وسعت کے موافق دینا ہر مرد پر لازم ہے۔حکیم بن معاویہ القشیریؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: ’’یا رسول اللہ! ہم پر ہماری بیوی کا کیا حق ہے؟آپؐ نے فرمایا: جب تم کھانا کھائو تو اسے بھی کھلائو اور جب کپڑا پہنو یا کمائو تو اسے بھی پہنائو اور اس کے چہرے پر نہ مارو اور برا بھلا مت کہو اور اسے علیحدہ نہ چھوڑو مگر اپنے گھر میں (یعنی تنبیہ کے لئے اگر اسے اپنے سے علیحدہ کرنا چاہو تو اپنے گھر میں ہی ایسا کرو، اسے گھر سے نکالنا یا کہیں اور بھیج دینا یا اسے چھوڑ کر خود کہیں چلے جانا مناسب نہیں )‘‘۔ (سنن ابی دائود، کتاب النکاح، باب فِي حَقِّ الْمَرْأَۃِ عَلٰی زَوْجِھَا)۔ اس حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے بشمول چند دیگر حقوق کے عورتوں کے نان و نفقہ پانے کے حق کی بھی وضاحت کی ہے اور صرف یہی نہیں کہ آپؐ نے عورتوں کا نان و نفقہ ان کے شوہروں پر لازم قرار دیا بلکہ اس پر ثواب کی بشارت بھی دی ہے۔ ابو مسعود بدریؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:

’’نَفَقَۃُ الرَّجُلِ عَلٰی أَھْلِہِ صَدَقَۃٌ‘‘

’’انسان کا اپنی بیوی اور بال بچوں پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازي، باب ۱۲، حدیث نمبر ۴۰۰۶)۔

حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب مسلمان آدمی اپنی بیوی بال بچوں پر اللہ کا حکم ادا کرنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے خرچ کرے تو اس میں اس کو صدقہ کا ثواب ملے گا۔ آپؐ کا معاشرتی فرائض کو اخروی انعامات سے جوڑ کر بتانا جہاں اسلامی فلسفہ حیات کی جامعیت کی عکاسی کرتا ہے وہیں یہ ایک ایسے محرک کا کام بھی کرتا ہے جو انسان کے فرائض کی ادائیگی کے جذبہ کی کیفیت کو ہی بدل کر رکھ دیتا ہے۔

  آپؐ نے اس بات کی بھی ہدایت دی کہ اگر کسی شخص کے پاس ایک سے زائد بیویاں ہوں تو وہ نان ونفقہ، لین دین اور شب باشی میں ان کے درمیان عدل کرے۔ محبت ایک فطری چیز ہے جو کسی ایک سے زیادہ ہو سکتی ہے لیکن اس کے غلبہ میں دوسری کو نظر انداز کرنے یا اُس کی حق تلفی کرکے اُسے اذیت پہنچانے کو آپؐ نے بالکل پسند نہیں فرمایا۔ آپؐ نے خود اپنی ازدوواجی زندگی میں عملاً ان اصول و ضوابط کو نافذ کرکے بھی دکھایا ہے۔ روایت ہے حضرت عائشہؓ سے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی بیویوں کے درمیان راتیں عدل کے ساتھ (برابر برابر) تقسیم کرتے تھے اور پھر کہتے یا اللہ یہ میری تقسیم ہے اُس چیز میں جس کا میں اختیار رکھتا ہوں سو تو ملامت نہ کرنا مجھ کو اُس چیز میں جس کا میں اختیار نہیں رکھتا بلکہ تو اختیار رکھتا ہے (یعنی محبت و میلان قلبی وغیرہ میں )۔ (سنن ترمذی، کتاب النکاح، بابُ مَاجَآئَ فِي التَّسْوِیَۃِ بَیْنَ الضَّرَائِر)۔

جو لوگ ایک سے زیادہ شادیاں کرلیتے ہیں اور اپنی بیویوں کے درمیان نان ونفقہ، لین دین اور شب باشی میں عدل نہیں کرتے ان کے بارے میں آپؐ سے وعید بھی منقول ہے۔ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اگر کسی شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و انصاف نہ کرتا ہو تو وہ قیامت کے دن (میدان حشر میں ) اس طرح آئے گا کہ اس کے بدن کا آدھا حصہ مفلوج ہوگا‘‘۔ (سنن ترمذی، کتاب النکاح، بابُ مَاجَآئَ فِي التَّسْوِیَۃِ بَیْنَ الضَّرَائِر)۔

لہٰذا اگر کوئی شخص اس بات کا اندیشہ رکھتا ہو کہ کہ وہ ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان حسن سلوک اور لین دین میں عدل نہیں کر سکے گا تو اسے ایک ہی شادی پر اکتفا کرنا چاہیے جیسا کہ قرآن کریم کی تعلیم ہے:

’’فَاِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً‘‘

’’اگر تم کو اندیشہ ہو کہ عدل نہ کرسکوگے تو ایک ہی نکاح کرو‘‘۔ (نسآء: ۳)۔

ایسا شخص اگر ایک سے زائد نکاح کرتا ہے تو گویا وہ اپنی آخرت کو داؤ پر لگا رہا ہے۔ غور کیجیے کہ نبی کریم ﷺ نے حسن معاشرت کی کیسی تعلیم دی ہے لیکن یہ ساری باتیں اُسی کے لئے مئوثر ثابت ہو سکتی ہیں جو اللہ پر اور یوم آخرت پر صدق دل سے ایمان رکھتا ہو اور خدا کے سامنے جوابدہی سے ڈرتا ہو۔ جہاں دین کا کوئی تصور ہی نہیں وہاں ان خیالات کے قدر کی توقع رکھنا یقیناً فضول ہے۔

  یہاں ایک سوال کسی روشن خیال شخص کے ذہن میں آسکتا ہے کہ آخر اسلام میں ایک سے زائد شادیوں کی اجازت ہی کیوں دی گئی ہے اور پیغمبر اسلام ﷺنے اپنی ازدواجی زندگی میں عملی طور پر اپنا کر اسے کیوں فروغ دیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ بات ذہن سے نکال دینی چاہیے کہ تعدد ازواج کے طریقہ کو حضرت محمد ﷺنے پہلے پہل رائج کیا ہے اور عالم انسانیت کے لئے اسلام کا یہ کوئی نیا حکم تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مردوں کا ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا رواج جس میں تعداد کی قید بھی نہیں تھی، شریعت محمدیہؐ کی آمد سے قبل سے ہی بشمول عرب سوسائٹی کے دنیا کی مختلف اقوام میں تھا اور تمام ادیان کے پیروئوں میں تھابلکہ اسلام نے تو اسے چار کی تعداد پرمحدود کردیا کیوں کہ لوگ شادیاں تو متعدد کرلیتے تھے اور ان بیویوں کے حقوق ادا نہیں کرتے تھے۔ تو ایک طرح سے تو اسلام نے عورتوں کے حق میں ہی یہ فیصلہ کیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ایک سے زائد شادی کرنے کی صرف اجازت دی گئی ہے، یہ کوئی لازمی حکم نہیں ہے کہ ہر مسلمان چار شادی کرے ہی۔ تیسری بات یہ کہ جیساکہ سطور بالا میں ذکر کیا گیا کہ ایک سے زائد شادی کو بیویوں کے درمیان حقوق کی ادائیگی اور داد و دہش میں عدل و انصاف کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے، بصورت دیگر ایک پر ہی اکتفا کرنے کو کہا گیا ہے جس حکم کی مثال کسی دوسرے مذہب میں شاید ہی ملے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اس میں یتیم لڑکیوں ، بیوائوں اور مطلقہ عورتوں کی خیرخواہی مقصود تھی کہ دوسری شادی کے بہانے ہی سہی انہیں بھی سرپرست اور نگراں نصیب ہوجائے جو ان کی کفالت بھی کرے اور ان کے معاشرتی حقوق کی حفاظت بھی۔ یہ اس لئے بھی ضروری تھا کیوں کہ جنگوں میں بڑی تعداد میں مرد قتل ہوجاتے تھے اور ان کی بیوہ اور یتیم بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا تھا۔ قرآن کی جس آیت کے ذریعہ یہ اجازت مسلمانوں کو دی گئی یعنی سورہ النساء کی آیت نمبر ۳، اس کے نزول کا سبب اور پس منظر بھی یہی ہے کہ احد کی لڑائی میں ۷۰ مسلمان شہید ہوگئے اور یکلخت ۷۰ (ستّر) گھرانہ سرپرستوں سے محروم ہوگیا۔ اس لئے یہ حکم آیا کہ جو لوگ صاحب استطاعت ہیں اگروہ چاہیں تو ان یتیم لڑکیوں اور بیوائوں کو نکاح کے ذریعہ اپنی سرپرستی میں لے لیں ۔ پھر اس حکم کو باقی رکھا گیا، منسوخ نہیں کیا گیا کیوں کہ ہر زمانہ میں ایسی صورتحال کے واقع ہونے کا امکان تھا اور ایسا ہوا بھی جس کی گواہی عالمی تاریخ دے رہی ہے اور دور حاضر میں بھی یہ صورتحال حقیقی طور سے سامنے آچکی ہے کہ خود کو مہذب، تعلیم یافتہ اور انسانی حقوق کی پاسدار سمجھنے والی اقوام نے محض اپنے مفاد کی خاطر کسی نہ کسی بہانے اور فریب سے دنیا کے متعدد ممالک کو جن میں اکثر مسلم ممالک ہی ہیں جنگ کی بھٹی میں جھونک رکھا ہے جس کے نتیجہ میں بڑی تعداد میں لڑکے لڑکیاں یتیم اور عورتیں بیوہ ہورہی ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ پھر ان کے ہر قسم کے استحصال کا لامتناہی سلسلہ بھی جاری ہے۔ لہٰذا قرآن کے تعدد ازواج کی اجازت سے متعلق حکم کی معنویت آج بھی باقی ہے۔

 رسول پاک ﷺ نے بھی جو کئی نکاح کئے اس کے پیچھے بھی مذکورہ مصلحت کے علاوہ کئی ساری حکمتیں تھیں ۔ ان میں کئی قبائل یا خاندانوں سے رشتے کو استوار کرنابھی مقصود تھا تاکہ وہ اسلام کے فروغ میں معاون بن سکیں اور بعض مرتبہ کسی قبیلہ کے افراد کی دلجوئی اور مدد کرنابھی مقصود ہوتا تھا۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ کی ایک زوجہ حضرت جویریہ ؓبنت حارث ہیں جو بنو المصطلق قبیلہ سے تھیں اور غزوہ مریسیع میں قید ہوکر آگئی تھیں ۔ غنیمت کی تقسیم میں وہ ثابت بن قیسؓ کے حصہ میں گئیں جنہوں نے ان کو نو اوقیہ سونے پر مکاتب کرلیا یعنی اتنی مالیت ان کی آزادی کا معاوضہ طے کردیا۔ چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور ان سے عرض کیا کہ میں اپنے قوم کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی جویریہ ہوں اور مجھ پر جو مصیبت گزری ہے اس کا حال آپؐ کو معلوم ہے۔ اب ثابت بن قیسؓ نے نو اوقیہ سونے پر مجھے مکاتب کیا ہے جو میرے بس سے باہر ہے، اس لئے آپؐ کے پاس مدد کے لئے آئی ہوں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تجھے یہ پسند ہے کہ مطلوبہ معاوضہ ادا کرکے میں تجھے آزاد کرادوں اور پھر تجھ سے نکاح کرلوں ؟ ایک سردار کی بیٹی کے لئے اس سے بڑھ کر اعزاز کی بات کیاہوسکتی تھی کہ وہ غلامی سے آزاد ہوکراسلامی حکومت کے سربراہ کی زوجیت میں ہو۔ چنانچہ وہ بخوشی راضی ہوگئیں اور اس طرح رسول اللہ ﷺ کی نکاح میں آگئیں ۔ جب صحابہ کو یہ پتہ چلا کہ بنوالمصطلق رسول اللہ ﷺ کا سسرال ہوگیا تو انہوں نے بھی اس رشتہ کے اعزاز میں اپنے اپنے قیدیوں اور غلاموں کو جو اس قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے آزاد کردیا اور اس طرح صرف اس نکاح کی وجہ سے سو گھرانے آزاد ہوگئے۔ (سیرت ابن ہشام اردو، اسلامی کتب خانہ، لاہور، جلد۳، صفحہ ۹۳؛ الرحیق المختوم اردواز مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری، المکتبۃ السلفیہ، لاہور، ۲۰۰۰ ؁ء، صفحہ ۴۴۴؛ طبقات بن سعد اردو، نفیس اکیڈمی، کراچی، جلد۱، صفحہ ۲۹۶)۔

 رسول اللہ ﷺ کی متعدد شادیوں کی ایک حکمت مردوں کو عدل بین الازواج اور حسن معاشرت کی تعلیم دینا بھی تھی کیوں کہ جب تعدد ازواج کی اجازت کا حکم باقی رہا تو کچھ لوگ اسلامی معاشرے میں ضرور ہی اس حکم سے مستفید ہوتے۔ لہٰذا ان کے لئے آپؐ کا اسوہ(عملی نمونہ) سامنے آنا لازم تھا تاکہ بعد کو کوئی یہ نہ کہتا کہ اسلام کے دئے ہوئے ان اصولوں پر چلنا کسی کے لئے ممکن ہی نہیں ۔ آپؐ کی متعدد شادیوں کے پیچھے ایک مقصد چند ایسی معلمات کا تیار کرنا بھی تھا جو عورتوں کو شرعی مسائل کی تعلیم دے سکیں بالخصوص ان مسائل کی جو عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ مثلاًحیض، نفاس، جنابت، وظیفہ زوجیت، رضاعت وغیرہ کے احکام۔ دوسری عورتوں کو یہ تعلیمات دینے میں شرم و حیا آپؐ کے لئے بھی مانع رہتی اور ان عورتوں کے لئے بھی۔ لیکن بیویوں کے درمیان ان مسائل کو بیان کرنے میں آپؐ کے لئے کوئی رکاوٹ نہ تھی اور وہ دوسری عورتوں کو بحسن و خوبی اور بغیر کسی رکاوٹ کے یہ تعلیمات پہنچاسکتی تھیں ۔ چنانچہ ہوا بھی ایسا ہی کہ آپؐ کی بیویاں عورتوں کی بہترین معلمہ ثابت ہوئیں اور بعض تو عظیم محدثہ بنیں جن سے مرد صحابہ بھی اکتساب فیض کیا کرتے تھے۔ ان بیویوں نے رسول اللہ ﷺ کی نجی اور گھریلو زندگی کے ان روشن پہلوئوں کو سامنے لایاجن پر باہری افراد عام طور پر مطلع نہیں ہوسکتے تھے۔

  ایک سے زائد شادیوں کی اجازت اور رسول اللہ ﷺ کا اس حکم پر عمل پیرا ہونے کی مذکورہ مصلحتوں کے علاوہ بھی کئی ساری مصلحتیں اورحکمتیں ہیں جن کو یہاں طوالت کے خوف سے چھوڑا جارہا ہے۔ اگر کوئی صاحب یا صاحبہ ان مصلحتوں اور حکمتوں کو سمجھنا چاہیں تو انہیں مولانا سید حامد علیؒ کی کتاب ’’تعدد ازدواج‘‘، مولانا وحید الدین خان صاحب کی کتاب ـــ’’تعدد ازواج‘‘ (ہندی ایڈیشن ’’بہو پتنی واد‘‘ اور انگریزی ایڈیشن "Polygamy in Islam”)، محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کی کتاب ’’تعدد ازواج، کب؟ اور کس لئے؟‘‘، مولانا نورالحق رحمانی کی کتاب ’’تعدد ازدواج حقائق کے آئینہ میں ‘‘، عبداللہ ناصح علوان کی کتاب  ’’تعدد الزوجات في الاسلام و حکمۃ تعدد زوجات النبی ﷺ‘‘، عبدالتواب ہیکل کی کتاب  ’’تعدد الزوجات في الاسلام حکمۃ التعدد فی أزواج النبي ﷺ دحض شبھات و رد مفتریات‘‘، ڈاکٹر ابو امینہ بلال فلپس اور ڈاکٹر جمیلہ جونس کی کتاب "Polygamy in Islam”  (پولی گیمی ان اسلام)، الحاج احمد ایچ شریف کی کتاب”Why Polygamy is Allowed in Islam?” (وھائی پولی گیمی از الائوڈ اِن اسلام؟) اور مولانا سید احمد عروج قادری کی کتاب "Polygamy- The Islamic View”  (پولی گیمی دی اسلامک ویو) کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر شائستہ پروین کا تحقیقی مقالہ بعنوان ’’ہندوستانی معاشرہ میں تعدد ازدواج؛ عیسائیت، ہندو ازم اور اسلام کا تقابلی مطالعہ‘‘ جس پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے شعبہ سنی دینیات نے۲۰۰۷؁ء میں ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی، بھی اہمیت کا حامل ہے۔

 عورت بہ حیثیت بیٹی؍بہن:

حضور اکرم ﷺنے بیٹی اور بہن کو بھی اسلامی معاشرہ میں عزت کا مقام عطا فرمایا۔ آپؐ جس معاشرہ میں پیدا ہوئے اس میں عورتوں کی حالت انتہائی بری تھی، ان کے وجود کو ہی باعث ننگ و عار سمجھا جاتا تھا۔ لڑکی کی پیدائش کی خبر سے ان کے گھروں میں صف ماتم بچھ جاتی۔ جس شخص کے گھر میں لڑکی پیدا ہوتی وہ ذلت و رسوائی کے خوف سے لوگوں سے منہ چھپاتا پھرتا تھا اور اس تذبذب میں پڑجاتا تھا کہ آیا ذلت گوارا کرکے اس کو زندہ رکھے یا مار کر چھٹکارا حاصل کرلے۔ اس کیفیت کا نقشہ قرآن کریم نے یوں کھینچا ہے:

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِالأُنثَی ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدًّا وَہُوَ کَظِیْمٌ ہ یَتَوَارَی مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوء ِ مَا بُشِّرَ بِہِ أَیُمْسِکُہُ عَلٰی ہُونٍ أَمْ یَدُسُّہُ فِیْ التُّرَابِ أَلاَ سَائَ  مَا یَحْکُمُونَ ہ

’’جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کے پیدا ہونے) کی خوشخبری دی جاتی ہے تو (رنج و غم کے سبب) اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے۔ قوم سے چھپتا پھرتا ہے اس برائی کے ( ننگ و عار کے) سبب جس کی خوشخبری اسے دی گئی، (پھر سوچنے لگتا ہے) آیا اس کو ذلت گوارا کر کے ساتھ رکھے یا اس کو مٹی میں دفن کردے۔ یاد رکھو! نہایت برا ہے وہ فیصلہ جو وہ کرتے ہیں ‘‘۔ (النحل: ۵۸-۵۹)۔

چنانچہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب اپنی بیٹیوں کو بڑے ہی سفاکانہ اور وحشیانہ طریقہ پر زندہ دفن کر دیتے تھے، جو زندہ بچ رہتی تھیں انہیں انتہائی ذلت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ان کی پرورش میں اپنے مال کوخرچ کرنے میں بھی وہ بوجھ محسوس کرتے تھے۔ عرب اس بات کو بھی نا پسند کرتے تھے کہ کوئی ان کا داماد کہلائے۔ ایسے ماحول میں رسول اللہ ﷺ نے بیٹیوں کا دفاع کیا اور ان سے نفرت نہ کرنے کی عربوں کو تعلیم دی۔آپؐ کا یہ فرمان حدیث کی کتابوں میں درج ہے:

’’لَا تُکْرِھُوْا الْبَنَاتِ فَاِنَّھُنَّ الْمُؤْنِسَاتُ الْغَالِیَاتُ‘‘

’’اپنی بیٹیوں کو ناپسند نہ کرو اس لئے کہ وہ انس و محبت کرنے والی اور بہت قیمتی ہوتی ہیں ‘‘۔ (مسند احمد، مطبوعہ دارالحدیث، قاہرہ، ۱۹۹۵ ؁ء، جلد۱۳، ص ۳۵۵، حدیث نمبر ۱۷۳۰۶، بروایت عقبہ بن عامرؓ)۔

رسول اللہ ﷺنے نہ صرف بیٹیوں کا دفاع کیا بلکہ ان کی پرورش و پر داخت کرنے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر جنت کی بشارت بھی دی جو کہ اسلامی فلسفہ حیات میں سب سے بڑی کامیابی تصور کی جاتی ہے۔ ابی سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

’’مَنْ کَانَ لَہٗ ثَلَاثُ بَنَاتٍ أَوْ ثَلَاثُ أَخَوَاتٍ أَوْ ابْنَتَانِ أَوْ أُخْتَانِ فَأَحْسَنَ صُحْبَتَھُنَّ وَاتَّقَی اللّٰہَ فِیْھِنَّ فَلَہُ الْجَنَّۃُ‘‘

’’جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں پھر وہ ان سے اچھا سلوک کرے اور ان ( کی پرورش کرنے) میں اللہ سے ڈرے تو اس کے لئے جنت ہے‘‘۔ (سنن ترمذی، کتابُ الْبِرِّ وَ الصِّلَۃِ، بابُ مَاجَآئَ فِي النَّفَقَۃِ عَلَی الْبَنَاتِ وَالأَخَوَاتِ)۔

دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:

’’مَنْ عَالَ ثَلَاثَ بَنَاتٍ، فَأَدَّبَھُنَّ وَ زَوَّجَھُنَّ، وَأَحْسَنَ  إِلَیْھِنَّ، فَلَہُ الْجَنَّۃُ‘‘

’’جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، انہیں ادب سکھایا اور ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو اس کے ل۔ے جنت ہے‘ ‘۔ ( سنن ابی دائود، کتابُ الأَدَب، باب فِي فَضْلِ مَنْ عَالَ یَتَامٰی، بروایت ابوسعید الخدریؓ)۔

ایک روایت انس بن مالکؓ سے ہے جس میں دو لڑکیوں کی پرورش کرنے والوں کو بھی بروز قیامت اپنا قرب نصیب ہونے کی آپؐ نے بشارت دی ہے۔ آپؐ نے فرمایا :

’’مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتّٰی تَبْلُغَا، جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَنَا وَھُوَ وَضَمَّ أَصَابِعَہُ‘‘

’’جس شخص نے دو لڑ کیوں کی ان کے بالغ ہوجانے تک پرورش کی تو قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح سے آئیں گے اور آپؐ نے اپنی انگلیوں کو باہم ملایا (یعنی میرا اور ان کا ساتھ ہوگا قیامت کے دن‘‘۔ (صحیح مسلم، کتابُ الْبِرِّ وَ الصِّلَۃِ وَالآدَابِ، فَضْلِ الاِحْسَان إِلَی الْبَنَاتِ)۔

  ایک اور روایت جس میں لڑکیوں کے حقوق کی مزید و ضاحت ہے اور جس میں تعداد کی قید بھی نہیں ہے حضرت ابن عباسؓ کی ہے جس کو ابودائودؒ نے نقل کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

’’مَنْ کَانَتْ لَہُ أُنْثٰی فَلَمْ یَئِدْھَا وَلَمْ یُھِنْھَا وَلَمْ یُؤثِرْ وَلَدَہُ عَلَیْھَا، قَالَ یَعْنِي الذُّکُورَ أَدْخَلَہُ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ وَلَمْ  یَذْکُرْ عُثْمَانُ  یَعْنِي الذُّکُورَ‘‘

’’ جس شخص کے پاس کوئی لڑکی ہو اور وہ اسے نہ تو زندہ در گور کرے، نہ ہی اس کی اہانت کرے اور نہ (سلوک و معاملات میں ) اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح دے تو اللہ تعالی اس کو جنت میں داخل کرے گا۔ ( سنن ابی دائود، کتابُ الأَدَب، باب فِي فَضْلِ مَنْ عَالَ یَتَامٰی)۔

تبصرے بند ہیں۔