غزل – سمندر میں جزیرہ چاہتا ہے

عتیق انظر

سمندر میں جزیرہ چاہتا ہے
مسافر  اب ٹھکانا چاہتا ہے

گھنے پیڑوں کا سا یہ چاہتا ہے
گناہوں پر وہ پردہ چاہتا ہے

تعلق  پر بھروسہ  چاہتا ہے
بیاباں میں وہ سبزہ چاہتا ہے

لڑکپن   کا   زمانہ   چاہتا   ہے
ندی ساحل گھروندہ چاہتا ہے

دل شاعر ہے اک معصوم بچہ
یہ  بچہ  چاند  تارہ  چاہتا ہے

تری چارہ گری کی خیر لیکن
علاج غم کرشمہ  چاہتا ہے

بہت اونچی اڑانیں بھر رہا ہے
نہ  جانے کیا  پرندہ  چاہتا ہے

میں شہر آشوب لکھنا چاہتا ہوں
مگر  وہ   تو   قصیدہ   چاہتا  ہے

تبصرے بند ہیں۔