غزل – مرا سفینہ مرے ہمنوا کے ہاتھ میں ہے

عتیق انظر

مرا سفینہ مرے ہمنوا کے ہاتھ میں ہے
وہ کہ رہا تھا نہیں ناخدا کے ہاتھ میں ہے

بہت غرور ہے آندھی کو اپنی طاقت پر
شجر کی زندگی لیکن خدا کے ہاتھ میں ہے

میں جب بھی چاہوں گا چھو لوں گا عرش اعظم کو
یہ سر بلندی  تو  میری  دعا  کے  ہاتھ  میں  ہے

ہوا  کے  ہاتھ  سے   پاتی   ہے  زندگانی بھی
وہ شمع موت بھی جس کی ہوا کے ہاتھ میں ہے

اب اس کی جیت کا امکان بھی نہیں لیکن
شکستہ تیغ  ابھی تک  انا کے ہاتھ میں ہے

جو اپنی چال بھی خود سیدھی چل نہیں سکتا
تمھارا  ہاتھ اسی رہنما کے  ہاتھ  میں  ہے

ہمارے پھولوں کی پیڑوں کی خیر ہو مولا
ہمارا  باغ ابھی بے  وفا کے  ہاتھ میں ہے

تبصرے بند ہیں۔