ماہنامہ ’معارف‘ – علم و معرفت کی ایک صدی

ڈاکٹرعمیر منظر
علامہ شبلی کے جاوداں علمی کارناموں کی فہرست میں ان کی بنائی ہوئی آخری علمی مملکت دارالمصنفین شبلی اکیڈمی ہے۔ یہ ادارہ امتیازی حیثیت کا حامل ہے ؛ایک صدی سے علم و ادب کی دنیا کو سیراب کررہا ہے۔ اس میں لوگوں کاصرف خلوص شامل رہا ہے ۔ سرکاری سرپرستی کے بغیر ادارہ نے ایک صدی کا طویل عرصہ پورا کیا اور اس کے وابستگان نے سخت سے سخت حالات میں بھی علم وادب کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔شبلی اکیڈمی نے جولائی 1916سے ماہنامہ معارف کی شکل میں جس علمی رسالہ کا اجرا کیاتھا وہ آج بھی علم و ادب کی آبرو ہے۔ اردو رسائل و جرائد کی تاریخ میں تاریخ ساز کہے جانے کا حق داربھی ہے۔ یہ محض حسن اتفاق ہی ہے کہ اس کا پہلا شمارہ رمضان المبارک میں زیور طبع سے آراستہ ہوا تھا اور صدی کا آخری شمارہ بھی اسی ماہ مبارک میں آیا ۔سید الطائفہ علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنے استاد حجتہ الاسلام علامہ شبلی نعمانی کی علمی یادگار کے طور پرمعارف کو جاری کیا تھا؛ یہ امانت مختلف ہاتھوں سے ہوتے ہوئے پروفیسر اشتیاق احمد ظلی تک پہنچی ہے۔ اس عظیم علمی روایت کو انھوں نے نہ صرف برقرار رکھنے کی پوری سعی کی ہے، بلکہ زمانے کے نئے تقاضوں سے بھی محدودوسائل کے باوجود اسے ہم آہنگ کیا ہے ۔
ندوۃ العلما سے مستعفی ہونے کے بعدعلامہ شبلی نے اعظم گڑھ میں دارالمصنفین کے نام سے ایک ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ مگر اس کی تکمیل سے پہلے ہی 18نومبر 1914کوہی اس دنیا کو الوداع کہہ دیا ۔ان کے انتقال کے بعد ان کے شاگردوں نے ’’اخوان الصفا ‘‘کے نام سے ایک جماعت بنائی اور اسی جماعت نے دارالمصنفین کی تعمیر و ترقی کا بیڑا اٹھایا ۔مولانا حمید الدین فراہی ،مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالسلام ندوی، مولوی مسعود علی ندوی اور مولوی شبلی متکلم ندوی اس جماعت میں شامل تھے۔ جولائی 1915 میں زمین کی رجسٹری مکمل ہونے کے بعد علمی اور ادبی سرگرمیوں کا آغاز ہوا ۔اخوان الصفا نے ایک سال بعد ادارہ کے علمی ترجمان کے طوپر ’معارف‘ کا اجراعمل میں آیا۔ پہلے شمارہ کے شذرات میں دیگر باتوں کے علاوہ سید سلیمان ندوی نے معارف کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے لکھا :
فلسفہ حال کے اصول اور اس کا معتد بہ حصہ پبلک میں لایا جائے۔ عقائد اسلام کو دلائل عقلی سے ثابت کیا جائے، علوم قدیمہ کو جدید طرز پراز سر نوترتیب دیا جائے، علوم اسلامی کی تاریخ لکھی جائے اور بتایا جائے کہ اصل حصہ کہا ں تک تھا اور مسلمانوں نے اس پر کیا اضافہ کیا، علوم مذہبی کی تدوین اور اس کے عہد بہ عہد کی ترقیوں کی تاریخ ترتیب دی جائے، اکابر سلف کی سوانح عمریاں لکھی جائیں، جن میں زیادہ تر ان کے مجتہدات اور ایجادات سے بحث ہو، عربی زبان کی نادر الفن اور کم یاب کتابوں پر ریوریو لکھاجائے اور دیکھا جائے کہ ان خزانوں میں ہمارے اسلاف نے کیا کیا زرو جواہر امانت رکھے ہیں اور سب سے آخر لیکن سب سے اول یہ کہ قرآن مجید سے متعلق ،عقلی،ادبی،تاریخی ،تمدنیاور اخلاقی مباحث جو پیدا ہوگئے ہیں، ان پر محققانہ مضامین شائع کیے جائیں ۔(ماہنامہ معارف جولائی 1916ء ص 5)
مولانا سید سلیمان ندوی نے جو مقاصد بیان کیے تھے نہ صرف یہ کہ انھوں نے اس کی پیروی کی، بلکہ بعد کے ذمہ داروں نے بھی اس رہنما اصول کو برقرار رکھا اور دنیائے علم و ادب کی آبیاری کرتے رہے ۔
معارف کی سب سے بڑی خوبی تو یہ رہی ہے اور اب بھی ہے کہ اس میں ادب، تہذیب، تاریخ، سائنسی معلومات اور مذہب سارے ہی موضوعات کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ بالعموم رسالے یا تو مذہبی ہوتے یا ادبی۔ برصغیر میں رسالوں کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اس تنوع کے ساتھ صرف ’معارف‘ نے ایک صدی کا عرصہ مکمل کیا ہے اور وہ بھی اپنے معیار و وقار کے ساتھ ۔ قرآن، حدیث، تفسیر، اصول تفسیر، سیر وسوانح، فقہ ،فتاوی ،آثار صحابہ جیسے اہم موضوعات کے ساتھ ساتھ عقلی علوم، منطق اور طب کا بھی احاطہ کیا ۔ معارف اپنے خصوصی کالم کی وجہ سے بھی اہمیت رکھتا تھا۔ یہاں کے رفقا اسے بڑی توجہ اور محنت سے لکھتے تھے۔شذرات تو حالات و واقعات پر ایک جامع تبصرے کی حیثیت سے بلند ہوکر دانشورانہ سوچ اور رہنمائی کا درجہ رکھتاہے۔ تحقیقی و تنقیدی مضامین کے علاوہ کچھ مستقل موضوعات /عناوین تھے جسے ’معارف ‘نے قائم کیا ان میں تبدیلی بھی ہوتی رہی۔ آثار علمیہ، اخبار علمیہ، ادبیات، شذرات، باب المراسلہ والمناظرہ ،تلخیص و تبصرہ، تقریظ، مباحث حاضرہ، مترجمات، مسائل و فتوی، معارف کی ڈاک،مطبوعات جدیدہ اور وفیات جیسے کالم شامل ہیں ۔
اسی کے ساتھ ساتھ ادبی موضوعات کا احاطہ بھی معارف نے جس طرح کیا ہے اس سے گزشتہ ایک صدی کی ادبی سرگرمیوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ معارف کو بہت سی اولیات کا شرف بھی حاصل ہے۔ بہت سے مخطوطات اور کتابوں پر پہلے پہل معارف نے تبصرہ شائع کیا یا ان کا تعارف دیا، جس سے ادبی دنیا متعارف ہوئی ۔بطور مثال یہاں صرف ایک واقعہ درج کیا جارہا ہے ۔
پٹنہ کے نجات حسین خاں فروری 1843میں چہلم دیکھنے کی غرض سے لکھنؤ آئے۔ یہاں انھوں نے آتش،مرزا دبیر،میر انیس اور بعض دیگر ادیبوں سے ملاقات بھی کی ،جس کا ذکر انھوں نے سفرنامے ’’سوانح لکھنؤ ‘‘ میں کیا ہے۔ یہ سفرنامہ(مخطوطہ ) فارسی زبان میں تھا ، اسی مخطوطے کی بنیادی پرپروفیسر سید حسن صاحب ’’آتش سے ایک بہاری ادیب کی ملاقات‘‘کے عنوان سے ایک مضمون قلم بند کیا ،جو کہ مئی 1959ء کے معارف میں شائع ہوا۔نجات حسین خاں کے سفر لکھنؤ کا اصل مقصد چہلم کی زیارت تھا، چنانچہ امام باڑوں میں حاضری دینے اور مجلسوں میں شرکت کے علاوہ کئی جلوسوں میں بھی ساتھ رہے ۔آتش سے انھوں نے اپنی متعدد ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ آتش نے ایک قصیدہ بھی لکھا ہے ،جب کہ عام طور پر یہ بات مصدق ہوچکی ہے کہ آتش نے کوئی قصیدہ نہیں لکھا ہے ۔اس سفرنامے(سوانح لکھنؤ) سے آتش کے بارے میں بعض نئی معلومات ملتی ہیں ۔انھوں نے یہ بھی لکھا کہ شیخ خدا بخش کا تعزیہ بہت شان سے نکلتا تھا اس کی ایک جھلک آپ بھی ملاحظہ کریں :
’’نجات حسین خاں اپنے رفقا ء کے ساتھ مسجد دارالشفاء کے نزدیک پہنچ کر اس کی چھت کے نیچے کھڑے ہوگئے اسی اثنا میں تعزیہ کا جلوس قریب آگیا ۔سب سے پہلے سات سانڈنیاں نمودار ہوئیں جن پر سیاہ جھول پڑے ہوئے تھے۔ ان پر جو لوگ سوار تھے وہ بھی سیاہ کپڑوں میں ملبوس تھے۔ سانڈینوں کے پیچھے سترہ ہاتھی تھے جن پر سیاہ بانات کے جھول تھے۔ ہاتھیوں پر سر بہ فلک علم و پرچم تھے جن پر سرخ و سیاہ اطلس کے خوب صورت غلاف تھے۔ ان غلافوں پر طلائی و نقرئی حروف میں اللہ اور پنجتن کے اسمائے گرامی منقش تھے ۔ہاتھیوں کے بعد عہدہ داروں کی آمد ہوئی ان لوگوں کے ہاتھوں میں چاندی سونے اور گنگاجمنی کی برجھیاں ،بلم اور عصا تھے جن کی تعداد احاطہ شمار سے باہر تھی اس کے پیچھے پیادے تھے جو شمشیر و سپر سے مسلح تھے ۔جلوس کے اس حصے کی لمبائی نصف کوس سے زیادہ ہوگی۔ اس کے بعد باجود کے طائفے آئے۔روشن چوکی ،جھانجھ ترہی،دف اور نئے قسم قسم کے نقارے اور باجے جن سے واحسینا کی جگر گداز آواز نکل رہی تھی ۔اس کو سن کر سنگ دل سے سنگ دل انسان بھی مثل موم کے پگھل جاتا تھا ۔‘‘
اسی طرح معارف میں ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ غالب کا غیر متداول دیوان نسخۂ حمیدیہ سب سے پہلے مولاناعبدالسلام ندوی نے دیکھا تھا اور انھوں نے ہی اس کی اطلاع دی تھی ۔اصلاً ان دنوں مولانا عندالسلام ندوی شعر الہند لکھ رہے تھے اور اسی سلسلے میں مواد کی تلاش میں وہ بھوپال کے کتب خانہ حمیدیہ میں تھے جہاں ان کو یہ نسخہ دیکھنے کو ملا۔ستمبر 1918 کے شذرات میں سید سلیمان ندوی نے اس پورے واقعہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔حیرت یہ ہے کہ نسخہ حمیدیہ جب شائع ہوا تو کہیں بھی مولانا عبدالسلام ندوی کا ذکر نہیں ہے ۔تنوع اور گوناگوں علمی اور ادبی مباحث کی وجہ سے ہی یہ رسالہ علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاداور ڈاکٹر حمید اللہ جیسے عظیم اسکالرز کو بہت پسند تھا ۔علامہ اقبال نے لکھا تھا کہ :
یہی(معارف)ایک ایسا رسالہ ہے جس کے پڑھنے سے حرارت ایمانی میں ترقی ہوتی ہے
مولانا آزاد نے سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں لکھاکہ :
صرف یہی تو ایک پرچہ ہے اور تو ہر طرف سناٹا ہے الحمدللہ کہ مولانا شبلی مرحوم کی تمنائیں رائیگاں نہ گئیں اور صرف آپ کی بدولت ایک ایسی جگہ بن گئی جوصرف خدمت علم و تصنیف و تالیف کے لیے وقف ہے ۔(مشاہیر کے خطوط بنام سید سلیمان ندوی ،دارالمصنفین شبلی اکیڈمی 1992ص:179)
ڈاکٹر حمید اللہ (پیرس)کا خیال تھا کہ
میں معارف کو دنیا کا سب سے بلند پایہ علمی رسالہ سمجھتا ہوں ۔وہ ہمارے تاریخ حال کا مستقبل میں ایک وثیقہ ،ایک مآخذ ہوگا ۔وہ مرجع انام ہ اور لوگ اب بھی اور آیندہ بھی اس سے استناد کریں گے
معارف کی ایک صدی اور ان عظیم شخصیات کا خراج عقیدت ،باور کے جانا چاہیے کہ یہ سب یونہی نہیں ہے بلکہ ہمارے بزرگوں کی بے لوث اور علم و ادب سے حد درجہ انہماک کا غماز ہے ۔
معارف کے ادبی حصہ میں جن شعرا کے کلام شائع ہوتے تھے ان میں مولانا محمد علی جوہر،اقبال سہیل،مولانا آزاد سبحانی،علامہ اقبال، اکبرالہ آبادی، اصغر گونڈوی، مولانا عبدالسلام ندوی ، روش صدیقی، فراق گورکھ پوری، حسرت موہانی، فانی بدایونی اور جگر مرادآبادی جیسے شعرا شامل رہے ہیں۔ البتہ معارف نے ادبی تحقیق کو زیادہ فروغ دیا اور اس نوع کے تنقیدی مضامین جن کا گزشتہ ایک دہائی سے چلن بڑھ گیا ہے معارف کے صفحات کی زینت نہیں بن سکے۔ غالباً اس کی وجہ معارف کا مخصوص تحقیقی مزاج ہے ۔
علمی اور ادبی اختلافات سے رسالے کو بچانا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ مولوی عبدالحق ،منشی محمد امین زبیری نے جب شبلی شکنی کی مہم شروع کی اور بابائے اردو مولوی عبدالحق نے شبلی کی کتابوں کو’ لونی لگنے‘ کی بات کہی تھی، تو اس وقت شبلی اکیڈمی میں صف اول کے مصنفین جمع تھے وہ جواب دے سکتے تھے مگر معارف کے صفحات میں شبلی سے متعلق کسی بھی اعتراض کو جگہ نہیں دی گئی، یہاں تک کہ بابائے اردو کوایک خط لکھ کر خود یہ صفائی دینی پڑی کہ میں شبلی کا مخالف نہیں ہوں۔ ترقی پسند تحریک کا اپنے زمانے میں بہت غلغلہ تھا۔ادب اور سماج کے نعرہ نے بہت لوگوں کو متاثر کیا اور ادبی سماج نے خاطر خواہ اس کے اثرات قبول بھی کیے مگر معارف کے پالیسی سازوں نے اس سے خود کو بچائے رکھا ۔معارف کی زندگی کا اہم واقعہ تقسیم ہند بھی ہے ۔اس بڑے المیہ کو بھی پرچے کے علمی منہاج ومزاج پر حاوی نہیں ہونے دیا گیا ۔اس پرآشوب دور میں مولانا ریاست علی ندوی نے اسے سنبھالا۔مولانا نے دارالمصنفین کے سلسلہ تاریخ کو اپنے تحقیقی شغف سے تاریخ ساز کردیا ۔یورپ کی اسلامی تاریخ پر آپ نے متعدد کتابیں لکھیں۔
معارف نے ہمیشہ علمی اور ادبی ضرورتوں کو پیش نظر رکھا ہے اور اسی کو اپنے لیے رہنما بھی بنایا ۔یہ بات کم حیرت ناک نہیں کہ معارف کے صفحات پر غالب اور اقبال سے متعلق مضامین زیادہ ہیں اور شبلی پر کم ہیں ۔شبلی کے شاگرد یا ان سے بے لوث عقیدت رکھنے والوں سے اگر کوئی یہ توقع رکھے کہ وہ علامہ شبلی کی خدمات کو پیش کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کریں گے اور خود علامہ کی شخصیت اور کارنامے غیر معمولی حیثیت کے حامل ہیں ہی مگر ان سب کے باوجود سید سلیمان ندوی سے لے کر پروفیسر اشتیاق احمد ظلی تک اعتدال و توازن اور علمی شغف کی جس راہ کو اختیار کیا گیا ہے اس کی مثالیں کم سے کم ہیں۔ غالبا یہی وہ پالیسی تھی جس کے سبب معارف آج بھی معارف ہے۔
معارف ہندستانی مسلمانوں کے مختلف مسائل کو پیش کرنے اور ان سے واقف کرانے میں کسی تردد کا شکار نہیں ہوا۔ اس نے قومی تعلیمی اور ملی اداروں کی خدمات اور ان کا تعارف نہایت فراخ دلی سے کیا ۔ہندستانی مسلمانوں کے معاملات و مسائل کو معارف کے شذرات میں جس طرج پیش کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ پروفیسر اشتیاق احمد ظلی معارف کے خصوصی شمارہ (ہندستانی مسلمان شذرات معارف کے آئینے میں ۔حصہ اول )میں لکھتے ہیں :
یہ ہندستانی مسلمانوں کی امیدوں ،آرزؤں اور حوصلہ مندیوں کی جلوہ گاہ بھی ہے اور ان کی مشکلات اور مسائل کی ایک دل گداز داستان بھی۔ گزشتہ سوسال کے دوران ہندستان کی امت مسلمہ جن مسائل سے گزری ہے اور پیش آمد ہ مسائل کے حل کے لیے انھوں نے جو کوششیں کی ہیں اس کی داستان اس مختصر سے انتخاب میں پھیلی ہوئی ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ مدیران معارف نے ملی مسائل پر لکھتے ہوئے اپنا دل نکال کر رکھ دیا ہے ۔(جون 2016ص4/2)
جامعہ ملیہ اسلامیہ ،علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ عثمانیہ کی تعلیمی سرگرمیوں اور ان پر اٹھنے والی نظروں اور حکومت کی پالیسیوں پر معارف نے بہت کچھ لکھا ہے۔معارف کے شذرات سے ان اداروں کی تعمیر و ترقی اور ان کے خلاف ہونے والی سازشوں کی پوری ایک تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے ۔
شذرات کا ایک اہم حصہ ندوۃ العلماکی سرگرمیوں اور اس کی تعمیر و ترقی سے متعلق ہے، معارف کا یہ ایسا کارنامہ ہے کہ کوئی دوسرا رسالہ اس میں اس کا ہمسر ہی نہیں ہوسکتا۔ افسوس کا مقام ہے کہ جب پورے ملک اور ملک سے باہر بھی شبلی صدی تقریبات کی دھوم تھی اس وقت ندوۃ العلما(لکھنؤ) ،مدرستہ الاصلاح (سرائے میر )اور جامعہ ملیہ اسلامیہ (دہلی )نے معمولی علمی مذاکرے کا بھی اہتمام نہیں کیا، جب کہ ابتدائی دواداروں کی تعمیر و ترقی میں علامہ شبلی کا مرکزی کردار رہا ہے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ان کے شاگردرشید مولانا محمد علی کے خوابوں کی تعبیر ہے ۔شاگرد کی نسبت سے بھی استاد کو یاد کیا جاسکتا تھا ۔
اردو زبان و ادب پر معارف کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے نہ صرف ایک زبان کو ادبی طور پر ثروت مندکیا ،بلکہ اس کے تحقیقی منہاج کو بھی تقویت دی، نیز اردو زبان کے تحفظ اور فروغ کے لیے گزشتہ ایک صدی کے دوران اس رسالہ کا کردار اظہر من الشمس ہے ۔خالص ادبی رسالوں نے بھی اردو زبان کے لیے اتنا نہیں لکھا ہواگا کہ جتنا معارف نے لکھا ہے۔اردو ہندی کے تنازع پر انگریزوں کی چالبازیوں پر سید صاحب نے بالکل واضح طورپر لکھا کہ :
بیسویں صدی کا پہلا سال (1901)تھا کہ اردو ہندی نے دو رقیب پہلوانوں کی حیثیت سے سرکارمی محکموں کے دنگل میں قدم رکھا ۔اس دنگل کے جگت استاد میکڈانل صاحب کی نیت جو کچھ ہو مگر اس میں شک نہیں کہ ان کا داؤ پیچ دونوں حریفوں کو دست و گریباں کرنے میں نہایت کامیاب ہوا ۔اس وقت سے اِس وقت تک اردو ہندی کے جھگڑوں نے ہماری بزم ادب کو مکدر اور بدمزہ کررکھا ہے۔(معارف نومبر 1920نمبر 5 جلد ص:323)
سید صاحب آسان اردو فروغ دینے کے حق میں تھے اور کوشش یہ تھی کہ کسی طرح اس مسئلہ کو طول دینے کے بجائے اردو اور ہندی کے ادیب باہم مل بیٹھ کر اس کو حل کرلیں ؛مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی ۔بعد کے دنوں میں جب حکومتوں نے اردو ذریعۂ تعلیم کو ختم کرنا شروع کیا تو سید صاحب اس پر سخت برہمی کا اظہار کیا، مگر شذرات میں نہایت علمی اور ٹھوس انداز میں بتایا کہ اس سے ملک کا کتنا نقصان ہوگا ۔زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کا ان سوبرسوں میں پورا ایک دفتر ہے جسے چند صفحات میں پیش نہیں کیا جاسکتا ۔
علم ومعرفت کے جس عظیم ادارہ کا خواب علامہ شبلی نعمانی نے دیکھا تھا ایک صدی بعد جب ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں تو باور کرنا پڑتا ہے کہ ان کے شاگردوں نے اپنی بے لوث خدمات کے سبب اس کو پورا کرنے میں کو ئی کمی نہیں کی۔اس سے علمی اور ادبی دنیا کو جو فائدہ ہواوہ تو اپنی جگہ مسلم ہے ۔اسی کے ساتھ اعظم گڑھ بھی علمی اور ادبی مرکزکی حیثیت اختیار کرتا گیا۔ اس پورے خطے میں مدارس و مکاتب اور تعلیمی اداروں کا قیام شبلی کا ہی فیضان کہا جائے گا ۔یہ کہنے میں کیا مضائقہ ہے کہ معارف نے جو علمی اور ادبی فضاقائم کی اس کے اثرات دور رس اور ہمہ گیر ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر بھی نمایاں ہوئے ۔یہ انھیں اثرات کی برکت ہے کہ ہر عہد میں یہاں علم و ادب کے خدمت گزار وں کی معقول تعداد رہی ہے اوران سے علم و ادب کی ایک بڑی دنیا سیراب ہوتی رہی ہے ۔ادبی دنیا میں اقبال سہیل، خلیل الرحمن اعظمی ،سید احتشام حسین اور شمس الرحمن فاروقی کا نام پوری ادبی دنیا کے لیے کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اسی طرح تفسیر ی خدمات کے حوالے سے مولانا حمید الدین فراہی،مولانا جلیل احسن ندوی،مولانا داؤد اکبر اصلاحی وغیرہ نیز علم حدیث میں مولانا حبیب الرحمن اعظمی، مولانا عبدالرحمن مبارک پوری ،مولانا عبیداللہ رحمانی،مولانا صفی الرحمن مبارک پوری اورڈاکٹرضیاء الرحمن اعظمی (مدینہ یونی ورسٹی )مولانا مصطفی اعظمی اورمولانا تقی الدین ندوی کے نام بہت نمایاں ہیں۔ملی رہنمائی میں مولانا ابو اللیث ندوی کا نام نامی سنہرے حروف میں لکھا جاتا ہے ۔علمی اور ادبی خدمات انجام دینے والوں کی تعداد شمار نہیں کی جاسکتی ۔یہاں کہنا یہی ہے کہ اس علمی اور ادبی فضا میں معارف کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔
ایک صدی بعد اکیڈمی کے ارباب مجاز نئے تناظر میں معارف کے لیے غور وفکر کررہے ہیں کہ اب اگلی صدی کا سفر کس طرح شروع کیا جائے، تاکہ اس کی افادیت برقرار رہے ۔اور یہ بہت آسان نہیں ہوگا ۔کیونکہ اب اس طرح علم و ادب کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرنے والے کم ہوتے جارہے ہیں ۔لیکن اگر یہ دیکھا جائے کہ معارف جہاں سے شائع ہوتا ہے وہاں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ علم وادب کے ظاہری شوق کا دیوانہ ہے او راس کے لیے کروڑوں روپے سالانہ خرچ کردیتاہے ۔اس میں عوامی جذب و شوق کے مظاہر میں نمایاں مظہر مشاعرہ ہے، اگر کچھ ایسی سبیل پیدا کی جائے کہ عوامی جذب و شوق کے ساتھ ساتھ اس تاریخ ساز علمی رسالے کو بھی کچھ غذا فراہم کردی جائے تو کیا غلط ہوگا ۔جن دنوں اعظم گڑھ کو بعض دوسرے ناموں سے یاد کیا جارہا تھا اس وقت اس کی اصل پہچان کی طرف آواز لگائی گئی تھی اور یہ کہا گیا تھا کہ یہاں کی پہچان علم ہے ،ادب ہے ،تہذیب اور ثقافت ہے اوران سب کو جمع کردینے سے جو شخصیت ظہور میں آتی ہے وہ علامہ شبلی نعمانی کی اور اس ادارے کی ہے جسے انھوں نے قائم کیا تھا اور اس وقت علم وادب کے مینار نور کے طور پر شبلی اکیڈمی کو جانا جاتا ہے ۔شبلی کی یہی مملکت ہماری شناخت ہے اور ہمیں اپنی شناخت کو باقی رکھنے کے لیے کچھ کرنا ہوگا ۔

تبصرے بند ہیں۔