عصرحاضر میں علم دین کی اہمیت وضرورت!

مقبول احمد سلفی

اسلام میں علم دین کی بڑی اہمیت ہے ، یہ جہل کے مقابلے میں ہے ۔علم دین سراپا نور وہدایت ہے اور جہل سراپا کفروضلالت ہے ۔ اسلام نے ہمیں علم دین کے حصول کا حکم دیا ہے ،قرآ ن وحدیث میں علم دین کی بڑی اہمیت وفضیلت بیان کی گئی ہے اور ان میں علم کی فضیلت اور اہل علم کا بڑا درجہ ومقام اجاگر کیا گیا ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :  يَرْ‌فَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَ‌جَاتٍ ۚ (المجادلة:11)

ترجمہ:اور اللہ تعالی تم میں ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جو علم دیے گئے ہیں درجے بلند کردے گا ۔

یہاں انفرادی طور پر اللہ نے بتلایا ہے کہ جو بھی ایمان والا اور علم والا ہے اس کے درجات بلندکردئے جاتے ہیں ۔ نبی ﷺ نے قرآن کو قوموں اور ملتوں کی بلندی کا سبب قرار دیا ہے : إنَّ اللهَ يرفعُ بهذا الكتابِ أقوامًا ويضعُ به آخرِينَ(صحيح مسلم:817)

ترجمہ: بے شک اللہ تعالی اس کتاب کے ذریعہ قوموں کو اٹھاتا ہے اور اسی کتاب کے بدلے قوموں کو نیچے بھی گراتا ہے ۔

یعنی جوقوم قرآن کو پڑھتی ہے اور اس پر عمل کرتی ہے اللہ اسے بلند کرتا ہے اور جو قوم قرآن سے اعراض کرتی ہے اور اس کے مقتضیات پر عمل کرنے سے گریز کرتی ہیں اللہ اسے ذلیل ورسواکرتا ہے اور نیچے گرادیتا ہے ۔

ان دونوں قرآنی آیت وحدیث سے معلوم یہ ہوا کہ قرآن ہی  انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر ترقی کا زینہ ہے اسی لئے قرآن کوسیکھنےاورسکھانےوالے کو سب سے بہتر  کہا گیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : خيرُكم مَن تعلَّم القرآنَ وعلَّمه(صحيح البخاري:5027)

ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے ۔

إنَّ فضلَ العالمِ على العابدِ كفضلِ القمرِ ليلةَ البدرِ على سائرِ الكواكبِ ، وإنَّ العلماءَ ورثةُ الأنبياءِ(صحيح أبي داود:3641)

ترجمہ: بلاشبہ عالم کی عابد پر فضیلت ایسے ہی ہے جیسے کہ چودھویں کے چاند کی سب ستاروں پر ہوتی ہے ، بلاشبہ علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔

علم دین کے حصول سے جنت کے راستے آسان ہوتے ہیں ، نبی ﷺ کا فرمان ہے:

من سلكَ طريقًا يلتمسُ فيه علمًا ، سهَّل اللهُ له به طريقًا إلى الجنةِ(صحیح مسلم:2699)

ترجمہ: جو علم دین کی تلاش میں نکلتا ہے اللہ اس کے لئے جنت کے راستے آسان کردیتا ہے ۔

 ان چند نصوص سے نہ صرف علم دین کی اہمیت وفضیلت معلوم ہوتی ہے بلکہ اس کی اشد ضرورت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔ علم دین کی اہمیت وضرورت سدا سے رہی ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے: طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم (حدیث)

ترجمہ: علم دین کا سیکھنا ہرمسلمان پر فرض ہے ۔

اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ علم دین کا سیکھنا ہمارے اوپر فرض ہے جواسے نہیں سیکھتا وہ اسلامی فریضے سے غافل ہے جس کے متعلق آخرت میں سوال کیا جائے گا اور دنیا میں جہل کے جو نقصانات سے واسطہ پڑے گا  وہ اپنی جگہ ۔

دورحاضر میں علم دین کی اہمیت اور اس کی ضرورت شدیدترین حد تک بڑھ جاتی ہے ۔ اس بات کاحالات حاضرہ  اور موجودہ صورت حالات کے تئیں بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں ۔

اس وقت اسلام کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے ، یہ فتنے کا دور ہے ،اپنی جگہ  ہزاروں قسم کے فتنے  بھی سراٹھاچکے ہیں ۔ برائیوں کے عروج کا فتنہ ، اولاد کی بے دینی ونافرمانی کا فتنہ، عورت کا فتنہ، مال ودولت کا فتنہ ، کفر اور اہل کفر کا فتنہ ، شرک وبدعت کا فتنہ ، عیش پرستی کا فتنہ ، الحاد کا فتنہ وغیرہ ۔

علم دین کےحصول کے راستے میں عوام کے لئے  بڑی رکاوٹ ملحدوں کو علمائے کرام سے بدظن کرناہے ۔ علماء کو  طرح طرح کے طعنے دینا،ان پر کفر کے فتوے لگانا، ان کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرنا اس وقت سوشل میڈیا بلکہ پورے الکٹرانک اورپرنٹ میڈیا پر عام ہے ۔ جاہل لوگ اورٹی وی چینل والے دین اور علمائے دین  پرملحدانہ تبصرے کررہے ہیں ۔ وارثین انبیاءسے متعلق عوام میں شبہات اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کا مقصد انہیں اصل دین سے دور رکھنا اور دین اسلام کی شبیہ بگاڑ کر دنیا والوں کے سامنے خودساختہ اسلام پیش کرنا ہے ۔

کبھی آپ نے جاہل انجینئر،جاہل ڈاکٹر اورجاہل اسکالر نہیں سنا ہوگا مگر جاہل مولوی بہت سنا ہوگا۔ ہوں گے کچھ جاہل قسم کے ملا مگر اس کی وجہ سے سارے وارثین انبیاء کو جاہل کہنا یا ان کی تضحیک کرنا دراصل عام مسلمانوں کو علم وعالم سے دور کرنااوردوسری عوام کے لئے اسلام میں دخل اندازی کا شوشہ چھوڑنا ہے۔حصول علم کے لئے راسخ فی العلم علماء کی ہمیشہ ضرورت ہے ۔ملحدوں کی طرف سے علماء کے متعلق یہ  بہت ہی خطرناک مہم ہے اس کا ہمیں حکمت عملی سے مقابلہ کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ  اسلامی تہذیب کو ختم کرنے کے لئے مغربی تہذیب کو ہرطریقے سے مسلمانوں میں فروغ دیا جارہاہے ۔ اسلامی تعلیم کو ختم کرکے اس کی جگہ الحادی تعلیم کی راہ ہموار کی جارہی ہے ۔ کھانے پینے کی چیزوں میں حرام اشیاء کی ملاوٹ کرکے مسلمانوں کو کھلایا جارہاہے ، اس وقت بازار میں ہزاروں قسم کی کھانے پینے والی چیزوں میں جیلاٹین کی ملاوٹ ہے جو سور، کتا وغیرہ کی ہڈیوں سے بناہوتاہے ۔ بہت ساری ادویہ میں نشہ ، انسانی خون، جانورکاپیشاب، سورکی چربی اور دیگر حرام چیزوں کی ملاوٹ ہوتی ہے ، ان ادویہ کا استعمال مسلمان بھی کرتے ہیں ۔ آج کے دور میں ناچ گانا کو ادب اور عریانیت وفحاشیت کو فیشن قرار دیا جاتا ہے ، اس ادب وفیشن کے نام پر اچھے اچھے مسلمان مردوعورت قربان ہوگئے ۔

سوشل میڈیا پہ اسلام کے خلاف جو پروپیگنڈے کئے جارہے وہ تو بیان سے باہر ہے ۔ کوئی بھی لیپ لیکر ، موبائل لیکر کچھ بھی لکھ کر یا رکارڈ کرکے سوشل نٹ ورک پر ڈال دیتا ہے اور وہ لمحوں میں پوری دنیا میں گردش کرنے لگتا ہے ۔ ایک نے کہہ دیا  ڈاکٹر ذاکرنائیک دہشت گرد ہے بات کونے کونے میں پھیل گئی اور اس وقت ڈاکٹر صاحب کو دہشت گرد وں کے زمرہ میں شامل کرلیا گیا ،قریب ہے کہ ان پر شگنجہ کس کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے انہیں خاموش کردیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب جیسے کتنے معصوم مسلمان دہشت گردی کے الزام میں سلاخوں کی ہوا کھارہے ہیں جن کی کوئی گنتی نہیں اور جن کا کوئی پرسان حال نہیں ۔

کوئی لکھ دیتا ہے  قرآن دہشت کی تعلیم دیتا ہے اور جہاد کی آیات کو اس پر زبردستی فٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے ، یہ پروپیگنڈا سوشل میڈیا پر چھا جاتا ہے۔ یہ سبھی کو معلوم ہے کہ عام طور سے داڑھی والےمسلمان شریف النفس اور بلندکردار کے حامل ہوتے ہیں مگر میڈیا کی کرم فرمائی کہ ہرداڑھی والے کو دہشت گرد کہنے پر تلا ہے۔ نتیجتا مسلم داڑھی رکھنے سے گھبراتا ہے بلکہ اچھے اچھے علم والے داڑھی رکھنے سے خوف کھاتے ہیں ۔ غیرتو غیر اپنے کہے جانے والے جدید ذہن کے مسلمان اس پروپیگنڈا کو سچ مان لیتے ہیں پھر ایسےجدید ذہن والے  مسلمانوں کی طرف سےاسلام سے متعلق قسم قسم کے  شبہات سامنے آنے لگتے ہیں ۔اس کی بہت سی مثالیں جدید ذہن کے شبہات کے موضوع پر مل جائیں گی۔

الغرض اس وقت ہرجانب سے قرآن کے نام پر ، حدیث کے نام پر لوگوں کو گمراہ کیا جارہاہے ، جھوٹی باتیں گھڑ گھڑ کر اسے نبی ﷺ کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے ۔ آپ یہ سمجھ لیں   کہ ملحدوں اور اہل کفرنے سوشل میڈیا کو جھوٹ  ، شہوت ، فریب، اور فسق وفجور کی نشرواشاعت کا ذریعہ بنالیا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ بدعتیوں کے بھی دن اچھے آگئے وہ بھی بدعت اور شرک کے پرچار میں دن رات منہمک ہیں ، کشف وکرامات ، جھوٹے قصے کہانیوں کے فروغ میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ان صورت حال کے زیراثر مسلمانوں میں تیزی سے کفر وشرک پھیلنے لگا، الحادی تعلیم کو گلے لگایاجانے لگا، اسلامی تہذیب پر مغربی تہذیب کو ترجیح دی جانے لگی، مسجدیں سنسان، مدرسے ویران ہونے لگے اور شباب وکباب کی محفلیں آباد ہونے لگیں ۔ پھر مسجدیں مسمار ہونے لگیں ، آذانوں پر پابندی عائد ہونے لگی، داڑھی کو دہشت گردوں کی علامت قرار دی جانے لگی، حجاب کوترقی کی راہ میں رکاوٹ کا نام دے کر ممنو ع قرار دیا جانے لگا اورمسلم بچوں کو قرآن کی تلاوت سے دور کرکے اسکولوں میں طاغوتی ترانے اگلنے والے لگے بلکہ اسلام کا نام ونشان تک مٹانے کی کوشش کی گئی ۔

ان صورت حال سے مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں علم دین سے آراستہ ہونا پڑے گا۔ الحمد للہ علم دین عمر کے کسی حصے میں بھی سیکھ سکتے ہیں ۔ مرد وعورت اور بچے سبھی عمروالے علماء کی رہنمائی میں علم دین بآسانی سیکھ سکتے ہیں ۔ ہمارادین نہایت ہی آسان ہے ۔ اس بات کو رب العالمین نے قرآن  مجیدمیں اور ہادی اعظم ﷺ نے حدیث پاک میں کئی مقامات پر واضح کیا ہے ۔اس وقت یقین کریں علم دین کی سخت  سے سخت ضرورت ہے ۔ قرآن کو فہم وتدبر سے جاننے کی ضرورت ہے تاکہ ہم دین پرصحیح سے عمل کرسکیں ، اسلام اور مسلمانوں کے سامنے جو چیلنجز ہیں ان کا دندان شکن جواب دے سکیں ، سوشل میڈیاکے ذریعہ اسلام کی جس طرح غلط ترجمانیاں کی جارہی ہیں ان کا خاتمہ کرسکیں  اور دنیا وآخرت میں زندگی کی اصل ترقی سے ہمکنار ہوسکیں ۔ یاد رکھیں یہ سب اس وقت ممکن ہے جب ہم کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کا علم حاصل کریں گے ۔ میں آپ کو عصری علوم سے نہیں روکتا ، بلاشبہ  ہمارے لئے عصری علوم کی بھی ضرورت ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ علم دین کی ضرروت ہے۔اس لئے علم دین کا ہرحال میں حصول کریں جوکہ ہمارا اسلامی فریضہ ہے ۔

1 تبصرہ
  1. Abdul raheem salafee کہتے ہیں

    دینی اور عصری علوم کا مشترکہ نصاب

    جھاں تک عصری یونیورسٹیوں کا تعلق ھے تو بلا شبھہ وہ اپنی جھت میں قابل قدر ھیں. تشویش مکتب اور جونیئر کی سطح کے خالص انگلش میڈیم اسکولوں پر ھے جو اتنی کثرت سے کھلتے جارہے ھیں کہ بھت سے مکاتب اسلامیہ اس سیلاب میں بھکر اپنا وجود کھو چکے ھیں چونکہ نئی پود کو یہ پوری طرح سے سمیٹ چکے ھیں اور مکاتب اسلامیہ کے خاتمے کا بھی سبب بن رھے ھیں اس لئے حساس طبیعتوں کی بے چینی اس پر بجا ھے.
    میرے خیال میں اسلامی مکاتب ومدارس کے وجود سے ھی اسلام کا وجود ممکن ھے.
    اسلامی مکاتب کچی اینٹ تیار کرتے ھیں اور وھی مدارس عربیہ میں پک کر تعمیر کا حصہ بنتی ھیں اسے کامل عصریت کے رنگ میں اتار دینا بےحد خطرناک ھے رھی بات عصری علوم کے افادیت کی، تو اسکا انتظام الگ سے ھونا چاہیے
    اس باب میں سمجھوتے کی صرف اتنی گنجائش نکالی جا سکتی ھے کہ علماء عصری علوم(علم ریاضی، انگریزی، ھندی وغیرہ )کے مبادیات سے یکسر محروم نہ کئے جائیں ایسا نصاب ھونا چاہیے اور عصری درسگاہوں کے نصاب میں توحید، رسالت، آخرت کے بارے میں قدرے معلومات شامل کئے جائیں تاکہ وہاں سے مصطفی کمال پاشا جیسے اشخاص کی ولادت نہ ھو .

    لوگ مدارس کو فرسودہ نصاب تعلیم رکھنے کا طعنہ دیتے ھیں اور جدید علوم کی وکالت کرتے ھیں وە مدارس کے قیام کے مقصد کو نھیں سمجھتے, قوم کے 98 فیصد بچے جدید نصاب پڑھ رہے ھیں صرف دو فیصد بچے اسلامی تعلیمات کے لئے مدارس کا رخ کرتے ھیں سوال یە ھے کە دو فیصد کی دنیا سنوارنے کی فکر تو ھو رھی ھے لیکن 98 فیصد کی آخرت کا انھیں احساس نھیں ,جس طرح میڈیکل کالج سے انجینئر نھیں پیدا کئے جاسکتے اسی طرح مدارس سے جدید علوم کے ماہرین نھیں پیدا ھو سکتے.
    مدارس کے قیام کا مقصد اسلام کا فروغ اور تحفظ ھے جدید علوم کی حفاظت نھیں.
    اگر ایک طالب علم کو سارے علوم پڑھاے جاییں مثلا سماجی, سیاسی, معاشی, نباتاتی, حیاتیاتی, نفسیاتی, طبی, وغیرە تو طلب الکل فوت الکل کا خطرہ ھے اور اسکی تائید کوئی احمق ھی کر سکتا ھے,
    بفرض محال کچھ ذھین طلبہ اگر سارے علوم پڑھ بھی لیں تو مجھے بتایا جائے کە کن کن میدانوں میں وە اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں گے
    دینی مدارس اپنا کام جاری رکھے ھوے ھیں انھیں ڈسٹرب کر کے مقصد سے ھٹانے کی سازش کی جارہی ھے.
    منقول

تبصرے بند ہیں۔