عصمت چغتائی کا ناول ’’معصومہ‘‘  :  تعبیر و تشریح

روبینہ تبسم

            یوں تو عصمت چغتائی کے اسلوب اور فن کے متعلق بہت کچھ لکھا جاچکا ہے جس سے ان کے مقام اور انفرادیت کا اندازہ ہوجاتا ہے، مگر ناول ’’معصومہ‘‘ پر لکھی گئی تحریروں کا جائزہ لینے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ معصومہ کی کردارنگاری اور ناول کی دوسری فنی خصوصیات کو محدود نظر سے دیکھا گیا ہے۔ لہٰذا اس مضمون میں ناول اور دوسری تنقیدی تحریروں کا تجزیہ کرکے ایک نئے سرے سے تعبیر و تشریح کی کوشش کی گئی ہے۔

            ناول ’’معصومہ‘‘ ایک ایسی لڑکی کی دکھ بھری داستان ہے جس کو زندگی کے ناسازگار حالات نے معصوم ’’معصومہ‘‘ سے طوائف ’’نیلوفر‘‘ بنادیا۔ زوال حیدرآباد کے پس منظر میں لکھا ہوا یہ ناول فلمی دنیا اور بمبئی شہر کی سیاسی اور معاشرتی زندگی کا مکمل احاطہ کرتا ہے۔ انھوں نے یہاں کے ہوٹل مینجرس، راجائوں، سیٹھ ساہوکاروں، فلم پروڈیوسروں اور سرکاری حاکم وغیرہ کے توسط سے معاشرے کے گھناونے پہلوئوں کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔

            انھوں نے اس ناول کے لیے ایسا ماحول تیار کیا جہاں ہر طرف منفی کردار بکھرے پڑے ہیں۔ کہیں بھی کوئی مثبت کردار نظر نہیں آتا۔ جہاں صرف گناہ، برائی، بے شرمی، بے حیائی اور بے وفائی ہے۔ ہر طرف جنس، دولت، شہرت اور روٹی کے بھوکے ہیں۔ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ کہیں بھی روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ اس ماحول میں ایک ایسے غیر ذمہ دار باپ کی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے جو زوال حیدرآباد کے بعد اپنے بڑے بیٹوں کو لے کر پاکستان چلے جاتے ہیں اور اپنے پیچھے بیگم اور چار چھوٹے بچوں کو چھوڑ جاتے ہیں اس وعدے کے ساتھ کہ کچھ دنوں کے بعد وہ ان کو پاکستان بلا لیں گے۔ لیکن وہاں وہ ایک انیس برس کی لڑکی سے شادی رچا لیتے ہیں۔ باپ کی طرح بھائی بھی پاکستان میں شادی شدہ زندگی کی شروعات کردیتے ہیں۔ انہیں اپنی ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے۔ رنڈیوں کے دلال شاطر دماغ احسان بھائی جیسے لوگ ہیں جو معصومہ جیسی بے سہارا لڑکیوں کی دلالی کرتے ہیں اور شہرت کے لیے اصلی بیوی کو چھوڑ کر فلمی بیوی کے آغوش میں چلے جاتے ہیں اور جس کے ساتھ بنا شادی کیے شادی شدہ زندگی گزارتے ہیں۔ سُمن جیسی بیوی ہے جو شوہر سے عاجز آکر اپنے منہ بولے بھائی مظہر کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔ سورج مل اور احمد بھائی جیسے رئیس لوگ ہیں جو بیوی کے ہوتے ہوئے منہ کا مزہ بدلنے کے لیے داشتائیں رکھتے ہیں۔ راجہ صاحب جیسے دھوکے باز اور عیار سماج سیوک ہیں جو ایک طرف دکھاوے کے لیے غریبوں میں پیسے بانٹتے ہیں وہیں دوسری جانب دنگے کرواتے ہیں اور بڑے بڑے سرکاری افسروں کو خوش کرنے کے لیے لڑکیاں مہیا کرتے ہیں۔ کرنل جیسے سرکاری افسر ہیں جو ہمہ وقت لڑکیوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں اور ایک ایسی ماں ہے جو پیسوں کے لیے اپنی بیٹی کی نائیکہ بن جاتی ہے اور ایک انیس سالہ لڑکی ’’معصومہ‘‘ ہے جو اپنے بھائی بہنوں کے نائو کو پار لگانے کے لیے طوائف بن جاتی ہے۔ ناول پڑھ کر پہلا سوال ہمارے ذہن میں یہ آتا ہے کہ آخر معصومہ کے طوائف بننے کا ذمہ دار ہم کس کو ٹھہرائیں۔ اس کی ماں، باپ، سماج یا پھر خود معصومہ کو؟ سچ یہ ہے کہ معصومہ کے طوائف بننے میں یہ سارے ہی ذمہ دار ہیں۔ یہاں تک کہ خود معصومہ بھی۔

            عیاشانہ مزاج کے والد جنھوں نے کسی زمانے میں خواہش کی تھی کہ معصومہ کو ولایت بھیجیں گے، اس کی کسی آئی۔ سی۔ ایس سے شادی کریں گے، پاکستان جاکر انیس سالہ لڑکی سے شادی رچا لیتے ہیں بنا یہ سوچے سمجھے کہ ان کے پیچھے ان کی انیس سالہ لڑکی کا کیا بنے گا۔ عیاشانہ مزاج کی ماں شوہر کی بے وفائی کے بعد حیدرآباد سے بمبئی چلی آتی ہیں یہ سوچ کر کہ شاید یہاں پیسوں کا کوئی ذریعہ نکل آئے۔ یہاں ان کی ملاقات ایک پرانے شناسا احسان صاحب سے ہوتی ہے۔ وہ کچھ دن تو ان کی مدد کرتے ہیں اس کے بعد اپنے مطلب کی خاطر ایک رئیس احمد بھائی کے لیے معصومہ کی دلالی شروع کردیتے ہیں۔ یہاں سے سماج معصومہ کی زندگی کو تباہی کے راستے پر لے جانا شروع کردیتا ہے۔ بیگم صاحبہ کا مامتا کا جذبہ جوش مارتا ہے اور وہ یہ برداشت نہیں کرپاتی ہیں کہ کوئی ان کی بیٹی کی دلالی کرے لیکن پھر بعد میں پیسے کو مجبوری بنا کر سودا کرلیتی ہیں۔ نیز اپنی بیٹی کو طوائف بنا کر وہ کہیں نہ کہیں اپنے شوہر سے بدلہ لینا چاہتی ہیں۔ وہ سوچتی ہیں کہ بڑے میاں کو جب پتہ چلے گا کہ ان کی بیٹی نے دھندہ شروع کردیا ہے تو مزہ آجائے گا۔

            یہاں یہ بات بعید از قیاس لگتی ہے کہ ایک ماں محض پیسے اور بدلے کی خاطر اپنی بیٹی کا سودا کیسے کرسکتی ہے۔ لیکن عصمت چغتائی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے آگے یہ بات بھی بتا دی کہ جاگیردارانہ گھرانوں کا ماحول ہمیشہ سے ایسا ہی تھا۔ روزہ، نماز کی خواہ کتنی ہی پابندیاں کیوں نہ ہوں لیکن برائیاں اپنی جگہ قائم تھیں اور غربت نے اسی برائی کو از سرنو زندہ کردیا تھا۔

’’جاگیرداری نظام کی تمام لعنتیں سوئی پڑی تھیں۔ فاقوں اور غربت نے انہیں رگوں میں پھر زندہ کردیا…… لڑکیوں کے سودے تو پشتوں سے ہوتے چلے آئے تھے۔ ان کی جوان خالہ بڈھے پھونس نواب قمرالدین کو پیسے کی خاطر بیاہی گئی تھیں۔ کھلے بندوں ان کا سول سرجن صاحب سے تعلق تھا۔ خود ان کی بڑی کے شوہر نے ایک میم سے شادی کرلی تھی۔ اس کا غم وہ ایک شاعر کی آغوش میں غلط کرتی تھیں۔ عزت اور شرافت کا پیمانہ تھادولت اور مرتبہ۔ ‘‘  1؎

            بہت سے ناقدین نے معصومہ کے کردار کو لے کر کچھ اعتراضات کیے ہیں۔ وہ یہ کہ معصومہ جاندار کردار نہیں ہے۔ عصمت نے اس کردار پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ وہ گناہوں کے جال سے نکلنے کی کوشش نہیں کرتی ہے۔ گرچہ وہ اپنی اس زندگی سے خوش نہیں ہے اور بعض اوقات وہ ماضی کی اس بھول بھلیوں میں کھو جاتی ہے جہاں وہ ہل ہل کر سپارے پڑھ رہی ہے لیکن اس کی کمزوری یہ ہے کہ وہ اس زندگی کو اپنا تقدیر مان لیتی ہے اور اس سے نکلنے کی جدوجہد نہیں کرتی۔ چونکہ وہ تعلیم یافتہ تھی لہٰذا طوائف بننے کے علاوہ روزی روٹی کا کوئی اور ذریعہ بھی ڈھونڈھ سکتی تھی۔ پھر آخر کیوں اس نے اپنے دماغ کا استعمال نہیں کیا اور اس دلدل میں پھنستی چلی گئی؟

            ڈاکٹر عبدالحق کاس گنجوی اپنے مضمون ’’عصمت چغتائی اور حقیقت نگاری‘‘ میں رقم طراز ہیں :

’’عصمت کی ہیروئن اپنے بے راہ روی اور جنسی دلدل میں لوٹ لگانے کے لیے معاشی حالات کو ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ وہ یہ کہہ کر تسلی دیتی ہے کہ اگر اس کا عورت پن نیلام ہورہا ہے تو یہ اس کی غلطی نہیں معاشی بدحالی اور اس سے پیدا ہونے والی مجبوریاں اسے اس گرے ہوئے مقام پر لے آئی ہیں …… لیکن آفاقی اقدار کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے اندر کا انسان مرنے نہ پائے۔ وہ ان واقعات اور حالات کے اصل مسئلے پر غور کرکے ان پر قابو پانے کی ہر ممکن مسلسل جدوجہد کرتا رہے۔ ‘‘  2؎

ڈاکٹر فرزانہ اسلم لکھتی ہیں :

’’عصمت کو معصومہ سے اگر واقعتا ہمدردی ہوتی تو وہ اسے تقسیم کا المیہ بناسکتی تھیں …… اس ناول میں جاندار کردار صرف دو ہیں سیٹھ سورج مل کنوڈیا اور راجہ صاحب۔ احسان صاحب کے کردار میں بھی حقیقت نظر آتی ہے لیکن معصومہ ایک طوائف سے اوپر نہیں اٹھتی۔ ‘‘  3؎

            ’’معصومہ‘‘ جاندار کردار ہے یا نہیں یہ الگ بحث ہے البتہ عصمت نے معصومہ کے کردار کو جس انداز میں پیش کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اس کردار کو پیش کرنے کے پیچھے ان کا جو مقصد تھا وہ بالکل واضح ہے۔ معصومہ کے کردار میں کسی طرح کی کوئی جدوجہد نہ دکھانے کے پیچھے وجہ یہ ہے کہ عصمت اس کے توسط سے اس حقیقت کو پیش کرنا چاہتی ہیں کہ معصومہ کی طرح اور نہ جانے سماج میں کتنی لڑکیاں ہیں جو حالات کے آگے سر جھکا دیتی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی دکھانے کی کوشش کی ہے کہ انسان اپنی پریشانیوں کو سبب بنا کر کس طرح اور کتنی جلدی گناہوں میں ملوث ہوجاتا ہے اور جب وہ گناہوں کے دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے تو پھر اس کو کوئی بھی غلط کام کرنے میں جھجک محسوس نہیں ہوتا۔ سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں مفقود ہوجاتی ہیں۔ نیز عصمت اپنے کرداروں کی بے راہ روی کے لیے محض معاشرے کو ہی الزام نہیں دیتیں بلکہ اس کے لیے وہ عورت کو خود بھی اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں، ورنہ معصومہ کے حوالے سے وہ یہ باتیں کبھی نہ کہتیں۔

’’بدی کتنی جلدی اور آسانی سے انسان میں رچ جاتی ہے۔ نیکی کی تلقین کے لیے بڑے بڑے اوتار اور پیغمبر سر پٹک کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہارگئے۔ بدی دلچسپ ہے، ہنگامہ خیز ہے، نیکی کٹھن لوہے کے چنے چابنے کی طرح ہے۔ ساری عمر کی تربیت رانگے کی قلعی کی طرح دو چارٹائو لگنے سے اترگئی۔ ‘‘  4؎

’’گناہ جب ضرورت زندگی کی صورت اختیار کرلے تو پھر گناہ نہیں عقل و دانش کا تقاضا بن جاتا ہے۔ جس حمام میں سب ہی ننگے تھے وہاں اسے اپنے برہنہ پن سے کیوں تکلف محسوس ہوتی۔ ‘‘  5؎

            عصمت کو اس بات کا احساس ہے کہ معصومہ پیسے کے لیے کوئی اور جائز راستہ اپنا سکتی تھی لیکن وہ ایسا نہیں کرتی بلکہ وہ مجبور ہو کر اپنی ماں کے فیصلے کے آگے سر جھکا دیتی ہے۔ یہاں پر معصومہ کی وہ کمزوری ابھر کر سامنے آتی ہے جو عصمت دکھانا چاہتی ہیں۔ اسی طرح ماں محنت کرکے کسی طرح پیسے کا انتظام کرسکتی تھیں اور اپنی بیٹی کو غلط راستے پر جانے سے بچا سکتی تھیں لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ محنت و مشقت کرنا ان کی فطرت میں ہی نہیں تھا۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی کبھی کوئی مشکل کام نہیں کیا تھا۔ خالائوں، پھپھیوں اور نانی نے معصومہ کو پال پوس کر بڑا کیا تھا۔ انھوں نے اس کو نو مہینے پیٹ میں رکھا تھا اور شاید اسی کا کرایہ وصول کرنے جارہی تھیں۔ غرض کہ عصمت کے دوسرے ناولوں کی طرح اس میں بھی ماں کا کردار بہت ہی غیرذمہ دارانہ ہے۔

            ’’عصمت، معصومہ کو تقسیم کا المیہ بناسکتی تھیں ‘‘، یہ کہنا بھی صحیح نہیں معلوم ہوتا کیونکہ معصومہ تقسیم ہند کی وجہ سے تباہی کے راستے پر نہیں پہنچی۔ تقسیم تو اس کی تباہی کا صرف ایک بہانہ ہے۔ اصل ذمہ دار اس کے والدین ہیں جنھوں نے اسے قعرمذلت میں دھکیل دیا۔

            غرض کہ ان تمام تر باتوں کے پیش نظر معصومہ کے حوالے سے یہ کہنا کہ عصمت کو کردار نگاری میں مہارت حاصل نہیں ہے یا یہ کہ عصمت انسان کی اعلیٰ اقدار کو ذہن میں نہیں رکھتیں اور نہ ہی وہ یہ ثابت کرتی ہیں کہ انسان اپنی لگن اور ذہنی صلاحیتوں کی وجہ سے ہر قسم کی پریشانیوں سے نجات پاسکتا ہے یا پھر یہ کہ عصمت کو اس کردار کی پیش کش میں حقیقت کے ساتھ تخیل سے بھی کام لینا چاہیے تھا اور اس کردار میں تھوڑی بہت لچک پیدا کرنی چاہیے تھی، یا پھر یہ کہ عصمت اس کردار کی جانب تھوڑا اور توجہ دیتیں تو یہ دوسری امرائو جان ادا بن جاتی۔ یہ سب کہنا بے معنی سا لگتا ہے کیونکہ عصمت سماج کی اس حقیقت کو پیش کرتی ہیں جو وہ خود دیکھتی ہیں۔ انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کوئی ان کے کردار کو جاندار کہے یا بے جان، حقیر ترین مخلوق کہے یا اعلیٰ اقدار کا نمونہ۔ انھوں نے اس کردار کا نقشہ جس طرح ہمارے سامنے پیش کیا ہے اس سے بس ہمیں یہی سمجھنا چاہیے کہ اگر سماج میں کرشن چندر کی ’’لاچی‘‘ (ایک عورت ہزار دیوانے) جیسی باغی، سمجھدار اور پُرہمت لڑکیاں ہیں تو ’’معصومہ‘‘ جیسی بُزدل، فرمانبردار اور مشکل حالات میں سرجھکا دینے والی لڑکیاں بھی ہیں۔

            چونکہ عصمت چغتائی کی انفردایت یہ ہے کہ انھوں نے مسلم متوسط طبقے کے گھرانوں کے لڑکوں اور لڑکیوں کی جنسی اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو اپنا موضوع بنایا، لہٰذا ان کی تحریروں میں جنسی عناصر کی کارفرمائی فطری بات ہے۔ ناقدین نے ان کی جنس نگاری کے سلسلے میں الگ الگ توجیہات پیش کی ہیں۔

            ڈاکٹر ہارون ایوب لکھتے ہیں :

’’عصمت چغتائی کے ناولوں کا اہم موضوع جنس ہے جس کو انھوں نے بڑی بے باکی اور بے تکلفی سے پیش کیا ہے لیکن جنسی حقیقت میں لذتیت کا کوئی پہلو نمایاں نہیں ہوتا۔ ‘‘  6؎

ڈاکٹر عبدالحق حسرت کاس گنجوی رقم طراز ہیں :

’’عصمت چغتائی نے حقیقت نگاری کے جوہر تو دکھائے ہیں کمی صرف اس بات کی ہے کہ انھوں نے مسائل کا گہرا فلسفیانہ تجزیہ نہیں کیا ہے۔ وہ لذتیت کی دلدل سے بچ کر نہیں نکلتیں۔ ‘‘  7؎

ڈاکٹر نیلم فرزانہ لکھتی ہیں :

’’نیلوفر کے سلسلے میں بعض بیانات میں اس قدر عریانیت آگئی ہے کہ وہ گراں گزرتی ہے۔ اس طرح کے عریاں بیانات سے اگر یہ ناول پاک ہوتا تو بھی اس کی حقیقت نگاری میں کوئی فرق نہ آتا۔ ‘‘  8؎

            عصمت چغتائی ایک بے باک تخلیق کار ہیں۔ انھوں نے انسان کی جنسی زندگی کے جس نئی حقیقت کا سراغ لگایا تھا اس کو پیش کرنے کے لیے انہیں ہر طرح کی سماجی پابندیوں، اخلاقی اقدار، رسومات اور ماحول سے بغاوت کرنی تھی۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے ناول ’’معصومہ‘‘ میں دوسرے ناولوں کے بالمقابل جنسی عناصر سے زیادہ کام لیا ہے۔ لیکن یہ بات محل نظر رہے کہ عریانیت سے کام لینا ان کی مجبوری تھی ورنہ یہ کیسے پتہ چلتا کہ وہ معصومہ جو ایک نارمل ہستی کی طرح کہانی میں داخل ہوئی تھی حالات و واقعات سے مدّصا ہوکر اپنے اوپر سے ایک ایک چادر اس طرح ہٹاتی چلی گئی کہ اس کا جسم ہی نہیں بلکہ روح بھی ننگی ہوگئی تھی اور کس طرح کہانی کے انجام تک پہنچتے پہنچتے اس کے اندر کے طوائف کا رویہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔

            کہانی میں بعض لمحے ایسے بھی آتے ہیں جہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی بے حیائی، بے شرمی اور فحاشی سے سامنے والے کو تھپڑ مارنے کی کوشش کررہی ہو اور یہ کہہ رہی ہو کہ دیکھو تم سب لوگوں نے میرا غلط استعمال کیا تو میں بھی کسی سے کم نہیں۔

’’میں ڈھل گئی ہوں۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا بلائوز تار تار کرڈالا اور تن کر کھڑی ہوگئی۔ دیکھ اندھے۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے وہ اس بپھرے ہوئے طوفان کو دیکھتے رہ گئے۔ بیگم کے ہاتھ سے سلاد کی پلیٹ چھوٹ پڑی۔

’’ہے ہے نامراد۔ دیوانی ہوئی ہے کیا؟ شرم نہیں آتی؟‘‘

’’نہیں آتی شرم۔ نیلوفر نے آنسوئوں بھرا قہقہہ لگایا اور جھٹکے سے بکھرے ہوئے بال پھینک کر بالکل احسان صاحب کے سر پر چڑھ آئی۔ ‘‘  9؎

’’دام نہیں خرچنا ہوں گے۔ مفت۔ بس ایک بار۔ لو مجھے بانہوں میں لے لو۔ اس نے ڈریسنگ گائون کرسی پر چھوڑدیا اور کھڑی ہوگئی اور جب مینجر صاحب کے گیلے گیلے رال میں تر ہونٹ اس کے قریب آئے تو اس نے اپنے دل کا سارا غصہ، ساری ہتک منہ میں سمیٹ کر اس کے چہرے پر تھوک دیا۔ ‘‘  10؎

            عصمت نے اس ناول میں سیٹھ سورج مل کنوڈیا کے توسط سے بمبئی کی فلمی دنیا کا مکمل نقشہ کھینچا ہے اور اس چمک دمک کی اصل زندگی کے پول کھولے ہیں۔ کس طرح یہاں سود، رشوت، بلیک پیسہ کا بازار گرم ہے۔ سب ایک دوسرے کو لوٹنے پر لگے ہوئے ہیں۔ یہاں جس انسان کو آسمان پر چڑھایا جاتا ہے پل بھر میں اس کو زمین پر گرادیا جاتا ہے۔ پروڈیوسر ہیروئنوں کو اپنی فلم میں رکھنے کا وعدہ کرکے ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ سیٹھ سورج مل بھی انہیں میں سے ایک ہے جو فلم میں آنے والی لڑکیوں سے دستخط کروا کے ان کے نام سے لڑکیوں کا لین دین کرتا ہے۔ معصومہ پڑھی لکھی تھی لیکن اس کے باوجود وہ سائن کردیتی ہے کیونکہ اسے اسی میں فائدہ نظر آتا ہے۔ وہ سورج مل کر اپنا شوہر مان چکی تھی لیکن سورج مل سے معصومہ کے جب ایک لڑکی ہوجاتی ہے توپھر اس کے لیے اس میں کوئی کشش باقی نہیں وہ جاتی۔ اب اس کی نظر پنجاب سے آئی ہوئی ایک نئی لڑکی میں سما جاتی ہے۔ نیلوفر کو جب اس بات کا علم ہوتا ہے تو وہ غصے میں آکر چیک پر دستخط کرنے سے منع کردیتی ہے لیکن سورج مل کا اس سے کچھ نہیں بگڑتا ہے کیونکہ پنجاب کی نوخیز کلی شکوفہ کے پاس جسم ہی نہیں بلکہ پیسہ بھی ہے۔

            فلمی دنیا کی اصل زندگی کو مندرجہ ذیل اقتباس میں دیکھئے:

’’کیا بھگوان کی لیلا ہے اس کی ماں کا یار اس کا قانونی شوہر قانون اور شوہر، شوہر اور قانون…… سب ایک سڑک کے پتھر ہیں، جن سے نیلوفر جیسی بے بس لڑکیوں کو سر پھوڑنا پڑتا ہے…… کل شگوفہ کے پہلے فلم کی مہورت ہے۔ وہی ہیروئن ہے، وہی اپنا پیسہ لگا رہی ہے۔ اپنا پیسہ…… سیٹھ کا پیسہ…… اپنا جسم…… اور سیٹھ کا جسم!

یہی پیار ہے …… اور یہی بیوپار!‘‘  11؎

            عصمت نے اس ناول میں راجہ صاحب کے توسط سے تقسیم کے بعد کی سیاسی صورت حال کا بھی نقشہ کھینچا ہے کہ تقسیم کے بعد کس طرح زمین دار اور جاگیردار تاجر بنتے جارہے تھے۔ یہ خود کو حب الوطن اور سماج سیوک کے روپ میں پیش کر رہے تھے اور افسروں کو رشوت دے کر اپنا اُلّو سیدھا کررہے تھے۔

            سورج مل نے اونچی قیمت لگا کر معصومہ کو راجہ صاحب کے ہاتھوں بیچ دیا تھا۔ یہ راجہ صاحب ایک ایسے ہی سماج سیوک تھے جو راجہ ہوتے ہوئے بڑے بڑے شہروں میں اپنی جائیداد بنا رہے تھے۔ اپنے کاروبار میں اضافہ کرنے کے لیے بڑے بڑے سرکاری افسروں کو شراب اور حسین لڑکیاں پیش کرکے ان سے دوستی مضبوط کرتے تھے۔ معصومہ بھی آئے دن کرنل صاحب کا دل لبھانے کے لیے مہیا کی جاتی۔

            اس ناول کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سماج کے مکروہ چہرے احسان، احمد بھائی، سورج مل کنوڈیا، راجہ صاحب وغیرہ آج بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور ان کے مقابل ’’معصومہ‘‘ جس کو اپنی غلطی کا احساس ہے جو اپنی بہن حلیمہ کی شادی نہ ہوسکنے کا سارا الزام اپنے سر لے لیتی ہے، جو اپنے بھائی بہنوں کی تعلیم کے لیے پوری زندگی پیسوں کا انتظام کرتی ہے، سماج کی پیشانی پر ایک بدنما داغ بن کر رہ گئی۔ سماج میں اس کی حیثیت ایک رنڈی سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ اس طرح اس کا کردار ایک زبردست المیہ بن کر ابھرتا ہے۔

            عصمت کی تخلیقات میں جو چیز سب سے زیادہ قاری پر اثر کرتی ہے وہ ان کی زبان ہے۔ اصطلاحات و محاورات، نت نئی تشبیہات میں ان کی انفرادیت جھلکتی ہے۔ ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے بات چیت کے جس تجربے سے ہم گزرتے ہیں وہ ہمیں بیدی، کرشن چندر اور منٹو کے یہاں کم ہی نظر آتا ہے۔ غرض کہ عصمت نے اپنے ناولوں کے ذریعے معاشرے کی ایسی تہہ در تہہ پرتیں کھولی ہیں جو ہماری نظروں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی نہیں تھیں۔ یہ عصمت ہیں جنھوں نے ایک بار پھر ہمیں ان کی جانب ایک نئے انداز سے متوجہ کیا۔

حواشی

1۔          عصمت چغتائی، معصومہ، ص54، آفسیٹ پرنٹرس، دہلی، 2002ء

2۔          ڈاکٹر عبدالحق حسرت کاس گنجوی، مضمون عصمت چغتائی اور حقیقت نگاری، مشمولہ عصمت چغتائی نقد کی کسوٹی پر (جمیل اختر)، ص634، میکاف پرنٹرس، دہلی، 2001ء

3۔          ڈاکٹر فرزانہ اسلم، عصمت چغتائی بحیثیت ناول نگار، ص105۔ 106، انیس آفسیٹ، نئی دہلی، 1996ء

4۔          معصومہ، ص53۔ 54

5۔          ایضاً، ص96

6۔          ڈاکٹر ہارون ایوب، پریم چند کے بعد اردو ناول، ص142، اردو پبلشرز، لکھنؤ، جون 1978ء

7۔          ڈاکٹر عبدالحق حسرت کاس گنجوی، مضمون عصمت چغتائی اور حقیقت نگاری، ص640

8۔          نیلم فرزانہ، اردو ادب کی اہم خواتین ناول نگار، ص97، جے کے آفسیٹ دہلی، 2014ء

9۔          معصومہ، ص70

10۔        ایضاً، ص86۔ 87

11۔        ایضاً، ص68

تبصرے بند ہیں۔