علماء کے لیے تجارت کے آسان طریقے

وردہ صدیقی

(نوشہرہ کینٹ)

جب دینی مدارس کے طلباء کرام درس نظامی مکمل کر کے عملی میدان میں اترتے ہیں تو منبر ومحراب کی ذمہ داری سنبھالنے کے ساتھ ساتھ ذریعہ معاش کی تلاش ان کے لئے ایک آزمائش سے کم نہیں ہوتی۔ ایسے میں اگر یہ تجارت کو اپنائیں تو یہ ان کے حق میں بہت بہتر رہے گا۔ بہت سی آسانیوں کے ساتھ شروع میں انہیں کئی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

 مدارس کی طرف رخ کرنے والوں میں اکثر طلباء غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے پاس سرمایہ ہوتا ہے نہ تجربہ ایسی صورت میں انہیں کیا کرنا چاہیے؟

 سب سے پہلے تو والدین کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح لکھانے پڑھانے میں اتنا تعاون کیا وہاں اب اولاد کو برسر روزگار بنانے میں بھی مدد کریں۔

حضرت شاہ جی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب اولاد بالغ ہوجائے تو دیگر امور کی طرح ان کے کسب معاش  کے اسباب تلاش کرنے میں ان کی مدد کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ وہ فرماتے ہیں بچے کے نشو نما کے بعد ان کے معاش ومعاد سے متعلق ضروری نفع بخش تعلیم دی جائے اور جب وہ بڑا ہو جائے تو اس کی شادی کی جائے اور ایسا پیشہ و ہنر سکھایا جائے جو اس جیسے ساتھیوں کے شایان شان ہو۔ (البدر البالغہ)

فضلاء کرام اور وراثتی پیشہ

فضلاء کرام کے لیے بہتر تو یہ ہے کہ درس وتدریس کے ساتھ ساتھ والدین کا وراثتی پیشہ اپنائیں جوان کے آباء و اجداد کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے ساتھ شامل ہوجائیں۔ یہ بیحد آسانیوں کا متحمل ہے۔

 اول یہ کہ آپ کو یہاں سرمایہ لگانے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی دوم یہ کہ آپ نے اپنے ابا، چچا وغیرہ کو کام کرتے دیکھا ہوگا تو ضرور کچھ نا کچھ سوجھ بوجھ ہوگی سوم یہ کہ آپ کے سرپرست ہر وقت آپ کی رہنمائی اصلاح و تعاون کے لئے موجود ہوں گے۔ چہارم یہ کہ امامت درس وتدریس اور تجارت۔ ۔۔۔ دونوں کو بہت اچھے سے مینج کر لیں گے۔

 مہارت و صلاحیت 

جس چیز سے متعلق آپ دلچسپی رکھتے ہیں، آپ میں اس کام کے کرنے کی جسمانی استعداد اور ذہنی میلان بھی موجود ہے تو اس پیشے کو بخوشی اپنائیے۔ اگر آپ اپنی صلاحیت کے مطابق کام کریں گے تو بہت جلد ترقی کرتے چلے جائیں گے اور اگر مجبور ہوکر کوئی کام کریں گے تو عین ممکن ہے کہ بہترین نتائج برآمد نہ ہوں۔

دورانِ تعلیم بھی ہنرسیکھیے

طالب علمی زمانے میں اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں اس کے لیے سب سے نادر موقعہ یہ ہے کہ جب بھی آپ کو فارغ وقت ملے۔۔۔۔۔ خصوصاً سکول، کالج، یونیورسٹی اور مدرسے کی چھٹیوں کو کارآمد بناتے ہوئے فورا ًکوئی ہنر سیکھئیے، شارٹ کورس کریں۔ ۔۔ باہر نکلیں۔ ۔۔۔. ہر قسم کے کام کو پرکھیں، بزنس کے اونچ نیچ کا بغور مشاہدہ کریں۔ اس وقت آپ کو پتہ چلے گا کہ کیا کام آپ کے حال کے مناسب ہے…؟؟ کس کام میں آپ شوق و دلچسپی رکھتے ہیں …؟؟ کس کام میں آپ کو صلاحیت و مہارت حاصل ہے۔۔۔۔؟؟ جان لینے کے بعد اس کام کا انتخاب کیجئیے۔ اور تعمیل کے لئے کمر باندھ لیں۔ بہت جلد آپ ترقی کی منازل طے کرتے چلے جاہیں گے۔

دراصل "تلاش منزل” کا یہ time duration بڑا ہی کڑا اور پر مشقت ہوتا ہے مگر کچھ وقت کی پریشانی اور تنگی اٹھا کر کر آپ ہمیشہ کا چین و سکون حاصل کرلیتے ہیں۔ لہذا اپنی صلاحیت و مہارت کو ترجیح دیجیے۔

مجھے لگتا ہے تم اسے عمدگی سے کرتے ہو!

صحابہ کرام مسجد نبوی کی تعمیرکے لئے اینٹیں تیار کر رہے تھے۔ حضر موت ایک شخص بڑی عمدگی سے مٹی گوندھ رہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا کام دیکھ کر فرمایا :

” خدا اس پر رحمت فرمائے جو کسی صنعت میں کمال پیدا کرے. "

پھر اس شخص سے فرمایا:

” تم اسی کام میں لگے رہو مجھے لگتا ہے تم اسے عمدگی سے کرتے ہو "(ابن ماجہ)

 تجارت کے میدان میں اپنی صلاحیت جان لینے کے بعد اسی فیلڈ کے کسی تجربہ کار تاجر سے جڑ جائیے جو آپ کے ساتھ مخلص ہو، جو بہترین رہنمائی کرے اور آپ بھی جی جان لگا کر محنت کیجئے کاروبار کے ہار میں خوب اچھے طریقے سے لین دین کے موتی پرونا سیکھ لیں۔ تاکہ تجربہ اور سرمایہ ہاتھ آتے ہی آپ جلد اپنا کام شروع کر سکیں۔

قرضِ حسنہ بھی لے سکتے ہیں

  اگر آپ کے پاس تجربہ ہے۔ تو قرض حسنہ لے کر کام شروع کریں۔ اس صورت میں تو یہ بہت سود مند رہتا ہے جبکہ آپ کے پاس عقلمندی، ذہانت، فہم وفراست اور تجربہ موجود ہو۔ ۔۔ آپ نے سروے کیا ہو۔ ۔۔ تو آپ قدم جما سکتے ہیں بصورت دیگر ہوسکتا ہے کہ آپ کاروبار میں مار کھا جائیں اور نقصان کر بیٹھیں۔

 پارٹنر شپ کیجئے

 اگر آپ کے پاس سرمایہ اور تجربہ دونوں موجود ہیں اور آپ امامت کے ساتھ ساتھ بھر پور کاروبار بھی کرنا چاہتے ہیں۔

تو اپنے ہی جیسے کسی ساتھی کے ساتھ مل کر پارٹنر شپ پر کاروبار کیجیے۔ یہ وہ صورت ہے جس میں آپ آسانی کے ساتھ علمی ومعاشی دونوں سلسلوں کو بہترین طریقے سے جاری رکھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ الصحیح البخاری میں آپ نے پڑھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ باری مقرر فرمائی تھی۔ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتے تو اس روز آپ کا ساتھی اپنی معاشی ضروریات میں مصروف رہتے۔ جب وہ آتے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کو دن بھر کے تمام سنے ہوئے اقوال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور احوال النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیراب / فیض یاب فرماتے ایسے ہی دوسرے دن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے معاشی کاروبار میں مشغول ہوتے۔ شام کو جب ساتھی کے پاس جاتے تو وہ انہیں سارے دن کے حالات و واقعات سے آگاہ کرتے۔

 یہ آخری طریقہ سب میں فائدہ مند ہے اگر علما ء حضرات احسن طریقے سے اپنے علمی ومعاشی اوقات کار کو تقسیم کرلیں تو بہت فائدے میں رہیں گے۔

 آپ انبیا علیہم السلام صحابہ کرام اکابرین عظام کی زندگیوں کا مطالعہ کریں۔ آپ کو اپنے ارد گرد بھی ایسی زندہ مثالیں ضرور ملیں گی۔ امام الفقہا ء والمحدثین حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ جن کا دینی و معاشی کاروبار اوج کمال پر تھا۔ جنہوں نے فقط اپنی ذات کیلئے نہیں کمایا بلکہ بہت سے غریبوں یتیموں اور مسکینوں کی کفالت بھی فرمائی۔

بے شک اللہ کا بے انتہا فضل اور بے پایاں رحمت ان لوگوں کا مقدر ہوتی ہے جو مخلص اور ایماندار ہوں، آپ بھی اپنے پیشے سے محبت کر کے صدق و سچائی اور محنت کی غذا سے اسے پروان چڑھائیں اور غیر کے احتیاج پر اپنے ہاتھ کی کمائی کو ترجیح دیں۔ اپنے بل بوتے پر کھڑے ہوکر اپنا مقام بنائیں اور کھجور کے درخت کی طرح بن جائیں جس پر سخت سے سخت حالات آتے ہیں مگر وہ کبھی نہیں اکھڑتا۔

تبصرے بند ہیں۔