عیدِقرباں

محمد اطہر

آج عیدالاضحی کا دن ہے۔ایک انتہائی پر مسرت دن۔ایک ارب سے زائدپیروان اسلام کی خوشی اور خوش دلی کا حسیں لمحہ۔ وہ عید جو مشرق سے مغرب تک پھیلے ہوئے مسلمانوںکے عالمگیر رشتہ اتحاد کی ایک کڑی ہے۔جس میں ایک زبردست جلیل القدر پیغمبر کی شان فرمانبرداری اور ایک عظیم فرزند پیغمبر کی اطاعت گذاری کی مثال قائم کی۔امت مسلمہ کو ایثارو فداکاری اور عزم قربانی کا عظیم سبق دیا۔جس کا تصور آج سے چار ہزار قبل سیدنا ابرہیم اور سیدنا اسماعیل علیہماالسلام نے پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ کے محبوب پیغمبر سیدنا ابرہیم علیہ السلام نے خواب میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلا م کو ذبح کرتے دیکھا۔ اس خواب کو سچ کر دکھانے میں باپ اور بیٹے نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اس آزمائش پر پورااترے۔ چشم فلک نے ایسا حیرت انگیز اور ایمان افروز منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ بیٹے کی جگہ دنبہ ذبح کروا کر قیامت تک اس عظیم عمل کا حکم جاری فرما دیا۔

یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ رضا و خوشنودی، محبت و قربت، ایثار اور ہمدردی کا جذبہ پید اہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قربانی کا عملی ثبوت موجود ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے ہمیں یہ سبق دیا ہے: ’’آ پ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز، میری قربانی، میر اجینا اور مرنا اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔‘‘ (اَلانعام162:)

ایک حدیث مبارکہ میں حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کے دن بندوں کے اعمال میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل جانور کا خون بہانا ہے اور بندہ قیامت کے اپنی قربانی کے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہو گا۔ قربانی کاخون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میںدرجہ قبولیت حاصل کر لیتا ہے، لہذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔‘‘ (ترمذی،کتاب الاضاحی، ر قم الحدیث: 1493)

حضرت زیدبن ارقمؓ بیان فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ قربانیاںکیا ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’یہ تمہارے والد ابراہیم کی سنت ہے‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا:’’ہمارے لیے ان میں کیا(اجر)ہے ؟ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ہر بال کے بدلے ایک نیکی۔‘‘صحابہ کرام نے عرض کیا:’’کیا اُون کا بھی یہی حساب ہے؟’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ہاں !اون کے ہر بال کے بدلے بھی ایک نیکی ہے‘‘(ابن ماجہ ،کتاب الاضاحی،رقم الحدیث 3127)

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے حضور جو قربانی پیش کی تھی وہ محض خون اور گوشت کی قربانی نہ تھی بلکہ اپنے عزیز ترین متاع کواللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرنے کی قربانی تھی۔ آج ہمارے معاشرے میں کچھ مغرب زدہ علم سے عاری مسلمان دانشور قربانی کو معاشی نقصان سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے قربانی خوامخواہ رکھی گئی ہے۔کرو ڑوں روپے خون کی شکل میں نالیوں میں بہہ جاتے ہیں، لہذا قربانی پر جو رقم خرچ ہوتی ہے اس کو غریبوں میں تقسیم کیا جا ئے تاکہ وہ اپنی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ یہ پروپیگنڈا اتنی شدت سے کیاجاتا ہے کہ ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے لو گ بھی اس مسئلے میں الجھے نظر آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے ہم قربانی کے بجائے اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کردیں، کسی فلاحی ادارے کو فنڈنگ کر دیں یا کسی ضرورت مند کی ضرورت پورا کر دیں تو اس میں کیا حرج ہے؟

دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ایک ہی دن کروڑوں جانورں کا خون بہانا ظلم ہے، جانورں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔
اسی طرح ایک پروپیگنڈا یہ ہے کہ قربانی کا عمل عقل کے خلاف ہے ،معاشی بدحالی کا سبب ہے۔معاشی اعتبار سے اس کا کوئی جواز نہیں۔یہ درحقیقت قربانی کے سارے فلسفے اور اس کی روح کی نفی ہے کیونکہ قربانی کااصل مقصد ہی یہ ہے کہ اپنی تمام تر خواہشات اور عقل کو شریعت کے تابع بنایا جائے۔ آج انسانیت کی ذلت اور پستی کا ایک بڑا سبب نری عقل کی پیروی ہے۔استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرنے والے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ہے، حتیٰ کہ اس کا عید گاہ کے قریب آنا بھی پسند نہیں فرمایا۔

ہر سال قربانی کے دن آتے ہی بعض دانشور انتہائی ہمدردی اور دل سوزی کے ساتھ یہ تجویز دینا شروع کر دیتے ہیں کہ قربانی پر جو وسائل خرچ ہوتے ہیں ان کو کسی فلاحی کام لگانا چاہیے۔ اس وقت فلاحی کا م کی عامۃالمسلمین کو بہت ضرورت ہے۔بعض آزاد خیال لوگ قربانی کو جانوروں کے حقوق کی پامالی سمجھتے ہیں ، ان کے خون بہانے کوظلم قرار دے کر مسلمانوں کے ذہنوں میں عجیب و غریب اشکالات پیدا کرتے ہیں۔

یادرکھیں !

قربانی ہر صاحب نصاب پر واجب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمۃ العالمین ہیں، انسان و حیوان، شمس و قمر، شجر و حجر غرض کائنات کے ذرے ذرے کے لیے رحمت ہیں۔ وہ ہستی جو سراپا رحمت ہے۔اسی رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’قربانی کے دن جانورں کا خون بہانے سے بہتر عمل ابن آدم کے لیے کوئی نہیں۔قربانی کے ہر بال کے بدلے نیکی ملے گی۔ رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے دس سا ل قربانی فرمائی اور اپنی امت کی طرف سے قربانی فرماتے رہے۔دانش کے نام پر اسلام کی گردن پر وار کرنے والو!ہم جیسے سادہ مسلمانوں کے لیے یہی منظر ہی کا فی ہے۔ مدینہ طیبہ کی پاک سر زمین ہے ،خیرالقرون کا سورج نصف النھار پر ہے ،آسمان جھانک کر مسرت سے دیکھ رہا ہے ،ساری مخلوق ادب کے ساتھ متوجہ ہے اور ہمارے پیارے آقاحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عظیم رب کی تکبیر پڑھ کر اپنے پیارے ہاتھوں سے دنبہ ذبح کر رہے ہیں۔مگر افسوس !آج دین بے زار لوگ اس کے درپے ہیں کہ ہم اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ادا کو بھی بھلادیں۔

لہذا!دنیا اپنے پاگل پن کو ترقی سمجھتی ہے توسمجھتی رہے۔ہماری ترقی تو یہی ہے کہ ہم اپنے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی کے ساتھ جڑے رہیںاور عید کادن آئے تو ہم بھی ان کی طرح پورے جوش کے ساتھ قربانی کرتے ہوئے نظر آئیں۔ قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ  گرتے ہیں اپنی بخشش کا پروانہ حا صل کر سکیں۔

تبصرے بند ہیں۔