عذاب کسی قوم یا بستی پر کب آتا ہے؟

تحریر: محمد عنایت اللہ سبحانی، ترتیب: عبدالعزیز

  قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ صراحت موجود ہے کہ جن بستیوں پر عذاب آیا، وہ ان کے ظلم و استبداد کی وجہ سے آیا ہے، ان کے کفر و شرک کی وجہ سے نہیں آیا۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل آیتیں ملاحظہ ہوں :

 (1  فقطع دابر القوم الذین ظلموا والحمد للہ رب العالمین o (سورہ انعام:45)

 ’’تو ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی، جنھوں نے ظلم کی روش اختیار کی۔ حمد ہے اللہ کیلئے جو سارے انسانوں کا رب ہے‘‘۔

 (2 ’’اور ہم نے تم سے پہلے کی کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر دیا، جب انھوں نے ظلم کی روش اختیار کی۔ ان کے پاس ان کے رسول واضح تعلیمات لے کر آئے لیکن وہ ایمان لانے والے نہ تھے۔ ہم مجرموں کو ایسا ہی مزہ چکھاتے ہیں !‘‘  (سورہ یونس:13)۔

(3 و کذالک اخذ ربک اذا اخذ القری وہی ظالمۃ ان اخذہ الیم شدید o (سورہ ہود: 102)

  ’’ایسی ہی پکڑ ہوتی ہے تمہارے رب کی، جب وہ پکڑ کرتا ہے بستیوں کی، اس حال میں کہ وہ ظلم و استکبار پر اڑی رہتی ہیں ۔ بے شک اس کی پکڑ بڑی المناک اور بڑی سخت ہوتی ہے!‘‘

 (4 وتلک القری اہلکنا ہم لما ظلموا و جعلنا لمہلکھم موعداً o (سورہ کہف:59)۔

  ’’یہ بستیاں ہیں جنھیں ہم نے ہلاک کردیا، جب انھوں نے ظلم کا راستہ اختیار کیا! اور ہم نے ان کی ہلاکت کیلئے وقت مقرر کر دیا تھا‘‘۔

 (5 وما کنا مہلکی القری الا و اہلھا ظالمون o (سورہ قصص:59)

’’اور ہم ان بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں تھے، مگر اس وقت جب ان بستیوں کے لوگ ظلم و تشدد پر اڑے رہے‘‘۔

 (6 ’’رہے عاد، تو انھوں نے ناحق زمین میں تکبر کی روش اختیار کی، انھوں نے کہا: ہم سے زیادہ طاقت والا کون ہے؟ کیا انھوں نے نہیں سوچا کہ اللہ جس نے انھیں پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ طاقت والا ہے۔ وہ جانتے بوجھتے ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے، توہم نے ان پر تیز آندھی بھیجی، ایسے دنوں میں جو ان پر نحوست برسا رہے تھے تاکہ انھیں ذلت و رسوائی کے عذاب کا مزہ چکھا دیں اس زندگی میں ، اور آخرت کا عذاب تو اس سے بھی زیادہ رسوا کن ہوگا اور کہیں سے ان کی مدد نہیں ہوسکے گی!‘‘

رہے ثمود، تو ہم نے صحیح راستے کی طرف ان کی رہنمائی کی تو انھوں نے اندھے پن کو ہدایت پر ترجیح دیا، تو ان کی بداعمالیوں کے نتیجے میں رسوائی کے عذاب کی کڑک نے انھیں دبوچ لیا‘‘ (سورہ فصلت:15-17)۔

 (7 ’’ان کا حال وہی ہوگا جو آل فرعون اور ان سے پہلے کے لوگوں کا ہوا، انھوں نے اپنے رب کی آیات کو جھٹلا دیا تو ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انھیں ہلاک کردیا اور آل فرعون کو ہم نے غرق کردیا۔ یہ سب کے سب ظالم تھے‘‘(سورہ انفال:54)۔

  ظلم و استکبارجو نبیوں کو دھمکیاں دے رہا تھا!

  ان ہلاک ہونے والی بستیوں کے ظلم و استکبار کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف انھوں نے اپنے نبیوں کو جھٹلایا، اور ان کا مذاق اڑایا بلکہ انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں دینے لگیں ! …انھیں دھمکیاں دینے لگیں آگ میں بھون دینے کی!

   انھیں دھمکیاں دینے لگیں پتھروں سے مار مار کر ہلاک کر دینے کی!

  انھیں دھمکیاں دینے لگیں بستی سے نکال باہر کرنے کی!

  قوم نوحؑ: حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے انھیں سنگسار کر دینے کی دھمکی دی: قالوا لئن لم تنتہ یا نوح لتکونن من المرجومین o (سورہ شعراء:116) ۔ ’’انھوں نے کہا: اے نوح! اگر تم اپنی دعوت سے باز نہیں آئے، تو ہوجاؤگے سنگسار کئے جانے والوں میں سے!‘‘

  قوم صالحؑ: حضرت صالح علیہ السلام کی قوم، قوم ثمود نے سازش کی کہ رات کے وقت حضرت صالح اور ان کے بال بچوں پر قاتلانہ حملہ کردیں !

 ’’انھوں نے آپس میں کہا: تم لوگ باہم اللہ کی قسمیں کھاؤ کہ ہم سب مل کر رات میں اس پر اور اس کے بال بچوں پر قاتلانہ حملہ کریں گے، پھر اس کے خاندان کے بڑے ذمے دار لوگوں سے کہہ دیں گے، ان کے گھر والے جس وقت مارے گئے، ہم وہاں موجود نہیں تھے! ہم بالکل سچی بات بتارہے ہیں !‘‘ (سورہ نمل:49)۔

قوم ابراہیمؑ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کی قوم نے نہ صرف آگ کے الاؤ میں جھونک دینے کی دھمکی دی بلکہ عملاً انھیں جھونک دیا: قالوا حرقوہ وانصروا آلہتکم ان کنتم فاعلینo (سورہ انبیاء:68)

 ’’انھوں نے کہا: بھون دو اسے آگ میں اور اس طرح اپنے معبودوں کی مدد کرو، اگر تمہیں ان کی مدد کرنی ہے!‘‘

قوم لوطؑ: حضرت لوط علیہ السلام کو ان کی قوم نے گھر سے بے گھر کر دینے کی دھمکی دی: قالوا لئن لم تنتہ یا لوط لتکونن من المخرجینo (سورہ شعراء:167)

’’انھوں نے کہا: اے لوط! اگر تم اپنے کام سے باز نہیں آئے، تو ہوجاؤگے شہر بدر کئے جانے والوں میں سے!‘‘

  قوم شعیبؑ:حضرت شعیب علیہ السلام کو ان کی قوم نے پتھروں سے مار مار کر ہلاک کر دینے کی دھمکی دی۔

  ’’انھوں نے کہا: شعیب! جو کچھ تم کہتے ہو ، اس میں سے بیشتر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اپنے درمیان میں ہم تمہیں بہت کمزور سمجھتے ہیں ۔ اگر تمہارا خاندان نہ ہوتا تو ہم تمہیں پتھروں سے مار مار کے ہلاک کر دیتے! تم ہمیں ایک نظر نہیں بھاتے‘‘ (سورہ ہود:91)۔

 قوم موسیٰؑ: حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ساتھ فرعون کا کیا رویہ تھا، اس سے کون ناواقف ہوگا؟ پوری قوم بنی اسرائیل کو اس نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا، نبی اسرائیل کی نرینہ اولاد کو قتل کرا دیتا، بچیوں ، عورتوں کو باندی بنالیتا! قرآن پاک میں بار بار اس کا تذکرہ آیا ہے۔

 خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس نے سنگسار کرا دینے کا ارادہ کرلیا تھا: ’’اور ہم نے ان سے پہلے قوم فرعون کو آزمایا، ان کے پاس ایک معزز رسول آیا۔ اس نے کہا: اللہ کے بندوں کو میرے پاس آنے دو،میں تمہارے لئے رسول امین ہوں ۔ تم اللہ سے سرکشی نہ کرو، میں تمہیں واضح نشانی دکھاتا ہوں ۔میں اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ چاہتا ہوں ، اس بات سے کہ تم مجھے سنگسار کرو! اور اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھ سے دور رہو‘‘ (سورہ دخان:17-21)۔

 قوم رسول عربیؐ: رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قریش نے کیا نہیں کیا؟ انھوں نے آپ کو بیڑیاں پہنا دینے یا آپ کے خون سے اپنی تلواریں سیراب کرنے یا آپ کو گھر سے بے گھر کر دینے کی اسکیمیں بنائیں !

 یہ باتیں تاریخ کے ریکارڈ میں بھی موجود ہیں ، اور قرآن پاک میں بھی مذکور ہیں : ’’اور یاد کرو اس وقت کو جبکہ یہ کفار تمہارے خلاف سازشیں کر رہے تھے کہ تمہیں قید میں ڈال دیں یا تمہیں قتل کر دیں یا تمہیں شہر بدر کردیں ! وہ اپنی چالیں چل رہے تھے، اور اللہ تعالیٰ اپنی تدبیریں کر رہا تھا، اللہ سب سے بہتر تدبیریں کرنے والا ہے‘‘ (سورہ انفال:30)۔

 ان ساری قوموں پر اللہ کا تازیانۂ عذاب برسا، اس لئے کہ انھوں نے ظلم کی انتہا کر دی تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ کوئی بھی قوم جب ظلم میں بے باک ہوجاتی ہے تو دیر سویر اس کا بیڑہ غرق ہوکے رہتا ہے۔ (اہل ایمان کو یہ یقین ہونا چاہئے کہ’ظلم ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے‘)۔

تبصرے بند ہیں۔