عورت کوئی کھلونہ نہیں!

ریاض فردوسی

قیس ابن عاصم نامی ایک شخص اپنی معصوم سی بچّی کو زندہ دفن کرنے کو تیار ہے، اس سے قبل وہ ا پنی ۹ بیٹیوں کو زندہ دفن کر چکا تھا، ان کے ہاتھ ان پھول سے بھی زیادہ نازک،  کلیوں کو ز ندہ دفن کرنے کے وقت نہ کانپے،  آہ رے انسان اپنی بزدلی کا ثبوت اس طرح پیش کرتا ہے۔ ایک  عربی شخص کا واقعہ ہے کہ اس کی لڑکی نے دفن ہونے کے وقت کہا کہ ابا آپ کی ڈارھی میں ریت لپٹی اسے صاف کرلے، اس وقت وہ معصوم خود گردن تک دفن ہو چکی تھی، لیکن دسویں لڑکی کو دفن کے وقت قیس ابن عاصم کے ہاتھ لرز رہے ہیں، کیوں کہ ظلمت کی سیاہ چادر کو چاک کرنے اللہ کے حبیب ﷺ روئے ارض پورے عزت وعظمت کے ساتھ تشریف لا چکے ہیں،  اب لڑکیاں دفن نہ ہو نگی، ما ئوں کی عزت کی جائے گی، یتیموں کو شفقت ومحبت، مظلوموں کی دادر سی، کمزوروں کے آقا  ﷺ بیوائوں کے ہمدرد، انسانیت کے محسن تشریف لا چکے ہیں،  آپ ﷺ کی آمد سے قبل دنیامیں عورتوں کی مظلومیت کا عالم، ایران میں باپ بیٹی کواپنے چمن سے جب رخصت کرتا تو (10)دس کوڑے مارتا اور وہی کوڑا دماد کے ہاتھ میں دے دیتا کے اسے مارتے رہنا کہ یہ میرے گھر میں کیسے پیداہوئی۔ اس دور کے تمامی ملکوں میں خواتین کو قانونی شہریت حاصل نہیں تھی۔ بلکہ مرد اس کا نگراں ہوتا تھا ہر شکل میں، خواتین براہ راست قانونی کارروائی نہیں کرسکتی تھیں بلکہ یہ معاملات عورت کے مجاز پر مرد کے زیر نگرانی چلتے تھے۔ خواتین کو جائداد رکھنے کا حق محدود تھا۔ تاہم خواتین جہیز، تحائف اور اگر مرد چاہے تو کچھ بھیک کی شکل میں اسے کچھ دے دے تو وہ رکھ سکتی ہے۔ اگرچہ عورت کا سرپرست اس جائداد کی خرید و فروخت کا اختیار تھا۔ قدیم تہزیب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل کسی عورت کو کبھی بھی مکمل شہریت حاصل نہیں ہوئی۔ یونانی روایات کے مطابق پینڈورا (Pandora) ایک عورت تھی جس نے ممنوعہ صندوق کو کھول کر انسانیت کو طاعون اور غم کا شکار کر دیا۔ یہودیوں کی کتاب ’’کتاب مقدس‘‘ میں لکھا ہے کہ عورت موت سے زیادہ تلخ ہے۔ (تمدن عرب ص:373)

  • رومی قانون میں بھی عورت کر مرد سے کمتر قرار دیا گیا تھا۔ مسیحی روایت بھی اسی طرح کے افکار کی حامل تھی۔ انگلینڈ کے آٹھویں بادشاہ ہینری 8۔ نے اپنے دور میں پارلیمنٹ میں یہ قانون پاس کیا تھاکہ عورت مقدس کتاب انجیل کی تلاوت تک نہیں کرسکتی کیونکہ وہ ناپاک تصور کی جاتی تھی۔ ان کے یہاں نن کا تصور بھی موجود تھا، جو آج بھی جاری ہے۔

عیسائی  مذہب عورت کو معصیت کا دروازہ، گناہوں کا سر چشمہ سمجھتے ہیں، پرانی بائبل کے مطابق سیدنا عیسیٰؑ  ایک عورت ہوّاکے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے سولی پر چڑھے تھیں، (معاذاللہ)  تبّت کے مذہبی پیشوا عورت سے سے تعلق رکھناروحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ یونان میں عورت کو شیطان کی زبان اور دیگر تذلیل الفاظ سے موسوم کیا جاتا تھا۔ ہندوستان میں اگر عورت بیوا ہو جاتی تھی تو وہ منحوس ہو جاتی تھی، اس کو دیکھنا، اس سے ملنا جلنا، اس کو اپنے خوشی میں شامل کرنا، گویا  تباہی اوربربادی کو دعوت دینا تھا۔ عرب میں لڑکیوں کوزندہ دفن کرنے کا چلن تھا، سب سے بڑھ کر اسے شوہر کی چتا پر زندہ جلنا تھا اسے ستی کی رسم کہتے تھے۔ اسپارٹامیں اس بد نصیب عورت کو، جس سے کسی قومی سپاہی پیدا ہونے کی امید نہ ہوتی، مار ڈالتے، جس وقت کسی عورت کے یہاں بچہ پیدا ہوچکا ہوتا تھا تو ملکی فوائد کی غرض سے اس عورت کو دوسرے شخص کی نسل لینے کے لیے اس کے خاوند سے عاریتاً لے لیتے تھے‘‘۔ (تمدن عرب:373)

ہندوستانی تہذیب میں، عورت صغر سنی میں باپ کی مطیع ہوتی ہے، جوانی میں شوہر کی اور شوہر کے بعد اپنے بیٹوں کی اور اگر بیٹے نہ ہوں تو اپنے اقرباء کی، کیوں کہ کوئی عورت ہرگز اس لائق نہیں ہے کہ خود مختار طور پر زندگی بسر کرسکے‘‘ (ستیارتھ  پرکاش باب نمبر4 ص: 152، 153)

اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت کو ذلت وپسامندگی کے گہرے سمندر سے نکالا، اور عزت اور عافیت کی بلندی پر فائز کیا جس کی یہ حقدارتھی۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے، عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا(سورہ البقرہ۔ آیت۔ 187)

ابوسعید خدری ؓکی روایت ہے کہ رسول  ﷺ نے ارشاد فرمایا، ،  جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے صحابی کو غمگین دیکھا تو ان سے ان کا حال دریافت کیا،  انہوں نے کہا، مجھ سے زمانہ جاہلیت میں گناہ سرزد ہو گیا ہے، اسی خوف سے غمگین رہتا ہوں۔  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنا گناہ بتاؤ،   انہوں نے پورا واقعہ سنایا کہ میری ایک خوبصورت بچی تھی اور جب وہ بڑی ہوئی تو اس کی شادی کے پیغامات آنے لگے تو میری غیرت نے جوش مارا، لہٰذا میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں فلاں قبیلہ میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے جارہا ہوں،  بچی کو بھی میرے ساتھ جانے کے لئے تیار کردو۔ شوہر کی خواہش پر انہوں نے بچی کو اچھے عمدہ لباس پہنادیے اور اس کو ساتھ لے کر چلا کہ راستے میں ایک کنواں دکھائی دیا، میں اپنی بچی کو اس کنویں میں ڈالنے لگا تو بچی نے مجھے پکار پکار کر کہا کہ میرے بابا مجھے اس کنویں میں اکیلے چھوڑ کر کیوں جارہے ہو؟ کیا میں تمہاری پیاری بیٹی نہیں ہوں ؟ یہ میرے کس جرم کی سزا ہے؟ بچی کی ان باتوں سے میرا دل دہل گیا، محبت پدری غالب آگئی، میں نے اسے کنویں سے نکال لیا لیکن پھر مجھ پر شیطان نے غلبہ کیا اور دوبارہ میں نے اسے اسی کنویں میں ڈال کر ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلا دیا۔ جب نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دلخراش انسانیت سوز واقعہ کو سنا تو آپ کو سخت صدمہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی۔ آپ نے انتہائی غضب کے عالم میں فرمایا: اگر زمانہ جاہلیت کے کاموں پر سزا دیتا تو یقیناًتم کو سزا دیتا، لیکن اسلام سے ما قبل کے تمام گناہ معاف ہیں اس لئے تم اس گناہ سے بری ہو۔

حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم  ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کی لڑکی ہو وہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔

اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کئے طلاق دے دو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں،  ہاں انہیں کچھ نہ کچھ فائدہ دو۔ خوشحال اپنے انداز سے اور تنگدست اپنی طاقت کے مطابق دستور کے مطابق اچھا فائدہ دے بھلائی کرنے والوں پر یہ لازم ہے۔ (سورہ البقرہ۔ آیت۔ 236)

طلاق والیوں کو اچھی طرح فائدہ دینا پرہیزگاروں پر لازم ہے۔ (سورہ البقرہ۔ آیت۔ 341)

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں اس کا اعلیٰ حصہ خادم ہے اور اس سے کمی چاندی ہے اور اس سے کم کپڑا ہے یعنی اگر مالدار ہے تو غلام وغیرہ دے اور اگر مفلس ہے تو کم سے کم تین کپڑے دے۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں درمیانہ درجہ اس فائدہ پہنچانے کا یہ ہے کہ کرتہ دوپٹہ لحاف اور چادر دے دے۔ تشریح فرماتے ہیں پانچ سو درہم دے، ابن سیرین فرماتے ہیں غلام دے یا خوراک دے یا کپڑے لتے دے، حضرت حسن بن علی ؓنے دس ہزار دئیے تھے لیکن پھر بھی وہ بیوی صاحبہؓ  فرماتی ہیں کہ اس محبوب مقبول کی جدائی کے مقابلہ میں یہ حقیر چیز کچھ بھی نہیں۔  امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ اگر دونوں اس فائدہ کی مقدار میں تنازعہ کریں تو اس کے خاندان کے مہر سے آدھی رقم دلوا دی جائے، سعید بن جبیر، ابو العالیہ، حسن بصری کا قول یہی ہے۔ امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے۔ حضرت شعبی سے سوال ہوتا ہے کہ یہ اسباب نہ دینے والا کیا گرفتار کیا جائے گا؟ تو آپ فرماتے ہیں اپنی طاقت کے برابر دے دے، اللہ کی قسم اس بارے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا اگر یہ واجب ہوتا تو قاضی لوگ ضرور ایسے شخص کو قید کر لیتے۔

اللہ تعالٰی تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصّہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے اور میّت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصّہ ہے، اگر اس (میّت) کی اولاد ہو، اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لئے تیسرا حصّہ ہے، ہاں اگر میّت کے کئی بھائی ہوں تو پھر اس کی ماں کا چھٹا حصّہ ہے۔ یہ حصّے اس وصیّت (کی تکمیل) کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد، تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے، یہ حصّے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں بیشک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے۔ (سورہ النساء آیت۔ 11)

آپ  ﷺ حج الوداع کے موقع پر فرمایا:

’’لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو وہ تمہاری زیر نگین ہیں تم نے ان کو اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور ان کے جسموں کو اللہ ہی کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمھیں ناگوار ہے اگر ایسا کریں تو تم ان کو ہلکی مار مار سکتے ہو اور تم پر ان کو کھانا کھلانا اور پلانا فرض ہے۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ میں بیمار تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میری بیمار پرسی کے لئے بنو سلمہ کے محلے میں پیادہ پا تشریف لائے میں اس وقت بیہوش تھا آپ نے پانی منگوا کر وضو کیا پھر وضو کے پانی کا چھینٹا مجھے دیا جس سے مجھے ہوش آیا، تو میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے مال کی تقسیم کس طرح کروں ؟ اس پر آیت شریفہ نازل ہوئی، صحیح مسلم شریف نسائی شریف وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے، ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ مسند امام احمد بن حنبل وغیرہ میں مروی حے کہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی صاحبہ

 رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں حضرت سعد کی لڑکیاں ہیں،  ان کے والد آپ کے ساتھ جنگ احد میں شریک تھے اور وہیں شہید ہوئے ان کے چچا نے  ان کا کل مال لے لیا ہے ان کے لئے کچھ نہیں چھوڑا اور یہ ظاہر ہے کہ ان کے نکاح بغیر مال کے نہیں ہو سکتے، آپ نے فرمایا اس کا فیصلہ خود اللہ کرے گا چنانچہ آیت میراث نازل ہوئی، آپ نے ان کے چچا کے پاس آدمی بھیج کر حکم بھیجا کہ دو تہائیاں تو ان دونوں لڑکیوں کو دو اور آٹھواں حصہ ان کی ماں کو دو اور باقی مال تمہارا ہے.عورت کا نان ونفقہ  مرد کے ذمہ ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ ہے۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمہ ہے، بیوی ہے تو شوہر پر اس کانان و نفقہ واجب کردیا گیا ہے  اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمہ ہے،

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیاجائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے۔ (او کما قال صلی اللہ علیہ وسلم)

اگر بچپن میں کسی کا نکاح ہوگیا ہو، بالغ ہونے پر لڑکی کی مرضی شامل حال نہیں تو اسے اختیار ہے کہ اس نکاح کو وہ رد کرسکتی ہے، ایسے میں اس پر کوئی جبر نہیں کرسکتا۔ ہاں اگروہ ایسے شخص سے شادی کرنا چاہے جو فاسق ہو، کافر ہو، تو ایسی صورت میں اس کی ولی کو دخل اندازی کا اختیار ہے۔ شریعت اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کیا جو عورت  کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔  اسلام نے مرد کی طرح عورت کوبھی عزت، تکریم، وقار اور بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی جہاں ہر فرد معاشرے کا ایک فعال حصہ ہوتا ہے۔

سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:

’’اسلام سے پہلے جو اخلاقی مذاہب تھے ان سب میں عورت کو اور عورت ومرد کے ازدواجی تعلق کو بہت حد تک اخلاق وروح کی ترقی ومدارج کے لیے مانع تسلیم کیا گیا تھا، ہندوستان میں بودھ، جین، ویدانت، جوگ اور سادھو پن کے تمام پیرو اس نظریے کے پابند تھے، عیسائی مذہب میں تجرد اور عورت سے بے تعلقی ہی کمالِ روحانی کا ذریعہ تھا‘‘

دور حاضر میں ہماری ماں اور بہنوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ ان کو خود اپنی عزت کی حفاظت کریں۔ جب عورت کا گریبان ڈھکا ہوا ہو گا تو مردوں کی نظر اس پر نہیں پڑے گی کیونکہ گریبان ہی عورت کے جسم کا وہ حصہ ہے جس سے مردوں کی جنسی شہوت ابھرتی رہتی ہے۔ ایک جوان لڑکی کی ماں اس کوبے شرمی والا لباس پہنا کر کیا یہ نہیں سمجھتی کہ مردوں کی نگاہ لڑکی کے جسم کا کہاں کہاں احاطہ کرے گی؟ کیا وہ ماں وہ بہن کبھی جوان ہی نہیں تھی ؟ اسے مردوں کی نگاہ کا پتہ نہیں ؟  چندانسانی شکل کے بھیڑے تو اپنی گندی نگاہ سے اسے برہنہ کر تے ہیں، اس لئے ایسے ذلیل مردوں کو موقع ہی نہ دے۔ آج بھی آزادی نسواں کے نام پر مردوں کے ہاتھ کا کھلونہ ہی بنایا جا رہا ہے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہے، شادی کے بعد سب سے زیادہ تکلیف، ساس، نند، دیور کی بی بی، اور دیگر خاندان کی عورتوں سے ہی ہوتی ہے، بہت ہی کم مردوں سے۔ وہ بہن، وہ بیٹی بھی ساس، سسر، اور دیگر رشتے داروں کو اپنا ماننے کو کم ہی تیار رہتی ہے۔ (الا ماشاء اللہ )اس سے معاشرے کا توازن ہی بگڑ چکا ہے، معاذاللہ یہ انفجار کی شکل اختیار کر کے معاشرے کا نظام ہی تباہ برباد کر دے گا۔

  اے چشم اشک بار ذرا دیکھ تو لے  

  یہ گھر جو بہ رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو

آج ضرورت ہے کہ حکومتی سطح پرعورتوں کی جنسی استحصال کو روکنے کے لئے ہر ہفتے سرکاری رپورٹ جو ایڈس کے متعلق پیش ہو تی ہے، اسے عیاں کیا جائے، بغیر اس کے مریضوں کا نام ظاہر کے ہوئے۔ قانون کو سخت کیا جائے، اس معاملے میں اسلامی قانون نا فظ کیا جائے۔ سب سے بڑھ کر معاشرے کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں مذہبی علماء کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

مردوں کے لئے ہر ظلم روا

  عورت کے لئے رونا بھی خطا

مردوں کے لئے لاکھوں دل

عورت کے لئے بس ایک چتا

مردوں کے لئے ہر عیش کا حق

عورت کے لئے جینا بھی سزا

مردوں نے بنائی جو رسمیں ان کو حق کا فرمان کہا

عورت کے زندہ جلنے کوقربانی اور بلی دان کہا

تبصرے بند ہیں۔