عید الفطرسے قبل عید کا سبق یاد کیجئے!

محسن دہلوی
آہ اپنی رحمتوں،برکتوں اور لطافتوں کے ساتھ ماہ مقدس یعنی اللہ کا مہینہ رخصت ہو اچاہتا ہے،مگر ہم اپنی کوتاہیوں اورلاپروائیوں کے نتیجے میں ان محاسن و برکات سے پوری طرح مستفیص نہ ہوسکے جسے ہم اللہ کر فرامین پر عمل کرکے بآ سانی پاسکتے تھے،بس دعاء کیجئے رب کائنات اپنی رحمتوں سے ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمایے اورہمارے ٹوٹ پھوٹے اعما ل کو بھی شرف قبولیت سے نواز دے ۔اپنے وطن کو تو چھوڑ دیجئے کہ یہاں موافق ماحول نہیں ہے ،اس کے برعکس رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں پوری اسلامی دنیا میں ایک روحانی تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایک طرف مسلمان اس ماہ مقدس میں عبادات کے اندر غیر معمولی سرگرمی دکھاتے ہیں، جبکہ دوسری جانب سحر و افطار کے لیے خصوصی اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔روزہ بظاہر تو ایک مشقت والی عبادت ہے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہر مسلم گھرانے کے بڑے اور بچے اسلام کے اس اہم رکن کی بجاآوری میں کسی قسم کی کوتاہی سے گریز کرتے ہیں۔ روزہ رکھنے والوں میں ایسے بچے بھی شامل ہوتے ہیں جن پر ابھی روزے فرض نہیں ہوتے۔ وہ بچے اپنے والدین سے شدید اصرار کرنے کے بعد روزہ رکھتے ہیں۔اسلامی تعلیمات میں روزے کے فلسفہ کے مطابق یہ بدنی عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی اصلاح و فلاح کے لیے بھی اہم کردار ادا کر تا ہے۔ روزہ دار شخص جب بھوک اور پیاس کے تجربات سے گزرتا ہے تو اس کے دل میں معاشرے میں موجود نادار اور مفلوک الحال لوگوں کا احساس اور ان کی مدد کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔وہ دن بھر اپنے مالک کے حکم کی اطاعت میں کھانے پینے سے رکا رہتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی شخصیت میں اپنی ذات پر قابوکی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔روزہ کی صورت میں مالک کائنات کی اطاعت گزاری سے ایک مسلمان سماج کا ایک بہتر رکن بھی بن سکتا ہے۔خیر رمضان المبارک اب ہم سے الوداع کہ رہا ہے اورہمیں عید کی تیاریوں نے بے حد مصروف کردیا ہے مگر یاد رکھئے! عید کے دن فقط رمضان المبارک کے اختتام اور روزہ کے روحانی فوائد حاصل کرکے مسرت کا اظہار کرنا ہی کافی نہیں، بلکہ یہ دن ہمیں اپنے ارد گرد موجود معاشرتی مسائل کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے کہ جس طرح ہم رمضان المبارک میں عبادت اور تزکیہ نفس کے ذریعے اپنی ذاتی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اس کوشش کی کامیابی کا اظہار عید کی صورت میں کرتے ہیں اسی طرح اجتماعی اصلاح کی کوششوں اور معاشرے کو تمام مسائل سے نجات دلانے کا آغاز کرنے کا عہد بھی عید کے دن کیا جانا چاہئے۔ احترام آدمیت اور انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے کہ خوشی و مسرت کے جائز ذرائع سے استفادہ کیا جائے اور ایسا انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے غریب، پسماندہ، غم زدہ اور پریشان حال بھائیوں کو تکلیف، محرومی اور دکھ کا احساس ہو۔عید کے موقع پر ہمیں برائیوں اور منکرات سے بچنا بھی بہت ضروری ہے۔
ہمارے ملک اور دیگر سلامی ممالک میں رمضان المبارک میں باہمی مودت، انسان دوستی اور رواداری کی جو مثالیں رمضان المبارک میں دیکھنے کو ملتی ہیں اگر سال کے بقیہ مہینوں میں بھی ایسا ہی طرز عمل اپنایا جائے تو معاشرے میں کافی حد تک سدھار لایا جا سکتا۔ رمضان المبارک میں ہمارے ملک کے سبھی شہروں میں صاحب حیثیت لوگ مستحقین اور کم آمدنی والے افراد کے لیے سحر وافطار کا بندوبست کرتے ہیں۔اللہ کرے یہی جذبہ ہمارے قلب ودماغ میں سال بھر زندہ اور تابندہ رہے ۔
اللہ کی رحمتوں کا مہینہ ختم ہو چلا ہے۔ ماہ مبارک کے اختتام کے بعد جس چیز کا ہم لوگوں کو شدت سے انتظار ہوتا ہے اور اس بار بھی ہے وہ عیدالفطر یعنی میٹھی عید ہے۔ جسے روزہ داروں کا انعام بھی کہا گیا ہے۔مگر اس بارکچھ خاص ہے،عید کی خوشیوں میں کچھ غم بھی شامل ہو گئے ہیں۔ کسی کی یتیمی کا غم،کسی کی بیوگی کا غم کسی کی بے اولادی کا غم،کسی کی معذوری کا غم اور کسی کی بے گھری کا غم۔ مگر ان غموں کو برداشت کرنا ہے کہخلاق دوعالم کی مرضی یہی تھی۔اس بار کی عید میں ہم چاہ کر بھی اپنے چین اوغر،برما کے روہنگیا مسلم بھائیوں کے تڑپتے ،بلکتے اورزندگی کیلئے گھاس پھونس کیڑے مکوڑے کو اپنی غذا بنانے والے بچوں کو آ سانی فراموش نہیں کرسکیں گے۔فلسطین کی بے سروسامان جواں عمر بیوہ بہنیں اور شام اسد رجیم اورداعش کی قہاریت کے نتیجے میں دس لاکھ سے زائد پناہ گزیں بھائیوں بہنوں ،سمندر میں زندگی کو موت کے حوالے کرنے والے بدنصیبوں کو بھی انسانیت کا درد رکھنے والا کوئی بھی فرد نظرانداز نہیں کرسکتا۔
ہمارا عید کا فلسفہ تو ویسے بھی ہمیں ایثار و قربانی سکھاتا ہے۔ اپنے مفلس و مسکین بھائیوں کی مدد کرنا ہم پر لازم قرار دے دیا گیا ہے۔ تو اس کا بالخصوص خیال رکھیے گا کہ کوئی ہے جو آپ کی امداد کا منتظر وہاں غیروں کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے۔ اگر یہ ہی ان کے مقدر میں ہے توانہیں ٹکڑے پیش کرنے والوں میں ہم پیش پیش کیوں نہ رہیں۔اور غیر بھی کہ سو بار یاد دلانے پر ایک بار کچھ دیتے ہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق اقوامِ متحدہ کے پاس صرف چند ہفتوں تک امدادی آپریشن چلانے کے فنڈز ہیں۔ جتنی امداد کا وعدہ کیا گیا تھا اس سے آدھی بھی نہیں دی گئی۔ اور میں محسوس کرتا ہوں کہ پہلے ڈیڑھ ہفتے جو جوش و خروش ہم میں تھا اب کم ہوتا جارہا ہے۔ شاید ہم مطمئن ہو کر بیٹھ گئے ہیں کہ اب کرنے والے آگئے ہیں۔ دھیان میں رکھئے کہ خود ہماری دہلی میں کئی سوبرمامہاجرین ہماری مدد کے منتظر ہیں۔اسی طرح دارالحکومت دہلی کے مختلف علاقوں میں فلسطینی پناہ گزیں بھی ہماری جانب نگاہیں گاڑے ہوئے ہیں۔‘‘فطرانہ‘‘ ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ آپ، ہم سب ادا کرتے ہیں۔ کسے ادا کرتے ہیں۔ اکثر پیشہ وروں کو۔ اس بار مستحقین کا بھی خیال کر لیجیے گا۔ میں شریعت کا عالم نہیں نہ ہی فقیہ ہوں بس جو دل میں آئی وہ عرض کر رہا ہوں، میرے خیال میں اس کے سب سے بڑھ کر مستحقین وہ ہیں جو اس وقت کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پڑے ہیں۔خدارا اس عید پر یہ بھی خیال کیجیے گا اپنے بچوں کو عیدی دیتے وقت یہ سوچ ضرور لیجئے گا کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں ایسے بچے بھی ہیں جنھیں عیدی تو کیا گھر نصیب نہیں،کھانا نصیب نہیں۔ خوشی کے اس حسین موقع پر اسپتالو کے چکر بھی لگا لیجئے گا ،ممکن وہاں کچھ ایسے بدنصیب آپ کو مل جائیں جو موافق علاج اور ضروری دوائیں نہ ملنے کی وجہ ہر لمحہ موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔اگر اس بار آپ وہ عیدی اپنے بچوں کو دینے کی بجائے ان بچوں کے لیے دے دیں تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی ،بلکہ اپنے بچوں کو باور کرائیں کہ آپ کے کچھ دوست ایسے بھی ہیں جو اس کے اصل مستحق ہیں۔ بچے معصوم ہوتے ہیں خدا کی قسم مجھے اس بات کا یقین ہے کہ کوئی بچہ بھی ایسا نہیں ہو گا جو یہ نا کہے ڈیڈی یہ عیدی آپ ان کو دے دیں ہم نہیں لیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔