عکس میرا چور ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں
احمد نثارؔ
زندگی اِک خارداری رہ سوا کچھ بھی نہیں
میں گلوں کو ڈھونڈتا تھا پر ملا کچھ بھی نہیں
۔
حادثوں کے آئینے میں روز تکتا تھا مگر
عکس میرا چور ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں
۔
دامنِ تر کہہ گیا تھا داستانِ زندگی
راز سارے فاش ہیں پھر پوچھنا کچھ بھی نہیں
۔
در بدر کی زندگی ہے آج سب کی زندگی
مانگنا ہے جس کے در سے مانگتا کچھ بھی نہیں
۔
میں اسیرِ زندگی بس چند لمحوں کے لیے
جب ہوا آزاد پنچھی، رابطہ کچھ بھی نہیں
۔
سر پٹکتا ہے یہ انساں جانے کتنے دَور سے
جسم و جاں کی کیمیاء کا ضابطہ کچھ بھی نہیں!
۔
کیا نثارؔ اب کہ تمہارے ذہن و دل کا انقلاب
کچھ ثمر بھی لے کے آیا یا ہو اکچھ بھی نہیں!
تبصرے بند ہیں۔