عورت: جن سے ڈرتا ہے زمانہ سارا

محمد صالح انصاری

ابھی چند دن بھی نہیں ہوئے جب دلّی پولیس اور ممبئی پولیس نے شکایت ملنے کے بعد کچھ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو گرفتار کیا تھا۔ جو بلّی بائی ایپ کے ذریعہ مسلم خواتین کے خلاف نفرت پھیلانے اور انکی نیلامی کرنے کا کام کرتے تھے۔  ابھی تک وہ سلسلہ چل رہا ہے اور نئے نئے نوجوان جو ابھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں انکی گرفتاریاں لگاتار ہو ہی رہی تھیں کہ اب ایک نیا معاملہ سامنے آ گیا۔ اور معاملہ بھی ٹھیک اسی طرح کا کہ کچھ اوباش اور بدمعاش قسم کے نوجوان کلب ہاؤس نام کے موبائل ایپ پر لڑکیوں کہ خلاف گندی گندی نفرت آمیز باتیں کر رہے تھے اور حیرت کی بات یہ ہے کی یہ نوجوان نسل مسلم نفرت نے اتنی بری طرح گرفتار ہو چکے ہیں کہ خود لڑکیاں ہی لڑکیوں کے خلاف ایسے کاموں میں لڑکوں کا ساتھ دیتی نظر آ رہیں ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے جو معاشرے میں اتنی زیادہ نفرت کی آندھی چل رہی ہے۔ ایک طرف پولیس نے روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے کوئی دوسری جگہ تلاش کر لی اور پھر سے اسی نفرت کے کام کو آگے بڑھانے لگے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں کو  ایسے کاموں کو لیکر نشا ہو گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ پولیس اور قانون کی موجودگی میں بھی اپنے ماں بہن اور بیوی جیسے پاک رشتوں کو تار تار کر رہیں ہیں اور انکو کسی طرح کا کوئی ڈر اور شرمندگی کا احساس تک نہیں ہے۔

اگر پولیس نے یہی کام گزشتہ سال جون اور جولائی کے مہینے میں سُلی ڈیل کے معاملے میں  ہی کیا ہوتا اور گنہگاروں کو گرفتار کر کیفر کردار تک پہنچایا ہوتا تو آج انکے حوصلے بلند نہیں ہوتے اور نہ اُنکی اتنی ہمت ہوتی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے میں نفرت کی سیاست کرنے والی ہماری نام نہاد حکومتوں کا بھی ہاتھ ہے اور یہ بات بلکل یقینی ہے کہ ہماری حکومتوں نے جو آئی ٹی سیل تیار کر رکھا ہے یہ سارا نفرت کا بازار انہیں لوگوں کا تیار کیا ہوا ہے۔ جسکی وجہ سے جب بھی کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو نام نہاد لڑکوں کی گرفتاریاں کر کے معاملے کو رفع دفعہ کر دیا جاتا ہے اور کچھ دنوں بعد کوئی اور یہ کام کرنے لگتا ہے۔ جبکہ اصل مجرم کا پتہ نہیں چلتا۔

ایسے میں ضرورت ہے کہ اس معاملے میں عدالت کا عمل دخل ہو اور عدالت اس معاملے کو اپنے طریقہ سے تفتیش کا کام انجام دے تاکہ یہ نفرت کا بازار بند ہو۔ نہیں تو وہ دن دور نہیں جب یہ نفرت مسلم خواتین سے باہر نکل کر راہ چلتی ہر خواتین کو اپنی زد میں لے لیگی اور ہم ایک وحشی معاشرے کہ حصہ بن جائیں گے۔

یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ اس معاملے میں جن خواتین اور بہنوں کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ ایسی باہمت اور باصلاحیت خواتین اور لڑکیاں ہیں جو حکومتوں کو ہر محاذ پر گھیر رکھی ہیں۔ انکے ہر غلط فیصلہ پر سوال کرتی ہیں  اُن کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں اور اُنکی اصل حقیقت عوام کے سامنے لاتی ہیں۔ یہ ایسا کام ہے جو آج کی بڑی بڑی ٹی وی چینل کی انکر نہیں کر سکیں۔ الٹا ان کے لاکھ روکنے کی کوشش کے بعد بھی جب یہ حق اور سچ کی آواز نہیں رکی تو انھونے نے اب انسانیت کی ساری حدیں پار کر انکی عزت اور عصمت کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ لیکن انکو معلوم نہیں کی یہ خواتین اور لڑکیاں اب ڈرنے والے نہیں ہے اور اُنکا ہر حربہ ناکام ہو جائیگا۔ بھلا کوئی منزِل پر پہنچ کر واپس آتا ہے۔ اور یہ لڑکیاں اب اپنی اصلی منزِل کو پہچان گئی ہیں اب وہ کسی بھی حالت میں ڈر کر پیچھے نہیں جانے والی اب تو راستہ بہت آگے تک جائیگا اور نفرت کی حکومت اور سیا ست  کرنے والوں کو اُنکے انجام کی سزا مل کر رہیگی۔

اگر آپ تاریخ کا صفحہ اُلٹ کر دیکھیں تو ہر دور میں ایسے لوگ نکل آتے ہیں جو حق اور سچ کی آواز روکنے کے لیے ساری حدیں پار کر جاتے ہیں۔ مدینہ منورہ میں جب محمد ﷺ کی آواز کو روکنے میں دشمنوں کی فوج ناکام ہوئی تو انھونے بھی یہی حربہ اختیار کیا تھا اور آپ ﷺ کی بیوی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) پر تہمت لگا دیا کہ شاید اس وجہ سے روک لیں گے۔ لیکن حق و انصاف کی آواز میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ اسکو کسی بھی حال میں روکا نہیں جا سکتا اور ہندوستان میں خاص کر مسلم معاشرے میں جو یہ آواز اُٹھی ہے اب اسکو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی بس ضرورت ہے کہ ہم سب ملکر سچ کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملائیں۔

تبصرے بند ہیں۔