اب کے بھی نہ محروم اجالوں سے ہوئے ہم

اے برق مرے حال پہ کھا کچھ تو ترس بھی
پھر مجھ کو نشیمن سا لگے کنجِ قفس بھی
کیا خوب ہے جلادوں کا مقتل میں وطیرہ
خنجر بھی چلاتے ہیں پہ کھاتے ہیں ترس بھی
کافی ہیں مجھے غم کے خزانے جو ملے ہیں
بیدادِ ستم اہلِ ستم اب تو ہو بس بھی
اے غم کی گھٹا خشک ہوئے آنکھوں کے دریا
پیاسی ہے زمیں دل کی ذرا کھل کے برس بھی
لاشہ مرے احساس کا صدیوں سے پڑا ہے
پھر بھیج خدا وند کوئی عیسٰی نفس بھی
موہوم نہ ہو جائے مری منزلِ مقصود
شامل جو تمنا میں ہوا رنگِ ہوس بھی
کس واسطے کہیے نہ انہیں زیست کا حاصل
مہکائے ترے ساتھ جو دو چار نفس بھی
اب کے بھی نہ محروم اجالوں سے ہوئے ہم
"جلتے رہے برسات میں گھر اب کے برس بھی”
عرفاؔں وہ مسافر کبھی منزل نہیں پاتے
بیدار جنہیں کر نہ سکے شورِ جرس بھی
۱۹۹۹

تبصرے بند ہیں۔