عشق ہے کہ اُلفت ہے تم سمجھ نہ پاؤ گے

افتخار راغبؔ

عشق ہے کہ اُلفت ہے تم سمجھ نہ پاؤ گے
دل کی کیسی حالت ہے تم سمجھ نہ پاؤ گے

 کیوں سمجھ کے بھی سب کچھ نا سمجھ سا رہتا ہوں
وقت کی نزاکت ہے تم سمجھ نہ پاؤ گے

 اک تمھاری طنّازی میری جان کی دشمن
دوسری محبت ہے تم سمجھ نہ پاؤ گے

دل کی خستہ حالی میں مسکرا کے ملنا بھی
کس قدر غنیمت ہے تم سمجھ نہ پاؤ گے

باتوں باتوں میں لب پر آتے ہی تمھارا نام
کیوں زباں میں لکنت ہے تم سمجھ نہ پاؤ گے

میری ذات میں تم نے ڈوب کر کہاں دیکھا
کس کی کیا علامت ہے تم سمجھ نہ پاؤ گے

کیا یقین کرتے ہو تم گمان پر یوں ہی
اُن کو کیا شکایت ہے تم سمجھ نہ پاؤ گے

زہرِ عشق رگ رگ میں کس قدر سرایت ہے
مجھ میں کتنی وحشت ہے تم سمجھ نہ پاؤ گے

تم کو کیا پتا راغبؔ اُن کی بے رخی کا نام
رنج ہے اذیّت ہے تم سمجھ نہ پاؤ گے

1 تبصرہ
  1. Aafiya کہتے ہیں

    Very beautiful and thought provoking

تبصرے بند ہیں۔